اونٹ کا گردہ!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شہلا اعجاز

گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ ہم جس طرح اخلاقی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں اسے محسوس کرکے جسم میں جھرجھری سی اٹھتی ہے، ہم کدھر جارہے ہیں،کیا یہ ہماری منزل ہے اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرکے جعلی پیروں فقیروں کے پاس اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے جوتے گھسا دیتے ہیں جیبیں خالی کرلیتے ہیں اور کبھی تو معصوم انسان عزتوں کے سودے بھی انجانے میں کرجاتے ہیں۔
یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم جن لوگوں کے پاس اپنے برے نصیبوں کو اچھے نصیبوں میں بدلنے جارہے ہیں وہ خود کتنے معتبر ہیں، بالکل اسی طرح ہم بغیر سوچے سمجھے انٹرنیٹ کی مخالف اصناف کے ذریعے ایسی باتیں بھی پوسٹ کردیتے ہیں یا کلک کردیتے ہیں جو یا تو صریحاً غلط ہوتی ہیں یا ادھوری ہوتی ہیں لیکن انھیں لائیک کرکے ہم ایک غلط بات کو آگے بڑھا دینے کے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں خصوصاً مذہبی معلومات شیئر کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال نہیں رہتا کہ ذرا نظر بھر کے دیکھ ہی لیں محض عربی میں لکھی آیات دیکھ کر کلک کردینا اپنا مذہبی فرض سمجھ لیتے ہیں کہ اس طرح ہم ڈھیروں ثواب تو بیٹھے بٹھائے حاصل کرلیں گے لیکن اسی طرح ہم بہت سی غلط اور ادھوری باتیں کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرکے اپنے آپ کو گناہ بے لذت میں مبتلا کرلیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک فنکار سے گفتگو ہوئی انھوں نے ٹی وی پر خاصے کامیاب شوز کیے تھے۔ فرمانے لگے میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ تعویذ گنڈوں اور جعلی عاملوں پیروں کے پاس زیادہ تر غریب لوگ جاتے ہیں اور وہی ایسے مسائل میں الجھ جاتے ہیں، شادی کے مسائل، کاروبار کا خراب ہونا، دوست رشتے داری وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے وہ مسائل ہوتے ہیں جنھیں لے کر وہ ان عاملوں پیروں کے پاس جاتے ہیں اور وہ حضرات پیسے بٹورنے کے لیے انھیں الٹا سیدھا گھڑ کر اپنے دام کھرے کرلیتے ہیں جن میں زیادہ تر تو جعلی ہوتے ہیں اور چند وہ جنھیں تھوڑا بہت کچھ آتا ہے وہ بھی ان کے رجحانات دیکھ کر انھیں اور واہموں میں مبتلا کردیتے ہیں اور اس طرح اپنے تجربے ان پر آزماتے ہیں۔
لیکن امیر حضرات ذرا سمجھدار اور ہوشیار ہوتے ہیں تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں لہٰذا اتنی آسانی سے ان عاملوں اور پیروں کے ہتھے نہیں چڑھتے، میرا اپنا ذاتی خیال تھا کہ ہمارا اپر اور مڈل کلاس طبقہ بھی اس سحر سے اتنا دور نہیں لیکن وہ اپنی بات پر مصر تھے، بہر حال ہماری گفتگو میں اس بات پر زور تھا کہ ہم اخلاقی طور پر زوال کی جانب رخ کر رہے ہیں اپنے رویے کا خیال نہیں کرتے اور دوسرے کے بدلے رویے