اوکاڑہ تنازع :’پاپا کو گندم کی بوری کی طرح پھینکا‘

صدف جس مکان میں بیٹھی ہے اس کی کچی دیواریں صرف عورتوں اور بچوں کی سسکیوں سےگونج رہی ہیں، کیونکہ حکام نے رات کے اندھیرے میں بغیر وارنٹ یا وضاحت گھر کے سارے مردوں کو حراست میں لے لیا تھا۔
انھیں کہاں رکھا گیا ہے؟ صدف یا اس کے گھر والوں کو کچھ علم نہیں۔
دس سالہ صدف ملکیت اور حقوق کی اس دہائیوں پرانی تحریک کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ اسے صرف یہ معلوم ہے ان کے والد پرائمری سکول میں ٹیچر تھے۔
’وہ لوگ رات کو آئے تھے، انھوں نے میرے پاپا کو بہت مارا، میرے پاپا کو جیسے گندم کی بوری پھینکتے ہیں ویسے پھینکا، میں نے ان کو کہا پاپا کو مت مارو، انھوں نے مجھے بھی مارا۔ میرے پاپا اور چاچو کو کہاں لےگئے ہیں، ہمیں انصاف چاہیے۔‘
ہچکیوں اور سسکیوں کے بیچ صدف اتنا ہی بتا پائی۔
گھر کے تالے ٹوٹے پڑے ہیں اور صدف کی بوڑھی دادی کی ٹانگیں مسلسل کانپ رہی ہیں اور اُن پر گہرے نیل پڑے ہیں۔
’میرے بیٹوں کو میرے سامنے مارتے رہے، میں اپنے بیٹوں کو بچا رہی تھی، انھوں نے مجھے بوٹوں سے پیچھے دھکیلا، میرے بچے میرے سامنے زمین پر تڑپ رہے تھے اور میں بے بس تھی۔‘
صدف کے والد کا شاید یہ قصور تھا کہ وہ بھی پنجاب کے ضلع اوکاڑہ کے ان مزارعین میں سے ہیں جو تقریباً 16 سال سے زرعی اصلاحات اور زمین کی ملکیت کے حقوق کے لیے تحریک چلا رہے ہیں۔
حال ہی میں انجمن مزارعین کے احتجاج کو نیشنل ایکشن پلان کے تحت روکاگیا۔ پولیس نےدرجنوں مزارعین کو دہشت گردی کے الزامات میں گرفتار کیا اور صدف کے والد کی طرح کئی افراد کو گھروں سے اٹھایاگیا۔ 13 مزارعین لاپتہ ہیں جن میں سے چند کے خلاف اب دہشت گردی کے مقدمے درج کر دیےگئے ہیں۔ ان میں دو خواتین بھی شامل ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکرٹری فاروق طارق کا کہنا ہے: ’سالوں سے کاشتکاری کرتے کسان اچانک دہشت گرد کیسے ہوگئے؟ مجھے یقین ہے کہ نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں یہ مزارعوں کے خلاف انتقامی کارروائی ہے کیونکہ وہ اپنے حقوق کے لیے مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
اس حوالے سے ڈی پی او اوکاڑہ کا کہنا تھا کہ انتظامیہ جرائم پیشہ اور دہشت گردی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ ’اگر کوئی خود کو قانون سے بالاتر سمجھتا ہے تو اس کو قانون سکھانا ہمارا فرض ہے۔‘
جب ان سے الزامات کا ثبوت مانگاگیا تو انھوں نے کہا کہ ’وقت آنے ہر بتائیں گے۔‘
قیام پاکستان سے قبل سے جاری اس تنازعے کا حل اکثر طاقت کے ذریعے نکالنے کی کو شش کی گئی ہے اور اس بار بھی تاریخ کو دہرایا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے ریاست کی جانب سے مزارعوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی شدید مذمت کی ہے جس کے لیے اس بار انسداد دہشت گردی کے قوانین کو ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فوج انھیں زمینوں سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور انتظامیہ اس میں ان کا ساتھ دے رہی ہے۔
ایک دیہاتی اظہر اقبال نے کہا: ’ہمیں سمجھ نہیں آ رہی کہ ہمیں کیوں دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے؟ ہمارے گھروں میں تو کھانے تک کے لیے کچھ نہیں ہوتا، سارا دن کھیتی باڑی کرتے ہیں، ہمارے پاس اسلحہ نہیں ہے، ہم تو اپنے پیٹ کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
ماہرین کے مطابق اوکاڑہ، رینالا خورد اور اس کے گرد و نواح پر مشتمل یہ زرخیز زرعی زمین پنجاب حکومت کی ہے لیکن 17 ہزار ایکڑ سے زیادہ رقبے پر فوج کے زیر ملکیت فارم تعمیر ہیں۔
زمین کی قیمت اور اہمیت بڑھتی جا رہی ہے لیکن ایک سو سال سے اس زمین پر کاشت کاری کرنے والے مزارعوں کی زندگی میں کچھ نہیں بدلا۔
60 سالہ محمد الطاف تپتی دھوپ میں گندم کی فصل کاٹ رہے ہیں۔ نسل در نسل زمین کے اس ٹکڑے کو اپنی محنت سے سنوارنے والے اس مضارع کو ایک وعدہ پورا ہونے کا انتظار ہے۔ بنجر زمین کو سو سال سے آباد کرنے والے مزارعین کو کئی حکومتوں نے اس زمین کی ملکیت کے خواب دکھائے، لیکن کاشتکاروں کو سالانہ ٹھیکے پر منتقل کر کے اس زمین کی ملکیت سے مزید دور کر دیا گیا جس میں ان کے باپ دادا دفن ہیں۔
محمد الطاف کے لہجے میں تھکاوٹ ہے: ’میرا دادا بھی غلام تھا، پھر باپ غلام، یہ لوگ یہی چاہتے ہیں کہ ہم ساری عمر غلام رہیں، زمینیں ہم سے چھین لیں، خون پسینے سے مزدوری ہم کریں اور فصل اٹھا کر یہ لے جائیں۔‘
جاگیردار اور مزارعے کے درمیان جد و جہد کی کہانی بہت پرانی ہے ۔ لیکن جہاں جاگیردار خود ریاست ہو، تو پھر مزارع اپنے حق کے لیے کس کا در کھٹکھٹائے؟
بحوالہ بی بی سی اردو
 

