انکار حدیث کے نتائج تالیف شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر

انکار حدیث کے نتائج

تالیف
شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر دام مجدھم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلحَمدُ لِلہِ وَ کَفٰی وَ الصلوۃُ وَ السلامُ عَلٰی مَن اَ ر سَلہُ ھُدًی وَ عَلٰی اَلِہ و اَصحَابِہِ و علی من اتبعہ و اطاعہ من ائمۃ الدین الذینَ ھُم مَصَابِیحُ الدجیٰ
اما بعدُ !


ہر چیز کا اس جہان میں کوئی نہ کوئی محرک اور سبب داعیہ ضرور ہوتا ہے۔ جب تک اسباب و داعی اور محرکات ظہور پزیر نہ ہوں کسی چیز کا وجود متصور نہیں ہو سکتا ۔ یہ ایک محور ہے جس کے گرد تمام افعال گھومتے ہیں ۔

سبب تالیف
اس ناچیز تالیف کا سبب یہ ہے کافی عرصہ سے منکرین حدیث کی طرف سے حدیث کو ناقابل اعتبار قرار دینے کے لیے نت نئے شوشے چھوڑے جاتے ہیں ۔ کبھی یہ حدیث ظنی چیز ہے ، اور ظنی چیز دین نہیں ہوسکتی۔ کبھی یہ کہ آپ نے کوئی مستند مجموعہ لکھ کر امت کے حوالے نہیں کیا۔ اگر حدیث حجت ہوتی تو آپ منع کیوں کرتے ؟ کبھی یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خصوصیت سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ حدیثوں کے اشد مخالف تھے حتی کہ انہوں نے حدیثوں کے مجموعے ہی جلا ڈالے تھے۔ اور حدیث بیان کرنے والوں پر کڑی نگرانی اور سخت پابندی عائد کر دی تھی۔ کبھی یہ کہ حدیث دو اڑھائی سو سال کے بعد تدوین کی گئی ہے ، لہذا اس کا کیا اعتبار ہو سکتا ہے ؟ کبھی یہ کہ صحاح ستہ وغیرہ کتب حدیث کے بیشتر مصنفین عجمی ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ یہ خدمت عربی ادا نہ کرسکے ؟ لہذا یہ عجمی سازش کا نتیجہ ہے ۔ کبھی یہ کہ احادیث قرآن اور عقل کے خلاف ہیں ۔ لہذا یہ ناقابل اعتماد ہیں۔ کبھی یہ کہ احادیث کو تسلیم کر لینے کے بعد امت کے اتفاق کا شیرازہ بکھر گیا ہے، اس لیے حدیث سے تو توبہ ہی بھلی کبھی یہ باور کرایا جاتا ہے کہ حدیث ہمارے بدلتے ہوئے تقاضوں کو پورا نہیں کرتی اور ہمارے قرآن زاویہ نگاہ اور بصیرت قرآنی پر کڑی پابندی لگاتی ہے ۔ اس لیے اس کو تسلیم کر لینے سے انسان کافر، ظالم اور فاسق وغیرہ ہو جاتا ہے ۔ (العیاذ باللہ ) وغیر ذلک من الخرفات ۔

ان کے مختلف بیہودہ اور افسردہ نظریات کو دیکھ کر افسوس بھی ہوتا ہے اور حیرت بھی کہ انہوں نے حدیث کے انکار کے لیے بیشتر وہی دلیلیں پیش کی ہیں جو کسی وقت علیائی اور اسی طرح باطل اور بد مذہب فرقے پیش کر چکے ہیں ۔ شراب تو وہی پرانی ہے البتہ بوتلوں کی رنگت نئی ہے ۔ ہم نے ان کے ان باطل نظریات کے رد میں ایک کتاب ترتیب دی ہے جس کا نام "شوق حدیث " تجویز کیا گیا ہے۔ پھر خیال ہوا کہ اس کا مقدمہ بھی لکھنا چاہیے جس میں منکرین حدیث کے بطور نمونہ کچھ باطل عقائد اور نظریات و افکار بھی مسلمانوں کی ضیافت طبع کے لیے پیش کرنے چاہئیں ۔ تاکہ ان کو بھی بخوبی معلوم ہو جائے کہ منکرین حدیث چاہتے کیا ہیں ؟ نیز یہ بات بھی واضح ہو جائے کہ جنہوں نے غلام اور لونڈیاں قتل مرتد ، اور یتیم پوتے کی وراثت وغیرہ کے مسئلہ کو "ملا" کے ذاتی مسائل قرار دیکر عام مسلمانوں کو اس طریقے سے "ملا" کا عجیب و غریب مذہب نمایاں کر کے بتانے کی کوشش کی ہے وہ اپنی تحریرات کے آئینہ میں اپنا منہ بھی دیکھ سکھیں ۔ یہ مسئلے تو "ملا" کے ہیں نہیں ملک یمین کا ضابطہ بشرائط خود تو قرآن کریم کا مسئلہ ہے اور قتل مرتد کا حکم احادیث صحیحہ سے ثابت ہے اور یتیم پوتے کی وراثت کا مسئلہ اجماع امت سے ثابت ہے جس میں بقول اسلم صاحب جیراج پوری آج تک کسی کو کوئی اختلاف ہی نہیں ہوا ( محصلہ) ( ان کے رد میں ان شاء اللہ الگ رسالہ لکھا جائے گا یہاں اس کی تردید مقصود نہیں ہے ) لہذا خیال ہوا کہ چلتے چلتے ان کے چند افکار و نظریات بھی پیش کر دئیے جائیں۔ جب ان کی کتابوں سے اقتباسات لیے گئے تو بہت زیادہ ہوگئے پھر ان میں بعض کو بنظر اختصار حذف بھی کر دیا گیا۔ مع ہذا کتاب کا حجم بھر بھی کافی ہو گیا اس مجبوری کے تخت اس کو علیحدہ شائع کیا جا رہا ہے ۔ اور اس وجہ سے اس کا نام بھی الگ تجویز کیا گیا ہے تاکہ "شوق حدیث " کا مضمون الگ اور مستقل رہے اور ان لوگوں کے پیش کردہ خرفات جدا رہیں ۔ تاکہ محدثین کرام رحمہ اللہ کے نیک اور پارسا گروہ کے تذکرہ میں منکرین حدیث اور ان کے خیالات فاسدہ کا ذکر ہی نہ آئے ۔ و جعل بین البحرین حاجزا ۔ چونکہ کتاب پیش نظر کا بیشتر حصہ تقریباً ایک ہفتہ ( ایام عید کی تعطیلات ) میں لکھا گیا ہے اور عدیم الفرصت ہونے کی وجہ سے پوری طرح نظر ثانی بھی نہیں کی جاسکی ۔ اس لیے قارئین کرام اغلاط سے مطلع فرما کر مشکور ہوں تاکہ طبع آئندہ میں تلافی کی جاسکے ۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی محدثین کرام رحمہ اللہ کی نیک گروہ میں ہمیں شامل کرے اور گمراہوں کے زمرے سے الگ تھلگ رکھے آمین

الہی خیر ہو کہ فتنہ آخرزماں آیا
رہے ایمان و دین باقی کہ وقت امتحان آیا​
احقر
ابوالزاہد محمد سرافراز خان صفدر
خطیب جامع گکھڑ و مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم ۔ گوجرانوالہ
۱۴ ذوالحج ۱۳۳۹ ھ ۔ ۱۰ جون ۱۹۶۰​


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نازک ترین دور
اس وقت دنیا ایک نہایت ہی پر آشوب دور اور نازک تر حالات سے دو چار ہے ۔ انسان انسانیت کا دشمن ہو گیا ہے۔ علم و ہنر کی ساری قوت ہی آدمیت کو ختم کرنے کے لیے وقف ہو چکی ہے۔ ظلم و جور ۔ جبر و تعدی ۔ دھوکہ و فریب کا ہر طرف اور ہرسمت بازار گرم ہے ۔ ہوائے نفس کی پیروی اور روحانیت سے تمسخر لازمہ زندگی بنتا جا رہا ہے محض اپنی تن آسانی اور نفس پروری کے لیے کمزوروں اور ناتواں ضعیفوں اور ناداروں کا خون تک چوسا جا رہا ہے۔ میدان جنگ میں انسان کی عظمت اور شرافت پر ایٹم بم ، ہائیڈروجن بم اور راکٹوں کے ذریعہ آگ کے شعلے برسانے کا وسیع تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ رشک فردوس ایوانوں اور فلک بوس عمارتوں کو کھنڈروں میں تبدیل کر دینے کے ڈبل منصوبے ہو رہے ہیں ۔ ہلاکت اور خوں ریزی کے خونیں مناظر کو بعجلت تمام لانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کی جا رہی ہے باغبان ازلی کے لہلہاتے ہوئے چمن کو اجاڑنے اور مسمار کرنے کے گہرے مشورے ہو رہے ہیں ۔ ایمان و عمل صالح ۔عدل و انصاف ، عفت و عصمت اور مذہب و مسالک کو خس و خاشاک کی طرح بہا لے جانے کے مضبوط ارادے کئے جا رہے ہیں۔ بین الاقوامی سیاست کی محض اپنے ملکی مفادات ، نفسانی خواہشات اور ملک گیری کی ہوس میں آئے دن نیتیں بدلتی رہتی ہیں۔ عرض یہ ہر ملک اور ہر حکومت کے سامنے زندگی اور موت کا سوال درپیش ہے اور ہر ملک اپنے کو معصوم اور دوسروں کو مجرم گردانتا ہے اس لیے ان کو تباہ و بر باد اور ہڑپ کرنے کے درپے ہے نتیجہ یہ ہے کہ ہر ملک بربادی ، ہر قوم تباہی اور ہر ملت خرابی کے قریب تر ہوتی جا رہی ہے ۔ مگر باوجود ان غیر مختتم ہلاکت آفرینوں اور عالمی پریشانیوں کے خدا و مذہب اور اخلاق و روحانیت کو فراموش کیا جا رہا ہے بجائے اس کے کہ دنیا ان تباہیوں اور ناکامیوں سے سبق حاصل کر کے خدائے واحد اور مذہب کی بلند اقدار کی طرف جھکتی اور اپنے آپ کو ہلاکتوں اور بربادیوں کے ہولناک سیلاب سے محفوظ رکھتی، وہ دن بدن مذہب و اخلاق سے دور اور روحانیت و فکر آخرت سے متنفر ہوتی جا رہی ہے۔ الحاد و دہریت اور نفسانی خواہشات کو پورا پورا موقع مل گیا ہے کہ وہ ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے نوع انسانی کی جسمانی اور روحانی تباہی کا نقشہ جلد سے جلد مرتب کر دیں اور شب و روز اس کاوش میں منہمک ہیں تاکہ انسان کے پاس کوئی اسلامی ضابطہ حیات کوئی روحانی دستور مکمل اور کوئی کامل نظام اخلاق جس پر نبوت و رسالت اور خلافت علی منہاج نبوت کی مہر تصدیق ثبت ہو، باقی نہ رہے اور دین قیم کی روشن تعلیم میں آئے دن نئے نئے شکوک و شبہات پیدا کر کے مسلمانوں کے ان کے محبوب اور جامع ترین دین سے متنفر اور بد ظن کیا جا رہا ہے۔ غیر تو غیر خود اسلام کے نام لیوا ہی اخلاق فاضلہ اور اسوہ حسنہ کو صفحہ ہستی سے نا پید کرنے کا ٹھیکہ لے چکے ہیں ۔ حتی کہ اب تو آخری دین کی مشہور و معروف اصطلاحات کو بدلا جا رہا ہے اور بعض کے بدلنے کی فکر کی جا رہی ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا ؟

ڈرتا ہوں عدم پھر آج کہیں شعلے نہ اٹھیں بجلی نہ گرے
بربط کی طبیعت الجھی ہے نغمات کی نیت ٹھیک نہیں​