کو جادو یا سحر کا نام دے کر عاملوں اور پیروں کی جانب رخ کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک جاننے والے صاحب نے ایک سچا اور دلچسپ قصہ سنایا تھا ایک جعلی پیر کے پاس ایک ڈاکٹر صاحب گئے، اچھے خاصے متمول سمجھدار اپنے کام میں ماہر تھے لیکن ان کے اردگرد کے ماحول نے انھیں وہم میں مبتلا کردیا، ساتھ میں ان کی وہمی بیگم صاحبہ نے بھی اس خیال کو پختہ کیا کہ ان پر کسی نے جادو ٹونہ کروایا ہے۔ جعلی پیر جس کے بڑے بڑے پوسٹرز بس اسٹاپوں پر لگے رہتے تھے اور بسوں، ویگنوں کی کھڑکیوں سے ان کے تعارفی کارڈز اندھا دھند ڈالے جاتے تھے ایک موٹی اسامی کو دیکھ کر پھول گئے، اپنی باتوں سے ڈاکٹر صاحب کو خوب متاثر کیا اور ایک موٹی رقم وصول کرلی لیکن ڈاکٹر صاحب کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
کسی جاننے والے نے ایک اور پیر صاحب کے آستانے کا پتہ دیا، وہ وہاں بھی پہنچ گئے، اتفاق سے وہ پیر صاحب پچھلے پیر کی طرح جعلی نہ تھے، ڈاکٹر صاحب کے پہلے ہی بیان پر پیر صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ان کا ایک گردہ فیل ہوچکا تھا، پیر صاحب نے اسے نکال کر اونٹ کا گردہ لگادیا تھا، پوچھا گیا کہ حضرت! آپ خود ڈاکٹر ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک انسان کے جسم میں کسی جانور اور وہ بھی اونٹ کا گردہ لگادیا جائے؟ کیا آپ کا ذہن اس بات کو قبول کرتا ہے؟ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب سوچ میں پڑ گئے اور ان کی عقل کے دروازے کھل گئے کہ خیر سے ان کے دونوں گردے محفوظ اور اپنی جگہ پر ہیں لیکن ان کی جیب سے ایک موٹی رقم گئی۔
ترقی کے اس دور میں بھی ہم اس قسم کے شعبدہ بازوں سے محفوظ نہیں ہیں جن کا مقصد لوگوں کو بیوقوف بناکر اپنی جیبیں گرم کرنا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں واضح طور پر بار بار فرمایا گیا ہے کہ ’’کن فیکون‘‘کے ہوجا تو وہ شے ہوجاتی ہے، لیکن وہ حضرات جن کے عقیدے کمزور ہوتے ہیں ان باتوں میں الجھ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اپنے پکے عزم اور عقیدے کو اگر کسی نے ختم کرلیا تو پھر کیا جادو اور کیا ٹونہ، کیونکہ پھر وہ انسان تو پہلے ہی وسوسوں میں گھر گیا اب اس کو کسی بھی سحر میں مبتلا کردینا مشکل کام نہیں، لیکن جن لوگوں کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے وہ کبھی ان وسوسوں میں نہیں الجھتے۔
ہاں حالات زندگی انھیں پریشان ضرور کرتے ہیں لیکن جو بات اوپر والے نے مقرر کردی وہ ہو کر رہتی ہے، بالکل ایسے جیسے اندھیری رات کے بعد صبح سحر کا نور پوری کائنات میں اپنے رنگ بھردیتا ہے، انسان کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے سینما اسکرین پر چلتی ہوئی فلم اور فلم کا اختتام سچ کی فتح پر ہوتا ہے کیونکہ چاہتے نہ چاہتے بھی انسان سچ کی اٹل حقیقت سے منکر نہیں ہوسکتا، لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو گڑھا