انیس سو نوے میں رہنے والے لوگ

حسن مجتبٰی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نیویارک
آخرکار آصف علی زرداری نے وہی کام پایہ تکمیل کو پہنچایا جو انہیں انیس سو چھیانوے میں ادھورا چھوڑنا پڑا تھا۔
کہنے والے کہتے ہیں نومبر انیس سو چھیانوے کی اس رات، تب کے ’مرد اوّل‘ پنجاب کے اسی گورنر ہاؤس میں موجود تھے جب رینجرز نے آ کر انہیں گرفتار کیا تھا۔

مرد اول کئي دنوں سے پنجاب کے گورنر ہاؤس میں تب کے وزیر اعلیٰ منظور وٹو کی حکومت گرانے کی مہم جوئي کے سلسلے میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ الزامات یہ بھی تھے کہ کروڑہا روپے کی رقم پنجاب میں وٹو حکومت گرانے پر خرچ کی گئي تھی۔

اب پھر وہی پنجاب ہے جہاں مسلم لیگ نون کے سربراہ اور ملک کے اس وقت مقبول سیاستدان نواز شریف اور ان کے بھائي وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو پاکستان کی سپریم کورٹ نے نا اہل قرارد دیا ہے اور پاکستان کے ’حادثاتی‘ صدر نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کردیا ہے۔

سلمان تاثير کو پنجاب میں اسلام آباد کا جام صادق علی بنا دیا گيا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ شریف برادران ہوں کہ زرداری اور ان کے ساتھی دونوں کا نہ صرف حافظہ ہاتھی کا ہے بلکہ آنکھ بھی کوبرا کی ہے۔ زرداری اور شریفوں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ لوگ اب بھی انیس سو نوے کی دہائي میں رہ رہے ہیں۔
لطیفہ یہ ہے کہ کسی ملزم کو عدالت میں جج نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا ’عدالت عالیہ تمہیں چودہ سال قید با مشقت کی سزا سناتی ہے‘ تو ملزم نے جج سے کہا ’یہ سب حرکت تیری ہے عدالت عالیہ کا تو محض نام ہے‘۔ کل تک سندھ میں پاکستان مسلم لیگ کو (سوائے سید غوث علی شاہ اور لاڑکانہ کے امداد چانڈیو کے) پنجاب تک ہی محدود سمجھا جاتا تھا وہاں بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف اور شہباز شریف کو نا اہل قرار دیے جانے پر مذمت کی گئی اور کہیں اور نہیں لاڑکانہ میں بھی۔ لاڑکانہ سمیت سندھ کے لوگوں سے زیادہ ’پاکستان کھپے‘ کے نعرے کو کون سمجھ سکتا ہے۔ سندھی زبان میں ’کھپے‘ کا ایک مطلب ’فروخت کرنا‘ بھی ہوتا ہے۔

پاکستان میں تاریخ بھی عجیب ہے۔ عدالت میں ملزم نواز شریف ہے، حکومت بھٹو کے نام پر آصف زرادری کی ہے اور استغاثہ کے وکیل احمد رضا قصوری ہیں۔ اسے کہتے ہیں نیشنل ری کنسیلیئشن جس کا پھل اتنا میٹھا ہے کہ جنرل پرویز مشرف جیسے لوگ امریکہ کی بہترین یونیورسٹیوں میں اپنے چھڑی (کین) جیسے لہجے میں دنیا جہاں کو جمہوریت پر لیکچر دیتے پھرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ باہر سردی اور برف میں ٹھٹھرتے پاکستانی پرانے جوتوں کی قطاریں لگائے ان کے استقبال کو کھڑے ہوتے ہیں۔
ایک ایسا ملک جہاں مولوی اقبال حیدر اور خرم شاہ جیسے درخواست گذار با آسانی دستیاب ہوجاتے ہوں وہاں اگر فوجی آمر معصوم و بے گناہ اور سارا قصور تارا مسیح کا ثابت ہو تو عجب کیا ہے۔

ججوں کا تو وہاں کردار جرنیلوں سے بھی بھیانک بن جاتا ہے:
کس کو پھانسی چڑھایا اور کس کو معاف کیا میں نے
ساری عمر حکومت کیلیے رستہ صاف کیا میں نے

بنیظیر بھٹو کا قتل جب اس کے نام پر حکومت کرنے والوں کیلیے ’انکم سپورٹ‘ میں بدل جائے تو پھر وعدے کسے یاد رہتے ہیں۔

ویسے بھی ملک پاکستان بقول میری مرحوم ایڈیٹر رضیہ بھٹی کے اپنے جنم سے وعدوں سے مکری ہوئي سر زمین ہے۔ جب لندن میں بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیاں ڈاکٹر رحمان ملک کے گھر پر میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تھے تو مجھے پتہ نہیں کیوں پاکستان کے سیاستدانوں کی ساری جفائيں اور وعدہ خلافیاں یاد آ گئي تھیں۔

شریف برادران کی نااہلی کے متعلق عدالت کے فیصلے پر بھی ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل یاد آ گيا۔ میرا ایک دوست فوجی عدالتوں کے زمانے میں کہتا تھا جب عدالتیں یہ کہتی ہیں کہ ’فیصلہ محفوظ کرلیا گیا‘ تو اس کا مطلب ہے ’اوپر سے پوچھ کر بتانا ہے‘۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عوام میں مقبول لیڈروں کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو کا کیا حشر کیا اور اب نواز شریف جیسے پاپولر لیڈر نا اہل۔

’طوطیا من موتیا
اوس گلی نہ جا
اوس گلی دے جٹ برے نیں
دے دیندے نے پھاہ‘

پھر وہی بات کہ آّپ ایک شخص کو ساڑھے آٹھ یا گیارہ سال تک کال کھوٹریوں اور ٹارچر میں بند کر کے رکھیں اور پھر اسے کھلی فضا میں نکال کر ایک بڑی ٹریجڈی سے گذار کر ملک کے سفید و سیاہ کا مالک بنادیں، پھر ملک میں وہی ہوگا جو امریکی لکھاری کین کیسی کے بہترین ناول ’ون فلیو اوور دی ککوز نیسٹ‘ میں ہوتا ہے یعنی کہ چریا سوشلزم اور آمریت ساتھ ساتھ۔
اصل ربط
 
Top