وہ بہترین روحانی اور انقلابی دین جس نے عرب کے ناخواندہ بدوؤں کو ا ارض عالم کے بہترین انسانوں کی صورت میں متشکل کر دیا تھا ۔ جو ایک فاتح اور حکمران قوم کی حیثیت سے افق عالم پر نمودار ہوئے تھے ۔ قومیں ان کی عظمت اور شوکت سے لرزتی تھیں۔ تاج و تخت کے مالک ان سے تھراتے تھے اور ان کے نام ہی سے بڑے مغرور دماغ ڈھیلے پڑ جاتے تھے ۔ ان کو یہ اعلی کمالات جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکمل ترین اسوہ حسنہ سے حاصل ہوئے تھے ۔ جس کی بدولت وہ دنیا کے بہترین معلم اعلی ترین مدبر عمدہ ترین افسر ، فہیم ترین فرمانروا ، نفیس ترین معمار ، اور بزرگ ترین تاجر و مجاہد قرار پائے۔ جن کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے جن کے قرآن و حدیث پر عمل کرنے کے لیے صحیح جذبے نے کافروں اور نا فرمانوں ، بد کاروں سیاہ کاروں کو مختصر سے وقت میں فرشتہ صفت اور مقدس انسان بنا دیا تھا ۔ حیف بر حیف ہے کہ اسی اسوہ حسنہ میں محض نفس امارہ کی پیروی میں کیڑے نکالے جا رہے ہیں اور حدیث و اسوہ حسنہ کا سرے سے انکار کیا جا رہا ہے ( العیاذ باللہ )

جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
نوجوان پود اور دین سے بے بہرہ طبقہ کو قلم اور ادب برائے الحاد کے سحر سے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مسلمانوں پر صدیوں جو غفلت اور جمود طاری رہا اور دین و دنیا کی جن عظمتوں اور کامرانیوں سے وہ محروم رہے اور جس قعر مذلت میں گر کر وہ شان و شوکت کھو بیٹھے اور آج بھی ہر طرف سے زوال اور انحطاط کی جو تاریک گھٹائیں ان پر مستولی ہیں ۔ وہ صرف حدیثی اسلام اور جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ اور سنت غرا پر عمل پیرا ہونے ہی کے بدولت ہے ، ( لاحول ولاقوۃ االا باللہ ) چنانچہ ایک ایسا ہی بے دین اور دریدہ دہن سنت سے متعلق یہ لکھتا ہے کہ : ۔

" یہ سنت ہی تھی جس نے اسلام کے ابتدائی جمہوری مزاج میں بگاڑ پیدا کیا۔ یہ سنت ہی تھی جس نے مسلمانوں کو متعدد فرقوں میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کی وحدت کو پارہ پارہ کر دیا ۔ یہ سنت ہی تھی جس نے بنی امیہ اور بنو عباس کے عہد میں مذہبی لوگوں کو غیر معمولی اہمیت دلوائی۔ ( سنت سے ناراض ہونے کی اصل وجہ بھی شائد یہی ہے ۔ صفدر ) اور یہ سنت ہی تھی جس نے دولت عثمانیہ کو ناقابل علاج مریضوں کی آماج گاہ بنایا ۔ ( بحوالہ اخبار "تسنیم " لاہور ۹ فروری ۱۹۵۵ ص ۱ کالم ۴ )

پناہ خدا ۔یہ بالکل بے بنیاد اور فاسد نظریہ آج سکولوں اور کالجوں ، کار خانوں اور دفتروں کے بعض بزعم خود روشن خیال نوجوانوں کے عقائد و اعمال اور اخلاق و روحانیت کو دیمک کی طرح چاٹ اور گھن کی طرح کھا رہا ہے لیکن وہ اس بے حقیقت نظریہ کو تریاق سمجھ رہے ہیں اور امت کے انحطاط و زوال کے اصل سبب کو کہ وہ قرآن و حدیث اور اخلاق و روحانیت سے بے بہرہ اور بعید ہونا ہے، تجاہل عارفانہ کے طور پر پش پشت ڈالا جا رہا ہے اور اس کا نام تک نہیں لیا جاتا ۔ فوااسفا !

وہ کون عقلمند اور منصف مزاج ہے جو اس کا انکار کرسکے کہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی اسلامی زندگی ایک نہایت اعلی و ارفع زندگی ہے جو نوع انسانی کی امن و سلامتی اور فلاح و کامیابی کی حقیقی راہ دکھانے کی کفیل ہے جس نے تمام طاغوتی نظامہائے زندگی کو مٹا کر ان کی جگہ پاکیزہ دین درخشاں روحانیت اور چمکتی ہوئی شریعت پیش کی ہے جس سے بیگانہ اور منحرف ہونے کے بعد مسلمان دنیا میں رفتہ رفتہ اپنے مقام اور ارفع منصب کھو بیٹھے ہیں۔ اور بدقسمتی سے اب ان کے عقائد و اعمال اور افکار و نظریات میں ایسا ہمہ گیر اور خوف ناک انتشار اور تضاد پیدا ہوگیا ہے کہ علی العموم ان کا ہر نظم بدنظمی ، ہر دیانت بد دیانتی اور ہر اتفاق بے اتفاقی پر ہی منتج ہو کر رہ جاتا ہے ( الا ماشاء اللہ ) ۔

خلیفہ راشد حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب ( المتوفی ۲۴ ھ ) نے ایک خاص موقع پر حضرت ابوعبیدہ بن الجرح رضی اللہ عنہ ( المتوفی ۱۸ ھ ) سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہی عمدہ بات ارشاد فرمائی ہے : ۔

ہم نہایت ہی ذلیل لوگ تھے سو اللہ تعالی نے ہمیں
اسلام کے ذریعے عزت بخشی ہے ہم جب بھی اس طریقے کے
علاوہ جس سے اللہ تعالی نے ہمیں عزت بخشی ہے، کسی اور
ذریعہ سے عزت حاصل کرنا چاہینگے تو اللہ تعالی
ہمیں ذلیل کرکے چھوڑیں گے (مستدرک ج ۱ ص ۶۲ قال الحاکم والذھبی صحیح علی شرطہما)​
ایک اور خاص حقیقت ہے کہ جب سے مسلمانوں نے اسلام اور اسلام کے زرین اصول اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی اور اتباع ترک کر دی ہے اسی وقت سے وہ دنیا میں ذلیل اور خوار ہو زندگی بسر کر رہے ہیں اور بجائے اوج کے حضیض سے اور بجائے عروج کے زوال سے ہمکنار ہیں

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریا نے زمین پر آسماں سے ہم کو دے مارا​
 
فطرت اللہ

سمندر کا ایک ایک قطرہ ریت کا ایک ایک ذرہ ، درختوں کا ایک ایک پتہ اور زمین اور آسمان کا ایک ایک شوشہ بزبان حال ہر باشعور کو پکار پکار کر یہ دعوت فکر دیتا ہے کہ تمھارے اپنے آقائے حقیقی کے ساتھ ایک ازلی رشتہ اور ایک ابدی علاقہ ہےجس نے تمھاری جسمانی راحت و آرام کی خاطر جو اہتمام فرمایا ہےاس سے کہیں زیادہ اس نے تمھاری کائنات روحانی کی آسائش و زیبائش کا معقول اور واضح تر انتظام کیا ہے ۔ یہ بہتے ہوئے دریا ، یہ ابلتے ہوئے چشمے ، یہ لہلہاتے ہوئے سبزے یہ چہچہاتے ہوئے پرندے ، یہ اونچی اونچی پہاڑیاں ، یہ گھنی اور گنجان جھاڑیاں ، یہ تناور اور پھل دار درخت، یہ خوش رنگ اور خوش رنگ اور خوشبو دار پھول اور پتیاں ، یہ چرند و پرند ، یہ نباتات و جمادات، یہ ارض و سماء اور یہ مادی عالم کے جملہ تغیرات ، کیا یہ دعوت نہیں دیتے کہ زندگی کا ہر ہر لمحہ میں عبد اپنے معبود کو یاد رکھے ۔ جلوت و خلوت ، ظاہر و باطن ، امارت و غربت ، کسی حالت میں بھی اس کے خیال سے غافل نہ ہو عبد منیب کا اپنے معبود حقیقی کے ساتھ یہ تعلق چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے، صحت و سقم اور سفر و حضر ہی کی کیفیات تک ہر گز محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحے اور حیات ناپائیدار و مستعار کی ہر گھڑی میں وہ اپنے معبود ہی کی بے نیازی کا اقرار کرتا ہوا آئے گا ۔ کسی آن و کسی شان میں بھی عبد مسلم کا ربط اپنے پروردگار سے ہر گز منقطع نہیں ہو سکتا ۔ بندہ اپنی بندگی اور بے چارگی کے تعلقات کو اپنے رب ذوالمنن اور اس کے الطاف و عنایات کے ساتھ وابستہ و استوار رکھنے کے بغیر بندہ کہلانے کا مستحق ہی نہیں ہو سکتا۔

بندہ کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اللہ تعالی سے خوف اور ڈر رکھنے کے باوجود بھی اس کی رحمت و رافت کی قوی امید اور اس کی نصرت و دستگیری پر کامل اعتماد اور آسرا کرے اور ہر وقت اس کی توجہ کا مرکز صرف وہی ذات کبریائی ہی ہو ۔ کھانے پینے کی کوئی مجلس ہو یا کھیل و شغل کی کوئی محفل بے تکلف احباب کی ہماہمی ہو یا اہل و عیال کی چہل پہل ، خلوت کا کوئی گوشہ تنہائی ہو یا جلوت کی رنگینی ، بازار کی کوئی رونق ہو یا حجرہ کا کوئی زاویہ خمول، میدان کارزار ہو یا شادی کی بزم ۔ کہیں بھی اس کے ہاتھوں سے اپنے معبود حقیقی کی رضا جوئی کا مضبوط اور مستحکم سر رشتہ ہر گز جدا نہیں ہو سکتا ۔ اور زندگی کے کسی لمحے میں بھی وہ اپنے معبود کی عظمت و جلالت کے خیال سے کبھی غافل نہیں رہ سکتا۔ خدا تعالی کی بندگی اور بندوں کی بے چارگی کے ان مستحکم روابط اور تعلقات کا چولی دامن کا ساتھ ہے جو کسی وقت منفک نہیں ہو سکتے۔ رب قدیر سے مناجات کرتے ہوئے عبد منیب جب فطرت کی گہرائیوں میں ڈوب کر اپنی تمام نفسیات کا جائزہ لیتا اور اپنی ذاتی زندگی کا محاسبہ کرتا ہے اور جب اس عمیق مطالعہ کے بعد اپنا سر اٹھاتا ہے تو حسب ارشاد خداوندی فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیھا ۔ اگر وہ اس فطرت سے بیگانہ نہیں ہو چکا تو وہ خدا ذوالجلال کے سامنے سر نیاز جھکا کر رقت انگیز لہجے اور محبت خیز لے میں یہ کہتا ہوا نظر آتا ہے کہ

ہمیشہ تیرے در پر ہو سر تسلیم میرا
رہے تیرے تصرف میں زبان میری قلم میرا​
 
فطرت صحیحہ تک رسائی کا طریقہ :۔ نفسانی خواہشات انسان کو انجام بینی سے روک کر تن آسانی اور راحت کا گرویدہ بنانے پر آمادہ اور مذہبی تقاضوں پر غفلت کے پردے ڈالنے میں مصروف و کوشاں رہتی ہیں ۔ اکتساب اخلاق فاضلہ ، خیر و شر کی حقیقی تمیز اور زندگی کے اعلی ترین مقصد و مرام تک پہنچنے اور ان کمالات کے حاصل کرنے سے روکتی ہیں جو مذہب پر کار بند ہو کر آنے والے سفر میں بھی رفیق سفر رہتے ہیں۔