ہم دوسروں کے لیے کھودتے ہیں اس کا شکار ہم خود بن جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہم نے اپنی ایک ہمسائی صاحبہ کو صبح سویرے اپنے ہی جیٹھ صاحب کی گاڑی کے پاس پانی ڈالتے کئی بار دیکھا، بچپن میں یہ بات عقل میں کچھ سمائی نہ تھی کہ یہ عمل وہ کیوں کرتی ہیں گھر میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا لیکن بچوں کی بات سمجھ کر ادھر ادھر کردی گئی، دراصل ان محترمہ کے شوہر صاحب کا کام کچھ خاص نہیں چل رہا تھا جب کہ جیٹھ صاحب کی سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ جاب بھی چل رہی تھی وہ خاصے خوشحال تھے اچھے پڑھے لکھے بھی تھے جب کہ ان کے بھائی کم تعلیم یافتہ تھے کچھ عرصہ بعد ہم لوگ وہاں سے شفٹ ہوگئے پھر سننے میں آیا وہ بیمار پڑ گئے اور انھیں کینسر جیسا مرض لاحق ہوگیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ان کا انتقال ہوگیا۔
اب گھر میں ہماری اسی بات کو یاد کیا گیا۔ خیر دو تین برسوں بعد ہی ان ہی صاحبہ کے شوہر بھی اسی موذی بیماری میں چل بسے، آخر وہ اپنے جیٹھ کے لیے کیسا عمل کرواتی تھیں۔ بہرحال ان کی زندگی کا اختتام ایک بری بیماری میں ہوا جب کہ ان کے بچے چھوٹے ہی تھے لیکن خود ان کے ساتھ کیا ہوا ان کے اپنے بچے بھی تو چھوٹے تھے کیا خدا نے انھیں بچالیا؟ پر انسانی عقل خدا کے اس نظام کو کیا جانے، حالانکہ ہم سب یہ سنتے آئے ہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے، لیکن جب ہماری اپنی باری آتی ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور دنیا میں اپنے آپ کو عقل کا بادشاہ سمجھ کر دوسروں کے لیے سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
گزرتے زمانے کے ساتھ ساتھ ہم جس طرح اخلاقی انحطاط کا شکار ہورہے ہیں اسے محسوس کرکے جسم میں جھرجھری سی اٹھتی ہے، ہم کدھر جارہے ہیں،کیا یہ ہماری منزل ہے اسلامی تعلیمات کو نظرانداز کرکے جعلی پیروں فقیروں کے پاس اپنی مرادیں پوری کرنے کے لیے جوتے گھسا دیتے ہیں جیبیں خالی کرلیتے ہیں اور کبھی تو معصوم انسان عزتوں کے سودے بھی انجانے میں کرجاتے ہیں۔
یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ہم جن لوگوں کے پاس اپنے برے نصیبوں کو اچھے نصیبوں میں بدلنے جارہے ہیں وہ خود کتنے معتبر ہیں، بالکل اسی طرح ہم بغیر سوچے سمجھے انٹرنیٹ کی مخالف اصناف کے ذریعے ایسی باتیں بھی پوسٹ کردیتے ہیں یا کلک کردیتے ہیں جو یا تو صریحاً غلط ہوتی ہیں یا ادھوری ہوتی ہیں لیکن انھیں لائیک کرکے ہم ایک غلط بات کو آگے بڑھا دینے کے گناہ میں مبتلا ہوجاتے ہیں خصوصاً مذہبی معلومات شیئر کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا خیال نہیں رہتا کہ ذرا نظر بھر کے دیکھ ہی لیں محض عربی میں لکھی آیات دیکھ کر کلک کردینا اپنا مذہبی فرض سمجھ لیتے ہیں کہ اس طرح ہم ڈھیروں ثواب تو بیٹھے بٹھائے حاصل کرلیں گے لیکن اسی طرح ہم بہت سی غلط اور ادھوری باتیں کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرکے اپنے آپ کو گناہ بے لذت میں مبتلا کرلیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہماری ایک فنکار سے گفتگو ہوئی انھوں نے ٹی وی پر خاصے کامیاب شوز کیے تھے۔ فرمانے لگے میرا اپنا تجربہ یہ ہے کہ تعویذ گنڈوں اور جعلی عاملوں پیروں کے پاس زیادہ تر غریب لوگ جاتے ہیں اور وہی ایسے مسائل میں الجھ جاتے ہیں، شادی کے مسائل، کاروبار کا خراب ہونا، دوست رشتے داری وغیرہ وغیرہ۔ یہ ان کے وہ مسائل ہوتے ہیں جنھیں لے کر وہ ان عاملوں پیروں کے پاس جاتے ہیں اور وہ حضرات پیسے بٹورنے کے لیے انھیں الٹا سیدھا گھڑ کر اپنے دام کھرے کرلیتے ہیں جن میں زیادہ تر تو جعلی ہوتے ہیں اور چند وہ جنھیں تھوڑا بہت کچھ آتا ہے وہ بھی ان کے رجحانات دیکھ کر انھیں اور واہموں میں مبتلا کردیتے ہیں اور اس طرح اپنے تجربے ان پر آزماتے ہیں۔
لیکن امیر حضرات ذرا سمجھدار اور ہوشیار ہوتے ہیں تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں لہٰذا اتنی آسانی سے ان عاملوں اور پیروں کے ہتھے نہیں چڑھتے، میرا اپنا ذاتی خیال تھا کہ ہمارا اپر اور مڈل کلاس طبقہ بھی اس سحر سے اتنا دور نہیں لیکن وہ اپنی بات پر مصر تھے، بہر حال ہماری گفتگو میں اس بات پر زور تھا کہ ہم اخلاقی طور پر زوال کی جانب رخ کر رہے ہیں اپنے رویے کا خیال نہیں کرتے اور دوسرے کے بدلے رویے کو جادو یا سحر کا نام دے کر عاملوں اور پیروں کی جانب رخ کرتے ہیں۔
اس سلسلے میں ایک جاننے والے صاحب نے ایک سچا اور دلچسپ قصہ سنایا تھا ایک جعلی پیر کے پاس ایک ڈاکٹر صاحب گئے، اچھے خاصے متمول سمجھدار اپنے کام میں ماہر تھے لیکن ان کے اردگرد کے ماحول نے انھیں وہم میں مبتلا کردیا، ساتھ میں ان کی وہمی بیگم صاحبہ نے بھی اس خیال کو پختہ کیا کہ ان پر کسی نے جادو ٹونہ کروایا ہے۔ جعلی پیر جس کے بڑے بڑے پوسٹرز بس اسٹاپوں پر لگے رہتے تھے اور بسوں، ویگنوں کی کھڑکیوں سے ان کے تعارفی کارڈز اندھا دھند ڈالے جاتے تھے ایک موٹی اسامی کو دیکھ کر پھول گئے، اپنی باتوں سے ڈاکٹر صاحب کو خوب متاثر کیا اور ایک موٹی رقم وصول کرلی لیکن ڈاکٹر صاحب کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
کسی جاننے والے نے ایک اور پیر صاحب کے آستانے کا پتہ دیا، وہ وہاں بھی پہنچ گئے، اتفاق سے وہ پیر صاحب پچھلے پیر کی طرح جعلی نہ تھے، ڈاکٹر صاحب کے پہلے ہی بیان پر پیر صاحب نے اپنا سر پکڑ لیا۔ موصوف کا کہنا تھا کہ ان کا ایک گردہ فیل ہوچکا تھا، پیر صاحب نے اسے نکال کر اونٹ کا گردہ لگادیا تھا، پوچھا گیا کہ حضرت! آپ خود ڈاکٹر ہیں، کیا ایسا ممکن ہے کہ ایک انسان کے جسم میں کسی جانور اور وہ بھی اونٹ کا گردہ لگادیا جائے؟ کیا آپ کا ذہن اس بات کو قبول کرتا ہے؟ یہ سن کر ڈاکٹر صاحب سوچ میں پڑ گئے اور ان کی عقل کے دروازے کھل گئے کہ خیر سے ان کے دونوں گردے محفوظ اور اپنی جگہ پر ہیں لیکن ان کی جیب سے ایک موٹی رقم گئی۔
