انداز بدل ڈالو - حیات عبداللہ

ہت بڑے خزانے کی تلا ش میں اگر انتہائی سخت جفا کشی اور جاں گسل محنت سے کسی سنگلاخ پہاڑ کو کھودا جائے اور پہاڑ کھودنے کے بعد اس کے اندر سے ایک عدد چوہا بر آمد ہو جائے اور چوہا بھی مرا ہو تو اتنی سخت محنت کر نے والوں کے جذبات اور احساسات کیا ہو ں گے ؟ مگر اس سے بھی زیادہ مقام افسوس یہ ہے کہ پہاڑ کھودنے والوں کو بتایا بھی جا رہا تھا کہ اس کے نیچے سے چوہا ہی نکلے گا اور چوہا بھی زندہ نہیں بلکہ گلا سڑا اور بد بو سے اٹا ہوا، مگر پہاڑ کھودنے والوں کی سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آتی تھی کہ ان کی سخت کوشی رائیگاں جائے گی ۔


نئی دہلی کے حیدر آباد ہاﺅس میں خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات ہو رہے ہیں، وہ مذکرات جن کا گزشتہ دو ہفتوں سے ڈھنڈورا پیٹا جا رہا تھا، مسلسل یہی راگ الاپا جارہا تھا کہ مذاکرات جامع اور با مقصد ہوں گے ، وزیر اعظم گیلانی بار بار یہی کہ رہے تھے کہ مذاکرات پانی اور کشمیر کے مسئلے پر ہوں گے ،پاکستانی سیکر ٹری خارجہ سلمان بشیر وفد کے ہمراہ نئی دہلی پہنچے، بھارتی ہم منصب خاتون سیکر ٹری خارجہ نروپما راﺅنے ہاتھ ملا کر سلمان بشیر کو خوش آمدید کہا نرپوما راﺅ کے چہرے پر مسکراہٹ اس کے اندر ابلتے اور کھولتے منافقانہ کردار کا منظر پیش کر رہی تھی، مذاکرات سے قبل دونوں سیکرٹریوںکی ڈیڑھ گھنٹے پر محیط ون آن ون ملاقات ہوئی اور پھر وفد کی سطح پر ایک گھنٹے سے زائد مذاکرات ہوئے ،مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کے نمائندوں نے الگ الگ پریس بریفنگ دی، پاکستان نے جامع مذاکرات پر بھی زور دیا مگر بھارتی وفد نے مایوس کن رویے کا مظا ہرہ کیا۔ بی بی سی نے تبصرہ کیا کہ اگرچہ مذاکرات شروع ہو چکے ہیں ،مگر ہمسایہ ممالک کے درمیان پیچیدہ مسائل کا کوئی آسان اور جادوئی حل دکھائی نہیں دیتا۔ پیچیدہ مسائل کا آسان حل کیسے ممکن ہو کہ بھارت کی سوئی وہیں پر اٹکی ہے جہاں پہلے تھی نرپوما راﺅ نے بمبئی حملوں ہی کو فوکس کیا، بھارتی ٹی وی کے مطابق مذاکرات کے دوران میں مسئلہ کشمیر اور پانی کے مسئلے پر بات ہوئی ہی نہیں ،مذاکرات میں صرف بمبئی حملوں کے حوالے سے بات چیت ہوئی ۔


