انگریزی ’مِکس‘ نہ کریں - زیرو ٹرانسلیشن

ربط
انگریزی زبان چینی زبان کے تقریباً شعبے میں سرایت کر رہی ہے لیکن اس کا زیادہ اثر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ہے

اگر آج کل چینی لوگوں کی گفتگو سنیں تو آپ کو انگریزی کے روز مرہ استعمال کے کئی الفاظ سننے کو ملیں گے: ’او کے‘ کُول، بائے بائے، ہئر اینڈ دیئر۔‘

گفتگو کے علاوہ آج کل چینی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں اور اخبارات میں بھی آپ کو نہ صرف انگریزی کے کئی الفاظ نظر آئیں گے بلکہ چینی زبان میں ان کا کوئی آسان ترجمہ بھی دکھائی نہیں دے گا۔ ’جی ڈی پی، ڈبلیو ٹی او، وائی فائی، سی ای او، ایم بی اے، وی آئی پی اور فضائی آلودگی کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاح ’پی ایم 2.5 ‘ اس قسم کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ ہیں۔

چینی زبان میں بغیر ترجمے کے انگریزی الفاظ استعمال کرنے کے اس رجحان کو ’زیرو ٹرانسلیشن‘ کا نام دیا گیا ہے اور آج کل چین میں یہ بحث زوروں پر ہے کہ آیا یہ رجحان چینیوں کی صدیوں پرانی زبان پر مثبت اثر ڈالےگا یا اس سے چینی زبان اور تہذیب کو خطرہ ہے۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کا اخبار ’پیپلز ڈیلی‘ بھی اس بحث میں کود چکا ہے۔ اخبار نے اپنے ایک حالیہ ادارتی کالم میں ’ہر کوئی زیرو ٹرانسلیشن کی روایت کیوں اپنا رہا ہے؟‘ کی سرخی کے تحت ایسی کتابوں اور لوگوں کے خوب لتے لیے ہیں جن کا اصرار ہے کہ وہ انگریزی الفاظ ہی استعمال کریں گے۔

اخبار کا کہنا تھا کہ جب ہم ’نوکیا‘ اور ’موٹورولا‘ موبائل فونوں کے لیے چینی زبان کے حروف تہجی استعمال کرتے ہیں تو پھر ’آئی فون‘ اور ’آئی پیڈ‘ کے لیے ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟

چینی میں کوکا کولا کو ’کیکو کیلی‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں ’مزیدار اور خوش‘

کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان اخبار اور اس کے ہمنوا دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر بات محض عام بول چال کی زبان تک رہتی تو شاید ان کا ردعمل اتنا شدید نہ ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ آج کل چینی زبان کی سائنسی کتابوں میں بھی انگریزی کے بے شمار الفاظ کو انگریزی حروف تہجی میں لکھا جا رہا ہے جو سراسر غلط ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ اس رجحان سے نہ صرف چینی زبان کی سالمیت اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ اس سے چینی تہذیب بھی کمزور ہو رہی ہے اور لوگوں کو اسے سمجھنے میں بھی دقت ہو رہی ہے۔ کتنے لوگ ہیں کہ جو انگریزی کے ان ہجًوں کو سمجھ پاتے ہیں؟

امریکی اور برطانوی اثرات
انٹرنیٹ بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور جدید مصنوعات کے شعبوں میں انگریزی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مقبول امریکی اور برطانوی فلمیں اور ٹی وی کے پرگرام بھی انگریزی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

چینی میں انگریزی کی ملاوٹ کوئی نئی بات نہیں، کیونکہ گذشتہ برسوں میں انگریزی کے کئی الفاظ اور اصطلاحیں چینی میں سرایت کر چکی ہیں، بلکہ کئی ترجمے تو ایسے ہیں کہ جو بہت زیادہ مقبول ہوئے۔ مثلاً ’کوکا کولا‘ کو چین میں مقبول بنانے میں اس کے چینی ترجمے کا بڑا عمل دخل ہے کیونکہ چینی میں کوکا کولا کو ’کیکو کیلی‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی ہیں ’مزیدار اور خوش۔‘

کوکا کولا کی طرز پر انگریزی کے کئی دوسرے ناموں اور اصطلاحوں کو بھی چینی حروف تہجی میں لکھا جاتا رہا ہے جس کے نتیجے میں کئی کمپنیوں کی مصنوعات کو چین میں مقبول عام بنانے میں خاصی مدد ملی ہے۔ لیکن ’زیرو ٹرانسلیشن‘ کے حالیہ رجحان کے ناقدین کہتے ہیں کہ اب مسئلہ یہ ہو گیا ہے کہ چینی زبان میں لکھے ہوئے فقروں کے درمیان انگریزی کے حروف تہجی گُھسیڑے جا رہے اور ساتھ میں ان کا کوئی ترجمہ بھی نہیں دیا جا رہا۔

