انسانی جسم کا پاکستانی لیڈر۔۔۔۔۔۔۔سعد اللہ جان برق

کھوپڑی کے جنگل سے نکلتے ہی جو چٹیل میدان پڑتا ہے ویسے تو اسے ماتھا بھی کہتے ہیں لیکن عام طور پر پیشانی کے نام سے بھی معروف ہے البتہ شاعر لوگوں کو تو آپ جانتے ہیں کہ مبالغے کے بڑے شوقین ہوتے ہیں، ایک عام سی کالی کلوٹی کنڈولیزا رائس کو بھی لیلیٰ بنا دیتے ہیں اور مینٹلی ڈس آرڈر کسی پاگل کو بھی مجنون بنا کر چار دانگ عالم میں رسوا کر دیتے ہیں حتیٰ کہ ایک معمولی دھبے کو بھی ’’خال ہندوش‘‘ بنا کر سمر قند و بخارا بخش دیں جو ان کی ملکیت ہوتے ہی نہیں ہیں اور پرائے مال کو لٹانے میں اتنی بھی تکلیف نہیں ہوتی جتنی پاکستان کے حکمرانوں کو جہاز بھر بھر کر اپنے ساتھ غیر ملکی دوروں پر لوگوں کو لے جانے میں ہو سکتی ہے یا ممبران اسمبلی وزیروں اور افسروں کو اپنے صوابدیدی فنڈز اڑانے میں ہوتی ہے۔ یہ کوئی تُک ہے کہ کسی کے چھوٹے سے ماش برابر کالے تل پر یوں سخاوت کے مظاہرے کیے جائیں،
اگر آں ترک شیرازی بدست آرد دل مارا
بخال ہندوش بخشم سمرقند و بخارا را
حالانکہ اس کا کچھ بھی اپنا نہیں تھا ،خود ترک تھی، رہتی شیراز میں تھی اور خال ہندوش رکھتی تھی۔ گویا پوری کنڈولیزا رائس تھی۔ ذات کی حبشن، رہائشی امریکا کی اور دل چسپی عراق میں رکھتی تھی، دیکھا شاعروں نے اپنی طرح ہمیں بھی بھٹکا دیا حالانکہ بات ہم اس چٹیل میدان بلکہ دشت و بیابان بلکہ کھیت کی کر رہے تھے جسے یہ لوگ جبین، فرق اور نہ جانے کیا کیا کہتے رہتے ہیں۔ کبھی چاند کبھی سورج اور کبھی ستاروں سے تشبیہہ دیتے رہتے ہیں، جہاں تک اس کرہ انسانی کے صحرائے اعظم کے حدودِ اربعہ کا تعلق ہے تو وہ بھی بقول پطرس بخاری لاہور کے حدود اربعے جیسا ہے یعنی اس کے چاروں طرف بھی خود یہ ہی واقع ہے،
جدھر دیکھیے ادھر تو ہی تو ہے
یہ ایک عجیب و غریب سر زمین ہے۔ ایک طرف دیکھیے تو یہ ایک ریگستان ہے کیوں کہ جس طرح ریگستان پر ہوا چلنے سے لہریں پیدا ہو جاتی ہیں، اسی طرح اس میں بھی گھڑی گھڑی لہریئے اور سلوٹیں نمودار ہوتی ہیں لیکن دوسری طرف معمولی موسم بدلنے پر کسی سیم زدہ زمین کی طرح اس پر پانی کے قطرے پھوٹنے لگتے ہیں اور پھر جل تھل ہو جاتا ہے جس کا نقشہ کسی شاعر نے یوں کھینچا ہے،
نہ ہم سمجھے نہ تم آئے کہیں سے
پسینہ پونچھئے اپنی جبیں سے
نہ صرف اس قطعہ زمین کے موسم بدلتے رہتے ہیں بلکہ اس کی حدیں بھی کبھی ایک جگہ نہیں رہتی ہیں، کبھی تو یہ اتنا تنگ ہو جاتا ہے کہ دو چار انگل کا رہ جاتا ہے، کسی عاشق کے دل کی طرح،
شرح اسباب گرفتاری خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
اور کبھی اچانک اوپر نیچے آگے پیچھے پھیلنے لگتا ہے خصوصاً اوپر جنگل کی طرف تو اتنی تیزی سے بڑھتا ہے کہ اور بڑھتا چلا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک خوب صورت سی گولائی اختیار کرتے ہوئے نیچے گہرائیوں تک پہنچ جاتا ہے۔ جنگل کا وہ حال کر دیتا ہے جس طرح لیڈر لوگ پاکستان کے خزانے کا کرتے ہیں۔ یہی وہ موقع ہوتا ہے جس کا سارا جغرافیہ گڑ بڑ ہو جاتا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا کہ سر کہاں سے شروع ہوتا ہے اور پیشانی کہاں جا کر ختم ہوتی ہے، اسے دھونے کے لیے صابن استعمال کریں یا شیمپو
سر ہمارا جو نہ ’’دھوتے‘‘ بھی تو ویراں ہوتا
بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
