انسانی حقوق اور انتخابات۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر توصیف احمد خان

گزشتہ سال اقلیتوں کے لیے بدترین سال تھا۔ انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والی غیر سرکاری تنظیم انسانی حقوق کمیشن HRCP کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والے افراد کی تعداد امریکا کے بغیر پائلٹ کے ڈرون جہاز کے مزائلوں کے حملے میں مرنے والوں کی تعداد سے زیادہ ہے، کراچی اور کوئٹہ میں شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو پیشہ ورانہ انداز میں قتل کیا گیا۔ ایچ آر سی پی کے سیکریٹری جنرل اور معروف دانش ور آئی اے رحمن کا کہنا ہے کہ صرف کوئٹہ میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے کئی سو افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن عاصمہ جہانگیر کا اندازہ ہے کہ ایچ آر سی پی کی گزشتہ سال کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر مشتمل 335 صفحات پر مشتمل رپورٹ State of Human Rights in 2012 میں کہا گیا ہے کہ آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں بدستور شامل ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال 14صحافی قتل کیے گئے۔ پریس فریڈم انڈیکس میں دنیا کے 179 ممالک میں پاکستان کو 151 ویں نمبر پر تعینات کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں اس امر پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے کہ دو سال قابل قتل ہونے والے صحافی سلیم شہزاد کے قتل کی تحقیقات کرنے والے اعلیٰ عدالتی کمیشن نے کسی فرد یا تنظیم کو اس قتل کا ذمے دار قرار نہیں دیا۔ اس رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال 242 افراد کو سزائے موت سنائی گئی جب کہ پورے ملک میں 350 مبینہ پولیس مقابلوں میں 403 مشتبہ ملزمان ہلاک کیے گئے۔ اسی طرح دہشت گردی کی وارداتوں میں 2 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور 3 ہزار 822 افراد زخمی ہوئے۔
ایچ آر سی پی کی اس رپورٹ میں کراچی کی صورتحال کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ کراچی میں لسانی، مذہبی اور سیاسی تنازعات میں 2 ہزار 284 افراد جاں بحق ہوئے۔ رپورٹ میں لاپتہ افراد کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا گیا ہے کہ پورے ملک میں گزشتہ سال 87 افراد کے لاپتہ ہونے کی رپورٹیں درج کرائی گئیں، ان میں سے 72 افراد بازیاب ہوئے یا خفیہ ایجنسیوں نے انھیں رہا کردیا۔ مگر صرف بلوچستان میں 72 لاپتہ افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔ اس رپورٹ میں اڈیالہ جیل سے لاپتہ ہونے والے افراد کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
یہ افراد جنرل ہیڈ کوارٹر GHQ پر حملے کے مقدمے میں گرفتار ہوئے تھے مگر دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کی عدالت نے ان افراد کو دہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا تھا مگر ان میں سے 4 مشتبہ حالت میں حراست کے دوران ہلاک ہوئے۔ سپریم کورٹ کے بار بار نوٹس ملنے پر باقی 7 افراد کو عدالت میں زخمی حالت میں پیش کیا گیا۔ معزز عدالت ان افراد کو رہائی نہیں دلاسکی۔
انسانی حقوق کی اس رپورٹ میں تعلیم کے شعبے کی زبوں حالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال پرائمری تعلیم پر 71 بلین روپے اور سیکنڈری تعلیم پر 69.4 بلین روپے خرچ کیے گئے۔ یہ رقم ملینیم ڈیولپمنٹ ٹارگٹ کو پورا کرنے کے لیے انتہائی کم ہے۔ اسی طرح صحت کے شعبے کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان پسماندہ ممالک میں شامل ہے جہاں اب بھی لوگ پولیو، ملیریا اور تپ دق جیسے امراض میں ہلاک ہورہے ہیں۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 2012 مزدور طبقے کے لیے انتہائی برا سال ثابت ہوا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور حالات کار بہتر بنانے سے متعلق قوانین کے بے اثر ہونے سے مزدور طبقے کے زندگی مزید اجیرن ہوگئی ہے۔ لوگوں کا اداروں پر سے اعتماد کم ہوا ہے۔ آئی اے رحمن نے اس رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہا کہ گزشتہ سال عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان چپقلش سے سیاسی خلا بڑھ گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ عدلیہ کے بعض فیصلوں سے انتظامیہ کے فرائض انجام دینے کا تاثر ابھر کر سامنے آیا۔ملک میں اقلیتوں کے ساتھ مسلمانوں کا ایک فرقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔
شیعہ فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو کراچی اور کوئٹہ میں منظم طریقے سے قتل کیا جارہا ہے۔ کراچی میں دوسرے فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن رہے ہیں جب کہ کوئٹہ میں ہزارہ برادری ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کا شکار بن رہی ہے۔ اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ کی بنا پر لوگ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ ایک فرقے سے تعلق رکھنے والے پروفیشنل حضرات جن میں ڈاکٹر، انجیئر، اساتذہ، بینکرز اور خواتین بھی شامل ہیں جو قتل اور دھمکیوں کی بنا پر ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یوں ملک انتہائی باصلاحیت پیشہ وارانہ ماہرین سے محروم ہورہا ہے۔
یورپ اور امریکا میں سیاسی پناہ لینے والوں کی تعداد خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے۔ گزشتہ سال آسٹریلیا میں داخلے کے خواہش مند غیر قانونی تارکینِ وطن کی کشتی الٹنے کے واقعے پر مرنے والے بہت سے افراد کا تعلق ہزارہ برادری سے تھا۔ سندھ اور بلوچستان اور وفاق میں قائم پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتیں فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ اور خودکش حملوں کو روکنے میں ناکام رہیں۔ یہ بھی الزام لگایا گیا کہ کراچی میں پولیس اور رینجرز کا نیٹ ورک غیر موثر ہوچکا ہے۔ جب کہ نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں قائم بلوچستان کی سابقہ حکومت ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھی اس لیے یہ معاملہ شدت اختیار کرگیا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتخابات میں شہباز شریف حکومت نے انتہا پسند تنظیموں سے مفاہمت کرلی تھی یوں پنجاب میں دہشت گردی کی وارداتیں کم ہوگئیں۔ اب نگراں حکومتوں کے قیام کے بعد حالات میں کچھ بہتری آئی ہے۔ اس رپورٹ میں آزادی صحافت کے حوالے سے پاکستان کو خطرناک ترین ملک قرار دیا گیا ہے۔
گزشتہ سال 14صحافی قتل ہوئے۔ ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شدت آنے کے ساتھ صحافیوں کا قتل کا سلسلہ شروع ہوا، مگر کسی صحافی کے قاتل گرفتار نہیں ہوسکے۔ کہا جاتا ہے کہ سرکاری خفیہ ایجنسیاں اور پریشر گروپ صحافیوں کے قتل کے ذمہ دار ہیں۔ عدالتی مشاہدے کے باوجود خفیہ ایجنسیوں کے احتساب کے لیے طریقہ کار وضع نہیں کیا گیا، لہٰذا صحافی مسلسل قتل ہوتے رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا تفصیلی طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں تو حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ رپورٹ میں تعلیم اور صحت کے لیے مختص کم بجٹ پر ماتم کا اظہار کیا گیا ہے۔ پاکستان میں اب بھی تعلیمی اور صحت ریاست کی بنیادی ترجیحات میں شامل نہیں، ناخواندہ اور غیر صحت مند افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
Top