امجد اسلام امجد اوجھل سہی نگاہ سے، ڈوبا نہیں ہوں میں

عندلیب

محفلین
اوجھل سہی نگاہ سے، ڈوبا نہیں ہوں میں
اے رات ہوشیار، کہ تارا نہیں ہوں میں

گرمی مرے شعور کی دیتی ہے مجھ کو شکل
قسمت کے سرد آنکھ کا لکھا نہیں ہوں میں

خوابوں کی سبز دھند سی اب بھی ہے ہر طرف
لگتا ہے یوں کہ نیند سے جاگا نہیں ہوں میں

اس طرح پھیر پھیر کے باتیں نہ کیجیے
لہجے کا رخ سمجھتا ہوں، بچہ نہیں ہوں میں

میری تو بات بات کی شاہد ہے کائنات
دل سے گھڑا ہوا کوئی قصہ نہیں ہوں میں

درپیش صبح وشام ہے اب یہ ہی کشمکش
کیسے بنوں میں اس کا کہ اپنا نہیں ہوں میں

ممکن نہیں ہے مجھ سے یہ طرز منافقت
دنیا! ترے مزاج کا بندہ نہیں ہوں میں

دل کو گواہ کرکے لکھا جو بھی کچھ لکھا
کاغذ کا پیٹ بھرنے کو لکھتا نہیں ہوں میں
 
Top