انسان اور نسیان

نوید ناظم

محفلین
کہتے ہیں کہ لفظ انسان کا لفظ نسیان سے بڑا گہرا تعلق ہے۔۔۔ انسان کو دیکھ کر ایسا لگتا بھی ہے- بھول جانا بڑی بات نہیں مگر بھولنے کا رویہ اپنا لینا کمزور بات ضرور ہے۔ ہم وہ بات جلد بھول جاتے ہیں جس بات کا تعلق ہمارے مفاد سے نہ ہو۔۔۔ مطلب ہم بات کو یاد نہیں رکھتے بلکہ مفاد کو یاد رکھتے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ لفظ کی حرمت اور اہمیت کیا ہوتی ہے۔۔۔۔ ایک ''کُن" سے ایک کائنات تخلیق ہو سکتی ہے اس لیے بول کر سوچنے کی بجائے سوچ کر بولنا چاہیے۔
ہم لگا تار بولتے ہیں اور بولتے ہی چلے جاتے ہیں، ہمارا مقصد معانی اور نتیجے سے زیادہ الفاظ کو اُگلنا اور نگلنا ہوتا ہے۔ انسان کہتا ہے کہ میں کل تم سے ملنے آؤں گا اور پھر کئی کل گزشتہ کل بن جاتے ہیں۔ ہر بات ایک نتیجہ ضرور پیدا کرتی ہے چاہے بے معنی ہی کیوں نہ ہو۔ کہتے ہیں وہ بات بہتر ہے جس بات کو انجام تک پہنچا جائے۔ جس کام کو کرنا نہیں اس کام کا ذکر کیا کرنا۔ پلاننگ اچھی بات ہے مگر ہماری ہر پلاننگ، ری پلاننگ ہوتی ہے۔
زندگی کا ہر شعبہ دور اندیشی کا متقاضی ہے۔۔۔ بات کی حفاظت دور اندیشی کے بغیر مشکل ہو جاتی ہے۔ جلد بازی' منظر سازی نہیں کر سکتی اس لیے ہمارے علما پہلے ٹی وی جلانے کو ثواب کہتے ہیں اور بعد میں ٹی وی چلانے کو۔۔۔۔ تصویروں کے خلاف بات کرنے والے بعد میں اپنی ہی بات کے خلاف بے بسی کی تصویر بنے نظر آتے ہیں۔ بات نہ بھی بدلے تو حالات بدل جاتے ہیں اور انسان کی بات حالات کے دلدل میں دھنستی چلی جاتی ہے۔ اس لیے بات کرتے ہوئے حال اور حالات کا جائزہ لے لینا جائز بات ہے۔
نسیان اصل میں اہمیت کے حوالے سے حملہ آور ہوتا ہے۔۔۔ انسان کے نزدیک سب سے زیادہ اہم بات سب سے زیادہ یاد رہتی ہے اور سب سے کم اہم بات کم یاد رہتی ہے۔ انسان دشمن کی تیوری اور دوست کی مسکراہٹ کبھی نہیں بھولتا ورنہ ہزاروں لوگ اس کی آنکھوں کے سامنے سے روز گزر جاتے ہیں۔ جو بات ہمیں یاد رہ جائے وہ بات ہمارا مزاج ہوتی ہے۔ شاعر' شعر کہنا نہیں بھولتا اور تاجر' تجارت کرنا نہیں بھولتا۔۔۔۔ محبوب دور رہ کر بھی یاد رہتا ہے اور ناپسندیدہ چہرہ پاس ہو کر بھی آنکھوں کے لیے اجنبی رہتا ہے- وہ بات جو یاداشت سے آگے نکل جائے وہ یاد بن جاتی ہے اور یاد بھولتی نہیں کیوں کہ یاد دل میں ہوتی ہے اور یاداشت دماغ میں۔
ہمیں نسیان سے فرار تو نہیں مگر ہمیں اس کا ادراک ہونا چاہیے۔۔۔۔ اتنا ضرور یاد ہو کہ ہم نے کیا نہیں بھولنا ورنہ بھولنے کو بھلا کیا نہیں بھولتے ہم۔ جب ضرورت مند ہم سے اپنی ضرورت کا اظہار کرتا ہے تو ہم اسے امید دلا دیتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں کہ ہم نے کس سے سے کیا کہا اور کیوں کہا۔۔۔ ضرورت مند ہمارے ان الفاظ کو ایسے یاد رکھتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کو، جب کہ ہمارے نزدیک وہ بات محض رسمِ حرف و صوت ہی ہوتی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ کوئی بات بھی چھوٹی نہیں ہوتی۔ بات کا قد انسان کے ظرف کے قد سے ماپا جاتا ہے اور ظرف کا تقاضا یہی ہے بات کر کے بات کو یاد رکھا جائے۔۔۔۔ اس کام کا اظہار نہ کیا جائے جس کام کو کرنا نہیں۔۔۔ لوگوں کو اپنی بات اور وعدے یاد دلانے کی زحمت سے بچایا جائے۔۔۔۔ جس کا ظرف زندہ ہو اُس کی بات پتھر پرلکیر ہو جاتی ہے ورنہ تسلیم فاضلی کے بقول روز کہتا ہوں بھول جاؤں تجھے روز یہ بات بھول جاتا ہوں۔
 
Top