سید شہزاد ناصر
محفلین

ملاقات اور تصاویر: انور سِن رائے
سوال: کوئی اگر آپ ہی سے آ کر پوچھ لے کہ یہ انور سجاد کون ہے تو آپ کیا کہیں گے؟
انور سجاد: اُسی کی تلاش میں ہوں۔ (قہقہہ)
سوال: اب تک آپ نے اسے کتنا جانا ہے؟
انور سجاد: نام جیسے کہ آپ نے کہا ہے: انور سجاد۔ پیدا لاہور میں ہوا۔ اندرون شہر۔ جسے والڈ سٹی بھی کہتے ہیں۔ والد لدھیانہ کے اور والدہ امرتسر سے۔ والد کا نام سیّد دلاور علی شاہ۔ میں سیّد اس لیے نہیں لگاتا کہ کچھ حرکتیں سیّدوں والی نہیں ہیں۔ والدین نے نام رکھا تھا: سجاد انور، میں نے اسے انور سجاد کر دیا۔ تاریخِ پیدائش تھوڑی سی متنازع ہے، ایک اندازے کے مطابق ستائیس نومبر انیس سو پینتیس ہے اور لیکن میرے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر ستائیس مئی انیس سو چونتیس ہے۔ کبھی اس فرق کو جاننے کی ضرورت ہی نہیں پڑی، میری بلا سے اگر اٹھارہ سو چونتیس بھی لکھ دیں تو کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیونکہ مجھے ملازمت وغیرہ نہیں کرنی تھی تو اس لیے یہ کوئی مسئلہ تھا ہی نہیں۔لیکن میں ستائیس نومبر انیس سو پینتیس ہی سمجھتا ہوں۔
سوال: گھر کا ابتدائی ماحول، بہن بھائی؟
انور سجاد: بڑا اچھا ماحول تھا۔ ماشا اللہ بڑا خاندان تھا۔ تین بہنیں تین بھائی۔ ایک بھائی اور ایک بہن فوت ہو چکے ہیں۔ ایک بھائی امریکہ میں رہتا ہے اور بہنیں دو بیاہی ہوئی ہیں اور راولپنڈی اور اسلام آباد میں رہتی ہیں۔ ایک بہن مجھ سے بڑی تھیں اور بھائیوں میں میں سب سے بڑا تھا۔
سوال: میڈیکل کی طرف اپنی پسند سے گئے یا؟
انور سجاد: (ہنستے ہوئے) والد میرے شہر کے بہت جانے پہچانے فزیشن تھے۔ انہوں نے کنگ ایڈورڈ کالج سے انیس سو انتیس میں گریجویشن کیا تھا۔ انہیں کوئی نہ کوئی ولی عہد چاہیے تھا۔ میں نے کافی جان بچانے کی کوشش کی۔ میرا خیال سول سروس یا سپورٹس می جانے کا تھا۔ سینٹ پال سکول سے میٹرک کیا۔ پھر گورنمنٹ کالج سے ایف ایس سی کی اور ایف سی کالج سے گریجویشن کی۔ والد کا خیال تھا کہ میں لاہور میں پڑھ نہیں سکتا۔ ادبی سرگرمیاں تھیں۔ ریڈیو تھا۔ چھٹی کلاس میں تھا کہ ریڈیو پر بچوں کے پروگرام میں جانے لگا تھا۔ لیکن بیچ کا وہ زمانہ چھوڑ کر، جس میں آواز ریڈیو کے قابل نہیں رہتی، انیس سو باون تریپن میں نے پھر ریڈیو شروع کیا۔ تھیٹر بھی چل رہا تھا۔ اس وقت آرٹس کونسل ہی تھی، تو دوستوں کے ساتھ کافی ڈرامے کیے۔ اس زمانے میں کیونکہ قراردادِ مقاصد آ چکی تو مذہبی علماء کافی جوش و خروش سے کام لے رہے تھے۔ لاہور میں انٹر سکول اور انٹر کالج مقابلوں کی ایک روایت تو موجود تھی ہی تو کافی جد و جہد رہی۔ اس وقت ہمارے گورنمنٹ کالج میں پاور فُل ڈرامیٹک سوسائٹی تھی۔ ایف سی کالج سے میڈیکل کالج گئے تو وہاں ڈاکٹر اعجاز تھے۔ بہت سینئر، تو انہوں نے اسی وقت تھیٹر پر کام شروع کر دیا۔ ایک اور بات یہ تھی کہ ہمیں اساتذہ بہت ہی اچھے مل گئے بہت حوصلہ افزائی کرنے والے اور گروم کرنے یا صلاحیت کو نکھارنے والے۔ ساٹھ کے ابتدائی برسوں میں ٹھیک ٹھاک ڈرامہ ہونا شروع ہو گیا۔ چونسٹھ میں ٹیلی ویژن آگیا تھا۔
سوال: اس وقت کون کون لوگ آپ کے ساتھ تھے اور ان میں سے کتنے رہے اور کتنے راستے میں گم ہو گئے؟
انور سجاد: کوئی ساٹھ فیصد رہ گئے۔ یہ لوگ شعیب ہاشمی، نعیم طاہر، خالد سعید بٹ، فاروق سلیم وغیرہ یہ سب تھے۔ ان میں سے کچھ کلاس فیلو تھے کچھ جونئر۔ اس وقت یہ ضیاء صاحب (ضیاء محی الدین) بڑی متحرک کرنے والی شخصیت ہوتے تھے۔ ہمیں معلوم ہوا کہ کراچی میں خواجہ معین الدین کا ڈرامہ کر رہے ہیں۔ پھر انہوں نے کھیل پروڈیوس کیا تھا ’لال قلعے سے لالو کھیت‘ پھر اسے وہ لاہور بھی لائے۔ تو پچاس کے وسط سے پچھہتر تک کے بیس سال میں ماحول بڑا تخلیقی تھا۔ ہر قسم کی تخلیقی سرگرمی تھی۔ تھیٹر ہو رہا تھا، فکشن لکھا جارہا تھا، بغاوتیں ہو رہی تھیں اور پاکستان میں ہی نہیں ساری دنیا میں۔ میرا پہلا ڈرامہ انگریزی کا تھا اور سب سے پہلے میں نے اس میں ایکٹ کیا (اداکاری کی تھی)۔ سائیلنٹ رول تھا۔ میں بہت اداس ہوا۔ ڈاکٹر صادق تھے اس وقت ڈرامیٹک کلب کے انچارج، میں اس وقت میں فرسٹ ائر میں تھا تو، میں نے کہا کہ میں تو نہیں کروں گا۔ ’لائبل‘ نام تھا اس ڈرامے کا۔ یہ جو آپ کے نگراں وزیراعظم رہے ہیں معین قریشی، یہ بھی ایکٹ کر چکے ہیں ہمارے پلے میں۔ تو ڈاکٹر صادق نے کہا کہ ایک بات یاد رکھنا۔ ’رول نہیں ہوتے چھوٹے بڑے، ایکٹر ہوتے ہیں‘۔ تو میں نے وہ رول کیا لیکن اس دوران میں بیٹھا ہوا حیران ہوتا رہتا تھا کہ لوگ ایکٹنگ کیسے کر لیتے ہیں؟۔ بہت تجسس تھا مجھے کہ کتنی ہمت کی بات ہے اتنے لوگوں کے سامنے آ کر اداکاری کرنا۔ سکول میں ڈیبیٹ ہوتی تھی، تو میری ہمت ہی نہیں ہوتی تھی، چھٹی کلاس تک۔ تو ایک بار میں نے بھی ایک تقریر لکھی اور خوب یاد کی۔ اس وقت پانچ منٹ کا وقت ہوتا تھا۔ سٹیج پرگیا تو دو منٹ کے بعد ہی سب بھول گیا۔ نیکر پہنتا تھا، تو لگ رہا تھا کہ ڈھیلی ہو گئی ہے اور کسی وقت بھی گر جائے گی۔ لیکن پھر خیال آیا کہ پانچ منٹ تو پورے کرنے ہیں۔ تو پھر سے شروع کر دی بس وہ دن تھا کہ میں نے اپنی شائینیس (حجاب) پر قابو پا لیا۔ سینٹ پال سکول اس سلسلے میں بہت زبردست تھا۔ وہاں سے ہر سال ہر کلاس اپنا ایک میگزین نکالتی تھی اور اس کی خوش نویسی بھی ہم خود ہی کرتے تھے۔ تو اس طرح کے ماحول میں جب اچھے اساتذہ بھی ہوں تو شخصیت بنتی ہے۔ وہیں سے پڑھنے کا شوق ہوا۔ پہلے پھول اخبار تھا، دارالاشاعت کا۔ امتیاز علی تاج کے والد صاحب تاج علی نکالتے تھے اس وقت تو معلوم نہیں تھا لیکن بعد میں پتہ چلا کہ اس میں غلام عباس اور احمد ندیم قاسمی صاحب جیسے بندے بھی ایڈیٹر رہے۔ پھر ان کی پیسہ لائبریری کی کتابیں چھپتی تھیں۔ جنوں اور پریوں کی کہانیاں، بہت ہی خزانہ تھا۔ پھر گھر کا ماحول والد ہمارے خاصے صوفی منش تھے۔ ابّا کٹر سنی تھے اور ہمارے رشتے دار شیعہ، تو ان کی بحثیں سنتے تھے گھر میں۔ سمجھ میں تو نہیں آتا تھا لیکن ایسی فضا تھی جس میں ہم سانس لے سکتے تھے۔ تو لاتعداد سوال پیدا ہوتے تھے۔ اندرون شہر والے گھر کی ایک اور خوبصورت بات تھی کہ گرمیوں میں ہم سب سے اوپر کی چھت پر سوتے تھے اور تاروں بھرے آسمان کے نیچے، تو وہ بہت تحیّر اور تجسس کا سامان پیدا کرتا تھا۔ میرے خیال میں قدیم انسان اسی طرح محسوس کرتا ہو گا۔ تو اس طرح کچھ آواز کے ذریعے، کچھ قلم کے ذریعے، کچھ برش کے ذریعے اور کچھ بعد میں رقص بھی سیکھا۔ تو اس طرح سب ایلیمنٹ (عناصر) مل کر، جیسا کہ اب میں سمجھتا ہوں کہ سارے علوم آپس ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں۔ تو اگر آپ ایک فن میں ہیں اور دوسروں کو آپ نے نظر انداز کر دیا ہے تو آپ کا تناظر انتہائی محدود ہو جاتا ہے۔ بعد میں مجھے اس سے دشواری بھی ہوئی کیونکہ اگر آپ نے میرا ناول پڑھا ہے یا کہانیاں پڑھی ہیں تو آپ نے محسوس کیا ہو گا کہ ان پر مصوری کا کتنا اثر ہے یا اس میں موسیقی کا کتنا ردھم ہے۔ بلکہ کئی بار تو مجھے لکھتے ہوئے ایسے لگتا تھا جیسے میں رقص کر رہا ہوں۔ پھر مصوری شروع کی تو یہ سوال پیدا ہوا کہ کہانی بیان کرنی ہے تو تصویر کیوں بنائی جائے، کہانی لکھیے، اور تصویر کو اپنی جمالیات بیان کرنی چاہیے۔ کیونکہ اس میں سمجھنے والی بات نہیں ہوتی اس میں صرف بلینک سپیسیز کو آپ نے استعمال کیا ہے۔ پھر سرریلسٹوں کو دیکھا۔ روسو جو سرریلسٹوں کا والد کہلاتا ہے اس سے ڈالی تک کو کھنگالا۔ تو اس میں کہانیاں ہی کہانیاں ہیں۔ تو وہ فرائڈ اور خوابوں کے حوالے سے ساری بات کرتے تھے۔
بشکریہ بی بی سی اردو
ربط
http://www.bbc.co.uk/urdu/specials/2240_likhari_es_sen/