ہمارا مسئلہ پانی ہے کہ ہمارے کھیت کھلیان بنجر ہوتے جارہے ہیں، ہمارے کسان اجڑتے جا رہے ہیں ہمارا اصل مسئلہ کشمیر کا ہے کہ وہ لوگ ایک لاکھ جانیں قربان کر کے بھی غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان دونو ں مسائل پر بھارت کان دھرنے کو تیار نہیں تو پھر مذاکرات کر نے کا مقصد آخر ہے کیا ؟ یقینا مذاکرات کا ڈراما رچا کر بھارت اپنے غاصبانہ قبضے کو طول دینے کے لیے وقت حاصل کر تا ہے۔ یہ صرف میں ہی نہیں کہتا بلکہ سینیٹر راجا محمد ظفر الحق نے بھی یہی بات کی ہے کہ اسرائیل اور بھارت کے ساتھ مذاکرات کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے وہ مذاکرات کو اپنی پالیسی آگے بڑھانے کے لیے استعمال کر تے ہیں۔ کشمیر کے مسئلے پر ہماری حکومت نے ساٹھ سالوں تک صبر کیا مگر پانی کا مسئلہ اتنا سنجیدہ اور اہم ہے کہ اس پر مزید سستی کا مظاہر ہ ہمیں فاقوں پر مجبور اور ہماری زراعت کا بیڑا غرق کر ڈالے گا ....
پاسباں آنکھیں ملے ،انگڑائی لے ،آواز دے
اتنے عرصے میں تو اپنا کام کر جاتی ہے آگ
حل ہوئے ہیں مسئلے شبنم مزاجی سے ،مگر
کھیتیاں ایسی بھی ہیں کچھ جن کو سلجھاتی ہے آگ
بھارت کی شیطنت اور خباثت دیکھئے کہ نہ صرف یہ کہ پانی اور کشمیر کے مسئلے پر بات نہ کی بلکہ اس نے حافظ محمد سعید اور داﺅد ابراہیم سمیت 36افراد مانگ لیے اور دہشت گردی کا نیٹ ورک ختم کر نے کا مطالبہ بھی کیا بھارت کو اپنی اوقات کا پتا ہے ، اسے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مجاہدین کا مقابلہ کر نے کی تاب اور سکت بھی نہیں رکھتا ، اسے یہ بھی خبر ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم بھارت کے ایٹم بموں سے معیار اور استعداد میں بہت آگے ہیں، اسے یہ بھی علم ہے کہ پاکستانی فوج بھارتی فوج سے زیادہ شجاع اور دلیر ہے مگر اس کے باوجود اس کی اتنی مجال اور جرات کہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ حافظ سعید کو ہمارے حوالے کر دو، تو اس کا سبب صرف اور صرف حکومت کی بزدلانہ اور خو د فریبی پر مبنی پالیسیا ں ہیں۔سلمان بشیر نے بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا سے بھی ملاقات کی اور جامع مذاکرات کی دعوت دی مگر ایس ایم کرشنا نے اپنا رویہ انتہائی روکھا اور چڑ چڑا رکھا۔ ایس ایم کرشنا کی سخن گستری ملاحظہ کریں کہ اس نے دو ٹوک انداز میں کہاکہ بھارت فوری طور پر جامع مذاکرات نہیں کرنا چاہتا، البتہ ہمارے حکمران عقل و خرد استعمال میں لا کر غور کریں تو بھارت نے جنگی اخراجات میں 24 فیصد اضافے کے ساتھ یہ رقم 14 کھرب 70ارب روپے کی سطح پر پہنچا کر پاکستان کو ایک پیغام ضرور دے دیا ہے ۔


یہ حقیقت ہے کہ ہمارے سیاسی عمائدین پہاڑ کھودتے ہیں اور لوگوں کو باور بھی کراتے ہیں کہ اندر سے خزانہ بر آمد ہو گا مگر ہر بار پہاڑ کے نیچے سے بنیا نکلتا ہے، وہی چالاک عیار اور گلا سڑا بنیا، جس نے آج تک ہمیں تسلیم نہیں کیا اور نہ کبھی کرے گا۔ بھارت مذاکرات سے مانا ہے نہ کبھی مانے گا، دیکھ لیجئے اس نے کشمیر ، پانی اور بلوچستان میں مداخلت کے مسئلے پر بات تک سننا گوارا نہ کی، بلکہ صرف بمبئی حملوں کا سیاپا کیا۔ ضرورت مذاکرات کی نہیں بلکہ اب انداز بدلنے کی ہے۔ اب بھارت سے اسی لب و لہجے میں بات کی جائے جس انداز میں نائن الیون کے واقعے کے بعد بش نے مشرف سے بات کی تھی اس لیے کہ پیاسے مرنے سے بہتر ہے لڑ کر مرا جائے ....
دشمن کے ارادوں کو ظاہر ہے اگر کرنا
تم کھیل وہی رکھو انداز بدل ڈالو
اے دوست ! کرو ہمت کچھ دور سویرا ہے
گر چاہتے ہو منزل ، پرواز بد ل ڈالو
http://www.islamicupdates.com/iu/in...7-42-07&catid=20:2010-02-04-17-15-15&Itemid=2
 
Top