انسانی رشتے۔ جھوٹ اور فریب ِ نظر

رباب واسطی

محفلین
اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ دنیا کی سب سے زیادہ نازک، عارضی اور ناقابل اعتبار شے کون سی ہے تو میرا جواب ہوگا انسانی تعلقات، انسانی رشتے۔ آپ کو یہ بات کتابوں میں لکھی ہوئی نہیں ملے گی لیکن اگرآپ کتاب زیست پڑھیں تو اس میں انسانی تعلقات اور رشتوں کی بے شمار کہانیاں ملیں گی۔ بلاشبہ نہ زندگی کا اعتبار ہے اور نہ ہی انسان کا۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ زندگی اور انسان سے وابستہ ہر شے (عارضی اور) بے اعتبار ہے لیکن دراصل ایسا نہیں۔ زندگی میں بہت سی چیزوں کو دوام حاصل ہے لیکن زندگی کے اکثر پہلو وقتی اور عارضی ہیں۔ مثلاً سچ کو دوام ہے، نیکی کو ابدیت حاصل ہے، خدمت اور کارنامے کی زندگی نہایت طویل ہے لیکن ان کے بالمقابل جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے، بدی اپنی بدبو پھیلا کر دفن ہو جاتی ہے اور محض دنیاوی عزت و شہرت کمانے کے لئے کیا گیا کار ثواب، خدمت اور کارنامہ زندگی میں ہی پھل دے کر ہمیشہ کے لئے خشک ہو جاتا ہے۔

نازک اور ناقابل اعتبار پہلوئوں کی فہرست میں انسانی رشتے اور تعلقات اول نمبر پر آتے ہیں۔ جوانی کے اوائل میں، میں لاہور کے دو دوستوں کی آپس میں قربت اور محبت پر رشک کرتا تھا۔ ان کی دوستی کی جڑیں بچپن میں پیوست تھیں اور قدرت نے ان دونوں کو ایک ہی محکمے میں اکٹھا کردیا تھا۔ دونوں پڑھے لکھے، بذلہ سنج، خوش مزاج اور مجلسی تھے۔ وہ صبح اکٹھے ہوتے اور شام کے سائے ڈھلنے تک اکٹھے رہتے۔رات کو گھر واپسی مجبوری تھی کہ پہلے والدین کا خوف تھا اور شادی کے بعد بیو ی کا تقاضا۔ لیکن سورج کی روشنی نے انہیں کبھی جدا نہیں دیکھا۔ میں سوچا کرتا تھا کہ یک جان دو قالب کا محاورہ انہی کے لئے بنا ہے۔ کئی دہائیوں تک انہیں اکٹھے دیکھنے کی عادت اتنی پختہ ہوگئی تھی کہ ایک کے بغیر دوسرے کا تصور محال تھا۔ دہائیاں گزر گئیں، جوانی ڈھل گئی اور بڑھاپے کی آخری منزل شروع ہوگئی۔

میرا زندگی کا طویل تجربہ بتاتا ہے کہ انسان کو دوستوں اور خیر خواہوں کی جتنی ضرورت بڑھاپے میں ہوتی ہے اتنی کبھی بھی نہیں ہوتی کیونکہ جوانی ایک طرح سے دیوانی ہوتی ہے جس میں انسان لاپروا، طاقتور، خودانحصار اور قوت ارادی کا مالک ہوتا ہے۔ جوانی کا اپنا نشہ اور اپنی خوداعتمادی ہوتی ہے لیکن زندگی کے مضمحل ہوتے ہی جہاں قوائے انسانی کمزور ہو جاتے ہیں وہاں اسے سہاروں کی بھی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے اور ان سہاروں میں سب سے بڑا دنیاوی سہارا مخلص اور محبی دوست ہوتے ہیں۔ اسی لئے میرے تجربات کا نچوڑ بتاتا ہے کہ انسان جوانی میں تعلقات بناتا اور بڑھاپے میں تعلقات آزماتا ہے۔ بڑھاپے میں لکڑی کی بیساکھیوں سے کہیں زیادہ ضرورت جذباتی بیساکھیوں کی ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے نظام قدرت میں جذباتی بیساکھی کا شرف صرف حضرت انسان کو حاصل ہے۔ وہ انسان دوست ہوسکتا ہے قریبی رشتے دار ہوسکتا ہے، خونی رشتہ ہوسکتا ہے لیکن میرا مشاہدہ ہے کہ یہ سارے سہارے ’’بے اعتبارے‘‘ اور ناقابل یقین ہوتے ہیں۔

