اوروں کے کام آنا

اجمل خان

محفلین
اوروں کے کام آنا

اسلام میں عبادت کا مفہوم کافی وسیع ہے ۔ صرفنماز‘ روزہ ‘ حج و زکاۃ یا چند رسمی امور کی ادا ئیگی یا شکل و صورت کی درستگی ہی عبادت نہیں بلکہ اسلام میں ہرنیکیاورہرخیرکاکام ‘ جواللہتعالیٰکوراضیکرنے اور اللہ تعالیٰکیخوشنودی حاصل کرنے کی نیت سےکی جائے عبادت ہے۔خلوصِنیتسےاللہکیرضاکیلئےدوسروں کے کامآنایعنی اللہتعالیٰ کیہرمخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرنا بڑی نیکی ہے۔

رسول کریم ﷺ نے اپنی وتر کی دعاوٴں میں اس جملے کو ادا فرمایا :

...أَنَا شَهِيدٌ أَنَّ الْعِبَادَ كُلَّهُمْ إِخْوَةٌ... (ابوداود حدیث نمبر ۱۵۰۸)

’’ میں اِس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تمام انسان ایک دوسرے کے بھایٴ ہیں۔‎ ‘‘

یہ اسلام ہی ہے جس میں اتنی وسعتِ قلبی اور فراخ دلی ہے کہ تمام انسانوں کو انسانی اخوت کے رشتے میں ایک دوسرے کے ساتھ باندھ رہا ہے۔ یہ اخوتِ انسانی عام اخوت ہے لیکن یہی اخوت دینی رشتے کے بعد ایک خاص اخوت میں بدل جاتی ہے اور وہ اخوتِ ایمانی ہے۔ اسی لئے اور آپ ﷺ نے فرمایا:

... الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ ... ’’ مسلمان ‘ مسلمان کا بھایٴ ہے۔ ‘‘ ( صحیح بخاری و مسلم )

اور اللہ تبارک و تعالیٰ کا فرمان ہے :

... إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ ...’’ مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ‘‘ ( سورة الحجرات آیت ۱۰ )

یہی انسانی و ایمانی اخوت ہر مسلمان کو پابند کرتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی کو دوسرے انسانوں کیلئے وقف کر دے اور ہر مخلوق کی مدد و خدمت کرے۔ رسول اللہ ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ ﷺ نے اپنی کیفیت کو اپنی اہلیہ محترمہ ام الموٴ منین سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا تو انہوں نے اپنے شوہر کی پوری زندگی چھہ جملوں میں بیان کر دی۔ یہ چھہ جملے تمام حقوق العباد سے متعلق تھے اور دوسرے کے کام آنے اور دوسروں کے خدمت و مدد سے مربوط تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آپ ﷺ کی کسی ایسی عبادت کا ذکر نہیں فرمایا جو سجدہ و رکوع کی کثرت یا ذکر و عبادت سے متعلق تھی بلکہ دوسرے انسانوں کی خدمت والی عبادت کا ذکر کیا کہ

(1) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور
(2) ہر سچی بات کی تصدیق کرتے ہیں اور
(3) دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں اور
(4) دوسروں کو کما کر دیتے ہیں ( بے سہارا کا سہارا بنتے ہیں) اور
(5) مہمان نوازی کرتے ہیں اور
(6) ہر حق والے کا ساتھ دیتے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔ ( صحیح بخاری و مسلم ).


یہ چھہ (6) صفات ہیں جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ یہی رسول اللہ ﷺ کی وہ اسوہ ہے جسے اپنا نے کا حکم ہر مسلمان کو دیا گیا ہے جیسا کہ سورہ الاحزاب کی آیت نمبر 21میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّ۔هِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّ۔هَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّ۔هَ كَثِيرًا ﴿٢١
’’ یقیناً تمہارے لئے رسول اللہ میں عمده نمونہ (موجود) ہے، ہر اس شخص کیلئے جو اللہ تعالیٰ کی اور قیامت کے دن کی توقع رکھتا ہے اور بکثرت اللہ تعالیٰ کی یاد کرتا ہے۔‘‘

دوسروں کے کام آنا ‘ دوسروں کا بوجھ اٹھانا ‘ بے سہارا کا سہارا بننا وغیرہ اہم ترین نیکیاں ہیں ۔ ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ اِن نیکیوں کو اپنی اپنی زندگی کا مقصد بنالیں کیونکہ وہ مسلمان عظیم ہے جس کی زبان‘ ہاتھ پیر اور دوسری توانائی و صلاحیت دوسرے مسلمان کے کام آئے۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

