اوباما بش کے نقش قدم پر۔۔۔۔۔!

حسینی

محفلین
ظہیر اختر بیدری جمعرات 29 اگست 2013
امریکا میں جب بش کی جگہ بارک اوباما نے لی تو دنیا میں یہ تاثر عام ہوا کہ اوباما حکومت بش کی پالیسیوں کا ازالہ کرے گی۔ یہ تاثر اس لیے بھی مضبوط ہوا کہ اوباما نے بار بار بالواسطہ طور پر بش حکومت کی پالیسیوں کو امریکی مفادات کے خلاف تسلیم کیا اور اس کے ازالے کے لیے عراق سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا۔ دنیا نے اوباما کے اس فیصلے کو مثبت قرار دیا اور جب امریکی فوجیں عراق سے واپس ہوئیں تو دنیا نے اوباما کی نیک نیتی پر بھی یقین کیا۔ اس کے بعد جب اوباما نے افغانستان سے اپنی فوجیں 2014 تک واپس بلانے کا اعلان کیا تو دنیا نے سکھ کا سانس لیا ۔ اوباما کی ان پالیسیوں کے پیچھے دو فیکٹر اور تھے ایک یہ کہ عراق اور افغانستان بے مقصد جنگ پر کھربوں ڈالر خرچ ہوچکے تھے جس کی وجہ سے امریکی معیشت دیوالیہ ہونے جارہی تھی، دوسرا فیکٹر یہ تھا کہ امریکی جنرل عراق اور افغانستان کی جنگ کو حماقت کہہ رہے تھے۔

اس پس منظر میں جب دنیا نے امریکی وزیر دفاع چک ہیگل کا یہ بیان پڑھا کہ امریکی محکمہ دفاع نے شام پر حملے کی کئی آپشن سمیت مکمل تیاری کرلی ہے اور حملے کے لیے اب صرف اوباما کے حکم کا انتظار ہے تو دنیا ہکا بکا رہ گئی۔ شام کے صدر بشارالاسد اور ایران کی طرف سے امریکا کو وارننگ دی گئی ہے کہ اگر امریکا نے شام پر حملہ کیا تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔ روس کی طرف سے بھی امریکا کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ شام پر حملے سے باز رہے۔ خود امریکا میں اوباما کے اس ایڈونچر کے حوالے سے جو سروے کیا گیا ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ 80 فیصد سے زیادہ امریکی اس حملے کے خلاف ہیں۔ امریکا دنیا میں جمہوریت کا سب سے بڑا چیمپئن ہے اور مشرق وسطیٰ میں وہ ’’جمہوریت کے فروغ‘‘ کے لیے ہی مداخلت کر رہا ہے۔ جمہوریت کی سب سے بڑی اساس اکثریتی رائے عامہ کا احترام ہے۔ بش حکومت جب عراق پر حملے کی تیاری کر رہی تھی تو امریکا سمیت ساری دنیا میں کروڑوں عوام نے سڑکوں پر آکر مظاہرے کیے ۔ اگر بش میں جمہوریت کا ذرا بھی پاس ہوتا تو وہ دنیا بھر کے عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے عراق پر حملے سے باز آجاتا لیکن بش وہ غلطی کر بیٹھا جس کی سزا امریکا اور دنیا کے عوام آج دہشت گردی کی شکل میں بھگت رہے ہیں۔ ان بھیانک تجربات کے باوجود اوباما شام پر حملہ کرنے پر کیوں تلا ہوا ہے؟

اس حوالے سے ہم سب سے پہلے شام میں ہونے والی انارکی پر نظر ڈالتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ملکوں کی طرح شام میں بھی خاندانی حکمرانی کا رواج ہے۔ بشارالاسد سابق شامی صدر کے فرزند ارجمند ہیں۔ شام میں جو بغاوت جاری ہے وہ آمریت کے خلاف عوام کی جمہوریت کے لیے جنگ ہوتی تو دنیا کا کوئی بھی جمہوریت پسند اس کی مخالفت نہیں کرتا۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ شام میں آمریت کے خلاف جو جنگ لڑی جارہی ہے وہ ہرگز ہرگز جمہوریت کی جنگ نہیں بلکہ اس مفاد پرست ٹولے کی ہے جو مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کا راستہ روک کر صرف اپنی پسند کے ایسے حکمران لانا چاہتا ہے جو اس کے اور اس کے آقاؤں کے مفادات کا تحفظ کرسکیں۔ اس سازش کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ شام کی ’’جمہوری جنگ‘‘ کی سرپرستی ریال، درہم و دینار سے وہ حکمران کر رہے ہیں جن کے ملکوں میں جمہوریت کا نام لینا ایسا سنگین جرم ہے جس کی سزا موت ہے اور ایسے ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کے حلیف امریکا اور اس کے ساتھی ہیں۔ پچھلے دنوں قطر میں جمہوریت پرستوں کی بیٹھک ہوئی تھی، اس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ شام میں باغیوں کی بھرپور مالی اور جنگی مدد کی جائے۔ امریکا کھلے عام شام کے ’’جمہوریت پسندوں‘‘ کی ڈالروں سمیت ہر طرح مدد کر رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ شام کی جمہوری مفادات اتنی ساری بھرپور امداد کے باوجود کامیاب نہیں ہورہی ہے۔ کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ شام کے عوام اس جنگ سے الگ ہیں؟