اگر آج کوئی متنفس ایسا باقی نہ رہے جو خدائے بزرک و برتر کی رضا جوئی کے لیے اپنی جانا و مال سب کچھ قربان کر دینے پر آمادہ اور روزہ جزا کے مواخذہ سے بچنے کے لیے اپنی تمام خواہشات نفسانی اور نفس امارہ کا مقابلہ کر سکتا ہو اور اگر تمام باتوں کو جو کسی نہ کسی حیثیت سے مذہب و دین کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں ، فنا کر دیا جائے تو یہ دلفریب اور دلکش دنیا نہ صرف بے لطف و بے رونق بن جائے گی بلکہ درندوں کا جنگل وحشی جانوروں کا اکھاڑہ اور شیطانوں کی بستی بن جائے گی ۔ پس اس بات کو تسلیم کر لینے میں زرہ بھر تامل نہیں ہو سکتا کہ دنیا میں اخلاق و روحانیت تہذیب و تمدن اور تمدنی ترقیات اور عمدہ اخلاق کی بنیاد مذہب ہی نے قائم کی ہے اور مذہبیت کی عمر و نسل انسانی کی عمر سے ایک دن بھی کم نہیں ہے اور مذہب کوئی وہمی اور خیالی چیز نہیں بلکہ ایک واضح حقیقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور چیز حقیقت نہیں اور وہ ایک ایسی صداقت ہے جس سے بڑھ کر کوئی اور صداقت تصور میں نہیں آسکتی ۔ مگر یہ یاد رہے کہ مذہب سے مراد اس جگہ الہی ، الہامی اور آسمانی مذہب ہے جس میں تمام عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات ، نیز حیات بعد الممات اور اسی طرح بے شمار دیگر احکام مشرح طور پر بیان کئے گئے ہیں ۔ باقی دھرمی یا فلسفی ، محض عقلی اور خود ساختہ نظریات کو مذہب کہنا اشد غلطی ہے اور ان بے بنیاد مذاہب کو عالم انسانیت میں کبھی کوئی اہمیت حاصل ہی نہیں ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے ۔
مذہب صرف وہ ہے جو رسول اور نبی کے ذریعہ دنیا میں شائع ہوا جس کی نشر و اشاعت کے لیے بہت سے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السلام وقتا فوقتا دنیا میں مبعوث ہوتے رہے۔ جنہوں نے فطرت اللہ کے موافق نسل انسانی کی بہترین رہنمائی کی اور توجہ الی اللہ کے لیے اظہار عبودیت کے مختلف اور متنوع اعمال و اشغال بتائے اور اسی طرح فطرت انسانی کی شگفتگی کے ساتھ ہی ساتھ دین الفطرت بھی شگفتہ ہوتا گیا جن لوگوں نے عقل صحیح اور الہام ربانی سے بے نیازی برتی اور اپنے ارادہ اور اختیار کا غلط استعمال کیا تو فطرت اللہ کی تلاش میں آوارہ اور گم کردہ راہ بن کر انبیاء و ملائکہ ، جنات و بنی آدم احبار و رہبان ، چاند و سورج ، ستارے و فرضی ارواح ، دریا و پہاڑ ، درخت اور آگ وغیرہ کو معبود سمجھ کر ان کی پرستش کرنے لگے اور اب بھی مختلف ملکوں اور متعدد قوموں میں آب و تاب کے ساتھ رنگ برنگ خود ساختہ دلائل سے اس کجروی کی ترویج کی جا رہی ہے ۔ اور لوگ اس غافل ہیں

بدل کے بھیس زمانے میں آتے ہیں
اگرچہ پیر ہے آدم جواں ہے لات و منات​
 
الغرض خدا تعالی کی رضا جوئی اور فطرت اللہ کے موفق زندگی بسر کرنا الہی کے بغیر بالکل ناممکن ہے ۔ کیونکہ انسان خواہ کتنا ہی ترقی کر جائے اور اپنے علم و واقفیت کو کیسے ہی اعلی سے اعلی معیار اور مقام تک پہنچائے پھر بھی وہ بغیر امداد خداوندی اور وحی الہی کے اور بدون رہبری رسول اور راہ نمائی دینی کے نہ تو اپنی سعادت اور نجات اخروی کے طریقوں سے واقف ہو سکتا ہے اور نہ نیکی اور بدی کا پورا تعین کر سکتا ہے اس لیے اللہ تعالی نے انبیاء کرام اور ہادیان بر حق علیہم السلام کے ذریعہ انسان کو توجہ دلائی ہے کہ تمھاری جسمانی پیدائش ، بدنی پرورش اور روحانی تربیت کے تمام سامانوں کا پیدا اور مہیا کرنے والا صرف تمھارا حقیقی پروردگار ہے اور اس کی ربوبیت کے بغیر نہ تو تمھارا وجود ممکن ہے اور نہ تمھاری روحانی ترقی اور مقصد حیات سے ہمکنار اور فائز المرام کرنے کا کوئی اور موجب ہے ۔ اللہ تعالی نے ان ہادیان بر حق کو تعلیم ربانی پیش کرنے کا نہایت مدلل و پر اثر و دل نشین اور یقین آور ملکہ عطا فرمایا جس سے جاہل و عالم دیہاتی و شہری نوجوان و بوڑھا مرد و عورت ، عرض ہر طبقہ اور ہر حیثیت کا آدمی یکساں متاثر و مستفید ہوتا رہا اور اب بھی مستفیض ہو سکتا ہے ۔

انوار نبوت سے اب تک دن رات میں اک تابانی ہے اے مہر درخشاں کیا کہنا اے شمع شبستاں کیا کہنا

اور ان سب کے بعد اللہ تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کامل و مکمل دین ، ناقابل ترمیم و تنسیخ شریعت اور معراج کمال تک پہنچانے والا بہترین اسوہ حسنہ دے کر مبعوث فرمایا ۔ جو تمام عالم کی ہدایت اور رہبری کے لیے بھیجے گئے۔

چونکہ آپ وحی الہی کے مہبط اور خداوند تعالی کے مخاطب اور احکام خداوندی کے سب سے پہلے تعمیل کنندہ اور سب سے زیادہ اللہ تعالی کی رضا مندی کے خواہاں اور سب سے بڑھ کر حق تعالی کے فرمانبردار اور مطیع تھے اور خدا تعالی نے آپ کو لوگوں کے لیے مکمل نمونہ بنا کر مبعوث فرمایا تھا، لہذا وہی سب سے بہتر وحی الہی کے منشا و مراد کو سمجھنے اور سمجھانے والے تھے اور اسی لیے آپ کی اطاعت عین خدا تعالی کی اطاعت ہے ، اور آپ ہی کے مکمل نمونے کی پیروی سے دین حق دنیا میں قائم ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ایک حکم دین کے معاملے میں ایسا ہی واجب التعمیل اور ضروری ہے جیسا کہ خدا تعالی کا حکم اور ظاہر ہے کہ آپ کا ہر حکم خدا تعالی ہی کے منشاء کے ماتحت ہوتا تھا ۔ خدا تعالی کے حکم کے خلاف آپ کسی کو کوئی حکم نہیں دیتے تھے۔ اگر کسی موقع پر آپ سے کوئی اجتہادی لغزش سرزد ہوتی تھی تو اللہ تعالی تنبیہ نازل فرما کر اصلاح فرما دیا کرتا تھا ۔ اور اس لغزش پر آپ کو ہر گز برقرار نہیں رکھا جاتا تھا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے احکام کو جو قرآن کریم کے سوا ہیں ، وحی خفی اور حدیث کہتے ہیں ۔ اور یہ ایک واشگاف حقیقت ہے کہ صحیح وحی خفی اور حدیث یقینا وحی جلی اور قرآن کریم ہی کی تفسیر اور اس کی تشریح ہے ، اس کی مخالف ہر گز نہیں ۔
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کا حکم دیا گیا اور آپ کی نافرمانی سے منع کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ امت کے لیے آپ بہترین نمونہ ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : ۔
من یطع الرسول فقد اطاع اللہ ( پارہ ۵ ۔ النساء ۔ ۱۱)
جس نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اس نے اللہ ہی کی اطاعت کی۔

نیز فرمایا کہ : ۔

قل ان کنتم تحبون اللہ فاتبعونی یحببکم اللہ ( پارہ ۳۔ آل عمران ۔ ۴ )
اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ لوگوں سے کہہ دیجیے کہ اگر تم
اللہ تعالی سے محبت کرنا چاہتے ہوں تو تم میری اتباع کرو اللہ تعالی
بھی تم سے محبت کرے گا ۔
اور ایک جگہ یوں ارشاد فرمایا : ۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ ( پارہ ۲۱ ۔ احزاب ۔ ۳ )
مسلمانو! تمھارے واسطے جناب رسول اللہ کا طرز عمل
پیروی کے لیے بہترین نمونہ ہے​
۔

عرض کہ جیسے آپ کی ہستی مخلوق خدا میں سب سے اعلی و ارفع ہے اس طرح آپ کا اسوہ حسنہ بھی بے مثل ۔ اور بے نظیر ہے جس کا تمام عالم میں کوئی بدل نہیں ہے

شراب خوشگوارم مست دیار مہربان ساقی
ندارد ہیچکس یارے چنیں یارے کہ من دارم !​

جس طرح قرآن کریم میں آپ کی اطاعت اور اتباع کو امت کے لیے لازم قرار دیا گیا ہے اور تمام امت پر آپ کے عمدہ ترین اسوہ حسنہ کی پیروی ضروری بتائی گئی ہے ۔
اس طرح خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیاں الفاظ میں یہ ارشاد فرمایا ہے کہ : ۔
لا یؤمن احدکم حتی یکون ھواہ بتعا لما جئت بہ
رواہ فی الشرح السننۃ و قال النووی فی اربعینہ ھذا
ھذا حدیث صحیح ( مشکوۃ ج ۱ ص ۳۰ )
تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا
تا وقت یہ کہ اس کی خواہش میری خواہش کے
تابع نہ ہو۔​

اور پروردگار عالم نے قسم اٹھا کر یہ حکم بیان کیا ہے کہ تیرے رب کی کی ( یعنی مجھے اپنی ذات کی ) قسم کہ یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے تا وقت یہ کہ آپ کی ہر بات اور ہر معاملہ میں اپنا فیصل اور حکم تسلیم نہ کریں اور پھر دل میں ذرہ بھر تنگی محسوس نہ کریں اور پھر دل میں ذرہ بھر تنگی محسوس نہ کریں اور آپ کے حکم کے سامنے گردن تسلیم خم نہ کریں ۔ فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک الایۃ ۔ اس کے بعد بھی اگر کسی آبلہ فریب کو یہ مغالطہ ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور آپ کی اطاعت اور اتباع ہمارے لیے لازم اور ملزم نہیں اور آپ کی ارشادات کی حیثیت محض تاریخی واقعات کی سی ہے جن کی انکار سے کفر لازم نہیں آتا تو اس ہٹ دھرمی کا علاج یہاں نہیں بلکہ کسی اور جہاں ہی میں ہو سکتا ہے اور خود حالات اس کو بتائیں گے کہ دار فانی میں اس کا کن سے عشق و پیار تھا اور دنیا میں اس نے کیا کمایا اور کیا کھویا ۔
بوقت صبح شود ، ہمچو روز معلومت
کہ باکہ باختہ عشق در شب دیجور​
 
اسوہ حسنہ کی جامعیت :
دنیا میں جتنے رسول اور نبی تشریف لائے ہیں ہم ان سب کو سچا مانتے ہیں اور ان پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور ایسا کرنا ہمارے فریضہ اور عقیدہ میں داخل ہے ۔ لانفرق بین احد من رسولہ ۔ مگر اس ایمانی اشتراک کے باوجود بھی ان میں سے ہر ایک میں کچھ ایسی نمایاں خصوصیات اور کچھ جدا گانہ کمالات و فضائل ہیں جن کو تسلیم کئے بغیر ہر گز کوئی چارہ کار نہیں ہے مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جتنے انبیا و رسل علیہم السلام تشریف لائے ہیں تو ان سب کی دعوت کسی خاص خاندان اور کسی خاص قوم سےمخصوص رہی، حضرت نوح علیہ السلام تشریف لائے تو اپنی ہی قوم تک محدود رکھا ۔ حضرت ہود علیہ السلام جلوہ افروز ہوئے تو فقط قوم عاد کو خطاب کیا۔ حضرت صالح علیہ السلام مبعوث ہوئے تو محض قوم ثمود کی فکر لے کر آئے ۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام اپنی قوم کے پیغمبر تھے ۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لیے بھیجے گئے تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام تو بس بنی اسرائیل کی کھوئی بھیڑوں کی تلاش اور سراغ میں نکلے تھے۔ جب غیروں نے ان کی روحانی کمالات سے استفادہ کرنے کی اپیل کی تو اس نے جواب میں کہا ۔ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں ( انجیل متی ، باب ۱۵ ، آیت ۲۶ )
یہی وجہ تھی کہ ان پیغمبروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنی قوم سے باہر نظر نہیں ڈالی لیکن جب رحمت خداوندی کی وہ عالمگیر گھٹا جو فاران کی چوٹیوں سے اٹھی تھی جس سے انسانیت و شرافت ، دیانت و امانت، عدل و انصاف و تقویٰ و ورع کی مرجھائی ہوئی کھتیاں پھر سے سرسبز و شاداب ہو کر لہلہا اٹھیں ۔ وہ قوم و جماعت ، ملک و زمین ، مشرق و مغرب شمال و جنوب اور بر و بحر کی تمام قیدوں اور پابندیوں سے بالکل آزاد تھی ۔ وہ بلا امتیاز وطن و ملت ، بلا تفریق نسل و خاندان، بدوں تمیز رنگ و خون بغیر لحاظ سیاہ و سفید اور بے اعتبار حسب و نسب تا قیامت پوری نسل انسانی کے لیے رحمت مہداۃ بن کر نمودار ہوئی اور رب ذوالاحسان نے خود آپ ہی کی زبان فیض رساں سے یہ اعلان کروایا کہ : ۔
قل یاایھاالناس انی رسول اللہ الیکم جمیعاً( پارہ ۹ اعراف ، ع ۱۹ )
آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بے شک میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں ۔
وہ ابر کرم اٹھا تو فاران کی چوٹیوں سے ، مگر سب روئے زمین پر پھول برساتا اور مژدہ جانفزا سناتا ہوا چھا گیا اور پوری دھرتی کے چپہ چپہ پر خوب کھلکھلا کر برسا دشت و صحرا نے اس سے اسودگی حاصل کی ۔ بحر و بر اس سے سیراب ہوئے چمنستانوں نے اس سے رونق پائی اور ویرانوں کو اس کی فیض پاشی نے لعل و گوہر سے معمور کر دیا ۔ اہل عرب اس سے مستفید ہوئے باشد گان عجم نے اس سے اکتساب فیض کیا ۔ یورپ نے اس کی خوشہ چینی کی اور ایشیا اس کا گرویدہ بنا ۔ دنیا کے تمام گمراہوں کو وادی ضلالت سے نکالنے کی اس نے راہ نمائی کی ۔ اور آوار گان دشت غوایت کی رہبری کی ۔ اور نسل انسانی کی سب مایوس مریضوں اور ہر قسم کی نا امید بیماروں کو زود اثر تریاق اور نسخہ شفا بخشا۔
اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا !
اور اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا​
 
