ان کا یہ رقص اب برہمن ہوگیا!

فاخر

محفلین
ان کا یہ رقص اب برہمن ہوگیا!
افتخاررحمانی ؔ
ملک میں ایک بار زعفرانی پر چم بڑی ہی آب و تاب کے ساتھ لہرادیا گیا۔ ایگژ ٹ پول کے نتائج بھی یہی کہہ رہے تھے اور بی جے پی کے لیڈران اسی کا دعویٰ بھی کرر ہے تھے،بی جے پی کو اس جیت کا جشن مبارک ۔وہ اس مبارک باد کے مستحق بھی ہیں کہ :’ عوام کی نبض اور شہہ رگ کو انہوں نے اپنی مٹھی میں کرلیا ہے‘۔مجھے کبھی کبھار اس پر حیرت ہوتی ہے کہ :’ہم بی جے پی کے مخالف کیوں ہیں‘؟کیوں نہ ہم بھی سواد اعظم کے ساتھ ہم اپنی پینگیں بڑھائیں،ویسے بھی کچھ لوگ ایسے ہیں ، جو مسلمانوں کی نسل برباد کرنے کے اعلان کے بعد بھی بھگوا پارٹی کے دامن سے چمٹے ہوئے تھے ۔ اور اب بھی چمٹے ہوئے ہیں اور شاید ان کے اس چمٹے رہنے میں ہی ان کی عافیت ہے ۔ یہ بھی شنید ہے کہ :’کئی بھاجپائی لیڈر ان کے گھر کی لڑکیا ں مسلمانوں کے حرم میں بھی ہیں‘۔خیر ! یہ بھی سنا ہے کہ :’جن کے آباو اجداد نے بڑے ہی طمطراق اور محبت کے ساتھ اس ملک میں رہنے کو ترجیح دی تھی ، ان کے اخلاف و اولاد اب اس ہندوستان میں رہتے ہوئے مبینہ طور پر گھبرا رہے ہیں ‘۔ یہ گھبراہٹ تو ان کو ہونی چاہیے جن کی زندگی کا ماحصل یہی ہے ، جیسا کہ قرآن میں ان کی بابت کہا گیا ہے :’ذرھم یأکلو و یتمتعوا و یلہھم الامل فسوف یعلمون‘ ۔ لیکن یہاں عکس کلی ہے۔جن کو گھبرانے کی ضرورت تھی وہ ’’فی طغیانہم یعمہون‘‘ میں اندھے ہیں اور جن کو خدا نے اپنی خلافت و نیابت کے لیے منتخب کیا تھا ، وہ خوف و سر اسیمگی کے شکار ہیں ۔ لاحول و لاقوۃ ! شاعر مشرق نے انوکھے انداز میں بہت ہی اچھی بات کہی ہے کہ:’اگر کج رو ہیں انجم ، جہاں تیرا ہے یا میرا ،مجھے فکر ِ جہاں کیوں ہو؟ یہ جہاں تیرا ہے میرا؟ ‘ اقبال کا یہ شکوہ اپنی جگہ ؛لیکن ہمیں اس ہندوستان میں رہتے ہوئے اولاً اپنے دل و دماغ سے خوف و سراسیمگی کو نکال پھینکنا چاہیے ۔ یہ بزدلوںکی نشانی اور ان کا شعار ہے کہ وہ خوف کے شکار ہوں ۔ نبی برحق صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اس سے بدترین حالات گزرے ہیں ، طائف ، حنین، احد اور خندق کے زخم کو بھول گئے ؟ ہمیں انہیں یادرکھنا چاہیے ، ہم ان کی امتی ہیں جنہوں نے اپنے شکم مبارک پر پتھر باندھ کراسلام کی آبیاری کی،طائف کی گلیوں میں اوباش لڑکوں سے پتھر کھائے اور پھر اس بلالِ حبشی کے عشق کو بھول گئے کہ جس کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا ، لیکن پھر بھی ’’احد احد‘‘ کا نغمہ ٔ سرمدی گنگناتا تھا۔ہمارے لیے یہ ذلت کی بات ہے کہ ہم ان ’آوارہ ہواؤں ‘کے جھونکوں سے خوف زدہ ہوجائیں کہ جن کی ’لہر ‘ میں کوئی ثبات نہیں ہے ؛بلکہ انہوں نے ’ڈاکہ زنی ‘ سے اقتدار پر قبضہ کیاہے۔
