انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں

ساجدتاج

محفلین
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ:۔



انسان کے ساتھ جب بھی کچھ بُرا ہوتا ہے تو وہ اُس کا الزام زمانے کو دینے لگتا ہے کہ زمانہ ہی خراب ہے۔اسی طرح جب بُرے حالات کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ آج کا زمانہ کتنا بُرا ہے پچھلا زمانہ ایسا نہ تھا یا پچھلا زمانہ بُرا نہ تھا۔حقیقت بات یہ ہے کہ انسان کو آج تک زمانے کا مطلب سمجھ میں‌ہی نہیں‌آیا ہے کہ زمانہ ہے کیا اور زمانہ کہتے کس کو ہیں۔ بس ایک عادت بس چکی ہے کہ کچھ بھی غلط ہو جائے تو بِنا سوچے سمجھے الزام زمانے کو دے دو۔ ہمیں‌ تو سب سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہیے کہ زمانہ ہے کیا؟

زمانہ کوئی اچھے بُرے لوگوں کا گروپ نہیں جو آج کچھ ہے تو کل کچھ اور ہو گا۔ زمانہ انسان سے نہیں‌ہے بلکہ انسان زمانے سے ہے۔ انسان بُرا ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان خراب ہوتا ہے زمانہ نہیں، انسان ظالم ہوتا ہے زمانہ نہیں ، بیوفائی اور دھوکہ انسان کرتا ہے زمانہ نہیں۔

زمانہ تو اللہ تعالی سے ہے یہ سورج ، چاند و ستارے ، زمین و آسمان ، درخت ، پہاڑ ، ہوا ، پانی ، سمندر ، دریا ، دن و رات وغیرہ یہ سب زمانے کا حصہ ہیں۔ زمانہ انسان کے کہنے پر نہیں چلتا بلکہ یہ تو اللہ تعالی کے تابع ہیں جو اُس کے حکم سے اپنے اپنے کام سر انجام دے رہیں ہیں۔ زمانہ انسان کا محتاج نہیں بلکہ انسان زمانے کا محتاج ہے۔ زمانے کو بُرا کہنے کا مطلب نعوذ باللہ نعوذ باللہ نعوذ باللہ اللہ تعالی کو بُرا کہنے کے برابر ہے۔ جو اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔


ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

قال النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال اللہ تعالی یوذینی ابن آدم، یسب الدھر بیدی الامر اقلب اللیل والنھار۔

ترجمعہ: “ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ ابن آدم مجھے تکلیف پہنچاتا ہے، زمانے کو بُرا بھلا کہتا ہے۔ حالانکہ میں ہی زمانہ کا پیدا کرنے والا ہوں۔ میرے ہی ہاتھ میں تمام کام ہیں، میں جس طرح چاہتا ہوں رات اور دن کو پھیرتا رہتا ہوں۔“

(صحیح بخاری(مترجم) جلد 8 صفحہ 596 کتاب التوحید جلد نمبر 6 کتاب التفسیر باب وما یھلکنا الا الدھر۔ صفحہ نمبر 386)




ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیھ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا؛

یقول اللہ استقرضت عبدی فلم یقرضنی وشتمنی عبدی وھو لایدری مایقول وادھراہ وادھراہ وانالدھر

ترجمعہ: اللہ تعالی فرماتا ہیں کہ میں‌ نے اپنے بندے سے قرض مانگا اس نے مجھے قرض نہ دیا اور میرے بندے میں لاعلمی میں مجھے گالی دی اور وہ کہتا ہے ہائے زمانہ ہائے زمانہ۔ حالانکہ زمانہ درحقیقت میں ہوں۔

مستدرک الحاکم کتاب الزکاتہ جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 418 صھیح الترغیب والترھیب، کتاب الادب باب الترھیب من السباب جلد نمبر 3 صفھہ نمبر 66 سلستھ الاحادیث الصحیحتھ جلد نمبر 7 جز نمبر 3 صفحہ نمبر 1395 حدیث نمبر 3477