میں ان دو دوستوں کا ذکر کررہا تھا جن کی ’’جوڑی‘‘ اور دوستی کی لوگ مثال دیتے تھے۔ چند برس قبل ان میں سے ایک سے ملاقات ہوئی تو میں نے حسب معمول دوسرے کا حال پوچھا۔ اس کے چہرے پر عجب سی اداسی چھا گئی۔ جواب ملا وہ بڑا آدمی ہوگیا ہے بڑا عمر میں نا کہ انسانی حوالے سے۔ میں یہ جواب سن کر حیران ہوا لیکن مجھے صدمہ اس لئے نہیں ہوا کہ میں نے زندگی بھر انسانی رشتوں، دوستیوں اور تعلقات کو نہایت عارضی پایا ہے، نہایت نازک جو ذرا سی ٹھیس لگنے سے ٹوٹ جاتے ہیں۔ یہ ٹھیس دولت کی بھی ہوسکتی ہے، عہدے، شہرت اور فاصلوں کی بھی ہوسکتی ہے۔ میں نے زندگی میں دولت کی ریل پیل، عہدے کی شان، شہرت کے غرور، اقتدار کے نشے اور ہوس سے بڑے بڑے قریبی اور جانثار رشتوں کو کمزور پڑتے بلکہ ٹوٹتے دیکھا ہے اور یک جان دو قالب دوستوں اور بھائیوں کو بھی جدا ہوتے دیکھا ہے۔ میری زندگی کی کتاب میں وہ کہانیاں بھی محفوظ ہیں جنہیں آپ عشقیہ وارداتیں کہہ سکتے ہیں۔

میرے کانوں نے اداس اور مخلص نوجوانوں کو یہ کہتے بھی سنا ہے کہ میں اپنی محبوبہ کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ میں اس سے بچھڑ کر مر جائوں گا وغیرہ وغیرہ۔ قول کے پکے ایسے کئی نوجوان سے جب بیس پچیس برس بعد ملاقات ہوئی تو پتہ چلا کہ انہیں اب صرف اپنی محبوبہ بلکہ سابق محبوبہ کا نام یاد ہے باقی سب کچھ بھول گیا ہے۔ چند برس قبل ایک بڑے بزنس مین نے گھر کھانے پر بلایا۔ یہ محترم زمانہ طالب علمی میں میرے ہم عصرتھے اور میں ان کے عشق کا رازدان تھا۔ وہ بہت اداس ہوتے یعنی فراق کے مارے ہوتے تو میرے پاس ہاسٹل میں آجاتے اور اپنی محبوبہ کا ذکر کے جدائی کے زخموں کو سہلاتے رہتے۔ ان کی محبوبہ بھی ان سے ٹوٹ کر محبت کرتی تھی۔ دونوں کا عہدوپیمان تھا ’’اکٹھے جئیں گے، اکٹھے مریں گے‘‘۔ زمانہ اپنی چال چل گیا۔ محبوبہ کے والدین نے اسے کسی کزن کے پلو سے باندھ دیا اور میرے دوست کے والد گرامی نے ان کی شادی ایک کاروباری خاندان میں کردی۔ کوئی پچیس برسوں بعد میں اس کے گھر رات کے کھانے پر گیا تو ان کی بیگم صاحبہ اور بچوں سے مل کر خوش ہوئی۔ کھانے کی میز پر میں نے شرارتاً طالب علمی کے زمانے کا ذکر چھیڑ دیا۔ میں ابھی شرارت کرنے ہی والا تھا کہ میرے دوست نے زور سے میرا ہاتھ دبایا۔ اتنے میں بھابھی کوئی چیز لینے گئی تو اس نے بیگم کی غیر حاضری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا ’’خدا کے لئے …. کیوںمرواتے ہو… گھر سے نکلوانا ہے۔ تمہیں قسم ہے جو جوانی کے قصوں کا ذکر کیا…‘‘ بھابھی واپس آئیں تو انہوں نے ماضی کا ذکر چھیڑ دیا۔ مجھ سے پوچھا ’’بھائی صاحب میرے میاں صاحب طالب علمی میں آپ کے گہرے دوست تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ میں نے توکبھی کسی لڑکی کو آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا۔ کیا یہ سچ ہے؟ میں نے کالج کے کچھ دلچسپ قصے چھیڑ کر ان کے سوال کا جواب دینے کی بجائے موضوع ہی بدل دیا۔ دعوت سے واپسی پر مجھے ایک سیانے کی بات بار بار یاد آتی رہی۔ وہ کہا کرتا تھا کہ میاں بیوی کا رشتہ دنیا کا مضبوط ترین اور نازک ترین رشتہ ہوتا ہے مضبوط اس لئے کہ اسے نبھانا ضرورت بن جاتی ہے اور نازک اس لئے کہ اس کی بنیاد جھوٹ اور شک پر ہوتی ہے۔