کچھ علمائے فضولیات یعنی ایسے عالم جو علماء بھی ہوتے ہیں اور فضلا بھی یعنی ٹو ان ون ہوتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس پر کچھ لکھا ہوا بھی ہوتا ہے جیسے صرف اندھے یا ان پڑھ ہی پڑھ سکتے ہیں۔ گویا لکھے خدا پڑھے موسیٰ، شاعر لوگوں نے بڑی کاوشیں کیں ہیں کہ انسانی جسم کے اس بے کار اور بے فضول حصے کو کسی نہ کسی طرح اہم بنا دیں جو لیڈروں کی طرح ’’رقبہ‘‘ تو زیادہ گھیرے ہوئے ہے لیکن کسی کام نہیں آتا، لیڈروں کو بھی چاند سورج ستارے اور نہ جانے کیا کیا کہا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ساری عمر میں سوائے دیکھنے دکھانے اور کسی کام نہیں آتے، یوں کہئے کہ نام بڑا درشن چھوٹے یا اونچی دکان پھیکا پکوان، نہ کچھ کرتے ہیں نہ پیدا کرتے ہیں نہ اگاتے ہیں اور نکمے نکھٹو پھرتے ہیں البتہ ایک چیز بناتے ہیں باتیں ۔۔۔ یہاں باتیں وہاں باتیں، سوتے باتیں جاگتے باتیں، اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے حتیٰ کہ باتیں کرتے ہوئے بھی صرف باتیں بناتے ہیں، اس لیے تو باقی نے کہا ہے کہ
سوچتا ہوں سرِ ساحل باقیؔ
یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں
حالانکہ ریگستان کہنا چاہیے تھا جو بھوک پیاس سرابوں اور کانٹوں کے اور کچھ نہیں دیتے، لیڈروں کی طرح ماتھے کی بھی اپنی کوئی خوبی کوئی روشنی نہیں ہوتی۔ چاند کی طرح دوسروں سے روشنی لے کر چمکتے رہتے ہیں حالانکہ لق و دق بیابان ہوتے ہیں۔ اس سے چھوٹے چھوٹے عضو کچھ نہ کچھ تو کرتے ہیں۔ دیکھتے ہیں، سنتے ہیں ،بولتے ہیں، سونگھتے ہیں جیسے مزدور کسان نائی جولاہے کاریگر کچھ تو کرتے ہیں لیکن یہ ’’ماتھے‘‘
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیال طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
ہاں البتہ تاج ہو پگڑی ہو طرہ ہو ۔۔۔ فوراً اپنے اوپر سجا لیتے ہیں جس طرح لیڈر کسی اور کے کیے ہوئے کام کے اوپر نام کی تختی سجا لیتے ہیں۔ خلیل جبران نے لکھا ہے کہ ایک جگہ ایک پل تعمیر ہوا، اس پر بادشاہ کے نام کی تختی لگا دی گئی حالانکہ بادشاہ نے اسے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا اور اسے گدھوں اور مزدوروں نے بنایا تھا جس میں سے آدھے تعمیر کے دوران مر گئے تھے لیکن ان کے نام کی تختی کسی نے نہیں لگائی۔
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
کہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا
لیکن شاعر لوگوں کا کیا ہے، خود بھی بیکاری کے مبلغ ہوتے ہیں اور جہاں کہیں کوئی اپنے جیسی بیکار چیز دیکھتے ہیں تعریف میں رطب اللسان ہو جاتے ہیں، اس نکمے نکھٹو مجنوں کو دیکھیے کوئی کام کاج کیے بغیر جا کر دشت و بیابان میں خود کو ضایع کرنے لگے، ارے خدا کے بندے اگر اپنے ماں باپ کے کچھ کام نہیں آتے تو کم از کم لیلیٰ کے گھر میں صفائی برتن مانجنے یا جھاڑو پونچھے کا کام کرتے۔ یہ بھی نہیں تو اس کے کوچے میں کوئی ریڑھی چھابڑی لگا دیتے، چار پیسے بھی کماتے اور تاکا جھانکی بھی کرتے ، تم سے تو حسرت موہانی ہی اچھا تھا
ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی
لیکن سچ کہئے تو ماتھا اتنا نکما نکھٹو بھی نہیں ہوتا، صرف کوئی کام لینے والا چاہیے، اس شخص کا قصہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا جس نے مرے ہوئے چوہے سے تجارت کا آغاز کیا اور کروڑ پتی بن گیا تھا، اس طرح جو ذہین و فطین اور ہنر مند لوگ ہوتے ہیں، وہ اس بیکار ماتھے کو بھی کارآمد بنا لیتے ہیں، کبھی کسی کے در پر ٹکا کر کبھی اس پر ایک خاص انداز سے ہاتھ رکھ کر اتنا کچھ کما لیتے ہیں کہ کوئی کھوپڑی یا پورا جسم بھی نہ کما پائے اور کرنا کیا ہوتا ہے، بس جہاں کوئی اچھا سا در دیکھا، دہلیز دیکھی یا کسی کے پیر دیکھے جھکا کر اس میں رکھ دیا، یا قریب جانا ممکن نہ تھا تو دور ہی ہاتھ کو الٹا کر ایک خاص شیپ میں کھول دیا اور ماتھے کے دائیں کونے میں جما دیا اور معجزہ ہو گیا، شاید اسی کو پیشانی کی لکھاوٹ کہتے ہیں جو ہاتھ یا کسی دہلیز پر رگڑے بغیر ۔۔۔۔ ظاہر ہی نہیں ہوتی۔

بہ شکریہ روزنامہ ایکسپریس
 
Top