حسیب
محفلین
آپ خواہ آسمان سے چار ہزار فرشتے بلا لیں یا امریکا‘ برطانیہ‘ فرانس اور جاپان سے الیکشن کے ماہرین بلا لیں‘ آپ پاکستان میں غیر متنازعہ الیکشن نہیں کروا سکتے‘ کیوں؟ آئیے ہم اس کیوں کا جواب تلاش کرتے ہیں۔
پاکستان میں الیکشن کا عمل الیکشن کمیشن سے شروع ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے اندر چند خامیاں ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں‘ یہ دونوں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندے ہوتے ہیں چنانچہ یہ صرف اس شخص کو منتخب کرتے ہیں جو انھیں ’’سوٹ‘‘ کرتا ہے‘ یہ چیف الیکشن کمشنر الیکشن پر پہلا سوالیہ نشان ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے باقی چار ارکان کا فیصلہ چار صوبائی حکومتیں کرتی ہیں‘ یہ حکومتیں الیکشن کا حصہ ہوتی ہیں چنانچہ یہ غیر جانبدار لوگوں کا انتخاب کیسے کریں گی؟ یہ دوسرا سوالیہ نشان ہوتا ہے‘الیکشن کی عملی ذمے داری ریٹرننگ آفیسر پر استوار ہوتی ہے۔
یہ ریٹرننگ آفیسر ایڈیشنل سیشن جج ہوتے ہیں‘ یہ لاء کے اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں‘ یہ جوڈیشری کا امتحان پاس کر کے جج بنتے ہیں‘ ریاست انھیں پوری زندگی وکلاء کی بحث سننے‘ قانون پڑھنے اور فیصلے کرنے کی ٹریننگ دیتی ہے‘ ہم ان سے یہ توقع کرتے ہیں‘ یہ ایک دن عدالت سے اٹھیں گے‘ الیکشن آفس میں بیٹھیں گے اور آزاد‘ شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن کروا کر واپس کورٹ روم میں آ جائیں گے؟یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے جب انھیں ایک کام کی ٹریننگ ہی نہیں دی تو ہم ان سے بہتر نتائج کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ ریٹرننگ آفیسر کے بعد اسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر آتے ہیں‘ یہ سول جج‘ اسسٹنٹ کمشنر اور ایجوکیشن آفیسر ہوتے ہیں‘ ان کے نیچے پریذائڈنگ آفیسر اور اسسٹنٹ پریذائڈنگ آفیسر ہوتے ہیں۔
یہ دونوں محکمہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ استاد ہوتے ہیں اور ریاست انھیں صرف پڑھانے کی ٹریننگ دیتی ہے لیکن آپ ان سے اچانک یہ توقع وابستہ کر لیتے ہیں‘ یہ آپ کو ایک ایماندار اور اہل حکومت بھی بنا کر دیں گے‘ یہ توقع بھی یقینا بے وقوفی ہوگی‘ الیکشن کمیشن کے پاس ایک پولنگ اسکیم ہے‘ کمیشن انتخابات سے تین ہفتے قبل یہ اسکیم ریٹرننگ آفیسرزکو بھجواتا ہے‘ اس اسکیم میں پورے ملک کے پولنگ اسٹیشنز شامل ہیں‘ پاکستان میں2013ء کے الیکشن میں 69 ہزار 875 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے‘ یہ اسکیم بیس سال پرانی ہے‘ الیکشن کمیشن ہر بار پرانی اسکیم آر اوز کو بھجوا دیتا ہے‘ یہ لوگ فیلڈ میں جاتے ہیں توانھیں معلوم ہوتا ہے‘ ہم نے جس بلڈنگ میں الیکشن کروانے ہیں وہ عمارت پچھلے سیلاب یا 2005ء کے زلزلے میں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے یا اس عمارت میں صرف دو کمرے ہیں اور ہم ان دو کمروں میں چار بوتھ نہیں بنا سکتے.