شام میں بلاشبہ عام شہریوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے اور شام کے بے گناہ عوام بھی بڑی تعداد میں اس ’’جمہوری جنگ‘‘ کا ایندھن بن رہے ہیں، لاکھوں شامی پناہ گزین جن میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں پڑوسی ملکوں میں پناہ لے رہے ہیں اور مغربی میڈیا ان کی حالت زار دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے لیکن مغرب کا متعصب اور پرو حکومت میڈیا یہ نہیں بتا رہا ہے کہ شام میں جمہوری لڑائی لڑنے والوں میں کتنی دہشت گرد تنظیموں کے جہادی شامل ہیں اور وہ کن کن مسلم ملکوں سے لائے جارہے ہیں؟

مسلم ملک بدقسمتی سے جن فقہی جنگوں میں ملوث ہوگئے ہیں یہ کوئی اتفاقی بات نہیں بلکہ اس کا ایک شرمناک پس منظر ہے۔ مشرق وسطیٰ کے خاندانی حکمران ایران اور اس کے حامی ملکوں کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں اور ’’حسن اتفاق‘‘ یہ ہے کہ امریکا بھی ایران کو اپنا اس خطے میں سب سے بڑا دشمن سمجھتا ہے۔ ذرا اس دلچسپ بات پر نظر ڈالیے کہ اسرائیل کو عرب ہی نہیں بلکہ ساری مسلم دنیا اپنا دشمن سمجھتی ہے۔ اس مشترکہ دشمن کے خلاف عرب حکمران خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں اور ایران کھلے عام کہہ رہا ہے کہ وہ اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتا اور اسے تباہ کرنا اس کا اولین مقصد ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسرائیل کے اس سب سے بڑے دشمن سے عرب خاندانی حکمرانوں کی دشمنی کی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ اگر عرب ملکوں میں جمہوری حکومتیں قائم ہوگئیں تو ان حکمرانوں اور ان کے سرپرست اعلیٰ امریکا کو تیل کی دولت سے ہاتھ دھونا پڑے گا اگر ایسا ہوا تو مشرق وسطیٰ کی بادشاہتیں اور شیوخ کی حکمرانیوں کے ساتھ ساتھ مشرق وسطیٰ پر امریکا کی بادشاہی بھی خطرے میں پڑ جائے گی اور تیل کی دولت کی حفاظت کرنے والا ان کا ایجنٹ اسرائیل بھی ختم ہوجائے گا۔ یہی وہ راز ہے جس نے بادشاہوں اور بادشاہوں کے بادشاہ کو ایران کا دشمن بنادیا ہے۔ چونکہ شام کا صدر بشارالاسد ایران کا سب سے بڑا دوست ہے اور اس کی طرح اینٹی امریکا اور اینٹی اسرائیل بھی ہے لہٰذا اس کے وجود کو ختم کرنا ضروری ہے۔ یہی اصل مسئلہ ہے جسے جمہوریت کی جنگ کا نقاب پہناکر دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور سیاسی موقع پرستی اور سیاسی مفادات کا اندازہ لگائیں کہ شام کی جمہوری جنگ میں ان دہشت گردوں کو استعمال کیا جارہا ہے جن کے خلاف سارا مغرب ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ لڑ رہا ہے۔

مشرق وسطیٰ میں امریکا جمہوریت کی جو جنگ لڑ رہا ہے کیا اس جنگ میں وہ حکمران اس کے اتحادی نہیں جن کے ملکوں میں جمہوریت کا نام لینے والوں کی لاشیں صحراؤں میں ملتی ہیں؟ جن زہریلی گیسوں کے استعمال کے بہانے شام پر حملے کا جواز پیدا کیا جارہا ہے، وہ بھی عراق پر لگائے جانے والے الزام سے مختلف ثابت نہیں ہوگا۔
http://www.express.pk/story/168681/
 

حاتم راجپوت

لائبریرین
بالکل سچ ہے حسینی بھائی اور یہ ہمارے مسلمان حکمرانوں کی بد بختی ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دیئے بیٹھے ہیں ۔۔۔
لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اب امن کے لئے کی گئی انسانی کوششیں کامیاب ہو سکیں ۔۔۔ حالات وقتِ آخر بہت قریب ہونے کی گواہی دے رہے ہیں۔۔
 
Top