انسان

اظہرالحق

محفلین
جب بھی کوئی حادثہ ہوتا ہے دل سے چیخ نکلتی ہے ، کون لوگ ہیں یہ ، یقینا مسلم دھشت گرد ، یا پھر کوئی اور ۔ ۔ کون ۔ ۔ کیا وہ انسان ہے ؟ جو یہ سب کرتا ہے کرواتا ہے ، مجھے تو سمجھ نہیں آتی لوگ اتنا کیوں ظلم کرتے ہیں کیسے کر لیتے ہیں یہ سب کچھ ، پرانی فلاسفی ہے کہ اگر کسی دوسرے کے عمل کا اندازہ لگانا ہو تو اسکی جگہ خود کو رکھ کہ دیکھو ، مگر میں نے جب بھی خود کو اس “ظالم“ کی جگہ رکھ کر سوچا تو مجھے تو ہزار دوسرے راستے نظر آئے ، میرے ساتھ اگر زیادتی ہوئی ہے تو میں ہزار طریقے سے احتجاج کر سکتا ہوں ، میں عدالت کا دروازہ کھٹکٹا سکتا ہوں ، میں ایک کتبہ لے کر احتجاج کر سکتا ہوں جس پر مجھ پر ہوئے ہوئے ظلم کی داستان ہو ۔ ۔ پھر یہ لوگ کیسے بے گناہوں کو سزا دیتے ہیں ؟ کیوں دیتے ہیں ؟ ٹھیک انپر ظلم ہوا ہو گا مگر ظلم کرنے والے کو سزا ملنی چاہیے ، بے گناہوں کو کیوں ؟ جنکو پتہ ہی نہیں کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے ، اب القاعدہ کو ہی لے لیں ، ظلم امریکہ کر رہا ہے سزا عراق اور افغانستان کو مل رہی ہے ، اور بے چارے امریکی تو یہ بھی نہیں جانتے کہ عراق اور افغانستان کے لوگ ڈبل روٹی نہیں کھاتے ۔۔ ۔ اور دوسری طرف اسرائیل اور فلسطین کو دیکھیں ، فلسطینی بلاوجہ اسرائیل کو پریشان کرتے ہیں ، اور پھر اسرائیل جب فلسطینیوں کو مارتا ہے تو پھر سب کو دہائی دیتے ہیں ، بھی اگر ایک ہاتھی اور چونٹی کا کیا مقابلہ ، مگر ان بے وقوفوں کو کون بتائے کہ یہ جو کچھ سوچتے ہیں سب غلط ہے ۔ ۔ ۔

اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ان تمام مسلوں کا کیا حل ہے تو میں جواب دوں گا ، انسانیت ۔۔ ۔ آپ اگر سچے “انسان“ بن جائیں تو ہر بیماری اور مشکل کا حل مل جاتا ہے ، ہم اپنے ہاں ہونے والی مشکلوں اور مصیبتوں کی وجوہات جانیں تو درج ذیل ہونگی

١۔ عقیدہ ٢۔ وطنیت ٣۔خود کو اچھا سمجھنا اور دوسرے کو برا اور اسے اچھا بنانے کی کوشش کرنا
٤۔نفرت ٥۔ قوم پرستی ٦۔ سماجی اور اخلاقی معیارات جو مختلف جگہ مختلف ہوتے ہیں نہ ماننا

١۔ عقیدہ
عام طور پر عقیدہ مذہب کی بنیاد ہوتا ہے ، عقیدے کی کوئی توجیہ نہیں پیش کی جا سکتی ہے ، ایک انسان ایک ان دیکھے خدا کو مانتا ہے اس سے باتیں کرتا ہے بے شک اسے جواب نہیں ملتا مگر پھر بھی مختلف واقعیات کو وہ خدا کا جواب سمجھتا ہے ۔ ایک انسان پتھر کی مورتی کو اپنا رب مان لیتا ہے یا پھر کسی چرند پرند اور کبھی کبھی برف کے ٹکڑے کو بھی خدا مانتا ہے ، اور اتنا مضبوط عقیدہ رکھتا ہے کہ اسکے سامنے ہزار دلیلیں رکھو مگر وہ عقیدے سے نہیں پھرتا ۔ ۔ عقیدہ ایک ایسا پروگرام ہے جو انسانی ذہن کے کمپیوٹر میں فیڈ کیا جائے تو پھر اسے مٹانا آسان نہیں ہوتا ۔۔ عقیدے کی وجہ سے انسان اچھا یا برا سمجھتا ہے ، عقیدہ ہی اچھے برے کا معیار بناتا ہے ، اور کیونکہ عقیدہ ہی انسان کی زندگی کا ڈرئیور ہوتا ہے اسلئے ، اسے صرف اپنی ہی شاہراہ نظر آتی ہے ۔ ۔ اور دوسروں کے عقیدے کو روندتا ہے یا پھر دوسروں کو اگر اپنے عقیدے میں نہ لا سکے تو انہیں روند دیتا ہے ۔ ۔ عقیدہ ایک بڑی وجہ ہے انسان کی مشکلوں کی۔