ملک کے ہر الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کو مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن آج تک ان شکایات کی بنیاد پر فہرستوں میں تبدیلی نہیں کی گئی لہٰذا آپ شفاف پولنگ اسٹیشنوں کے بغیر شفاف الیکشن کیسے کرا سکیں گے؟ الیکشن اسکیم انتخابات سے 3 ہفتے قبل جاری ہوتی ہے‘ پریذائڈنگ آفیسرز کو ٹریننگ کے لیے بلوایا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے‘ ان بے چاروں کی ٹریننگ گھرسے ساٹھ ساٹھ کلومیٹر دور لگا دی گئی‘ آپ خود سوچئے‘ کیا کوئی چھوٹا سرکاری ملازم ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے الیکشن کی ٹریننگ لے سکتا ہے اور یہ اگر خاتون ہو تو کیا اس کے لیے یہ ممکن ہو گا؟
چنانچہ یہ لوگ پراپر ٹریننگ نہیں لے پاتے! اسکیم جاری ہوتے ہی پریذائڈنگ آفیسرز کی طرف سے اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں‘ ایک حلقے میں تین سو کے قریب پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں‘ ہر اسٹیشن میں تقریباً چاربوتھ ہوتے ہیں‘ ہر بوتھ پر تین آفیسرز درکار ہوتے ہیں‘ایک سینٹر میں کل بارہ لوگوں کا عملہ ہوتا ہے‘ اسکیم کے بعد معلوم ہوتا ہے‘ زیادہ تر لوگوں کو دور دراز علاقوں میں تعینات کر دیا گیا اور یہ لوگ اس دن وہاں نہیں پہنچ سکتے‘ بالخصوص زنانہ عملے کے لیے یہ ممکن نہیں یوں آراوز ڈیوٹی کی تبدیلی میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ یہ تبدیلی محکمہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چنانچہ خط بازی‘ میٹنگز اور سفارشوں کا دور شروع ہو جاتا ہے‘ یہ اس عمل سے نکل کر الیکشن کے دن پر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بوتھ زیادہ ہیں اور عملہ کم۔
یہ لوگ ریٹرننگ آفیسرز سے رابطہ کرتے ہیں‘ آر او کے پاس ریزرو فہرست ہوتی ہے لیکن ریزرو فہرست کے زیادہ تر لوگ ’’ بیمار‘‘ ہو جاتے ہیں یا خواتین حاملہ نکلتی ہیں یا پھر ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا چنانچہ آر اوز پرائیویٹ اسکولوں‘ ایگری کلچرل ڈیپارٹمنٹ‘ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ اور بینکوں کے لوگوں کی مدد لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ آج 2013ء کے الیکشن میں شامل عملے کا پروفائل نکال لیں‘ آپ کو ان میں دوسروں کے شعبوں کے بے شمار لوگ ملیں گے چنانچہ آپ اگر ان لوگوں سے شفاف الیکشن کی توقع کریں تو یہ توقع غلط ہو گی‘ الیکشن کے ایک حلقے میں تین سو پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں‘ علاقے پر زورآوروں کا قبضہ ہوتا ہے‘ ہر سینٹر پر ایک یا دو پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں‘ الیکشن اگر فوج بھی کروائے تو یہ کل 70 ہزارپولنگ اسٹیشنوں پر کتنے فوجی تعینات کر لے گی؟