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت صرف نسل انسانی ہی کے لیے نہیں بلکہ جنات بھی اس امر کے مکلف اور پابند ہیں کہ آپ کی نبوت و رسالت کا اقرار کر کے آپ کی شریعت پر عمل پیرا ہو کر اللہ تعالی کی خوشنودی اور نجات اخروی تلاش کریں ۔ ثقلین ( انس و جن ) کا مکلف ہونا نیز جنات کا قرآن کریم کو غور و فکر سے سن کر اس پر ایمان لانا اور پھر جا کر اپنی قوم کو تبلیغ کرنا قرآن مجید میں مصرع ہے اور عالمین کے مفہوم میں جنات بھی شامل ہیں اور قرآن کریم میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو تمام جہانوں کے لیے نذیر بنا کر بھیجا گیا : ۔ لیکون للعلمین نذیرا ۔ اور خود جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ۔
ارسلت الی الاحمر ولاسوہ قال
مجاہد رحمہ اللہ الانس والجن
(مستدرک جلد ۲ ص ۴۲۴
الحاکم والذھبی رحہم اللہ علی شرطہما)
مجھے سرخ اور سیاہ کا رسول بنا کر بھیجا
گیا ہے حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ
کہ سرخ سے انسان اور سیاہ سے جن مراد ہیں ۔
جو مکارم اخلاق آپ کو خلاق کونین کی طرف سے مرحمت ہوئے تھے اور جن کی تکمیل کے لیے آپ کو اس دنیا میں بھیجا گیا تھا وہ مکلف مخلوق کی فطرت کے جملہ مقتضیات کے عین مطابق تھے اور جن کا مقصد صرف یہی نہ تھا کہ ان کے ذریعہ روحانی مریضوں کو ان کے بستروں سے اٹھا دیا جائے بلکہ یہ بھی تھا کہ اٹھنے والوں کو چلایا جائے اور چلنے والوں کو بسرعت دوڑایا جائے اور دوڑنے والوں کو روحانی کمال اور اخلاقی معراج کی غایتہ قصوی تک اور سعادت دنیوی ہی نہیں بلکہ سعادت دارین کی سدرۃ المنتہی تک پہنچایا جائے اور ان کا خوان نعمت فقط مریضوں کے لیے قوت بخش اور صحت افزا نہ ہو بلکہ تمام مکلف مخلوق کی اصل فطری اور روحانی لذیز غذا بھی ہو اور آپ کے مکارم اخلاق اور اسوہ حسنہ نے وہ تمام ممکن اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ خلق عظیم کی بلند اور دشوار گزار گھاٹی پر چڑھنا آسان اور سہل ہو گیا ہے ۔ آپ کی بعثت کے اعراض و مقاصد میں سے ایک اہم مقصد یہ بھی تھا جیسا کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ :۔
انما بعثت لاتم صالح الاخلاق و فی
روایۃ مکارم الاخلاق ( قال الشیخ حدیث
صحیح۔ السراج المنیر ج ۲ ص ۴۷ )
مجھے تو اس لیے مبعوث کیا گیا ہے تاکہ
میں نیک خصلتوں اور مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔

اور یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جس طرح دیگر انبیاء علیہم السلام خاص خاص جماعتوں اور مخصوص قوموں کے لیے مصلح اور پیغمبر تھے، اسی طرح ان کی روحانیت اور اخلاقی آئینے بھی خصوصی صفات اور اصناف کے مظہر تھے ۔ مثلاً حضرت نوح علیہ السلام مجرم اور نافرمان قوم کی نجات کے لیے باوجود قوم کے ایذا رسانی کے سعی اور بلیغ کی زندہ یاد گار تھے۔ اور حضرت ابراھیم علیہ السلام اخلاص اور قربانی کی مجسم مثال تھے کہ انہوں نے اپنے اکلوتے اور عزیز ترین لخت جگر کو خدا تعالی کی خوشنودی اور رضا جوئی کے لیے اپنی طرف سے ذبح کر ہی ڈالا اور اس کی حکم کی تعمیل میں کسی قسم کی کوتاہی اور کمزوری نہ دکھائی جس کی ایک ادنی اور معمولی سی برائے نام نقل آج بھی ہر صاحب استطاعت مسلمان اتارتا اور سنۃ ابیکم ابراھیم کی پیروی کرتا ہوا نظر آتا ہے یہ جدا بات ہے کہ : ۔
تیری ذبح ذبح عظیم کی ہو مثیل کیوں کر خلوص میں
نہ خلیل کا سا ہے دل تیرا نہ ذبیح کا سا گلا تیرا​

حضرت ایوب علیہ السلام صبر و رضا کے پیکر تھے، مصائب و آلام کے بے پناہ سیلاب بہہ گئے مگر وہ مضبوط پہاڑ کی طرح اپنی جگہ ثابت رہے، حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی جرات حق کا ایک اعلی نمونہ تھی ، کہ فرعون جیسے جابر اور مطلق العنان بادشاہ کے دربار میں ساون کے بادلوں کی طرح گرج اور صاعقہ آسمانی کی طرح کڑک کر تہلکہ ڈال دیتے تھے ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی صبر آزما حیات یاد گار دہر تھی ۔ کہ اپنے ہی بیٹوں کے ہاتھ سے پیارے یوسف علیہ السلام کے سلسلے میں اذیت اور دکھ اٹھا کر فصبر جمیل فرما کر خاموش ہو گئے اور اندر ہی اندر آنسوؤں کے طوفان موجیں مارتے ہوئے ساحل امید سے ٹکراتے رہے اور ناامیدی کو قریب نہیں آنے دیا کہ :
نگاہ لطف کے امیدوار ہم بھی ہیں۔​
حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت مآب زندگی پاکدامن نوجوان کے لیے باعث صد افتخار ہے کہ انہوں نے امراۃ عزیز کی تمام مکاریوں اور حیلہ جوئیوں کی استحواں شکن زنجیروں کی ایک ایک کڑی کو معاذ اللہ فرماتے ہوئے پاش پاش کردیا۔
حضرت داؤد اور حضرت سیلمان علیہما السلام کی شاہانہ زندگی ان سب سے نرالی تھی کہ قبائے سلطنت اور عبائے خلافت اوڑھ کر مخلوق خدا کے سامنے ظہور پذیر ہوئے اور اس طریقے سے عدل و انصاف کے مطابق ان کی خدمت کا عمدہ فریضہ انجام دیا۔
حضرت عیسی علیہ السلام توکل و قناعت ، زہد و خود فراموشی کی ایک پوری کائنات تھے کہ زندگی بھر سر چھپانے کے لیے ایک جھونپڑی بھی نہیں بنائی اور فرمایا " اے لوگوں ! یہ کیوں سوچتے ہو کہ کیا کھاؤ گے ؟ فضا کی چڑیوں کے لیے کاشتکاری کون کرتا ہے ؟ اور ان کے منہ میں خوراک کون ڈالتا ہے ؟ ۔۔ اے لوگوں ! تمھیں اس کا کیا فکر ہے اور تم یہ کیوں سوچتے ہو کہ کیا پہنوں گے ؟ جنگل کی سوسن کو اتنی دیدہ زیب پوشاک اور خوبصورت لباس کون پہناتا ہے ؟
یہ تمام بزرگ اور مقدس ہستیاں اپنے اپنے وقت پر تشریف لائیں اور بغیر حضرت مسیخ علیہ السلام سب دنیا سے رخصت ہو گئیں لیکن جب قصر نبوت اور ایوان رسالت کی آخری اینٹ کا ظہور ہوا جس کی انتظار میں دہر کہن سال نے ہزاروں برس صرف کر دئیے تھے ۔ آسمان کے ستارے اسی دن کے شوق میں ازل سے چشم براہ تھے ۔ ان کے استقبال کے لیے لیل و نہار بے شمار کروٹیں بدلتے رہے ۔ ان کی آمد سے محض کسرٰی کے محل کے چودہ کنگرے ہی نہیں بلکہ رسم عرب ، شان عجم ، شوکت روم فلسفہ یونان اور اوج چین کے قصر ہائے فلک بوس گر کر آن واحد میں پیوند زمین ہو گئے ، تو پورے کرہ ارض کے لیے ایک عالمگیر سعادت اور ہمہ گیر رحمت لے کر آئی۔ آپ کا وجود مقدس روحانیت کے تمام اصناف کی ایک خوشنما کائنات ، اخلاق حسنہ کی ایک دلآویز جاذبیت ، اور رنگ برنگ گل ھائے اخلاق کا ایک پورا چمنستان تھا ۔ امت مرحومہ کے لیے حضرت نوح علیہ السلام کی دلسوزی ، حضرت ابراھیم علیہ السلام کی خلت ، حضرت ایوب علیہ السلام کا صبر ، حضرت داؤد علیہ السلام کی مناجات ، حضرت موسی علیہ السلام کی جرات ، حضرت ہارون علیہ السلام کا تحمل ، حضرت سیلمان علیہ السلام کی سلطنت ، حضرت یعقوب علیہ السلام کی آزمائش ، حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت ، زکریا علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی تقرب الہی کے لیے گریہ و زاری اور حضرت مسیح علیہ السلام کا توکل ۔ یہ تمام منتشر اوصاف آپ کے وجود مسعود میں سمٹ کر جمع اور یکجا ہو چکے تھے ۔ سچ ہے کہ ۔
حسن یوسف دم عیسی ید بیضا واری
آنچہ خوباں ہمہ واند تو تنہا واری​
عرض کہ دیگر انبیاء کرام علیہ السلام میں سے ہر ایک کی زندگی خاص خاص اوصاف میں نمونہ اور اسوہ تھی ۔ مگر سرور دہ جہان صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلی و ارفع زندگی تمام اوصاف و اصناف میں ایک جامع زندگی ہے ۔
آپ کی سیرت مکمل اور آپ کا اسوہ حسنہ ایک کامل ضابطہ حیات اور دستور ہے۔ اس کے بعد اصولی طور پر کسی اور چیز کی سرے سے کوئی حاجت ہی باقی نہیں رہ جاتی اور نہ کسی اور نظام و قانون کی ضرورت ہی محسوس ہو سکتی ہے
سب کچھ خدا سے مانگ لیا تجھ کو مانگ کر
اٹھتے نہیں ہیں ہاتھ مرے اس دعا کے بعد​
اگر آپ بادشاہ اور سربراہ مملکت ہیں تو شاہ عرب اور فرماں روائے عالم کی زندگی آپ کے لیے نمونہ ہے ۔ اگر آپ فقیر و محتاج ہیں تو کمبلی والے زندگی آپ کے لیے اسوہ حسنہ ہے ، جنہوں نے کبھی دقل ( ردی قسم کے کھجوریں) بھی پیٹ بھر کر نہ کھائیں ۔ اور جن کی چولہے میں بسا اوقات دو دو ماہ تک آگ نہیں جلائی جاتی تھی۔
اگر آپ سپہ سالار اور فاتح ملک ہیں تو بدر و حنین کے سپہ سالار اور فاتح مکہ کی زندگی آپ کے لیے ایک بہترین سبق ہے جس نے عفو و کرم کے دریا بہا دئیے تھے۔
اور لا تثریب علیکم الیوم کا خوش آئند اعلان فرما کر تمام مجرموں کو آن واحد میں معافی کا پروانہ دے کر بخش دیا تھا ۔
اگر آپ قیدی ہیں تو شعب ابی طالب کے زندانی کی حیات آپ کے لیے درس عبرت ہے ۔ اگر آپ تارک دنیا ہیں تو غار حرا کے گوشہ نشین کی خلوت آپ کے لیے قابل تقلید عمل ہے ۔
اگر آپ چرواہے ہیں تو مقام اجیاد میں آپ کو چند قراریط ( ٹکوں ) پر اہل مکہ کی بکریاں چراتے دیکھ کر تسکین قلب حاصل کر سکتے ہیں ۔
اگر آپ معمار ہیں تو مسجد نبوی کے معمار دیکھ کر ان کی اقتداء کر کے خوشی محسوس کر سکتے ہیں ۔ اگر آپ مزدور ہیں تو خندق کے موقع پر اس بزرگ پھادڑا لے کر مزدوری کی صف میں دیکھ کر اور مسجد نبوی کے لیے بھاری بھر کم وزنی پتھر اٹھا اٹھا کر لاتے ہوئے دیکھ قلبی راحت حاصل کر سکتے ہیں ۔
اگر آپ مجرد ہیں تو اس پچیس سالہ نوجوان کی پاکدامنی اور عفت مآب زندگی کی پیروی کر کے سرور قلب حاصل کر سکتے ہیں جس کو کھبی کسی بدترین دشمن نے بھی داغدار نہیں کیا اور نہ کبھی اس کی جرت کی ہے۔
اگر آپ عیال دار ہیں تو آپ متعدد ازواج مطہرات کے شوہر کو انا خیر کم لاھلی فرماتے ہوئے سن کر جذبہ اتباع پیدا کر سکتے ہیں ۔
اگر آپ ماں باپ کے اکیلے بیٹے ہیں اور بہنوں اور بھائیوں کے تعاون و تناصر سے محروم ہیں تو حضرت عبداللہ کے اکلوتے بیٹے کو دیکھ کر اشک شوئی کر سکتے ہیں ۔
اگر آپ باپ ہیں تو حضرت زنیب رضی اللہ عنہا ، رقیہ، ام کلثوم ، فاطمہ رضی اللہ عنہنا ، قاسم رضی اللہ عنہ اور ابراھیم (وغیرہ ) کے شفیق باپ کو ملاحظہ کر کے پدرانہ شفقت پر آمادہ ہو سکتے ہیں ۔ اگر آپ تاجر ہیں تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے تجارتی کاروبار میں آپ کو دیانتدارانہ سعی کرتے ہوئے معائنہ کر سکتے ہیں ۔
اگر آپ عابد شب خیز ہیں تو اسوہ حسنہ کے مالک متورم قدموں کو دیکھ کر اور افلا اکون عبدا شکورا فرماتے ہوئے آپ کی اطاعت کو ذریعہ تقرب خداوندی اختیار کر سکتے ہیں ۔
اگر آپ مسافر ہیں تو خیبر و تبوک وغیرہ کے مسافر کے حالات پڑھ کر طمانیت قلب کا وافر سامان مہیا کر سکتے ہیں ۔