٢- وطنیت
انسان جس جگہ رہتا ہے اپنا بچپن جوانی گذارتا ہے اسے وطن کہتا ہے ، اس جگہ سے محبت کرتا ہے ، اور اتنی کرتا ہے کہ اسکے لئے لڑنے مرنے پر تیار ہو جاتا ہے ، یہ انسان کی خام خیالی ہے کہ وطن بدلا جا سکتا ہے ، وطن نہیں بدلا جاتا ، انسان کے رہن سہن بدل جاتا ہے ، انسان اپنے وطن کو گھر کی طرح سمجھتا ہے ، جس میں وہ محفوظ ہوتا ہے ، مگر جب اسے ایسا لگے کہ کوئی اسکی وطنیت پر غلط نگاہ رکھ رہا ہے تو وہ جان کی بازی لگا دیتا ہے ، وطن کے لئے ۔ ۔ ۔ مگر وطن جہاں انسان کو پہچان دیتا ہے وہیں اسکی زندگی کو اچھا یا برا بنا دیتاہے ، انسان اپنے رہن سہن لباس زبان و مکاں کو مقابلے کا سانچہ بناتا ہے اور جب وہ اس سانچے میں خود ہی نہیں پور اترتا تو دوسرے کی وطن پرستی سے ٹکرا جاتا ہے ، اس سے جینے کا حق چھیننا چاہتا ہے ، وطن کو اپنے ایمان کا حصہ بناتا ہے اور پھر اپنے لئے خود مصیبتیں کھڑی کرتا ہے

٣- خود کو بہتر اور دوسروں کو کمتر سمجھنا
احساس برتری یا احساس کمتری دونوں ہی کیفیات انسانی زندگی کو متاثر کرتے ہیں ، انفرادی سطح پر یا اجتماعی سطح پر یہ احساسات انسانی تہذیب و تمدن کو متاثر کرتے ہیں ، انفرادی برتری کا احساس انسان کو اسکی جڑوں سے الگ کر دیتا ہے اور طبقاتی کشمکش کا سبب بنتا ہے اور احساس کمتری کا احساس مایوسی اور ناامیدی کو جنم دیتا ہے جو کسی بھی انسانی معاشرے کو تباہی کی طرف لے جاتا ہے ، احساس برتری رکھنے والے احساس کمتری والوں کو اپنے رہن سہن اور عادات سے مایوسی کی دلدل میں دھکیلتے ہیں اور احساس کمتری والے ناامیدی کے بجھے چراغ لے کر احساس برتری والوں کو مشکلوں میں ڈالتے ہیں ، اور اسے نیکی اور بدی کا نام ملتا ہے ۔ ۔ اور پھر یہ کشمکش مزید گہری ہوتی ہے جو فساد کا باعث ہوتی ہے

٤۔ نفرت
انسان اپنے ہی جیسے انسان سے نفرت کرتا ہے ، اصل میں یہ جذبہ حالات و واقعیات سے جنم لیتا ہے ، انسان اکیلا نہیں رہ سکتا ، وہ دکھنے میں جسمانی ساخت میں اور رہن سہن کے طریقے اور بول چال کے فرق کی وجہ سے بھی نفرت کا شکار ہوتا ہے ، جب انسان کسی دوسرے انسان کو اپنے جیسا نہیں کر سکتا ، یعنی اپنی بات نہیں منوا سکتا تو اپنی ناکامی کو وہ نفرت میں بدل دیتا ہے ، نفرت انسانوں کے مابین لڑائی ، جنگ اور ایسے واقعیات کو جنم دیتی ہے کہ صرف جنگ رہ جاتی ہے اور نفرت کی وجہ بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ ۔

٥۔ قوم پرستی
انسان گروہوں کی شکل میں رہتا ہے ، جسے وہ قوم کہتا ہے ، قوم سے تعلق انسان کو پہچان دیتا ہے ، اور پہچان ہی اسے انفرادی یا اجتماعی سطح پر مقبول یا گمنام کرتی ہے ، کبھی وہ گورے کالے کی تفریق میں قوم پرستی کرتا ہے کبھی ایک خطے کو دوسرے خطے سے الگ کر کہ قوم پرستی کرتا ہے ، کبھی رنگ و نسل اور کبھی زباں و مکاں اور کبھی کچھ واقعیات بھی اسے قوم بنا دیتے ہیں ، وقت قوموں کو مٹاتا ہے بناتا ہے اور پھر یہ بننا بگڑنا ہی انسان کو آپس میں دست و گریباں ہونے کا موقع دیتا ہے ، انسان دوسرے انسان کو انسان نہیں سمجھتا ۔۔ ۔ اور پھر اپنے لئے اور دوسروں کے لئے مشکلات بناتا ہے ۔ ۔ ۔

