یا پھر سے نکاح کرنا ہے جو ہر شخص کے آگے قسمیں کھاتے، قرآن اٹھاتے پھریں۔ دنیا اپنی راہ، ہم اپنی راہ۔ مدی نے کہا اگر ہمارے کوئی والی وارث ہوتا تو کسی کی مجال پڑی تھی کہ ایسی بات کہتا۔ زمانہ گزرتا گیا اور لوگوں کا شک یقین میں بدلتا گیا۔ قائدہ ہے کہ پنج برادری سے اگر دب جاؤ تو وہ اور دباتے ہیں۔ اگر مقابلے پر تیار ہو جاؤ تو لوگ اپنی نیکی کی وجہ سے اکثر معاف بھی کر دیتے ہیں۔ یہی حال ان دونوں کا ہوا کہ نہ کسی نے پوچھ گچھ کی نہ انہوں نے انکار کی زحمت اٹھائی۔
لکھنے والے کو اغلام مساحقے کے ذکر میں کوئی مزا نہیں آتا۔ مگر اسی کے ساتھ ان چیزوں کا ذکر کرنے سے ڈرتا بھی نہیں۔ اگر یہ چیزیں دنیا میں ہوتی ہیں تو چپ رہنے سے ان میں اصلاح نہ ہو گی۔ نہ یہ طے ہو سکے گا کہ کہاں تک یہ چیزیں فطری ہیں، اور کہاں تک اسباب زمانہ سے پیش آتی ہیں۔ کسی جولاہے کے پاؤں میں تیر لگا۔ خون بہتا جاتا تھا مگر دعائیں مانگ رہا تھا کہ اللہ کرے جھوٹ ہو۔
ہمارے قصبے کے لوگ دراصل بیولاک ایلس اور فرائڈ نہیں پڑھتے ہیں۔ اس وجہ سے مجبوراً ہمیں ان کے مسائل پر بحث کرنا پڑتی ہے۔
ڈاکٹروں کا خیال ہے ہر عورت میں کچھ جزو مرد کا ہوتا ہے اور ہر مرد میں کچھ جزو عورت کا ۔ جو جزو غالب ہوتا ہے اسی طرح کے خیالات اور افعال ہوتے ہیں۔ مردانہ قسم کی عورتیں اور زنانہ قسم کے مرد ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے بعض ان میں سے ایسے ہوں جن کے فطرتاً اپنے ہی جنس سے تعلقات اچھے معلوم ہوتے ہیں۔ مگر اس میں بھی کلام نہیں کہ اسبابِ زمانہ سے بھی لوگ اس راہ لگ جاتے ہیں۔ بجائے اصلاح کی کوشش کے ہر معاملے میں یہی رائے قائم کرنا کہ قدرتی تقاضے سے ہے اور اصلاح کی ضرورت نہیں ہماری سمجھ میں نہیں آتا۔ البتہ ایسے فعل کی جس میں سماج کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو قانونی سزا ہونی چاہئیے یا نہیں یہ دوسرا مسئلہ ہے۔
اچھا اب قصہ سنئیے۔ مدی اور اس عورت سے دو سال دوستی رہی۔ اس کے بعد لڑائی ہو گئی۔ کس بات پر بگاڑ ہو گیا کسی کو معلوم نہیں وہ عورت جس راہ آئی تھی۔ اسی راہ چلی گئی۔ بی مدی اجڑی بچڑی رنڈاپا کھینے لگیں۔ جو نندہ یا بندہ ۔ تھوڑے دنوں کے بعد ایک اور ہم جنس مل گئیں۔ اس کے بعد اور بھی ملا کیں مگر۔
نہ بے وفائی کا ڈر تھا نہ غم جدائی کا
مزا میں کیا کہوں آغاز آشنائی کا
وہ پہلی سی بات پھر نصیب نہ ہوئی۔ اب روپیہ پیسہ بھی کم رہ گیا تھا س لئیے آمدنی بڑھانے کی بھی فکر دامن گیر ہوئی۔ بی مدی نے تحصیل دار کے آگے ہاتھ بڑھایا نہ پھر سے شادی کی ہوس کی۔ بلکہ خود کام کرنے پر تیار ہو گئیں۔ پراٹھے کباب بنانا شروع کئیے جاڑوں کی فصل میں
(بقیہ 575 پر)