ملک میں قانون کی صورتحال آپ کے سامنے ہے‘ پولنگ اسٹیشن میں اگر کوئی شخص کسی پریذائڈنگ آفیسر کو گولی مار دے تو سال سال تک ایف آئی آر نہیں کٹتی‘ ایف آئی آر کٹ جائے تو لواحقین انصاف کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں‘ حلقے میں کتنے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی ہوتے ہیں؟ آر او کس کس کو کس کس اسٹیشن پر بھجوائے گا‘ ایک سینٹر سے شکایت آتی ہے‘ آر او ایس ایچ او کو اس طرف بھگاتا ہے‘ وہ ابھی راستے میں ہوتا ہے تو دوسرے سینٹر سے اطلاع آ جاتی ہے‘ دونوں کے درمیان بیس تیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے‘ وہ ایس ایچ او دونوں جگہوں پر کیسے پہنچے گا؟ اور اگر پہنچے گا تو کیا اس وقت وہ سب کچھ نہیں ہو چکا ہو گا جس کے لیے اسے بلایا جا رہا ہو گا؟
پریذائڈنگ آفیسرز سینٹروں تک جائیں گے کیسے؟ یہ واپس کیسے آئیں گے؟ یہ بھی ایک مسئلہ ہے ‘کیا آر او تین سو سینٹروں کے تین ہزار عملے کے لیے گاڑیوں کا بندوبست کر سکے گا‘ یہ لوگ تھیلے اور بیلٹ باکس کیسے لائیں گے‘ اگر بڑی گاڑی کا بندوبست کیا جائے گا تو یہ گاڑی کتنے اسٹیشنوں کا عملہ‘ تھیلے اور باکس اکٹھے کرے گی؟ حکومت نے 1970ء میں ووٹنگ کا وقت 8 گھنٹے طے کیا تھا‘ اس وقت بنگلہ دیش کے ووٹروں سمیت کل ووٹر 5 کروڑ 69 لاکھ تھے‘ 2013ء میں صرف مغربی پاکستان کے ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ ہو گئی‘ آپ 2002ء اور 2013ء کا ڈیٹا بھی دیکھ لیجیے‘ 2002ء میں کل ووٹر7 کروڑ 7 لاکھ تھے‘ 2013ء میں 8 کروڑ 61 لاکھ ہو گئے‘پولنگ اسٹیشنز 2002ء میں بھی فی حلقہ تقریباً تین سو تھے اور یہ آج بھی تین سو ہیں۔
ملک میں دس برسوں میں ووٹروں کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا لیکن ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت وہی 8 گھنٹے ہے‘ آپ ہزار ووٹروں کو قطار میں کھڑے کر کے آٹھ گھنٹوں میں پرچی سسٹم کے تحت ووٹ ڈال کر دکھائیے؟ پولنگ کے بعد بھی یہ دس بارہ بندے ایک ایک ووٹ کی پڑتال کرتے ہیں‘ کسی ووٹ پر ووٹر نے دو جگہ مہر لگا دی‘ کسی پر مہر کی جگہ انگوٹھا لگا دیا گیا اور کسی جگہ درمیان میں مہر لگا دی گئی‘ پولنگ کے عملے نے یہ تمام متنازعہ ووٹ پولنگ ایجنٹوں کو دکھا کر ان کا فیصلہ کرنا ہے‘ ووٹوں کی گنتی بھی ہو گی‘ رزلٹ شیٹ بھی بنے گی‘ اس شیٹ پر دستخط بھی ہوں گے‘ ووٹوں کو بیگوں میں ڈال کر ان پر سیل بھی لگے گی۔
