اندازِ بیاں اور اقتباس از ہیلمٹ، لفافہ اور سیاسی آلودگی

شمشاد

لائبریرین
پچھلے دنوں “ہیلمٹ“ کی طرح “پلاسٹک کے لفافوں“ کے سلسلے میں بھی شور اٹھا تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ آلودگی کے ذمہ دار یہ پلاسٹک کے لفافے ہیں، جو شاید حکومتی اقدامات کے بعد اب کبھی دکھائی نہ دیں۔ اس انڈسٹری سے وابستہ لوگوں نے تو متبادل کاروبار کی تلاش بھی شروع کر دی تھی۔ “ہفتہ صفائی“ بھی منایا جائے گا۔

مگر پھر کیا ہوا؟ پلاسٹک کے لفافے بنتے گئے، بنتے رہیں گے بلکہ اب تو کسی پلاسٹک کے برتن میں سالن ڈال کر کھاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ ہو سکتا ہے جو پلاسٹک اس جنم میں سالن ڈالنے والے برتن کی صورت میں سامنے ہے، پہلےجنم میں کہیں چپل کی شکل میں نہ رہ چکا ہو۔

حافظ مظفر محسن کی تصنیف “ہیلمٹ، لفافہ اور سیاسی آلودگی“ سے اقتباس
 
Top