انسانی سمگلنگ، بردہ فروشی کی جدید اور بدترین شکل...تحریر:سہیل احمد لون…سربٹن،سرے... (دوسری قسط)

پہلی قسط پڑھیئے

وطن عزیز میں انسانی مجبوری کاناجائز فائدہ اٹھانے والے بیوپاری بکثرت نظر آئیں گے۔ جو کام کا جھانسہ دے کر لوگوں کو غیر قانونی دھندے میں ملوث کر دیتے ہیں۔ ان میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں۔ معصوم لوگوں کو بیرون ملک بھیجنے کا جھانسہ دے کر ان کی جمع پونجی لوٹنے کے ساتھ ان کو جرم و گناہ کی اس دلدل میں پھنسا دیتے ہیں جس سے باہر نکلنا ناممکن حد تک مشکل ہو جاتا ہے۔انسانی سمگلنگ اس وقت بڑا مسئلہ ہے عالمی تیسری اور چوتھی دنیا کے ممالک اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ پاکستان میں بھی اکثریت آبادی غربت کی لائن سے نیچے کی زندگی گزار رہی ہے ، بے روزگاری ، ناانصافی ، بنیادی حقوق کا عدم تحفظ ، دہشت گردی اور کئی دیگر مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے لوگ بیرون ممالک جانے کے لیے ایسے گروہ کا شکار بن جاتے ہیں جو انسانی سمگلنگ کے دھندے میں فعال ہوتے ہیں۔بیرون ممالک جانے کے لیے شاید پانچ فیصد لوگ باقاعدہ اور قانونی طریقہ استعمال کرتے ہیں ورنہ اکثریت بے قاعدہ اور غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہیں ۔ اس مقصد کے لیے وہ شکار بن کر خود انسانی سمگلروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں ۔اب تک ایسی بہت سی داستانیں منظر عام پر آچکی ہیں جن میں معصوم لوگوں کو باہر کا جھانسہ دے کر لوٹا گیا ہو، ان کے ذریعے منشیات کی سمگلنگ کروائی گئی ، عورتوں کو جسم فروشی کے دھندے پر لگا دیا گیا ۔ انسانی سمگلنگ میں ملوث گروہ بہت سے جرائم پیشہ عناصر کو ملک سے باہر ایسے نکال دیتے ہیں جیسے مکھن سے بال…! یورپ ، برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا اور مشرق وسطیٰ سمیت کئی ممالک میں ایسے ہزاروں لوگ آباد ہیں جن کو وطن عزیز میں عدالتی کارروائی کے بعد سخت ترین سزاؤں کا سامنا تھا ، ان میں ایسے مجرم بھی شامل ہیں جن کو سزائے موت سنائی گئی یا عمر قید اس کے علاوہ بہت سے اشتہاری ملزم بھی غیر قانونی طریقے سے راتوں رات ملک سے فرار ہوجاتے ہیں۔ دراصل انسانی سمگلر ز کا گروہ اتنا مضبوط اور فعال ہے کہ ان پر ہاتھ ڈالنا اتنا آسان نہیں کیونکہ جس نے ہاتھ ڈالنا ہوتا ہے ان کا ہاتھ ہی تو ان کے سر پر ہوتا ہے۔عرف عام میں ان کو ایجنٹ کہا جاتا ہے جن کے رابطے ایف آئی اے ، امیگریشن ، پاسپورٹ و شناختی کارڈ کے دفاتر میں کام کرنے والے حکام کے علاوہ سفارت خانوں میں کام کر نے والوں سے بھی ہوتے ہیں، جن کو کام کے مطابق معقول حصہ مل جاتا ہے۔ ایجنٹوں کے ذریعے بیرون ملک جانے والوں میں اکثریت کم پڑھے لکھے یا اَن پڑھ افراد کی ہوتی ہے جو آسانی سے اس جال میں پھنس جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایجنٹی کرنے والے کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے جن میں لاہور، منڈی بہاؤالدین، گجرات، سرگودھا، جہلم، راولپنڈی،چکوال قابل ذکر ہیں۔ اس وقت تقریباً اٹھارہ لاکھ روپے فی کس یورپ یا برطانیہ کا ریٹ ہے ۔ اگر پیسے کم کیے جائیں تو جانی رسک اوروقت کا عنصر بڑھ جاتا ہے۔ 18لاکھ روپے میں بذریعہ جہاز دو سے چار ہفتے میں بندوبست کیا جاتا ہے۔ اس کے لیے ویزا کے حصول کے لیے دستاویزات تیار کی جاتی ہیں۔ جن میں طالب علم ، بزنس مین کے علاوہ کسی کی بیوی یا خاوند بنا کر بھی جہاز پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات سرکاری آفیسر کی دستایزات بنوا کر اسے بیرون ملک بھیجا جاتا ہے۔ اس میں وہ کسی کانفرنس، سیمینار، ٹریننگ یا میٹنگ کا جواز بنا کر ویزا لے لیتے ہیں۔
ایک وقت تھا جب خصوصاً برطانیہ میں سٹوڈنٹ یا کھلاڑی کے طور پر بڑی آسانی سے ویزا لگوا کر انسانوں کی سمگلنگ کی جاتی رہی۔ اگر کسی نے کلب لیول کرکٹ کا ایک بھی میچ کھیلا ہوتا تو اس کو آسانی سے ویزا مل جاتا ۔ ایجنٹ حضرات نے اس آسانی سے بھر پور فائدہ اٹھایا۔ گزشتہ برس سٹوڈنٹ ویزا کی جعل سازیاں برطانوی رپورٹر نے بھارت جا کر بے نقاب کیں جس کے بعد برطانیہ میں سٹوڈنٹ ویزا کے لیے ساؤتھ ایشن کے لیے نئی پالیسی بنا دی گئی۔ بزنس ویزا ، سپاؤز ویزا میں بھی کئی نئی اصلاحات ہوئیں جس کا مقصد لوگوں کو برطانیہ آنے سے روکنا تھا۔ مگر ایجنٹ حضرات ایک دروازہ بند ہونے پر تین نئے دروازے کھول لیتے ہیں۔ انسانی سمگلروں نے اپنی کشتیاں ، بوٹس اور چھوٹے بحری جہاز بنا رکھیں ہیں۔ ان ایجنٹ کا نیٹ ورک کافی ملکوں میں پھیلا ہوتا ہے جو وقت اور حالات کے مطابق انسانی سمگلنگ کے لیے نئے روٹ نکالتے رہتے ہیں۔ پاکستان کے کسی بھی شہر سے اصل ویزا اور پاسپورٹ سے دوبئی بھیجا جاتا ہے جہاں سے ان کے پارٹنرز جعلی دستاویزات کے ساتھ بحری جہاز سے کولمبو، شام ،یونان یا اٹلی پہنچایا جاتا ہے۔
کراچی سے بنکاک اور بنکاک سے سمندری راستے سے فرانس جعلی دستاویزات سے انسانوں کو سمگل کیا جاتا ہے۔کراچی سے ایران ، کوئٹہ سے ایران پھر وہاں سے ترکی کے شہر استنبول جہاں سے ایجنٹوں کی زبان میں ڈینکی یعنی غیر قانونی طریقے سے یونان جانا جس میں کئی میل راتوں کو پیدل چلنے کے علاوہ کشتیوں ، لانچوں سے یونان داخل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس میں کافی افراد ڈوب کر بھی مر جاتے ہیں کچھ بارڈر سیکورٹی کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے ہیں ۔ زندہ بچ جائیں تو غیر قانونی طور پر ملک میں داخل ہونے کے جرم میں حوالات میں بے یارو مددگار بند کر دئیے جاتے ہیں۔ اگر کو ئی قسمت سے منزل تک پہنچ بھی جائے تو ایک دوسرے درجے کے شہری یا معزز غلام کی زندگی بسر کرنی پڑتی ہے۔نیروبی سے قاہرہ پھر وہاں سے پیدل یونان کا سفر بھی انسانی سمگلروں نے کافی دیر سے دریافت کر رکھا ہے۔ روٹس اور طریقہ کار کمپیوٹر کی ونڈوکی طرح نئے سے نئے متعارف کیے جاتے ہیں۔ بیرون ممالک میں لاکھوں ایسے افراد بھی مقیم ہیں جن کا اندراج اس ملک میں سرے سے نہیں ۔ کام کا جھانسہ دے کر ان کو بیرون ممالک لایا جاتا ہے پھر ان کو غلام بنا کر مقید کر لیا جاتا ہے۔ عورتوں کو جسم فروشی میں لگا دیا جاتا ہے ، بچوں سے بھی مشقت لی جاتی ہے۔گزشتہ دنوں حج اور عمرے کے نام پر بھی عورتوں کو جسم فروشی کے لیے بھیجے جانے کا انکشاف ہوا۔ برطانیہ میں امیگریشن کا ادارہ اتنا فعال نہیں اور کام کے مواقع یورپ کے ممالک سے زیادہ ہیں اور سہولیات بھی کافی ہیں جس کی وجہ سے یورپ کے راستے غیر قانونی طور پربرطانیہ داخل ہونے کا رجحان بھی عام ہے۔ اس کام میں اکثر کنٹینر یا ٹرک ڈرائیور انسانی سمگلنگ کرتے ہیں ۔ موجودہ وقت میں 1500پونڈز فی کس کے حساب سے بارڈر کراس کرنے کا ریٹ ہے۔ کچھ برس قبل ہالینڈ سے ٹماٹر لانے والا کنٹینر ڈوور DOWERکی بندرگاہ پر روکا گیا ۔ جب ٹرک کا عقبی دروازہ کھولا گیا تو ٹماٹروں کی پیٹیوں کے ساتھ 60چائنیز بھی موجود تھے بدقسمتی سے ان میں سے 58افراد آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے مر چکے تھے صرف 2افراد کو نیم بے ہوشی کی حالت میں ملے ۔لانچوں اور کشتیوں کے ذریعے بارڈر کراس کروانے میں اکثر اوور لوڈنگ کی وجہ سے حادثات پیش آئے ہیں۔ یورپی یونین میں مشرقی یورپ کے ممالک شامل ہونے سے قبل مشرقی یورپ سے بھی ٹرک اور ٹرالوں میں انسانی سمگلنگ عروج پر رہی ۔ 2سے 3دن ٹرکوں کے خفیہ خانوں میں چھپ کر صرف چنوں اور پانی کی ایک چھوٹی بوتل کے سہارے سفر کروایا جاتا، رفع حاجت کے لیے بھی باہر نہیں نکالا جاتا تھا بلکہ اس مقصد کے لیے بھی مخصوص برتن دیا جاتاتھا۔
اب برطانیہ میں سٹوڈنٹس کے لیے حالات اتنے سازگار نہیں رہے جس وجہ سے برطانیہ سے یورپ جانے کے لیے انسانی سمگلر 1500پونڈز لے کر فرانس چھوڑ آتے ہیں جہاں سے وہ اپنی مرضی سے یورپ کے کسی بھی ملک جا سکتے ہیں۔ برطانیہ کے بی بی سی کے مشہور ٹی وی شو پینو راما میں اس بات کا انکشاف کیا گیاکہ جرائم پیشہ گروہ بغیرکسی قانونی طریقہ کار کے بغیر تارکین وطن سے بھاری معاوضہ لے کر بارڈر کراس کروا رہے ہیں۔ جس سے حکام کو اس بات کی تشویش ہے کہ جہاں غیر قانونی طور پر مقیم لوگ برطانیہ چھوڑ رہے ہیں تو اس کے ساتھ بہت سے ایسے مفرور اور پولیس کو مطلوب غیر ملکی مجرم بھی فرار ہو سکتے ہیں جو مختلف جرائم میں ملوث ہیں۔ یوکے بارڈر ایجنسی اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود غیر قانونی طریقے سے لوگوں کو برطانیہ آنے جانے سے نہیں روک سکی۔اگر وہ کسی کو پکڑ بھی لیں تو اس کو ڈیپورٹ کرنے میں کم از کم 11ہزار پونڈزخرچہ آتا ہے اسی لیے وہ لوگوں کو واپس اپنے وطن جانے کے لیے بھاری رشوت کی پیشکش بھی کرتے ہیں۔امیگریشن کے وزیر مارک باربر نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ہم ملک میں چوری چھپے داخل ہونے والے ہر شخص کو گرفتار نہیں کر سکتے۔برطانیہ میں اس وقت بھی 6لاکھ سے زائد غیر قانونی تارکین وطن موجود ہیں۔گزشتہ برس برطانیہ نے ویزا پالیسی میں کچھ ترامیم کیں جس کا اثر یہ ہوا کہ جرمنی میں 2012ء میں غیر ملکیوں کا اسائلم لینے کا نیا ریکارڈ بن گیا۔یہ معاملہ یورپ برطانیہ تک ہی محدود نہیں بلکہ اس میں امریکہ ، کینیڈا ، مشرق وسطیٰ بھی شامل ہیں۔ میکسیکو سے غیر قانونی طریقے سے امریکہ داخل ہونے کی کوشش ہوتی رہتی ہے اس میں اکثر لوگ بے رحم گولی کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔

بہ شکریہ روزنامہ جنگ
 
Top