بی جے پی کے حامی اپنی اس تاریخ ساز جیت پر ناچیں ، گائیں ، رقص کریں ، جے شری رام کے دھن پر اچھلیں،یہ ان کا حق ہے ۔ ایک جمہوری ملک میں ان کو اس ناچ گانے اور رقص و سرود کا حق ہے ؛کیوں کہ انہوں نے اس مبینہ جیت کے لیے دن رات ایک کردیئے ۔ بات جب رقص کی ہورہی ہے تو یاد آیا کہ ایک بی جے پی نواز’’ ملا‘‘جس کی قسمت میں زبوںحالی ، فاقہ مستی ، حرام خوری ،میرجعفری اور میر صادقی ہی نصیب ہوئی ہے ، وہ بھی فیس بک لائیو ہوکر ناچ رہا تھا ۔ سر پرگول ٹوپی ، چہرہ پر شرعی داڑھی ، تن لعین پر اہل اللہ کا لباس ؛لیکن وہ اس جیت پر اس قدر مست و مگن ہوگیا کہ بی جے پی حامیوں کے سا تھ ’’ٹھمکے‘‘ لگانے لگااور یہی نہیں اس ملعون صفت مردوالدھر انسان نے اپنے اس’’ رقص برہمنی‘‘ کو فیس بک پر لائیو نشر بھی کردیا ۔ پھر کیا تھا مودی میڈیانے اسے اچک لیا۔ یہ بھی شنید ہے کہ:’ مودی نواز میڈیا نے اس ویڈیو کو خوب کیش کیا ، اور اکثریت سے خوب واہ واہی لوٹی کہ مودی کی جیت سے اب مسلمان بھی خوش ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ وہ شخص برسوں سے بی جے پی کا نمک خوار رہا ہے۔ مجھے اس منافق نما ’ملا‘ پر حیرت ہے کہ :’وہ ناچ کیوں رہا تھا؟ وہ کس مسرت پر جھومنے پر مجبور ہوا‘۔جب کہ وہ جس پارٹی کی جیت پر ناچ رہا تھا ، اس نے اس کی آنے والی نسل کو ’’گونگا، بہرہ، لولا ، لنگڑا اور اندھا ‘‘ دیکھنا پسند کرتی ہے۔جس کا ا علان بی جے پی سرعام کرتی ہے۔ میری دانست کے مطابق:’یہ وہی کافر مولوی ہے جس نے جموں کشمیر ، آسام ، بنگال اور دیگر مسلم اکثریتی علاقوںکے مسلم رائے دہندگان کی رائے دہی میں نقب زنی کی تھی اور مسلمانوں کے گھر گھر جاکر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کی تھی،اور اس کوشش میں ای وی ایم کی ’’کرپا بھی شامل تھی۔اس نے جموں کشمیر اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کے لیے تن من دھن کی بازی لگادی تھی،گھر گھر جاکر بی جے پی کے لیے ووٹ مانگے ۔ جب اسی منافق ملا کو جو بدقسمتی سے ’’قاسمیؔ‘‘بھی لکھتا ہے ، کے سر پر آفت ٹوٹ پڑی تھی تو وزار ت ِ داخلہ کے دفتر میں ۱۲گھنٹے بھو کا پیاسا گزار دیا ؛لیکن بی جے پی اور اس کے لیڈران نے اس منحوس ملا کو ’’ٹھینگا‘‘ دیکھا کر خاموش کردیا تھا۔ نہ جانے اس کے اندر کون سی کافری اور برہمنی سودا سما گیا ہے کہ بی جے پی لیڈران کی ہذیان گوئی کے بعد بھی وہ میرجعفر اور میر صادق کی نیابت کرنے پر فخر محسوس کررہا ہے ۔ اور ہاں !میں کسی کے حسب و نسب پر انگشت نمائی نہیں کرتا ، یہ وہی بی جے پی ہے ، جو نام نہاد پی ایم کی ’’ولدیت‘‘ پوچھے جانے پرچراغ پا اور سیخ پا ہوگئی تھی،تاہم اسی جماعت کے منافق اعظم نے ناچ کر اپنی خوشی کا اظہار کیا ہے تو پھر اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ :’الجنس یمیل الیٰ جنسہ‘ ۔ یقینا اس ملا نما منافق کارشتہ گم نام رشتوں سے استوار ہو گا ، جو ناچ کر اپنی خوشی اور زعفرانی مسرت کا اظہار کررہا ہے ۔
