انٹرنیٹ پر چِھڑی جنگ

محمداحمد

لائبریرین
انٹرنیٹ پر چِھڑی جنگ

یورپی ملک ایسٹونیا میں ایک خفیہ آپریشن چل رہا ہے، اسے اکیسویں صدی کی فوجی مشق کہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ یہ مشق اور آپریشن کمپیوٹر پر کیا جا رہا ہے۔

فوج کی طرف سے کچھ ہیکرز کو یورپ میں پھیلے شدت پسندوں کے تمام کمپیوٹر نیٹ ورکس کو ہیک کرنے کا کام دیا گیا ہے۔

یہ لوگ اپنی صلاحیت پرکھ رہے ہیں، کہ ایک کمرے میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے یہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔

امریکہ کے سابق صدر بش اور کلنٹن کے سابق خصوصی مشیر رچرڈ کلارک کہتے ہیں، ’اگر کوئی ملک انٹرنیٹ کی جدید صلاحیت کر لے، تو وہ ٹرین حادثے کروا سکتا ہے یا کسی ملک میں بجلی بند کر سکتا ہے اور یہ صرف بجلی کی فراہمی سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی بلکہ جنریشن کے پورے نظام میں خرابی لائی جائے گی جسے ٹھیک کرنے میں مہینوں لگ جائیں گے‘۔

اس مہم سے یہ واضح ہے کہ فوجی تحقیق کی ایسی ورکشاپس میں پبلک سیکٹر کے ڈھانچے کو تباہ کیا جا سکتا ہے یا ان کے کام میں رکاوٹ ڈالی جا سکتی ہے۔
امریکہ بمقابلہ چین

کلارک سنہ 2010 میں پھیلے سٹكس نیٹ وائرس کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ وائرس مائیکروسافٹ ونڈوز کی خاميوں کا غلط استعمال کرنے کے لیے تیار کیا گیا۔

کلارک کے مطابق عوامی طور پر چاہے کوئی نہ مانے مگر جو حقائق سب کے سامنے ہیں وہ اس پوری مہم کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ بتاتے ہیں اور اس کا ہدف ایران کے خفیہ جوہری تحقیق مرکز میں نقب لگانا تھا۔

جرمنی کے انٹرنیٹ ماہر رالف لاگنر نے کئی ماہ تک سٹكس نیٹ وائرس کو تلاش کرنے کا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’ہمیں ماننا پڑے گا کہ اس وائرس کی وجہ سے ایران کے ایٹمی پروگرام میں تاخیر ہوئی۔ تو اسے وائرس کی کامیابی ہی مانیں گے۔ کیونکہ اس نے وہ کر دکھایا جو شاید ایک بڑے فوجی مہم سے ہی ممکن ہو پاتا ہے۔ اسی لیے مجھے لگتا ہے کہ ہمیں ماننا ہوگا کہ حملوں کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال ہوتا رہے گا کیونکہ یہ بے حد کارگر ہے‘۔

اس ٹیکنالوجی کے استعمال کے لیے اب دنیا میں دوڑ سی لگ گئی ہے اور اطلاعات کے مطابق اس ٹیکنالوجی میں دنیا میں سب سے آگے تصور کیا جانے والا چین ہزاروں تکنیکی ماہرین کو اس کے لیے تیار کر چکا ہے۔

مزید پڑھیں۔
 
Top