اگر آپ امام اور قاضی ہیں تو مسجد نبوی کے بلند رتبہ امام اور فصل خصومات کے لیے بے باک اور منصف مدنی جج کو بلا امتیاز قریب و بعید اور بغیر تفریق قوی و ضعیف فیصلہ صادر فرماتے ہوئے مشاہدہ کر سکتے ہیں اور اگر آپ قوم کے خطیب ہیں تو خطیب اعظم کو منبر پر جلوہ افروز ہو کر بلیغ اور مؤثر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے اور غافل قوم کو انا نذیر العریان فرما کر بیدار کرتے ہوئے ملاحظہ کر سکتےہیں ۔ الغرض زندگی کا کوئی قابل قدر اور مستحق توجہ پہلو اور گوشہ ایسا باقی نہیں رہ جاتا جس میں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی معصوم اور قابل اقتدا زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ، عمدہ ترین اسوہ اور اعلی ترین معیار نہ بنتی ہو۔

پس اس وجود قدسی پر لاکھوں بلکہ کروڑوں درود وسلام ، جس کے وجود مسعود میں ہماری زندگی کے تمام پہلو سمٹ کر آجاتے ہیں اور ہماری روح کا ایک ایک گوشہ عقیدت و اخلاص کے جوش سے معمور ہو جاتا ہے جب ہم یہ خیال کرتے ہیں کہ دنیا کے لعل و گوہر کا جو پائدار خزانہ ارض و سماء اور بحر و بر چھان ڈالنے کے بعد بھی کسی قیمت پر جمع نہیں ہو سکتا تھا وہ انمول خزانہ امت مرحومہ کو اپنے پیارے نبی کے اسوہ حسنہ ، اپنے برگزیدہ رسول کی سنت صحیحہ اور اپنے رسول کے معدن حدیث کی ایک ہی کان اور معدن سے فراہم ہو گیا ہے ۔ اور قرآن کریم کے بعد ہماری تمام بیماریوں کو مداوا حدیث پاک میں علی وجہ الاتم موجود ہے
اصل دین آمد کلام اللہ معظم داشتن پس حدیث مصطفی برجاں مسلم داشتین​
 
فتنہ انکار حدیث:۔

مذہبی لحاظ سے سطح ارضی پر اگرچہ بے شمار فتنے رونما ہو چکے ہیں ۔ اب بھی موجود ہیں اور تا قیامت باقی رہیں گے ۔ لیکن فتنہ انکار حدیث اپنی نوعیت کا واحد فتنہ ہے باقی فتنوں سے تو شجرہ اسلام کے برگ و بار کو ہی نقصان پہنچتا ہے لیکن اس فتنہ سے شجرہ اسلام کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں اور اسلام کا کوئی بدیہی سے بدیہی مسئلہ بھی ثابت نہیں ہو سکتا۔
اس عظیم فتنہ کے دست برد سے عقائد و اعمال ، اخلاق و معاملات ، معیشت و معاشرت اور دنیا و آخرت کا کوئی اہم مسئلہ بھی محفوظ نہیں رہ سکتا حتی کہ قرآن کریم کی تفسیر اور تشریح بھی کچھ کی کچھ ہو کر رہ گئی ہے ۔ اور اس فتنہ نے اسلام کی بساط کہن الٹ کر رکھ دی ہے جس سے اسلام کا نقشہ ہی بدل چکا ہے ، سچ ہے ۔

ستم کیشی کو تیری کوئی پہنچا ہے نہ پہنچے گا
اگرچہ ہو چکے ہیں تجھ سے پہلے فتنہ گر لاکھوں​

نزول وحی کے زمانے سے لیکر تقریباً پہلی صدی تک صحیح احادیث کو بغیر کسی تفصیل کے متفقہ طور پر حجت سمجھا جاتا تھا اور حسب مراتب عقائد و اعمال اور اخلاق و معاملات وغیرھا میں قرآن کریم کے بعد احادیث صحیحہ سے بلا چون و چرا استدلال و احتجاج درست سمجھا جاتا اور احادیث کو دینی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا ۔ حتی کہ بعض فتنہ گر اور خواہش زدہ فرقے ظاہر ہوئے جن میں پیش پیش معتزلہ تھے۔ جن کا پیشوا اول واصل بن عطاء المتولد ۸۰ ھ تھا ۔ جن کے نزدیک دلائل و براہین کی مد میں ایک سب سے بڑا معیار و مقیاس عقل بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے راحت قبر و عذاب قبر ، حشر و نشر کے بعض حقائق ، رؤیت باری تعالی ، شفاعت ، صراط و میزان اور جنت و دوزخ وغیرہ وغیرہ کے بہت سے حقائق ثابتہ اور کیفیات کو اپنی عقل نارسا کی زنجیروں میں چکڑ کر اپنی خام عقل کی ترازو سے تولنا چاہا اور راہ راست سے بھٹک کر ورطہ ضلالت میں اوندھے منہ گر پڑے اور اس سلسلے میں وارد شدہ تمام احادیث کو ناقابل اعتبار قرار دے یوں گلوں خلاصی کی ناکام اور بے جا سعی کی ۔ اور جن کا آسانی سے انکار نہ کر سکے ان کے نہایت ہی لچر اور رکیک تاویلات شروع کر دیں تا آنکہ بعض قرآنی حقائق اور نصوص قطعیہ بھی ان کی دورازکار اور لاطائل تاویلات سے محفوظ نہ رہ سکے جو بزبان حال ان کی اس تحریف کی وجہ سے ان پر لعنت کا تحفہ بھیجتے ہیں۔
معتزلہ اور ان کے بہی خواہوں کے علاوہ باقی اسلامی ( یا منسوب بہ اسلام ) فرقے صحیح احادیث کو برابر حجت تسلیم کرتے رہیں ہیں ۔ چنانچہ مشہور محدث حافظ ابن حزم رحمہ اللہ ( لمتوفی ۴۵۶ ھ ) تحریر فرماتے ہیں کہ اہل سنت ، خوارج ، شیعہ ، اور قدریہ تمام فرقے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ان احادیث کو جو ثقہ راویوں سے منقول ہوں ، برابر حجت تسلیم کرتے رہے ، یہاں تک کہ پہلی صدی کے بعد متکلمین معتزلہ آئے اور انہوں نے اس اجماع کے خلاف کیا ( الاحکام جلد ۱ ص ۱۱۴ لابن حزم رحمہ اللہ ) اس کے بعد یہ مہلک فتنہ رفتہ رفتہ اپنا نطاق اور حلقہ وسیع کرتا چلا گیا اور بہت سے بند گان خواہشات و اہوا اس فتنہ کے دام ہمرنگ زمین میں الجھ کر رہ گئے۔ اور یوں اپنی عاقبت برباد کر دی نعوذ باللہ من سوء العاقبۃ ۔
کتابی شکل میں اس خبیث فتنہ کی خبر سب سے پہلے مقتداء اہلسنت حضرت امام شافعی رحمہ اللہ ( المتوفی ۲۰۴ ھ ) ا نے اپنے رسالہ اصول فقہ میں لی ہے جو ان کی مشہور کتاب الام کی ساتویں جلد کے ساتھ منضم اور بہت مفید اور مدلل رسالہ ہے ۔

حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ( المتوفی ۲۴۱ ھ ) نے بھی اطاعت رسول کے اثبات میں ایک کتاب لکھی اور قرآن و حدیث سے مخالفین کی خوب و معقول تر دید کی ہے جس کا کچھ حصہ حافظ ابن القیم رحمہ اللہ ( المتوفی ۷۵۱ ھ ) نے اپنی تالیف اعلام الموقعین ( جلد ۲ ص ۲۱۷ ) میں نقل کیا ہے ۔