رشتوں میں مقدس ترین رشتہ ماں باپ اولاد کا ہوتا ہے۔ میں ایک نوجوان ڈی آئی جی پولیس کے ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ ڈرائنگ روم کا سرخ قالین لشکارے مار رہا تھا۔ اتنے میں اس کی سادہ لوح بزرگ والدہ تشریف لے آئیں۔ ڈی آئی جی صاحب نے رعب دار لہجے میں کہا ’’اماں آپ کو کتنی بار سمجھایا ہے کہ جوتا اتار کر اندر آیا کریں‘‘۔ اس کے غصے کی وجہ اماں کی مٹی آلود جوتی کے نشانات تھے۔ میں نے زندگی کے سفر میں دولت، اقتدار اور عہدوں کی آمد کے سبب ان اٹوٹ مقدس رشتوں میں بھی فاصلے حائل ہوتے دیکھے ہیں باقی دنیاوی رشتوں اور تعلقات کا کیا رونا؟ اللہ کا کرم ہے کہ ہمارے معاشرے میں اب بھی والدین کا تقدس اور ان سے لازوال محبت کے رشتے قائم ہیں لیکن اگر کبھی آپ سرکاری اولڈ ہومز، ایدھی کی بزرگ شہریوںکے لئے قیام گاہیں یا اس طرح کے دوسرے اداروں میں جائیں تو آپ کو وہاں ایسے بزرگ حضرات اور خواتین ملیں گی جن کی اولادیں اسی شہر میں رہتی ہیں اور خوشحال بھی ہیں۔ ان میں سے کچھ کی ملاقات مہینوں میں اور کچھ کی عید بقر عید پر ہوتی ہے۔ ہر روز اخبارات میں چھپنے والی خبریں بھی ان رشتوں پر روشنی ڈالتی رہتی ہیں۔ مطلب یہ کہ زندگی کی بے ثبات، نازک اور ناقابل اعتماد چیزوں میں سب سے زیادہ بے اعتبار انسانی رشتے ہیں جو ضرورت اور وقت کے سانچے میں ڈھلتے اور اپنا روپ بدلتے رہتے ہیں بلکہ زندگی کی بے ثباتی میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ دنیا میں صرف دو ہی چیزوں کو ثبات اور دوام حاصل ہے اول عشق الٰہی دوم انسانی خدمت۔ انسانی خدمت بھی صرف وہ جو صرف رضائے الٰہی کے لئے کی جائے۔ ان دونوں کو دوام بھی دربار الٰہی کی منظوری سے ملتا ہے۔ باقی سب رشتے عارضی، جھوٹ اور نظر کا فریب…..!

مارچ 3, 2017
(ڈاکٹر صفدر محمود ) (انسانی رشتے۔ جھوٹ اور فریب ِ نظر)
 
Top