پریذائڈنگ آفیسر مہر اور رزلٹ جیب میں بھی ڈالے گا اور یہ بیگ ہر صورت اسی رات آر او کے آفس پہنچائے جائیں گے‘ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بعد ریٹرننگ آفیسر تین سو اسٹیشنوں کا رزلٹ اکٹھا کرے گا‘ اس کی چند گھنٹوں میں پڑتال کرے گا اور اس رزلٹ میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں شامل ہوں گی‘ پڑتال کے دوران دو دن کا تھکا ماندہ عملہ آر او کے دفتر بیٹھا رہے گا‘ ان لوگوں میں وہ خواتین بھی شامل ہوں گی جو ساٹھ کلومیٹر دور اپنے بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر آئی ہیں لیکن آر او جب تک ان کے سارے بیگز کی پڑتال نہیں کر لیتا یہ انھیں چھٹی نہیں دے سکتا۔
کیا یہ سارا عمل انسانی لحاظ سے ممکن ہے؟ اور اس عمل میں اگر جعلی مقناطیسی سیاہی بھی شامل ہو جائے تو کیا شفافیت برقرار رکھی جا سکتی ہے؟ اور ہاں یہ پریذائڈنگ آفیسر باقی بچ جانے والی پرچیاں واپس کرنے کے پابند بھی ہیں اور آر او آفس جب تک فالتو پرچیاں گن کر انھیں سر ٹیفکیٹ نہ دے دے یہ لوگ گھر نہیں جا سکتے‘ کیا آر او کا عملہ یہ کام بھی چند گھنٹوں میں سرانجام دے سکتا ہے‘ آپ اگر یہ کر سکتے ہیں؟ تو ذرا کر کے دکھائیے۔
ہمارے الیکشن سسٹم میں ایک اور خرابی بھی ہے‘ ہمارے الیکشن کا عملہ دو بار نتائج کا اعلان کرتا ہے‘ شام کے وقت غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہوتا ہے‘ اگلی صبح سارے ووٹ دوبارہ گن کر سرکاری نتیجہ بنایا جاتا ہے اور اس دوران ٹیلی ویژن چینلز بھی ایک نتیجہ نشر کر دیتے ہیں‘ یہ تین نتائج ملک میں کنفیوژن پیدا کر دیتے ہیں‘ دنیا بھر میں الیکشن کے صرف ایک نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے‘ ہم اس طرف کیوں نہیں جاتے‘ بھارت کے حالیہ الیکشنوں میں 52 کروڑ 72 لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالے‘ بھارت میں الیکشن کا جدید ترین سسٹم کام کر رہا ہے لیکن ریاست کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے میں 36 دن لگ گئے اور یہ الیکشن بھی صرف قومی اسمبلی کے 543 حلقوں کے تھے جب کہ ہم 9گھنٹوں میں چار صوبائی اسمبلیوں کے 577 حلقوں اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں کے شفاف نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ممکن ہے؟
چنانچہ آپ خواہ کسی فرشتے کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیں یا پھر پورا الیکشن کمیشن امریکا کے حوالے کر دیں آپ ملک میں شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن نہیں کرا سکیں گے کیونکہ آپ کی الیکشن بک اور زمینی حقائق کے درمیان مریخ اور زمین جتنا فاصلہ ہے اور اس فاصلے کو درمیان میں رکھ کر غیر متنازعہ الیکشن ممکن نہیں!‘ آپ جب تک الیکشن سسٹم کو اس انتخابی منافقت سے پاک نہیں کریں گے‘ آپ اس وقت تک ملک میں غیر متنازعہ الیکشن نہیں کرا سکیں گے‘ خواہ یہ الیکشن افتخار چوہدری کے آر اوز کروائیں یا پھر یہ کارنامہ چیف جسٹس میاں نواز شریف‘ چیف جسٹس آصف علی زرداری اور چیف جسٹس عمران خان کی نگرانی میں سرانجام دیا جائے‘ نتیجہ ایک ہی نکلے گا‘ دھاندلی‘ دھاندلی اور دھاندلی۔