علماء اہل مغرب میں سے شیخ الاسلام ابو عمر ابن عبد البر رحمہ اللہ ( المتوفی ۴۶۳ ھ ) نے اپنی شہرہ آفاق کتاب جامع بیان العلم وفضلہ میں اس فرقے کے بعض باطل و حیا سوز نظریات کی دھجیاں فضائے آسمان میں بکھیری ہیں ۔ ایسے ہی بعض بد باظن اور زائعین سے امام حاکم رحمہ اللہ ( المتوفی ۴۰۵ ھ ) کو بھی سابقہ پڑا تھا ۔ جن کی شکایت انہوں نے مسدرک جلد ۱ ص ۳ میں کی ہے ۔ کہ وہ روات حدیث پر سب و شتم کرتے اور ان کو مورد طعن قرار دیتے ہیں اور علامہ حزم رحمہ اللہ نے الاحکام میں اس باطل گروہ کا سد خیالات کے بخیئے ادھیڑے ہیں اور ٹھوس عقلی اور نقلی دلائل سے ان کا خوب رد کیا ہے ۔ اور امام غزالی رحمہ اللہ ( المتوفی ۵۰۵ ھ ) نے اپنی معروف تصنیف المصطفیٰ میں اس گمراہ طائفہ کے مزعوم دلائل کے تار د پود بکھیر کر رکھ دئیے ۔ اور عقلی دلائل کے بے پناہ سیلاب میں اس گمراہ کن ٹولہ کے خود ساختہ براہین کو خس و خاشاک کی طرح بہا دیا ہے ۔ حافظ محمد بن ابراھیم وزیر یمانی رحمہ اللہ (المتوفی ۸۴۰ ھ ) نے اس حزب باطل کی تردید میں اپنی انوکھی تالیف الروض الباسم میں کافی وزنی اور ٹھوس دلائل پیش کئے ہیں ۔ اور حضرت امام سیوطی رحمہ اللہ ( المتوفی ۹۱۱ ھ ) نے بھی اس ناپاک فرقہ کی مفتاح الجنۃ فی الاحتجاج بالسنۃ میں خوب تردید کی ہے اور دین قویم کی حفاظت کا حق ادا کیا ہے ۔ ان کے علاوہ بھی متعدد علمائے حق نے حدیث کے حجت ہونے اور نہ ہونے کی مثبت اور منفی پہلو پر سیر حاصل بحث کی ہے ۔ اور اس باطل اور گمراہ کن نظریہ کی کہ " حدیث حجت نہیں ہے "۔ اچھی خاصی تردید کی ہے ۔ اور معقول و مبنی بر انصاف دلائل کے ساتھ حق اور اہل حق کی طرف سے مدافعت کی ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر دور میں باطل کے مقابلہ میں حق تعالی نے کچھ ایسے نفوس قدسیہ پیدا کیے ہیں جن کی علمی و عملی ، اخلاقی و روحانی زندگی حق پسند لوگوں کے لیے مشعل راہ اور مخالفین کے باطل خیالات کے لیے سد سکندری بنتی رہی ہے۔ جن کے قلموں اور زبانوں نے تلواروں اور نیزوں کی طرح باطل پرستوں کے پیش کردہ دلائل کو مجروح کر کے رکھ دیا ہے ۔ اور قبائے باطل کے ایسے بخیئے ادھیڑے ہیں کہ تمام رفوگر مل کر بھی ان کو جوڑنے سے رہے ۔ سچ ہے لگل فرعون موسی علامہ اقبال کی زبان سے

شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو​
دور حاضر کے منکرین حدیث
اگرچہ دور حاضر کے منکرین حدیث مختلف طبقات اور متعدد افکار و نظریات میں بٹے ہوئے ہیں اور انکار حدیث کے کچے دھاگے کی بودی لڑی میں منسلک ہونے کے باوجود بھی بجائے ایک دوسرے کے نظریات اور افکار میں قریب ہونے کے بعید تر ہیں [arabic]تحسبھم جمیعا و قلوبھم شتی ۔[/arabic] ان تمام کے نظریات اور افکار اور عقائد و اخلاق کا بتانا اور مسلمانوں کے سامنے پیش کرنا تو ہمارے حیطہ امکان سے بالکل باہر ہے اور بغیر اس کے مسلمان ان کے باطل نظریات کو پڑھ کر لاحول پڑھ کر داد تحسین دیں اور ان سے نفرت کا اظہار کریں ۔ اور فائدہ بھی بھلا کیا ہو سکتاہے ؟ مگر مثال مشہور ہے کہ [arabic]مالا یدرک کلہ لا یدرک کلہ [/arabic]۔

ہم ان میں سے بعض چیدہ چیدہ حضرات کے ( جو بزعم خود اور بخیال اتباع و اذناب آنہا بڑے محقق مدقق صاحب علم اور اہل قلم ہیں ) چند عقائد و اقوال اور نظریات و افکار خود انہیں کی عبارات اور تحریرات سے بقید کتاب و صفحہ پیش کرتے ہیں تاکہ مسلمان ان کے خیالات اور رحجانات سے قدرے واقف و آگاہ ہو جائے اور ان کو بھی دعوت الی القرآن کے نظر بظاہر دلاویز اور خوشنما مگر درحقیقت حد درجہ مہلک پروگرام کا علم ہو جائے جو" کلمۃ الحق ارید بہا الباطل " کا مصداق ہے اور صرف ان قال ہی نہیں بلکہ قال سے گزر کر ان کے کچھ عقائد و نظریات کا حال بھی
خود ان کی زبانی معلوم ہو جا ئے کیونکہ
اگر ہم عرض کریں گے تو شکایت ہو گی​
 
عبداللہ چکڑالوی
مولوی عبداللہ چکڑالوی بانی فرقہ (نام نہاد ) اہل قرآن نے حدیث اور حدیث ماننے والوں کے حق میں جو گوہر افشانی کی ہے اور دل ماؤف کی بھڑاس جس انداز سے نکالنے کی لا حاصل کو شش اور کاوش کی ہے وہ ملاحظہ کر لیجئے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ : ۔
( ۱ ) ۔۔۔۔۔۔۔ کتاب اللہ کے مقابلہ میں انبیاء اور رسولوں کے اقوال و افعال یعنی احادیث قولی و فعلی و تقریری پیش کرنے کا مرض ایک قدیم مرض ہے ۔ محمد رسول اللہ سلام علیہ کے مقابل و مخاطب بھی قطعی اور یقینی طور اہل حدیث ہی تھے ۔ ( بلفظہ ترجمۃ القرآن بآیات القرآن ص ۹۷ تحت قولہ تعالی و ما کان من المشرکین ) ۔
صاف اور صریح الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں جتنے کفار اور مشرکین تھے۔ مثلاً ابوجہل ، ابولہب ، عتبہ ، شیبہ ، امیہ بن خلف ، ولید بن المغیرہ اور عقبہ بن ابی معیط وغیرہ یہ سب کے سب ہی قطعی اور یقینی طور پر اہل حدیث کے پورے حافظ تھے اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قولی اور فعلی اور تقریری حدیث پر عامل تھے۔ بایں ہمہ وہ حضور کی مخالفت پر کمر بستہ تھے۔ مگر مشہور ہے کہ پتھر پر جونک نہیں لگتی اس لیے ان پر کچھ اثر نہ ہو سکا۔
گہر جو دل میں نہاں ہیں خدا ہی دے تو ملیں
اسی کے پاس ہے مفتاح اس خزانے کی​

( ۲ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم ، حدیث شریف اور امت مسلمہ کا اس پر اتفاق ہے کہ ہر رسول اور نبی اپنی امت کے لیے نمونہ اور اسوہ ہوتا ہے ، اس کا قول اور فعل ( جو لغزش اور تخصیص کی مد میں نہ ہو ) تمام امتیوں کے لیے لازم ہوتا ہے اور اس کی اطاعت اور اتباع کے بغیر نہ تو تقرب خداوندی حاصل ہو سکتا ہے اور نہ نجات اخروی ہی نصیب ہو سکتی ہے اور وہ مطاع اور مقتدیٰ ہو کر آتا ہے اور امت مطیع اور مقتدی کہلاتا ہے ۔
جب ان کا حکم تسلیم کرنا ضروری ہے تو پھر بھلا وہ شرک کسیے ہو سکتا ہے ؟ اس پر قرآن کریم کی متعدد آیات دال ہیں مثلا وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ الایۃ وغیرھا یعنی ہم نے کوئی رسول ایسا نہیں بھیجا جو خدا تعالی کے حکم سے مطاع ہو کر نہ آیا ہو ۔ لیکن عبداللہ صاحب چکڑالوی کچھ اور ہی کہتے ہیں :۔
"پس کتاب اللہ کے ساتھ شرک کرنے سے یہ مراد ہے کہ جس طرح کتاب اللہ کے احکام کو مانا جاتا ہے اسی طرح کسی اور کتاب یا شخص کے قول یا فعل کو دین اسلام میں مانا جائے خواہ فرضاً جملہ رسل و انبیاء کو قول یا فعل بھی کیوں نہ ہو ۔ جس طرح شرک موجب عذاب ہے اسی طرح مطابق ان الحکم الا اللہ ( پارہ ۷ ، ۱۲ ، رکوع ۱۳، ۱۵ ) اور الا لہ الحکم والامر اور ولا یشرک فی حکمہ احدًا کے شرک فی الحکم یعنی مسائل دین میں سوائے اللہ تعالی کے اور کا حکم ماننا بھی اعمال کا باطل کرنے والا باعث ابدی و دائمی عذاب ہے ۔ افسوس شرک فی لحکم میں آج کل اکثر لوگ مبتلا ہیں " (بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۹۸ )
چکڑالوی صاحب کی یہ تحقیق انیق یا جہل مرکب ملاحظہ کیجئے کہ نبی اور رسول کا اسوہ حسنہ اور اس کا وہ قول و فعل جو خدا تعالی ہی کی طرف سے ہوتا ہے ، نہ صرف یہ کہ وہ شرک فی الحکم ہے بلکہ باعث ابدی و دائمی عذاب ہے ، اور آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلاہیں اور ان الحکم الا للہ وغیرھا سے جن آیات سے استدلال کیا ہے وہ عجیب و غریب ہے کیونکہ رسول اور نبی کا حکم جو بحیثیت رسالت و نبوت ہوتا ہے وہ خدا تعالی ہی کا حکم ہوتا ہے : وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی اس کو اللہ تعالی کے حکم کے مد مقابل لا کھڑا کرنا یا اس کو سوائے اللہ تعالی کے اور کا حکم کہنا نری حماقت اور نادانی ہے ۔ اگر نبی اور رسول کا ذاتی اجتہاد بھی ہو اور اس پر اللہ تعالی کی طرف سے تنبیہ نازل نہ ہوئی ہو تو بھی وہ حسب مراتب امت کے لیے لازم ہے کیونکہ خطا اور لغزش پر نبی کو کبھی منجانب اللہ برقرار نہیں رکھا جاتا۔ بخلاف دیگر مجتہدین کے مدت العمر بھی وہ خطا کا شکار رہ سکتے ہیں ۔ لیکن نبی اور رسول چونکہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے ان کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے ۔

( ۳ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جس نے خدا تعالی کے حکم کے مطابق فیصلہ نہ کیا تو ہو کافر ، ظالم ، اور فاسق ہو گا ۔ اور دیگر دلائل کے علاوہ خود قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ جس طرح اللہ تعالی کی طرف سے قرآن کریم نازل ہوا ہے اسی طرح حکمت اور حدیث بھی نازل ہوئی ہے جس کی پوری بحث راقم کی کتاب شوق حدیث میں ہے ۔ اور رسول کا حکم اور فیصلہ جو حدیث کہلاتا ہے ۔ بعینہ خدا تعالی کا حکم ہوتا ہے ۔ نہ تو وہ کوئی اور شے ہے اور نہ خدا تعالی کے حکم کے ماسوا ہے لیکن چکڑالوی صاحب کے نزدیک جو شخص حدیث اور سنت کو تسلیم کرتا ہے وہ کافر، ظالم اور فاسق ہے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر اس وقت تک کی تمام امت جو حدیث کو برابر حجت تسلیم کرتی آئی ہے معاذ اللہ کافر ، ظالم اور فاسق ہے۔ ہاں اگر کوئی شخص مومن ، عادل ، اور متقی ہے تو صرف وہی ہے جو حدیث کا منکر ہے ۔ اور قرآن کریم کو اپنی جہالت اور غباوت کی کند تلوار ذبح اور مجروح کرتا ہے ۔ ( لعیاذ باللہ ) چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں کہ کسی جگہ سے ثابت نہیں ہو سکتا کہ قرآن کریم کے ساتھ کوئی اور شے بھی رسول اللہ پر نازل ہوئی تھی ( اجی حضرت! یہ قرآن کی نصوص قطعیہ سے ثابت ہے مثلاً انزل اللہ علیک الکتاب والحکمۃ کہ( خدا تعالی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب بھی نازل کی اور سنت بھی۔ صفدر ) اور اگر کوئی شخص کسی مسئلہ میں قرآن کریم کے سوا کسی اور چیز سے دین اسلام میں حکم کرے گا تو وہ مطابق آیات مذکورہ بالا کافر، ظالم اور فاسق ہوجائے گا ۔ ( بلفظہ اشاعۃ القرآن ص ۴۲ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ ) ۔
سنت اور حدیث نہ تو خدا کے حکم کے سواہے اور نہ اس کے مخالف اور متضاد بلکہ حدیث خدا تعالی ہی کا حکم ہے جو نبی اور رسول کی زبان فیض رساں اور عمل سے ظاہر کیا جاتا ہے ۔ اس لیے حدیث کے مطابق حکم کرنے والا تو ہر گز ہرگز کافر ، ظالم اور فاسق نہیں اور نہ ہو سکتا ہے ، ہاں البتہ خدا تعالی کے رسول کے حکم کو ترک کر کے اور سنت سے اعراض کر کے کوئی شخص کبھی مسلمان نہیں ہو سکتا ۔ وہ یقینا اور قطعا کافر اور مرتد ہے اور اس کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے ۔ آخر اللہ تعالی کا ارشاد بلا وجہ تو نہیں کہ فلا و ربک لا یومنون حتی یحکموک الایۃ ۔