تمام لوگوں میں وہ شخص اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ محبوب ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہچانے والا ہو‘ اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ نیکی یہ ہے کہ
تم کسی مسلمان کی زندگی میں خوشی کا داخل کرو‘
یا اسکی تکلیف و پریشانی کو دور کرو ‘
یا اس کے قرض کی ادئیگی کا انتظام کرو ‘
یا اس کی بھوک کو ختم کرو ‘
اور میں اپنے کسی مسلمان بھایٴ کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ( چند قدم ) اس کے ساتھ چلنے کو مسجد کے دو مہینے کے اعتکاف سے بہتر سمجھتا ہوں ‘
º اور جس کسی نے اپنا غضب روک لیا تو اللہ تعالیٰ اس کی ستر پوشی فرمائے گا
º اور جس کسی نے انتقام و بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی معاف کر دیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے دل کو غنا سے بھر دے گا
º جو کویٴ اپنے مسلمان بھایٴ کی کویٴ ضرورت پوری کرنے کیلئے اس کے ساتھ چلا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسکے قدموں کو پھسلنے ( اور پھسل کر جہنم میں گرنے ) سے بچائے گا اور ثابت قدم رکھے گا ‘
اور برا اخلاق ساری نیکیوں کو ایسے خراب کر دیتا ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ ( صحیح الجامع الصغیر للالبانی حدیث نمبر ۱۷۶)

ضروری نہیں کہ صرف بے سہارا ‘بے کس ‘ یتیم یا بیوا ہی کی خدمت کی جائے بلکہ کسی کی بھی کام آنا بڑی عبادت ہے اور جو شخص کسی مسلمان کے کام کرتا ہے اور اسکی خدمت میں لگا رہتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسکے بدلے اس کا کام کر دیتا ہے‘ بھلا اس سے بڑی خوش نصیبی اور بلند بالا مقام کون حاصل کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کے کام کرے۔۔ واقعی ایسا ہو سکتا ہے بشرطیکہ بندہ دوسرے کسی بندے کے کام آئے۔

مسلمان بھائی کی معاونت پر اجروثواب کا ذکر کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا :

1) جو شخص کسی مسلمان سے مصیبت دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کو قیامت کی مصیبتوں سے بچائیں گے، اور
2) جو کسی مسلمان محتاج پر (معاملہ میں ) آسانی کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر دنیا و آخر ت میں آسانی کریں گے ، اور
3) جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کریں گے، اور
4) جب تک بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے گا اللہ تعالیٰ اس کی مدد فرماتے رہیں گے ۔ ‘‘
{رواہ مسلم۲/۳۴۵والبخاری۱/۳۳۰}


ایک دوسری حدیث میں آتا ہے :

’’ اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کے کام کرتا رہتا ہے جب تک بندہ کسی مسلمان بھائی کا کام کرتا ہے۔‘‘ (مجمع الزوائد)

دوسروں کے کام آنا نہ صرف عبادت ہے بلکہ افضل ترین عبادت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو نیکیوں میں ایسی نیکی زیادہ پسند ہے جو اس کے بندوں کے ساتھ برتی جائے اور یہی اہم حقیقت ہمیں اس حدیث مبارک میں نظر آ رہی ہے :

صحابہٴ کرام رضی اللہ عنہم ایک سفر سے واپسی پر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے ایک ساتھی کا ذکر کیا اور اس کی بہت تعریف بیان کی کہ پورے سفر میں ہم نے دیکھا اور جہاں بھی ہم نے قیام کیا ‘ یہی دیکھا کہ وہ یا تو قرآن پاک کی تلاوت میں لگے رہتے تھے اور یا پھر نماز میں مشغول رہتے تھے۔
رسول کریم ﷺ نے دریافت کیا کہ کون اس کی ضروریات پوری کرتا تھا اور کون اس کے لئے اس کی سواری تیار کرتا تھا؟
صحابہ نے عرض کیا کہ ہم لوگ اُن کی خدمت کرتے تھے۔
تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ’’ تم سب اُس شخص سے بہتر ہو ۔ ( مراسیلابی داود بحوالہ الترغیب حدیث ۳۸۷۴)


خوش نصیب ہیں وہ مسلمان
· جو دوسرے مسلمانوں اور انسانوں کے کام آتے ہیں۔
· ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· بے سہارا لوگوں کا سہارا بنتے ہیں۔
· محتاج و نادار کی خدمت کرتے ہیں۔
· جو بے آسرا اور تنہا ہیں ‘ اُن کا ساتھی بن کر اُن کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔
· یتیموں اور بیواوٴں کا خیال کرکے اپنے لئے دنیا میں جنت کی ضمانت حاصل کر لیتے ہیں۔
· معذور اور بوڑھے افراد کا سہارا بنتے ہیں۔​
اور
· اس طرح اللہ کی مخلوق کے ساتھ حسِ سلوک کرکے اللہ کا قرب حاصل کر لیتے ہیں۔​

رسول کریم ﷺ نے فرمایا :

’’ لوگوں میں کچھ لوگ وہ ہیں جو خیر کی چابیاں ہیں اور شر کو بند کرنے والے ہیں اور لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو شر کی چابیاں ہیں اور خیر کو بند کرنے والے ( اور خیر کو روکنے والے ) ہیں۔ اُس کے لئے بشارت و سعادت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے خیر کی چابی بنایا ہو اور تباہی و بربادی ہے اُس شخص کے لئے جسے ( اس کی بد اعمالی کی وجہ سے ) اللہ تعالیٰ شر کی چابی بنایا ہو۔‘‘ ( ابن ماجہ حدیث نمبر 237 )

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو ہر انسان اور خاص کر ہر مسلمان کی مدد اور خدمت کرنے کی توفیق دے اور ہمیں خیر کی چابیاں بنا ئے۔ آمین
 
Top