یاز

محفلین
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/04/160417_okara_farmers_army_hk
بی بی سی سے ہی ایک اور کالم۔ یہ تنازع ہے کیا اسکے متعلق اگر مزید معلومات مل جائیں تو نوازش ہو گی۔

یہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانا تنازع ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہیں، جو شاید قانوناً درست بھی ہو۔ تاہم اس کے مزارعین یا آبادکار بھی اپنے حق یا حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ آواز ذرا بلند ہو کر اخبارات وغیرہ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
خیال ہے کہ اس سب کے پیچھے بھی سیاست یا جوابی سیاست ہوتی ہے۔
 
یہ دو دہائیوں سے زیادہ پرانا تنازع ہے۔ پاکستان کی مسلح افواج اس زمین کی ملکیت کا دعویٰ کرتی ہیں، جو شاید قانوناً درست بھی ہو۔ تاہم اس کے مزارعین یا آبادکار بھی اپنے حق یا حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھار یہ آواز ذرا بلند ہو کر اخبارات وغیرہ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
خیال ہے کہ اس سب کے پیچھے بھی سیاست یا جوابی سیاست ہوتی ہے۔
آرٹیکل کی رو سے یہ مسئلہ قیام پاکستان سے قبل سے جاری ہے۔
دو دہائیوں سے تو اسکی ملکیتی حقوق کی تحریک شروع ہوئی ہے۔
مسلح افواج ملکیتی دعویٰ کس حیثیت سے کرتے ہیں۔ذرا روشنی تو ڈالیں۔
 

یاز

محفلین
آرٹیکل کی رو سے یہ مسئلہ قیام پاکستان سے قبل سے جاری ہے۔
دو دہائیوں سے تو اسکی ملکیتی حقوق کی تحریک شروع ہوئی ہے۔
مسلح افواج ملکیتی دعویٰ کس حیثیت سے کرتے ہیں۔ذرا روشنی تو ڈالیں۔

اس بابت مجھے زیادہ معلومات نہیں ہیں۔ اس لئے میں روشنی ڈالنے سے تو قاصر ہوں۔
اتنا علم ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں مختلف وجوہات کی بنا پر زمینیں فوج کی ملکیت میں ہیں، اور ایسا کافی عرصے سے ہے یعنی گورے کے دور سے۔ گھوڑے پال مربعوں وغیرہ کا ذکر تو آپ نے بھی سنا ہو گا۔ اسی طرح ڈیری فارم یا جنگلات وغیرہ کے لئے بھی زمینیں فوج کی ملکیت ہیں۔ اور صرف فوج ہی نہیں، اسی طرح ریلوے یا واپڈا اور دیگر محکموں کے پاس بھی کافی زمینیں ہیں۔
برسبیلِ تذکرہ کراچی، لاہور، راولپنڈی جیسے بڑے شہروں کا بھی کثیر رقبہ کنٹونمنٹ کے نام پہ مسلح افواج کے کنٹرول میں ہے۔ ڈی ایچ ایز اس پہ مستزاد ہیں۔ سپریم کورٹ کے وہ ریمارکس تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے کہ ڈی ایچ اے سے جالندھر، امرتسر وغیرہ کو بھی خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ کہیں وہ بھی ڈی ایچ اے کی حدود میں نہ آ جائیں۔
خیر یہ تو تھا ایک پہلو۔
بی بی سی اردو کے اس مضمون میں اسی معاملے کا دوسرا پہلو (یعنی انسانی پہلو) سامنے لایا گیا ہے، یعنی مزارعین کےحقوق وغیرہ سے متعلق۔
 
Top