٦- سماجی اور اخلاقی معیارات
انسان قوم کی شکل میں کچھ رہن سہن اور زماں اور مکاں کے حوالے سے زندگی گذارنے کے طریقے بناتا ہے ، جو ہر خطے میں الگ الگ ہوتے ہیں جسکی وجوہات ، وہاں کا جغرافیہ ، حالات ، موسم اور دستیاب وسائل ہوتے ہیں ، انسان یہ سب سمجھتا ہے مگر انہیں سماجی اور اخلاقی معیارات کو بنیاد بنا کر آپس میں اختلاف پیدا کرتا ہے ، اور ایک دوسرے کے لئے مشکلات کا بعث بنتا ہے ۔ جیسے اگر میں ایک لباس پہنتا ہوں تو لازم نہیں کہ دوسرا بھی وہ ہی لباس پہنے ، مگر ایک دوسرے کے پہناوے سے لے کر اٹھنے بیٹھنے کے آداب تک انسان اختلافات کی آگ بھڑکاتا ہے اور پھر خود ہی ان کا شکار بنتا ہے

اوپر دی گئی چند وجوہات جو یہ بیان کرتیں ہیں کہ انسان کیوں مشکلات کا شکار ہے ، کیا ان کا تدارک ہے ، جی ہاں ہے ، میرے خیال میں انسان اکیلا نہیں رہ سکتا مگر اس میں برداشت کی کمی ہے اسلئے وہ دوسرے انسان کو ساتھ نہیں رکھ سکتا ۔ ۔۔ اور اسی لئے بھیڑ میں بھی اکیلا ہوتا ہے ۔ ۔ ۔ اور اکیلے میں بھی انجمن سجاتا ہے ۔ ۔ ۔ صرف ایک ہی جذبہ انسان کو اس بڑی تباہی سے بچا سکتا ہے جسکی طرف آج کا انسان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور وہ جذبہ ہے برداشت کا تحمل کا ۔ ۔ ۔

١- عقیدے کا احترام
انسان عقیدہ رکھتا ہے مگر اسکا احترام نہیں کرتا ، جب وہ خود اپنے عقیدے کا احترام نہیں کرتا تو دوسروں کا عقیدہ تو اسے اچھا نہیں لگتا ۔ ۔ وجہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدہ رکھتا تو ہے مگر اسپر عمل نہیں کرتا جیسے میرے پاس ایک بہت اچھی کار ہے مگر میں اسے چلاتا نہیں یا چلانا نہیں چاہتا ، مگر ایک دوسرے شخص کے پاس ایک کمتر کار ہے مگر وہ اسکی سواری کرتا ہے اور خوش بھی دکھائی دیتا ہے ، میں اس شخص سے حسد کروں ۔ ۔ اور اسکی کار کو روکوں یا اسکے پہیوں کی ہوا نکال دوں ۔ ۔ تو یہ غلط ہو گا ۔ ۔ میرے پاس اپنی کار ہے میں اسے ہی پسند کرتا ہوں تو مجھے اس پر یہ تکیہ کرنا چاہیے ، یا پھر کار بدل لینی چاہیے یا پھر اسے چلانا چاہیے ۔ ۔

٢- وطنیت ایک پہچان
وطن سے محبت اور اسکی شان سمجھنا ہر انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، مگر یہ احساس صرف اپنے لئے نہیں بلکے دوسرے کے لئے بھی ہونا چاہیے ، میرا گھر چاہے کتنا صاف کیوں نہ ہو ، میں دوسرے گھر کی صفائی کی برابری نہیں کر سکتا ، یا میرے گھر کی گندگی اور دوسرے گھر کی گندگی میں کوئی فرق تلاش نہیں کیا جا سکتا ۔ ۔ ۔ صفائی صفائی ہے گندگی گندگی ۔ ۔ ۔ مجھے دوسرے کی گندگی صاف کرنے کے چکر میں اپنا گھر گندا نہیں کرنا چاہیے ، ، اور اسی طرح دوسرے کی صفائی دیکھ کر اپنے گھر کو بھی صاف کرنا چاہیے ، میری پہچان میرا گھر ہے ۔ ۔ دوسرے کا گھر نہیں ۔ ۔ اسکی صفائی یا گندگی اسکی ہے میری پہچان سے اسپر اثر نہیں پڑ سکتا ۔ ۔