تمام باتیں تو اپنی جگہ درست ہیں ، بی جے پی کے حامی جن کو ای وی ایم کی ’کرپا ‘( کرم) کی کچھ زیادہ ہی امید تھی ، ان کا’ رقص برہمنی‘ بھی تشویش ناک ہے۔ ابھی نئی حکومت سازی بھی نہیں ہے ،لیکن ابھی سے ہی بی جے پی حامیوں کی غنڈہ گردی کا آغازہوچکا ہے ۔ بنگال کے کانکی نارہ اور بھوپال سے متصل ایک مقام میں مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کی خبریں موصول ہورہی ہیں ۔ جو کہ اس جمہوریت پر بدنماداغ ہیں ۔ اور پھر اس جمہوریت کے لیے یہ واقعہ باعث ِ شرم نہیں ہوسکتا ؛کیوں کہ اس سے قبل بھی بی جے پی کے اراکین اوربھگوا دھاری ( زعفران پوش) حامی نہتے مسلمانوں کو اپنے ستم کی مشق بناچکے ہیں ، اور اس پر بی جے پی حامیوں کو ’’فخر‘‘ بھی ہے ۔ان کو فخر اس بات پر ہے کہ :’انہوں نے ایک غیر ملکی جو پاکستان کی محبت میں ’’لین‘‘(غرق ) ہے ، اسے اس کے مبینہ دیش دروہ (غداریٔ وطن ) کا مزہ چکھایا ہے ۔یہ کوئی مردوں والی بات نہیں ہے ۔ اگر زعفران پوشوں کی یہی خواہش ہے تو پھر اس کا سرعام اعلان بھی کرنا چاہیے ، تاکہ پتہ چلے کہ قانون و انتظامیہ بھی کوئی چیز ہے ۔غریب مسافروں کو پریشان کرکے ان کو جوتے چپل سے پیٹ کر ’جے شری رام ‘ کا نعرہ لگوانا کوئی مردانگی نہیں ہے ، مردانگی تویہ ہوتی کہ وہ کسی ہٹے کٹے فربہ قسم کے لوگ کو اپنی اس شرارت کا نشانہ بناتے ،تاکہ پتہ چلتا کہ:’مردانگی ‘ بھی ہے یا نہیں ۔
خیر !نتائج پر کسی طرح کا تجزیہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ، یہ دور والے تجریہ کار سمجھتے ہوں گے کہ :’بھارت میں ووٹروں نے قوم پرستی کے نام پر ووٹ کیا ہے ، جب کہ حقیقت حال اس مزعومہ سے بہت ہی مختلف اور سوا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ 2019کے الیکشن میں ترقیاتی ایجنڈہ کوئی کام نہیں کیا ، عوام کو نوٹ بندی کی ماربھی کوئی معنی نہیں رکھتی ، جی ایس ٹی کی لعنت کو بھی انہوں نے برا نہ سمجھا ؛بلکہ انہوں نے کسی کو برا سمجھا تو وہ اسلام اور کلمہ گو ’مسلمان‘ تھے اور ان کے مقابلے میں سخت گیر ہندوتوا کا ایجنڈہ تھا ، ایسا غیر ملکی تجزیہ کاروں کا تجزیہ ہوسکتا ہے ، لیکن جو تجزیہ کار زمین سے جڑے ہیں ، وہ اس کی صداقت و حقیقت کو جانتے ہیں کہ :’حقیقت ِ حال یہ نہیں ؛بلکہ کچھ اور ہے ۔ وہ حقیقت یہ ہے کہ ای وی ایم میں زبردست گھوٹالہ کیا گیا ۔ کیوں کہ جب بھی حزب اختلاف کی طرف سے بلیٹ پیپر سے الیکشن کرائے جانے کی بات کی جاتی تھی تو اب حکمراں جماعت کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کے پیٹ میں مروڑ اور ’’جلاب ‘‘ پیدا ہوجاتا تھا ۔ اب اس سے ہم کیا سمجھیں ؟ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ ’کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں‘ ۔نو منتخب پی ایم( اب انہیں آئینی رو سے پی ایم کہنابھی چاہیے،ورنہ یہ عوامی مینڈیٹ کی توہین ہوگی ) نے کل کے بیان میں کہا ہے کہ :’میں اقلیتوں کا خوف دور کروں گا‘۔ مجھے اس بیان پر حیرت ہی نہیں ؛بلکہ افسوس بھی ہے ۔افسوس اس بات پر ہے کہ جس آر ایس ایس کا منشور ہی مسلمانوں کو خوف میں مبتلا کرکے اکثریت کاووٹ حاصل کرنا ہے ، و ہ کب سے اس کارِ خیر میں شریک ہونے لگی۔ تاہم یہی بیان ان کا اس وقت نہیں آیا تھا جب محمداخلاق ، حافظ جنید ، رکبر جیسے نہتے مسلمانوں کو سرعام قتل کردیا گیا تھا، اس وقت آنجناب کی زبان خاموش تھی ۔ یہ بیان اپنے آپ میں کوئی دم خم نہیں رکھتا ہے ؛بلکہ لغو اور خفیہ منشور و اصول کے خلاف بھی ہے۔ ہم اسے منافقت سے تعبیر کرتے ہیں ۔ ممکن ہے کہ ان کی نظر میں وزارتِ عظمیٰ کا پاس ہو ، اور خالصتاً وزرات عظمیٰ کا ہی پاس و لحاظ ہے ،ورنہ اس دو ر میں جس کے لیے آر ایس ایس نے مسلسل نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک زمینی سطح پر کوشش کی ہو ، وہ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد ایسا بیان نہیں دے سکتا۔اور پھر ان کا یہ بیان محمد اخلاق ، محمد جنید ، رکبر ، نظرالاسلام جیسے شہداء کے اہل خاندان کے لیے باعث تسلی نہیں ہوسکتے اور نہ ہی ان کو مودی کے اس منافقانہ بیان کی ضرورت ہے۔ میرابس مختصر سا سوال ہے کہ :’اگر آج مسلمان خوف کے شکار ہیں ،تو پھر گزشتہ پانچ سال میں کس پارٹی کے کارکنان اور حامیوں نے ملک کے طول و عرض کشمیر سے کنیا کماری تک اور بہار سے گجرات تک ہڑبونگ مچائی ہے ؟ آخر یہ خوف کس نے مذہب کے نام پیدا کیا ہے ۔ ؟پاکستانی شاعر آفتاب حسین کی ایک غزل کا یہ مطلع مودی کے بیان کا جواب ہے ۔ آفتاب حسین کا یہ مطلع چسپاں ہورہا ہے ۔
’’منافقت کا نصاب پڑھ کر محبتوں کی کتاب لکھنا
بہت کٹھن ہے خزاں کے ماتھے پہ داستان گلاب لکھنا‘‘
رہی بات مسلمانوں کی ،تو برصغیر کے مسلمانوں کو کوئی اس وقت راہ راست پر نہیں لا سکتا ہے ،شاید ممکن ہے کہ ان کے لیے کوئی دوسرا ہادی آئے۔ اس آبادی نے اپنے قول و عمل سے )نعوذباللہ)یہ واضح کردیا ہے کہ ہادیٔ عالم ﷺ کی بعثت ان کے کے لیے ناکافی تھی ۔ نہ آپسی اتحاد ہے ، نہ سیاسی اتفاق ہے ۔ تمام تنظیمیں مسلک میں تقسیم ہوکر کفر و زندیقیت کا ’’چورن‘‘ بیچ ر ہی ہیں۔لیکن پھر بھی 22سے زائد مسلم ممبران پارلیامنٹ کی پارلیامنٹ میں موجود گی بہت ہی معنی خیزاور مثبت اشارہ سمجھی جاسکتی ہے ۔ہم اس کو شر کی آندھی میں خیر کا عندیہ سمجھ رہے ہیں ۔ مسلمان قوم ،مسلمان قوم ہے ۔ کئی قرنوں ، قبیلوں، فرقوں اور نسلوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد بھی اب بھی’’ شاہانہ خسروی‘ ‘اور اس کا سودا فرو نہیں ہوا ہے ،نہ فکر مستقبل ہے اور نہ ہی فکر ِ معاش ۔ گزشتہ دنوں عمر خیام کی یہ رباعی پڑھ رہا تھا ،مسلمانوں کی بیگانگی اوربے فکری پر یکایک یاد آگئی ، عمر خیام کی یہ رباعی مسلمانوں کی حالت ِ بیگانگی کا تر جمان ہے ۔
مے خوردن و شاد بودن آئین منست
فارغ بودن ز کفر و دین دین منست

گفتم بہ عروس دهر کابین تو چیست
گفتا دل خرمِ تو کابین منست
اور وہ قوم جس نے’’مے نوشی اور شاہد پرستی ‘‘کو ہی اپنا مذہب اور شعار قرار دے ، اس کے لیے انقلابِ زمانہ کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ، چہ جائے کہ بلائے ناگہانی ہی کیوں نہ ٹوٹ پڑے ؛لیکن اب اس سے ترک تعلق کرکے جام صراحی اور پیمانے توڑنے ہوں گے ،احوال معاصر کو پرکھنا ہوگا اور اپنی سیاسی جمعیت کو مضبوط کرنی ہوگی،تاکہ بزم خرابات پھر بسائی جائے ۔
٭٭٭٭
 
Top