( ۴ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ دنیا میں ایک دوسرے کے ساتھ دوستی اور مودت کے جو تعلقات ہوتے ہیں ، وہ آخرت کو بالکل بے کار ہوں گے اور کوئی کسی کا دوست باقی نہ رہے گا ۔ ہر قسم کی دوستی مبدل بہ دوشمنی ہو جائے گی۔ ہاں الالمتقین پرہیز گاروں کی دوستی وہاں بھی باقی رہے گی البتہ کفار اور مشرکین کو کسی قسم کی دوستی کام نہ آئے گی۔ اور ولاخلۃ کا پورا اظہار ہو گا ۔ اور ظاہر بات ہے کہ رسل اور انبیاء ملائکۃ المقربین اور ملاء اعلی سے بڑھ کر اور کون نیک اور متقی ہو سکتا ہے ؟ اب ذرا چکڑالوی صاحب کی بھی سن لیجئے۔
یعنی عظیم و جلیل القدر رسل انبیاء و ملائکہ مقربین و ملاء اعلی کی دوستی بھی ذرہ بھر فائدہ نہ دے گی ( بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۲ تحت قولہ ولا خلۃ )

( ۵ ) ۔۔۔۔۔۔۔ شفاعت کا مسئلہ ایسا اتفاقی اور اجماعی مسئلہ ہے جس کا کوئی بھی مسلمان آج تک انکار نہیں کر سکا اور یہ مسئلہ اپنی شرائط کے ساتھ قرآن کریم کی نصوص سے ثابت ہے ( آئندہ برق صاحب کے نظریہ شفاعت کے سلسلہ میں ان کا ذکر ہو گا ۔ ان شاء اللہ العزیز ) اور احادیث متواترہ سے شفاعت (کبریٰ اور صغریٰ ) کا صاف اور صریح الفاظ میں ذکر آتا ہے ۔ نیز انبیاء ملائکہ اور صلحاء کی شفاعت کا واضح الفاظ میں ثبوت ہے اور یہی مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ ہاں البتہ حسب ارشاد خداوندی ولا شفاعۃ کفار کے لیے شفاعت نہ ہو گی چکڑالوی صاحب یوں لکھتے ہیں کہ : ۔
"جملہ رسل انبیاء اور ملائکہ اور مقربین و ملاء اعلی کسی طرح ذرہ بھر سفارش نہ کر سکیں گے۔ "
( بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۲ تحت قولہ ولا شفاعۃ )
نیز لکھتے ہیں کہ چونکہ عموماً اس مسئلہ شفاعت اور حصوصاً رسل انبیاء کی شفاعت کی وجہ سے تھوڑے دنوں بعد عذاب دوزخ سے رہائی پا جانے کا ایک غلط خیال عوام کالانعام میں بے طرح پھیلا ہوا ہے جس کے اصل بانی مبانی اہل حدیث صاحبان ہی ہیں ( یعنی وہی جنہوں نے نبیوں کا مقابلہ کیا تھا اور بالآخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل اور مخاطب قرار پائے تھے مثلاً ابو جہل وغیرہ اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شفاعت کبری اور شفاعت صغری کی داغ بیل ڈالی ۔ اور باوجود آپ کے جانی دشمن ہونے کے یہ عظیم مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بخشا اور کیوں نہ ہوتا آخر
میری ضد سے ہوا مہربان دوست
میرے احسان ہیں دشمن پر ہزاروں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔صفدر )
جنہوں نے خواہ مخواہ ایسے بہتان و افترا بشکل احادیث خدا کے برگزیدہ بندوں رسل و انبیاء پر لگا رکھے ہیں ( بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۱۲۵ پ ۳ تحت قولہ تعالی الا ایاما معدودات )
کاش کہ چکڑالوی صاحب محض اسی پر اکتفا کر لیتے کہ مسئلہ شفاعت ثابت نہیں اور یہ صرف اہل حدیث حضرات کی کارستانی ہے ۔ مگر وہ یہ بھی لکھتے ہیں کا اس شفاعت کا بھی میں بے شک منکر ہوں کیونکہ عقلا و نقلا بے انصافی و ظلم ہے ( انتھی بلفظہ اشاعۃ القرآن مبطوعہ ۱۳۲۰ ھ ص ۶ )
عقل سے تو غالباً خود چکڑالوی صاحب کی عقل فعال مراد ہو گی اور نقل سے بظاہر ان کی نانی جی کی نقل مراد ہو گی ۔ کیونکہ شریعت اسلامیہ کی کوئی ایسی نقل سرے سے موجود ہی نہیں کہ شفاعت بے انصافی اور ظلم ہے ۔ اور اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
اگر چکڑالوی صاحب محض اسی پر بس کر دیتے تو بھی آخر ایک حد ہوتی مگر ان کا خبث باطن اور نجاست قلبی ان کو کچھ اور بھی کہنے اور لکھنے پر مجبور کرتا ہے چنانچہ وہ خود اپنے ملعون قلم سے لکھتے ہیں : ۔
عرض کہ شفاعت مروجہ معروفہ کا وہم اور خیال تک کرنا نہایت ہی بڑھ کر اعلی درجہ و اول نمبر کی خباثت و نجاست ہے ( انتھی بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۱۲۵ )
دیکھئے کس طرح چکڑالوی صاحب نے تمام امت مرحومہ کو اعلی درجہ اور اول نمبر کی خباثت اور نجاست کا خطاب دے کر ان کی صریح توہین و تذلیل کی ہے ( العیاذ باللہ ) اس کا نام ہے قرآن دانی ، قرآنی بصیرت اور دعوت قرآنی، جس سے وافر حصہ چکڑالوی صاحب اور ان کے ہمنوا احباب کو مرحمت ہوا ہے ۔ سچ ہے جیسے روح ویسے فرشتے۔
قسمت کیا ہر ایک کو قسام ازل نے
جو شخص کہ جس چیز کے قابل نظر آیا​

( ۶ ) ۔۔۔۔۔۔۔ تمام مسلمان براہین قطعیہ کے تحت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سید المرسلین اور فخر العالمین ہیں مگر چکڑالوی صاحب ایسا کہنے کو خرافات اور لغویات میں شمار کرتے ہیں ۔ چنانچہ مسلمانوں کے ایک نظریہ پر تنقید کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :۔
" یہ عقائد رکھتے ہیں کہ آپ اپنے پیٹ پر تین تین دن پتھر بھوک کے مارے باندھے پھرتے تھے اور ( معاذ اللہ ) ان کو اس دنیائے فانی میں نان جویں بھی اللہ تعالی کے اتنے بڑے بڑے خزانوں میں سے مرزوق و موہوب نہیں ہوتی تھی اور بمقابلہ اس کے مریم کی شان و شوکت یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہمیشہ ( ہمیشہ کس نے کہا ہے ؟ مگر یہ نہ پوچھیے صفدر ) اسکو جنت الفردوس کے میوہ جات اور نعمتیں منزل من اللہ ہو کر مرزوق و موہوب ہوا کرتی تھیں ۔ باوجود اس قدر ذلت اور حقارت و توہین و اہانت محمد رسول اللہ سلام علیہ پھر "طوطے کی طرح سید المرسلین و فخرلعالمین وغیرہ وغیرہ" اسی قسم کے اور بہت سے خرافات و لغویات خطابات بھی بکتے رہتے ہیں ( بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۱۴۲ پ ۳ تحت قال تھو من عند اللہ )
 
( ۷ ) ۔۔۔۔۔۔۔ دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ سے راحت اور عذاب قبر وغیرہ کے مسائل ثابت ہیں اور اور متواتر احادیث کے علاوہ" مما خطیتہم اغرقا فادخلوا نارا" وغیرھا آیات اس پر نص قطعی ہیں ۔ مگر چکڑالوی صاحب یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ : ۔
" باب ہفتم عذاب قبر و سوال منکر و نکیر ۔ جب یہ بات ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ مرنے کے بعد روح کے لیے بھی بقا نہیں ہے ۔ اور یہ بات بھی بہ دلائل پختہ بیان ہونے والی ہے کہ انسان کے لیے مرنے کے بعد روز قیامت تک درمیانی زمانہ میں کوئی جزا و سزا نہیں ہے تو عذاب قبر کا غلط اور من گھڑت ہونا صاف ظاہر ہے ۔ عذاب قبر و سوال منکر و نکیر کی بنیاد جھوٹی حدیثوں پر ہے " الخ ( بلفظہ ترجمۃ القرآن ص ۹۵ پ ۷ تحت قولہ حتی اذ جاء احد کم الموت و مثلہ فی روح الانسان ص ۸۹ از چکڑالوی )

( ۸ ) ۔۔۔۔۔۔۔ ایصال ثواب کا مسئلہ اہل اسلام کے ہاں ایک طے شدہ حقیقت ہے ۔ ملائکہ مقربین کی مغفرت کی دعائیں ، نماز جنازہ کی مشروعیت نیز قرآن کریم کی متعدد دعائیں جو پہلے مسلمانوں کی حق میں کی جاتی ہیں ۔ اس کا واضح ثبوت ہے۔ مگر چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں کہ :۔
" یہ بے شک میرا اعتقاد ہے کہ مردہ کو بدنی عبادت یا مالی صدقہ وغیرہ کسی چیز کا ثواب نہیں پہنچ سکتا ۔ " ( اشاعۃ القرآن ص ۴ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ )
چکڑالوی صاحب کو یہ اعتقاد مبارک ہو اہل اسلام اس کو باطل یقین کرتے ہیں
( ۹ ) ۔۔۔۔۔۔۔ نماز تراویح پر تمام اہل اسلام تا ہنوز متفق چلے آ رہے ہیں ۔ لیکن چکڑالوی صاحب یہ کہتے ہیں کہ " نماز تراویح پڑھنا ضلالت ہے اور اس پر ایک مستقل رسالہ بھی انہوں نے لکھا ہے البیان الصریح لا ثبات کراہۃ التراویح ۔ ( اشاعۃ القرآن ص ۱۳ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ )

( ۱۰ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قطعی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ کبھی کسی رسول اور نبی پر القاء شیطانی کا اثر نہیں ہوا اور خصوصیت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ۔ مگر چکڑالوی صاحب لکھتے ہیں کہ ۔
" رسول اللہ کی زبان مبارک سے دین کے متعلق یا قرآن شریف نکلتا تھا اور یا سہوا اپنے خیالات و قیاسات ، جن میں القاء شیطانی موجود ہوتا تھا جن کو خدا تعالی نےمنسوخ و مذکور فی القرآن کر کے آپ کی ان سے بریت کر دی ۔ " ( بلفظہ اشاعۃ القرآن ص ۴۴ مطبوعہ ۱۳۲۰ ھ )

( ۱۱ ) ۔۔۔۔۔۔۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام قول اور فعلی حدیثیں نیز حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر تا ہنوز تمام مسلمانوں کا اس پر اتفاق رہا ہے کہ نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر کہنا چاہیے اس تکبیر کو تکبیر تحریمہ کہا جاتا ہے ۔ مگر عبداللہ صاحب چکڑالوی کہتے ہیں کہ اللہ اکبر تو کفار مکہ کی تکبیر ہے ۔ ( بلفظہ اشاعۃ القرآن شوال ۱۳۴۰ ھ ) ص ۱۲ ، ۱۳ میں لکھا ہے کہ یہ کلمہ ازروئے قرآن مشرکانہ کلمہ ہے و (بلفظہ ) اور شرک کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ " کہ اس کا معنی ہے کہ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اور بھی الہ ہیں مگر اللہ ان سب سے بڑا ہے ۔ لہذا یہ شرک ہوا " لا حول ولا قوۃ الا باللہ یہ ہے چکڑالوی صاحب کی قرآنی بصیرت اور منطق ۔ نحو اور گریمر کے اس سہل مسئلہ سے بھی ان کی نگاہ مبارک چوک گئی ہے کہ یہاں اسم تفضیل ( اکبر ) اضافت کے ساتھ مستعمل نہیں ہے بلکہ " من " کے ساتھ استعمال ہوا ہے اور اصل یوں ہے اللہ اکبر من کل شیء ۔ یعنی اللہ ہر شے سے بڑا ہے ۔ یہاں اور الہوں کا سرے سے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ شرک لازم آتا ہے ۔اور یہ نعرہ تکبیر مسلمانوں کا ایک امتیازی نشان سمجھا جاتا تھا اور اب بھی بفضلہ سمجھا جاتا ہے ۔ لیکن چکڑالوی صاحب اس کو کفار مکہ کی تکبیر اور مشرکانہ کلمہ کہتے ہیں لا حول و لا قوۃ الا باللہ