ہم زمانے کو جھوٹا ، مکار ، دھوکہ دینے والا ، فریبی ، بُرا ، خراب ، ذلیل کہتے رہتے ہیں لیکن درحقیقت ان تمام چیزوں کی جڑ واحد انسان ہی ہے۔ جو جھوٹ بھی بولتا ہے، دھوکا بھی دیتا ہے، ظلم بھی کرتا ہے، بیوفائی بھی کرتا ہے، خرابیاں بھی پیدا کرتا ہے، جبکہ اللہ تعالی نہ جھوٹ بولتا ہے، نہ وعدہ خلافی کرتا ہے ، نہ ظلم کرتا ہے اور نہ ہی بیوفائی کرتا ہے۔


زمین میں فساد کون کرتا ہے ؟ “ انسان “

قتل و غارت کون کرتا ہے؟ “ انسان “

جھوٹ کون بولتا ہے؟ “ انسان “

ظلم کون کرتا ہے؟ “ انسان “

چوریاں کون کرتا ہے؟ “ انسان “

غیبت کون کرتا ہے؟ “ انسان “

زانی کون ہے؟ “ انسان “

بیوفائی کون کرتا ہے؟ “ انسان “

شراب کون پیتا ہے؟ “ انسان “

ناپ تول میں کمی کون کرتا ہے؟ “ انسان “


جب یہ سارے کام انسان کرتا ہے تو زمانہ کیسے بُرا ہو گیا ؟ زمانہ کیسے خراب ہو گیا ؟ زمانہ کیسے جھوٹا ہو گیا؟ زمانہ کیسے ظالم ہو گیا؟ انسان اپنے لیے بُرے حالات خود پیدا کرتا اور الزام زمانے کو دے دیتا ہے۔ کیونکہ جب انسان سے کچھ نہیں ہوتا یا وہ بے بس ہو جاتا ہے تو الزام تراشی دوسروں پر کرنے لگتا ہے۔ انسان جب پریشان یا بیمار ہوتا ہے تو یہ جملہ سننے کا ملتا ہے کہ وقت بُرا آگیا ہے اب وہ بُرا زمانہ نہیں رہا بُرا زمانہ آگیا ہے تو یہ سراسر اللہ تعالی کو تکلیف دینے کے برابر ہے۔ لوگوں کے بُرے حالات ، پریشانیاں یا بیماریوکی وجہ زمانہ نہیں بلکہ انسان خود ہے۔


آپ صلی اللہ علیھ وسلم نے ارشاد فرمایا!

لاتسبوا الدھر قال اللہ رزوجل انا لدھر، الایام واللیالی (1) جددھا وابلیھا، وآتی بملوک بعد ملوک (2)

ترجمعہ: زمانے کو گالی مت دو، اللہ عزوجل فرماتے ہیں زمانہ میں ہوں، دن اور رات کو نیا اور پرانا میں کرتا ہوں اور ایک بادشاہ کے بعد دوسرے بادشاہ کو بادشاہی دیتا ہوں۔

1۔ کتاب الدعر، اللطبرانی صفحہ نمبر 568 ، مجمع الزوائد 8/71
2۔ صحیح الترغیب والترھیب جلد نمبر 3 صفحہ نمبر 66 کتاب الادب باب الترھیب من السیاب



ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ

عن النبی صلی اللہ علیھ وسلم قال لا تسموا العنب الکرم، ولا تقولوا: خیبتھ الدھر فان اللہ ھو الدھر

ترجمعہ: نبی صلی اللہ علیھ وسلم نے فرمایا “انگور“ عنب کو “کرم“ نہ کہو اور یہ نہ کہو کہ ہائے زمانہ کی نامردای ، کیونکہ زمانہ تواللہ ہی کے اختیار میں ہے۔

صحیح بخاری (مترجم) جلد 7 صفحہ 536 کتاب الادب باب لاتسبوا الدھر


بات ہے سمجھنے کی پر سمجھے کون؟






زمانے کو بُرا کہنے والے ذرا اپنا گریبان جھانک کر تو دیکھ
اللہ سے گلہ کرتا ہے اپنی غلطیوں پہ نظر ڈال کر تو دیکھ

کہتا ہے کہ زمانے کا پیدا کرنے والا اللہ ہی ہے ساجد
سچے دل سے اپنی اس بات کو مان کر تو دیکھ




سمجھےجواگرانسان تو بات ہےسیدھی سی
یہ دنیا ہے فانی یہ دنیا ہے عام سی

کھو رہے ہیں ہم جہالت کی اندھیر نگری میں ساجد
سوچتا ہوں کہ رکھتے ہیںخواہشیں ہم کتنی عجیب سی

تحریر: ساجد تاج
 
Top