ماضی میں امریکی باسکٹ بال کے مشہور مقابلوں ’این بی اے‘ کے انگریزی نام پر پابندی لگائی جا چکی ہے

چین میں انگریزی بولنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ لوگ اپنی گفتگو اور تحریر میں جا بجا انگریزی الفاظ اور حروف تہجی استعمال کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ اس سلسلے میں بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے اور خاص طور پر ٹیکنالوجی اور جدید مصنوعات کے شعبوں میں انگریزی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اس کے علاوہ گذشتہ برسوں میں مقبول امریکی اور برطانوی فلموں اور ٹی وی کے پرگراموں نے بھی انگریزی کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

چین میں انگریزی زبان کے اثرات کے بارے میں بحت اگرچہ کوئی نئی بات نہیں، لیکن معاشرتی رابطوں کی ویب سائٹس کے اس دور میں یہ بحث ماہرینِ زبان تک محدود نہیں بلکہ ہر کوئی اس میں اپنا حصہ ڈال رہا ہے ۔ یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ چین کو چاہیے کہ وہ اپنے سرکاری ٹیلی ویژن کا نام بھی تبدیل کر دے۔ یاد رہے کہ چین کے سرکاری ٹی وی کا نام ’سی سی ٹی وی‘ ہے۔
 

نوشاب

محفلین
اگر ساری دنیا کسی ایک زبان پر متفق ہو جائے کہ آج سے یہی زبان استعمال کی جائے گی تو کیا یہ ممکن نہیں ہو سکتا۔
کتنی ٹینشنیں اور پریشانیاں ختم ہوجائیں ۔
زیادہ نقصان لینگوجز سینٹر اور اکیڈیمیوں کا ہو گا جوجن کا کافی سے زیادہ روزگار زبان سکھانے پر ہی منحصر ہے۔
 

اسد

محفلین
بی بی سی کی انگلش نیوز سائٹ پر Why some English words are controversial in China کے عنوان سے بی بی سی چائینیز کے یُوون وُو (Yuwen Wu) کی تحریر موجود ہے جس کا نا مکمل ترجمہ اس اردو تحریر میں دیا گیا ہے ، شکریہ زیک ۔ اردو آرٹیکل میں یکطرفہ خیالات کو جگہ دی گئی ہے اور مخالف خیالات کو سنسر کیا گیا ہے ۔
بی بی سی اردو نے کہا:
ماضی میں امریکی باسکٹ بال کے مشہور مقابلوں ’این بی اے‘ کے انگریزی نام پر پابندی لگائی جا چکی ہے
جبکہ انگلش آرٹیکل میں اس پر کچھ تفصیل موجود ہے ۔
This is not the first time that attempts to purify the Chinese language have sparked national debate.
US basketball is very popular in China and "NBA" was used on TV for many years before the authorities decided to ban it in 2010, in favour of the Chinese rendition 美职篮 (mei zhi lan), which literally means American professional basketball instead.
This proved very controversial. In 2012, the Modern Chinese Dictionary, long considered the authority in language use, included NBA and more than 200 other foreign words in its new edition, and NBA made its way back on TV.
Around 100 scholars then signed an open letter to the national publication authorities, accusing the dictionary editors of violating Chinese laws and regulations. They argued that including such English terms and abbreviations in the Chinese dictionary would do long-term damage to the language.
Not everybody agreed. The official Xinhua news agency carried a piece by Zhang Kuixing wondering how the use of some English vocabulary in a dictionary could be against the law if the language was legal in China.
The author argued that a dictionary should reflect usage; and since terms such as NBA were already in common use, inclusion in the dictionary simply reflected reality.

Others said the ultimate aim of language was communication, and a language should not shut out foreign words. A dictionary, they argued, should provide references of language use and help readers.
Fast forward to 2014 - and linguistic use has become heavily politicised again, with People's Daily blaming "a lack of pride and confidence in one's own culture and language, which leads to blindly worshipping anything Western".
The idea would be for all foreign words to have proper Chinese translations: experts would be able to submit their translations for public consultation and trial use before they became official. People would even vote for their favourite translations.
There has been a sharp reaction on Chinese social media. Some have posted long-winded Chinese passages to show how inconvenient it would be to dispense with the English usage.
Others have questioned the point in learning foreign languages if they are not put to good use.​
کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ بی بی سی والے سمجھتے ہیں کہ اگر وہ پوری بات اردو میں لکھ دیں گے تو لوگ ان کے آرٹیکل کاپی پیسٹ کرنا اور حوالہ دینا چھوڑ دیں گے؟ اور ان کی مشہوری خراب ہو گی ۔
 

زیک

مسافر
بی بی سی اردو کا سٹینڈرڈ کافی عرصہ سے بی بی سی انگریزی سے کم ہے
 
Top