اندھیرے تھے مگر ایسے نہیں تھے (مفاعیلن مفاعیلن فعولن)

نوید ناظم

محفلین
اندھیرے تھے مگر ایسے نہیں تھے
کہ سورج سے کبھی جھگڑے نہیں تھے

ہمیں صحرا نے گھیرا ہر طرف سے
ابھی پانی سے بھی نکلے نہیں تھے

مِرا دل آپ کا رستہ نہیں تھا؟
یہاں سے آپ کیا گزرے نہیں تھے؟

پھر آنکھوں سے ہمیں لینا پڑا کام
یہ بادل تو کبھی برسے نہیں تھے

مجھے اندر ہی اندر کھا گئے ہیں
جو آنسو آنکھ سے ٹپکے نہیں تھے

ہمیں یہ دشت پھر بھی گھر لگا تھا
نہیں تھیں کھڑکیاں، کمرے نہیں تھے

بہت مہنگی تھیں تعبیریں تبھی تو
یہ میرے خواب بھی بِکتے نہیں تھے
 
Top