http://www.express.pk/story/254225/
پاکستان میں الیکشن کا عمل الیکشن کمیشن سے شروع ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے اندر چند خامیاں ہیں‘ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کرتے ہیں‘ یہ دونوں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے نمایندے ہوتے ہیں چنانچہ یہ صرف اس شخص کو منتخب کرتے ہیں جو انھیں ’’سوٹ‘‘ کرتا ہے‘ یہ چیف الیکشن کمشنر الیکشن پر پہلا سوالیہ نشان ہوتا ہے‘ الیکشن کمیشن کے باقی چار ارکان کا فیصلہ چار صوبائی حکومتیں کرتی ہیں‘ یہ حکومتیں الیکشن کا حصہ ہوتی ہیں چنانچہ یہ غیر جانبدار لوگوں کا انتخاب کیسے کریں گی؟ یہ دوسرا سوالیہ نشان ہوتا ہے‘الیکشن کی عملی ذمے داری ریٹرننگ آفیسر پر استوار ہوتی ہے۔
یہ ریٹرننگ آفیسر ایڈیشنل سیشن جج ہوتے ہیں‘ یہ لاء کے اسٹوڈنٹس ہوتے ہیں‘ یہ جوڈیشری کا امتحان پاس کر کے جج بنتے ہیں‘ ریاست انھیں پوری زندگی وکلاء کی بحث سننے‘ قانون پڑھنے اور فیصلے کرنے کی ٹریننگ دیتی ہے‘ ہم ان سے یہ توقع کرتے ہیں‘ یہ ایک دن عدالت سے اٹھیں گے‘ الیکشن آفس میں بیٹھیں گے اور آزاد‘ شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن کروا کر واپس کورٹ روم میں آ جائیں گے؟یہ کیسے ممکن ہے؟ ہم نے جب انھیں ایک کام کی ٹریننگ ہی نہیں دی تو ہم ان سے بہتر نتائج کی توقع کیسے کر سکتے ہیں؟ ریٹرننگ آفیسر کے بعد اسٹنٹ ریٹرننگ آفیسر آتے ہیں‘ یہ سول جج‘ اسسٹنٹ کمشنر اور ایجوکیشن آفیسر ہوتے ہیں‘ ان کے نیچے پریذائڈنگ آفیسر اور اسسٹنٹ پریذائڈنگ آفیسر ہوتے ہیں۔
یہ دونوں محکمہ تعلیم سے تعلق رکھتے ہیں‘ یہ استاد ہوتے ہیں اور ریاست انھیں صرف پڑھانے کی ٹریننگ دیتی ہے لیکن آپ ان سے اچانک یہ توقع وابستہ کر لیتے ہیں‘ یہ آپ کو ایک ایماندار اور اہل حکومت بھی بنا کر دیں گے‘ یہ توقع بھی یقینا بے وقوفی ہوگی‘ الیکشن کمیشن کے پاس ایک پولنگ اسکیم ہے‘ کمیشن انتخابات سے تین ہفتے قبل یہ اسکیم ریٹرننگ آفیسرزکو بھجواتا ہے‘ اس اسکیم میں پورے ملک کے پولنگ اسٹیشنز شامل ہیں‘ پاکستان میں2013ء کے الیکشن میں 69 ہزار 875 پولنگ اسٹیشن قائم کیے گئے‘ یہ اسکیم بیس سال پرانی ہے‘ الیکشن کمیشن ہر بار پرانی اسکیم آر اوز کو بھجوا دیتا ہے‘ یہ لوگ فیلڈ میں جاتے ہیں توانھیں معلوم ہوتا ہے‘ ہم نے جس بلڈنگ میں الیکشن کروانے ہیں وہ عمارت پچھلے سیلاب یا 2005ء کے زلزلے میں صفحہ ہستی سے مٹ چکی ہے یا اس عمارت میں صرف دو کمرے ہیں اور ہم ان دو کمروں میں چار بوتھ نہیں بنا سکتے.
