ابن انشا انشاء جی بہت دن بیت چکے

محمد بلال اعظم

لائبریرین
انشاء جی بہت دن بیت چکے
تم تنہا تھے تم تنہا ہو
یہ جوگ بے جوگ تو ٹھیک نہیں
یہ روگ کسی کا اچھا ہو
کبھی پورپ میں کبھی پچھم میں
تم پرواہ ہو تم پچھواہ ہو
جو نگری نگری بھٹکائے ہے
ایسا بھی نہ من میں کانٹا ہو
کیا اور سبھی چونچال یہاں
کیا ایک تمہی یہاں دکھیا ہو
کیا تمہی پر دھوپ کڑی
جب سب پر سکھ کا سایہ ہو
تم کس جنگل کا پھول میاں
تم کس بھگیا کا بیلا ہو
تم کس ساغر کی لہر بھلا
تم کس بادل کی برکھا ہو
تم کس پونم کا اجیارہ
کس اندھی رین کی اوشا ہو
تم کن ہاتھوں کی مہندی ہو
تم کس ماتھے کا ٹیکہ ہو
کیوں شہر تجا کیوں جوگ لیا
کیوں وحشی ہو کیوں رسوا ہو
ہم جب دیکھیں روپ نیا
ہم کیا جانے تم کیا کیا ہو
جب سورج ڈوبے سانج بہئے
اور پھیل رہا اندھیارہ ہو
کس ساز کی لحہ پر چھنن چھنن
کس گیت کا مکھڑا جاگا ہو
اس تال پہ ناچتے پیڑوں میں
اک چپ چپ ندیا بہتی ہو
ہوچاروں اوٹ سگہن بسی
یوں جنگل پہنا گجرا ہو
یہ عنبر کے مکھ کا آنچل
اس آنچل کا رنگ اودھا ہو
ایک گوٹ دو پیلے تاروں کی
اور بیچ سنہرا چندا ہو
اس سندر شیتل شام سمے
ہاں بولو بولو پھر کیا ہو
وہ جس کا ملنا ناممکن
وہ مل جائے تو کیسا ہو
 
Top