٣- احساس برتری یا کمتری
انسان کو اسکے جذبے زندگی سیکھاتے بھی ہیں اور بناتے بھی ہیں ، برتری کا احساس کمتری میں بدل جاتا ہے جب انسان اپنے سے برتر کو دیکھتا اور اپنے سے نیچے دیکھتا ہے تو تفاخر کا احساس جنم لیتا ہے ۔ ۔ اور اپنے سے برابر کو حسد کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ ۔ اسے انسان کو اپنی زندگی سے سیکھنا چاہیے ، میں اگر ٣٠ سال کا ہوں تو مجھے ٤٠ سال والے سے حسد کرنے کی کوئی وجہ نہیں کہ میں چھوٹا ہوں اور وہ بڑا ہے یا پھر مجھے ٢٠ سال والے سے کوئی برتری نہیں کہ میں بڑا ہوں اور وہ چھوٹا ہے ، میرا اپنا وقت ہے اس دنیا میں اور انکا اپنا وقت ، یہ میرے اختیار میں نہیں کہ میں ایک دم سے ٣٠ سے ٤٠ کا ہو جاؤں یا پھر ٢٠ والا ایک دم میرے جتنا ہو جائے ۔ ۔ ۔ احساس برتری یا کمتری کا احساس بھی ایسا ہی ہے ۔ ۔

٤۔ نفرت کا جواب محبت
کہنا آسان کرنا مشکل مگر نفرت بھی ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو ایک دوسرے کے قریب لاتا ہے ، محبت اور نفرت میں قربتیں بڑھتیں بس فرق اتنا ہوتا ہے کہ نفرت میں انسان نقصان کرتا ہے اٹھاتا اور محبت میں فائدہ دیتا ہے اور پاتا ہے ۔۔ میرے راستے میں ایک بڑا پتھر آ جاتا ہے ، میں اس پتھر کو توڑنے میں لگ جاتا ہوں حتہ کہ مجھے پتہ ہے کہ میں تھوڑا سا ایک طرف سے پتھر کو ہٹائے بنا آگے بڑھ سکتا ہوں تو پھر اس پتھر پر وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے ۔ ۔ ایسے ہی نفرت راستے کا پتھر ہے اور محبت متبادل راستہ

٥۔ قوم پرستی
انسان کو سب سے زیادہ محبت اپنے آپ سے ہوتی ہے ، اور اسکی وجہ اسکی پہچان ہے ، ہر انسان اپنی جگہ ایک مکمل اکائی ہے ، مگر اسکی ایک اور پہچان اسکے ساتھی دوست رشتے دار ہیں جو اسے ایک قوم بناتے ہیں ، وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے اسی بنیاد پر محبت کرتا ہے انکے کام آتا ہے ۔ ۔اگر آپ دو ایک ہی رنگ کے شربت لیں جن کا ذائقہ مختلف ہو ایک ہی جیسی بوتل میں ڈالیں ، آپ دونوں کے درمیان میں تفریق صرف دیکھنے سے نہیں کر پائیں گے ، جب تک اسے چکھیں گے نہیں ؟ اسکے ذائقے کے بارے میں رائے نہیں دے سکیں گے اور ایسے ہی قومیت کا ہے انسان سب ایک جیسے ہیں مگر بس انکے پہچان میں فرق کے لئے کچھ اور ذائقے بھی ہیں ۔ ۔ ۔ اور یہ ذائقے ہی انکی پہچان ہیں ۔ ۔

٦۔ سماجی اور اخلاقی معیارات
انسانوں کا رہن سہن اور ایک دوسرے کے ساتھ ملاپ مختلف جگہوں پر مختلف ہوتے ہیں ، میں ایک پہاڑی علاقے میں رہتا ہوں ، مجھے چڑھائی اور ڈھلان کا پتہ ہے ، مگر ایک اور شخص جو میدانی علاقوں کا رہنے والا ہے اور ہمیشہ ہی سیدھے اور چٹیل میدانوں میں چلا ہو وہ میری طرح چڑھائی اور ڈھلوان کا ذوق نہیں رکھ سکتا اور شاید میں اسکی طرح تیز قدم نہ ہوں ، اسی طرح میں گرم علاقے میں رہنے والا ہوں اور میرا لباس ایک سرد علاقے کے رہنے والے سے مختلف ہو گا ۔ ۔ مگر جب میں سرد علاقے میں جاؤں گا تو مجھے وہاں کے ماحول کے مطابق لباس پہننا پڑے گا ۔ ۔ چاہے اس میں رنگ میرے ہی گرم علاقے کا ہو ۔ ۔۔انسانی معیارات بھی ایسے ہی ہیں ۔ ۔ ہمیں مختلف جگہ پر مختلف رویے ملتے ہیں ، جو اس ماحول کی عکاسی کرتے ہیں ۔ ۔ اور ہمیں انہیں ماننا چاہییے

ہم انسان اپنے رویوں سے ہی اس دنیا کو اچھا یا برا بنا سکتے ہیں ، اور اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔ ۔
اللہ ہمیں نیک ہدایت دے
 
Top