انتخاب علامہ طالب جوہری

نوید صادق

محفلین
سنا کے قید میں احوال راہگیروں کے
ہوا نے کھول دئے دست و پا اسیروں کے

کوئی سخی نظر آتا تو ہاتھ پھیلاتے
اس انتظار میں دن کٹ گئے فقیروں کے
 

نوید صادق

محفلین
آج بھی آپ گئے ملنے اس کے گھر، پھر کل جائیں گے
طالب صاحب آگ سے مت کھیلیں، بالآخر جل جائیں گے

وہ اپنے گھر کی رونق بن جائے تو ہم وعدہ کرتے ہیں
اپنے گھر واپس جا کر گھر کے ماحول میں ڈھل جائیں گے

رسی جل گئی لیکن اس کے بل شعلوں پر خندہ زن ہیں
جب خاکستر بن کے اڑے گی تب رسی کے بل جائیں گے

حدِ نظارہ تک خشخاش کے نیلے پودے تھے اور میں تھا
دل نے کہا تھا آنکھ جھکا لے ورنہ پودے جل جائیں گے

ذہن کے سب کھڑکی دروازے کھول کے اندر جھاڑو دے دو
کب سے حجرہ بند پڑا ہے اس میں بچھو پل جائیں گے

اُس نے مجھ سے عذر تراشے یعنی وہ یہ جان رہا تھا
ایک یہی دوکان ہے جس پر کھوٹے سکے چل جائیں گے
 

نوید صادق

محفلین
ایک ہی کہانی ہے قصہ گو کے کیسہ میں
قصہ گو کے لہجوں سے رخ بدلتا جاتا ہے

کانچ کے کھلونوں پر اعتبار کیا کرنا
وہ بھی ٹوٹ جاتے ہیں جو خدا بناتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
دھوپ جب تک سر پہ تھی زیرِ قدم پائے گئے
ڈوبتے سورج میں کتنی دور تک سائے گئے

آج بھی حرفِ تسلی ہے شکستِ دل پہ طنز
کتنے جملے ہیں جو ہر موقع پہ دُہرائے گئے

آج سے میں اپنے ہر اقدام میں آزاد ہوں
جھانکتے تھے جو مرے گھر میں وہ ہمسائے گئے
 

نوید صادق

محفلین
دیارِ حسن میں تجدیدِ عاشقی کے لئے
ہم ایسے لوگ ضروری ہیں ہر صدی کے لئے

کنارِ نہر بنفشے کی جھاڑیوں کے قریب
وہ سوگوار کھڑی تھی اک اجنبی کے لئے
 

نوید صادق

محفلین
اس کی خوشی سے بزم میں آنا اس کی خوشی اٹھ کر جانا
دونوں عمل ہیں غیرارادی، پیدا ہونا مر جانا

ڈول کنویں میں ڈال کے پانی کھینچنے والے پردیسی
پیاس بجھا کر بیٹھ نہ جانا گاؤں سے ہجرت کر جانا

رات بھری محفل میں طالب ایک ہی دکھ تھا دونوں کا
اس کو اپنے گھر جانا تھا مجھ کو اپنے گھر جانا
 

نوید صادق

محفلین
بستی بستی گھوم رہا ہوں اب بھی وہی درخواست لئے
وہ درخواست جو ہر دفتر میں یکساں نا منظور ہوئی

عطر فروشوں کے کوچے میں ایک شناسا خوشبو نے
میرا دامن تھام لیا تھا اتنی دیر ضرور ہوئی
 

نوید صادق

محفلین
جس چھتے کو توڑ رہے ہو اس میں شہد کی مکھی نے
صحرا صحرا جنگل جنگل پھر کر شہد بنایا ہے

کل تک اس نے وہم کہا تھا خوابوں کی ماہیت کو
آج وہ مجھ سے خوابوں کی تعبیریں پوچھنے آیا ہے

دھوپ اتری تھی آنگن میں اور دیواروں پر سایا تھا
دھوپ چڑھی ہے دیواروں پر اور آنگن میں سایا ہے
 

نوید صادق

محفلین
چاندنی میں اداسیاں کیوں ہیں
دھوپ میں یہ غبار سا کیا ہے

بات کو لوگ کیوں سمجھتے ہیں
لفظ و معنی میں رابطہ کیا ہے
 
Top