انسان کی ترقی

عرفان سعید

محفلین
انسان کی ترقی
رشک سے تکتی ہے ثریا اس کی اڑان کو
فکرِانسان دور بہت دور کیا آرامیدہ ہے؟
گردِ ماہِ کامل اس کے قدموں کی دُھول
ترقیٔ شعور اسی خاک میں کیا خوابیدہ ہے؟
عرش پر فرشتے کرتے ہیں یہ سرگوشیاں
امینِ نیابت کی چشمِ فراست آبدیدہ ہے؟
گردشِ سیّالِ پیکرِ خاکی اس کی مٹھی میں
کاہے کو انسانیت مگر آج رنجیدہ ہے؟
کامیابی کے سفر کی یہ ایک طویل داستان
کتاب تاریخ کی عبارت کیوں خط کشیدہ ہے؟
زمین کو فردوس بنانے میں جواب نہیں!
اس چمن کا نخلِ تمنا کیوں لرزیدہ ہے؟
خورشید کی کرنوں کو لے اپنی گرفت میں
شمعِ حیات کی تابانی سےیہ کیا نادیدہ ہے؟
نجوم و کواکب تری بابت کریں گفتگو
یہ بجلیاں آغازِ سحریا شب کا سپیدہ ہے؟
ذرات کا رقص عُریاں حسِ بصارت میں
شانۂ بصیرت پہ زلفِ تفکر کیا خمیدہ ہے؟
ترقی کا سیلاب، علوم کا ایک سیلِ رواں
ماتمِ مقتول میں پھر تو کیوں نم دیدہ ہے؟
ہیروشیماکا افسانہ، سائنس کامقامِ کمال!
تو ہی بتا، اب یہ کون سی صفتِ حمیدہ ہے؟
جنگ و جدل، کشت و خون، قتل و غارت
سب یہ کارِ ابلیس تیرا کیا عقیدہ ہے؟
امن و سکون، اخوت و محبت، عجز و انکسار
حقیقت یا ایک شاعر کا خیالی قصیدہ ہے؟
باوجودِ رنگ و نسل سب ہیں زادۂ آدم
اصلِ واحد تری کیا ایک نکتۂ پیچیدہ ہے؟
جذبِ باہمِ انسانی شرف کا سدرۃ المنتہیٰ
یہ رازبھی تیری نظر سے کیا پوشیدہ ہے؟
جنت جائے اول تیری، یہی مسکنِ آخر
دل میں خلش سی،اتنا تو کیا برگزیدہ ہے؟
(عرفان)
 
Top