( ۱۲ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم کی نصوص قطعیہ ، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے یہ عقیدہ ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رتبہ ، درجہ اور شان سب نبیوں سے بڑھ کر ہے اور آپ خاتم النبیین اور سید الرسل ہیں مگر چکڑالوی صاحب " فبھداھم اقتدہ " اور " ان اتبع ملۃ ابراھیم " وغیرھا آیات اور بعض احادیث سے دھوکہ کھا کر اور لوگوں کو مغالطہ میں ڈال کر یوں ایک سائل کے جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ : ۔ آپ نے اپنے مسلمہ قرآن مجید اور بخاری اور صحاح ستہ کے خلاف رسول اللہ سلام علیہ کو نبیوں کا سردار لکھا ہے ۔ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ان کو متبع اور مقتدی کل انبیاء کا عموماً اور ابراھیم ہ سلام علیہ کا خصوصا لقب مرحمت فرمایا ہے ۔ ( اشاعۃ القرآن جلد اول نمبر ۷ ماہ مئی ۱۹۲۲ ص ۱۳ ) اور اتنی بات چکڑالوی صاحب کو معلوم نہ ہو سکی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ابراھیم علیہ السلام کا متبع اور مقتدی نہیں کہا گیا بلکہ ملت ابراھیم علیہ السلام اور نبیوں کی ہدایت کا متبع اور مقتدی کہا گیا ہے اور ملت ابراھیم علیہ السلام اور نبیوں کی ہدایت منزل من اللہ ہے جس میں اصولی طور پر سب نبی متفق رہے ہیں ۔ درجہ اور رتبہ میں آپ کو انبیاء کا متبع اور مقتدی نہیں کیا گیا ۔
اور ص ۱۴ میں لکھا ہے کہ :۔
" اور پھر آپ نے انکو نبیوں کا سردار بنا کر اور انبیاء اور رسل کی تحقیر اور تذلیل کر کے لانفرق بین احد من رسلہ کا کفر کیا یا نہیں " الخ (بلفظہ ) مگر اتنی اسان اور سہل بات پر چکڑالوی صاحب نے غور نہیں کیا تو یہ عدم تفریق تو بسلسلہ ایمان ہے کہ بعض انبیاء اور رسل پر ایمان لایا جائے اور بعض کا انکار کیا جائے جو مصداق ہے نومن ببعض و نکفر ببعض کا باقی درجہ اور فضیلت میں فرق کا ہونا تو قطعی طور پر ثابت ہے ۔ تیسرے پارے کی پہلی ہی آیت اس مسئلہ کو آفتاب نیم روز کی طرح واشگاف کرتی ہے ۔ : ۔ تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض
الغرض ایک ہے انبیاء و رسل میں ایمان لانے اور نہ لانے میں تفریق کرنا ، یہ اول نمبر کا کفر ہے اور ایک ہے رتبہ اور فضیلت میں تفریق ۔ یہ امر ثابت ہے اور اس کا انکار نری بے دینی ، الحاد اور زندقہ ہے ۔ اور دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ فاین الثرای من الثریا ۔ چکڑالوی صاحب کی عربی دانی دیکھیے کہ وہ بجائے مسلم کے آپ کے مسلمہ قرآن مجید لکھتے ہیں ۔
( ۱۳ ) ۔۔۔۔۔۔۔ قرآن کریم ۔ سنت متواترہ اور تمام امت کے اتفاق سے یہ امر ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں ایک سے زائد ( بلکہ بیک وقت نو ۹ ) منکوحہ بیویاں تھیں ۔ یا نساء النبی اور یایہاالنبی قل لازواجک و غیرھا آیات اس کا واضح اور صریح ثبوت ہیں اور عام مسلمانوں کو بھی مخصوص شرائط کے تحت بیک وقت چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت قرآن کریم اور حدیث صحیح میں مصرح ہے ۔ لیکن چکڑالوی صاحب ان آیات کو یہود کو شرما دینے والی تحریف کر کے یوں تحریر کرتے ہیں کہ : ۔
"تعدد ازواج بحوالہ قرآن ( لعنۃ اللہ علی الکذبین ۔ کہاں ہے یہ حکم قرآن میں باقی تحریف کا نام قرآن نہیں ہے ۔ صفدر ) زنا میں داخل ہے ۔ ( معاذ اللہ ۔ صفدر ) جس سے انبیاء اور رسل سلام علیہم اور ان کی امت پاک ہے اور ان پر سراسر افتراء اور بہتان ہے : ( بلفظہ اشاعۃ القرآن ج ۱ نمبر۷ ص ۱۸ ماہ مئی ۱۹۲۲)
ملاحظہ کیا آپ نے کہ چکڑالوی صاحب نے کس بے حیائی کے ساتھ تعدد ازواج کو زنا میں داخل کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ظالمانہ حملہ کیا ہے۔ ( العیاذ باللہ ) اور کس طرح امت مرحومہ کے ان نیک اور صالح افراد کو زانی بنایا ہے ۔ جنہوں نے قرآن و حدیث کے رو سے مسئلہ تعدد ازواج پر عمل کیا ہے ۔ یہ ہے چکڑالوی صاحب کی دعوت قرآنی اور ان کے جماعت کے افکار و نظریات لاحولہ ولا قوۃ الا باللہ ۔ سچ کہا ہے کہ
گربہ میر وسگ وزیر و موش رادیواں کنند
ایں چنیں ارکان دولت ملک را ویران کنند​

( ۱۴ ) ۔۔۔۔۔۔ سب مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بحالت بیداری معراج جسمانی پر متفق ہیں مگر چکڑالوی صاحب معراج نبوی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : ۔
رب العالمین نے آپ کو بطور معجزہ (خواب میں کونسا معجزہ کار فرما ہوتا ہے ؟ صفدر ) سخت اندھیری رات میں صرف بحالت نیند ہی نیند ، خواب میں ہی اس خاص زمین کی سیر کرائی ۔ یعنی السجد الحرام بیت مکہ سے لے کر مسجد اقصی بیت المقدس تک سب مقامات کو ظاہر باہر طور پر پورا پورا دکھا دیا ۔ ( تفسیر ترجمۃ القرآن بآیات الفرقان پ ۱۵ ص ۱ )
چونکہ اس مسئلہ پر ہم نے ایک مستقل رسالہ ضوء السراج فی تحقیق المعراج لکھا ہے اس لیے ہم اس پر یہاں مزید کچھ بحث نہیں کرتے البتہ صرف اتنا کہنا چاہتے ہیں کہ لغت کی کس کتاب میں یہ حوالہ ملے گا کہ اسراء کا لفظ خواب میں سیر کرانے پر ہی بولا جاتا ہے اور بیداری میں رات کی رات کی سیر پر اس کا اطلاق ہوتا ؟ اور نیز خواب کا یہ واقعہ کون سا تعجب خیز تھا جس کو اللہ تعالی نے "سبحان" کے ساتھ شروع کیا ہے ؟ اور یہ کہ لفظ "عبد" محض روح کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ جسم اور روح دونوں کے لیے مستعمل نہیں ہے ؟ دیکھیے اس کا کیا جواب ملتا ہے ؟ مگر
وہ اپنی منزل مقصود تک ہرگز نہ پہنچے گا کہ جو آغاز ہی میں نے خود انجام ہو جائے
( ۱۵ ) حضرت عیسی علیہ السلام کے معجزات قرآن کریم میں مذکور ہیں کہ وہ مٹی کے پرندے بنا کر ان میں پھونک مارتے تھے تو باذن اللہ وہ پرندے بن کر اڑ جاتے تھے اندھوں کو باذن بینا کر دیتے تھے مگر چکڑالوی صاحب کے نزدیک اس کا مطلب ہی خیر سے کچھ اور ہے وہ یہ کہ : ۔
" جیسے چار مشہور شکاری پرندے باز ، باشہ ، چرخ ، شاہین شکاری پرندے تعلیم و تربیت سے فرماں بردار ہو جاتے ہیں ۔ اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام نے مردگان ایمان کو تعلیم و تربیت فرمائی اور وہ مطیع ہو گئے " دیکھیے ( تفسیر پ ۳ ص ۱۷۲ ) اور ابراء کمہ کے متعلق لکھتے ہیں کہ : ۔
" جسمانی اندھے ہرگز ہرگز مراد نہیں ہو سکتے کیونکہ رسل انبیاء ڈاکٹر و طبیب جسمانی نہیں ہوا کرتے " اگے لکھا ہے کہ " ایمانی اندھوں ہی کو صحت یاب اور شفا یاب کیا "( محصلہ ص ۱۷۲ و ص ۱۳ ) اور لکھتے ہیں کہ : ۔
" احیاء موتی سے جسمانی مردوں کو زندہ کرنا ہر گز ہرگز وہم و خیال تک نہیں ہو سکتا بلکہ خاص ایمانی مردوں ہی کو زندہ کرنا مراد ہے ۔ " ( ص ۱۷۴ )

یہ سب کچھ چکڑالوی صاحب کہ اور لکھ گئے مگر یہ عقدہ حل نہ کیا کہ روحانی بیماریوں کا علاج تو سبھی انبیاء و رسل علیہم السلام کرتے رہے پھر حضرت عیسی علیہ السلام کی تخصیص کی وجہ اس میں کیا ہوئی ؟ پھر کیا وجہ ہے کہ یہ معجزات حضرت عیسی علیہ السلام کے بیان ہوئے ہیں اور دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کے مذکور نہ ہوئے ۔ حقیقت یہ ہے کہ جتنا اور جس قدر ظلم نام نہاد اہل قرآن اور منکرین حدیث نے قرآن کریم پر روا رکھا ہے اس کی نظیر علم اور تحقیق کی دنیا میں نا پید ہے ۔ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تحریف چکڑالوی صاحب نے کی ہے مثلاً : ۔۔

( ۱۶ ) ۔۔۔۔۔۔۔ نار ابراھیم علیہ السلام سے فتنہ آگ مراد لی ہے ۔ اور حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ پہاڑوں اور پرندوں کی تسبیح پڑھنے سے مراد یہ لی ہے کہ "یا جبال" سے پہاڑی لوگ مراد ہیں اور "الطیر " سے طیر نام قوم مراد ہے ۔ وادی تیہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے پانی طلب کیا تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ " فقلنا اضرب بعصاک الحجر " ۔ چکڑالوی صاحب نے اس سے مراد یہ لی ہے کہ آپ اپنی جماعت کو پہاڑ کی طرف لے جائیں ۔ چنانچہ وہ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہاں چشمے بہہ رہے تھے۔ مگر یہ راز حل نہ کیا کہ جب اس قوم کو چالیس سال تک وادی تیہ سے نکلنا ہی ممنوع تھا تو پھر پانی کے لیے پہاڑوں کی طرف جانے کا کیا سوال ؟ مگر ان امور سے چکڑالوی صاحب اور ان کی جماعت کو کیا عرض ؟ عرض ان کے نظریات تو اپنی جگہ اٹل اور محکم ہیں اور یہ عقدہ بھی حل نہ کیا کہ فتنہ کی آگ تو تمام انبیاء کرام کے خلاف دشمنوں نے بھڑکائی تھی پھر " قلنا یا نار کونی بردًا و سلاماً علی ابراھیم" کی تخصیص کیا وجہ ہے ؟ اور جب ان پر فتنہ کی آگ ٹھنڈا پڑ گئی تھی تو لا محالہ لوگ ان کے دین کو قبول کر چکے ہوں گے ( کیونکہ کفار تو کبھی کسی نبی کے مقابلے سے نہیں ہارے ) پھر حضرت ابراھیم علیہ السلام کو "انی مہاجر الی ربی " کہہ کر عراق اور بابل کے علاقہ سے ہجرت کر کے ملک شام جانے کی کیا ضرورت درپیش ہوئی ۔ اور کیا پہاڑی لوگوں کی طرف صرف حضرت داؤد علیہ السلام ہی مبعوث ہوئے تھے۔

ان کے فرزند حضرت سلیمان علیہ السلام کے لیے " یا جبال اوبی " (کا معجزہ یا ) خطاب کیوں وارد نہیں ہوا ؟ اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ساتھ تخصیص کی علت کیا ہے ؟ حضرات یہ ہے انکار حدیث کا شاخسانہ
عمل ان سے ہوا رخصت عقیدوں میں خلل آیا
کوئی پوچھے کہ ان کے ساتھ کیا نعم البدل آیا​
 
Top