ترقی کے اس دور میں بھی ہم اس قسم کے شعبدہ بازوں سے محفوظ نہیں ہیں جن کا مقصد لوگوں کو بیوقوف بناکر اپنی جیبیں گرم کرنا ہوتا ہے حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن مجید میں واضح طور پر بار بار فرمایا گیا ہے کہ ’’کن فیکون‘‘کے ہوجا تو وہ شے ہوجاتی ہے، لیکن وہ حضرات جن کے عقیدے کمزور ہوتے ہیں ان باتوں میں الجھ جاتے ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ انسان کے اپنے پکے عزم اور عقیدے کو اگر کسی نے ختم کرلیا تو پھر کیا جادو اور کیا ٹونہ، کیونکہ پھر وہ انسان تو پہلے ہی وسوسوں میں گھر گیا اب اس کو کسی بھی سحر میں مبتلا کردینا مشکل کام نہیں، لیکن جن لوگوں کا عقیدہ مضبوط ہوتا ہے وہ کبھی ان وسوسوں میں نہیں الجھتے۔
ہاں حالات زندگی انھیں پریشان ضرور کرتے ہیں لیکن جو بات اوپر والے نے مقرر کردی وہ ہو کر رہتی ہے، بالکل ایسے جیسے اندھیری رات کے بعد صبح سحر کا نور پوری کائنات میں اپنے رنگ بھردیتا ہے، انسان کی زندگی ایسی ہی ہوتی ہے جیسے سینما اسکرین پر چلتی ہوئی فلم اور فلم کا اختتام سچ کی فتح پر ہوتا ہے کیونکہ چاہتے نہ چاہتے بھی انسان سچ کی اٹل حقیقت سے منکر نہیں ہوسکتا، لیکن یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ جو گڑھا ہم دوسروں کے لیے کھودتے ہیں اس کا شکار ہم خود بن جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے بچپن میں ہم نے اپنی ایک ہمسائی صاحبہ کو صبح سویرے اپنے ہی جیٹھ صاحب کی گاڑی کے پاس پانی ڈالتے کئی بار دیکھا، بچپن میں یہ بات عقل میں کچھ سمائی نہ تھی کہ یہ عمل وہ کیوں کرتی ہیں گھر میں بھی اس بات کا تذکرہ کیا لیکن بچوں کی بات سمجھ کر ادھر ادھر کردی گئی، دراصل ان محترمہ کے شوہر صاحب کا کام کچھ خاص نہیں چل رہا تھا جب کہ جیٹھ صاحب کی سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ پرائیویٹ جاب بھی چل رہی تھی وہ خاصے خوشحال تھے اچھے پڑھے لکھے بھی تھے جب کہ ان کے بھائی کم تعلیم یافتہ تھے کچھ عرصہ بعد ہم لوگ وہاں سے شفٹ ہوگئے پھر سننے میں آیا وہ بیمار پڑ گئے اور انھیں کینسر جیسا مرض لاحق ہوگیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ان کا انتقال ہوگیا۔
اب گھر میں ہماری اسی بات کو یاد کیا گیا۔ خیر دو تین برسوں بعد ہی ان ہی صاحبہ کے شوہر بھی اسی موذی بیماری میں چل بسے، آخر وہ اپنے جیٹھ کے لیے کیسا عمل کرواتی تھیں۔ بہرحال ان کی زندگی کا اختتام ایک بری بیماری میں ہوا جب کہ ان کے بچے چھوٹے ہی تھے لیکن خود ان کے ساتھ کیا ہوا ان کے اپنے بچے بھی تو چھوٹے تھے کیا خدا نے انھیں بچالیا؟ پر انسانی عقل خدا کے اس نظام کو کیا جانے، حالانکہ ہم سب یہ سنتے آئے ہیں کہ جیسا کروگے ویسا بھروگے، لیکن جب ہماری اپنی باری آتی ہے تو سب بھول جاتے ہیں اور دنیا میں اپنے آپ کو عقل کا بادشاہ سمجھ کر دوسروں کے لیے سازشوں کے جال بنتے رہتے ہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
اچھی شراکت ہے کاکا :)
 
Top