ملک کے ہر الیکشن کے دوران الیکشن کمیشن کو مختلف پولنگ اسٹیشنوں کے بارے میں شکایات موصول ہوتی ہیں لیکن آج تک ان شکایات کی بنیاد پر فہرستوں میں تبدیلی نہیں کی گئی لہٰذا آپ شفاف پولنگ اسٹیشنوں کے بغیر شفاف الیکشن کیسے کرا سکیں گے؟ الیکشن اسکیم انتخابات سے 3 ہفتے قبل جاری ہوتی ہے‘ پریذائڈنگ آفیسرز کو ٹریننگ کے لیے بلوایا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے‘ ان بے چاروں کی ٹریننگ گھرسے ساٹھ ساٹھ کلومیٹر دور لگا دی گئی‘ آپ خود سوچئے‘ کیا کوئی چھوٹا سرکاری ملازم ساٹھ کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے الیکشن کی ٹریننگ لے سکتا ہے اور یہ اگر خاتون ہو تو کیا اس کے لیے یہ ممکن ہو گا؟
چنانچہ یہ لوگ پراپر ٹریننگ نہیں لے پاتے! اسکیم جاری ہوتے ہی پریذائڈنگ آفیسرز کی طرف سے اعتراضات شروع ہو جاتے ہیں‘ ایک حلقے میں تین سو کے قریب پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں‘ ہر اسٹیشن میں تقریباً چاربوتھ ہوتے ہیں‘ ہر بوتھ پر تین آفیسرز درکار ہوتے ہیں‘ایک سینٹر میں کل بارہ لوگوں کا عملہ ہوتا ہے‘ اسکیم کے بعد معلوم ہوتا ہے‘ زیادہ تر لوگوں کو دور دراز علاقوں میں تعینات کر دیا گیا اور یہ لوگ اس دن وہاں نہیں پہنچ سکتے‘ بالخصوص زنانہ عملے کے لیے یہ ممکن نہیں یوں آراوز ڈیوٹی کی تبدیلی میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ یہ تبدیلی محکمہ تعلیم کے بغیر ممکن نہیں ہوتی چنانچہ خط بازی‘ میٹنگز اور سفارشوں کا دور شروع ہو جاتا ہے‘ یہ اس عمل سے نکل کر الیکشن کے دن پر پہنچتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے بوتھ زیادہ ہیں اور عملہ کم۔
یہ لوگ ریٹرننگ آفیسرز سے رابطہ کرتے ہیں‘ آر او کے پاس ریزرو فہرست ہوتی ہے لیکن ریزرو فہرست کے زیادہ تر لوگ ’’ بیمار‘‘ ہو جاتے ہیں یا خواتین حاملہ نکلتی ہیں یا پھر ان سے رابطہ ممکن نہیں ہوتا چنانچہ آر اوز پرائیویٹ اسکولوں‘ ایگری کلچرل ڈیپارٹمنٹ‘ فاریسٹ ڈیپارٹمنٹ اور بینکوں کے لوگوں کی مدد لینے پر مجبور ہو جاتے ہیں‘ آپ آج 2013ء کے الیکشن میں شامل عملے کا پروفائل نکال لیں‘ آپ کو ان میں دوسروں کے شعبوں کے بے شمار لوگ ملیں گے چنانچہ آپ اگر ان لوگوں سے شفاف الیکشن کی توقع کریں تو یہ توقع غلط ہو گی‘ الیکشن کے ایک حلقے میں تین سو پولنگ اسٹیشنز ہوتے ہیں‘ علاقے پر زورآوروں کا قبضہ ہوتا ہے‘ ہر سینٹر پر ایک یا دو پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں‘ الیکشن اگر فوج بھی کروائے تو یہ کل 70 ہزارپولنگ اسٹیشنوں پر کتنے فوجی تعینات کر لے گی؟
ملک میں قانون کی صورتحال آپ کے سامنے ہے‘ پولنگ اسٹیشن میں اگر کوئی شخص کسی پریذائڈنگ آفیسر کو گولی مار دے تو سال سال تک ایف آئی آر نہیں کٹتی‘ ایف آئی آر کٹ جائے تو لواحقین انصاف کے لیے دھکے کھاتے رہتے ہیں‘ حلقے میں کتنے ایس ایچ او اور ڈی ایس پی ہوتے ہیں؟ آر او کس کس کو کس کس اسٹیشن پر بھجوائے گا‘ ایک سینٹر سے شکایت آتی ہے‘ آر او ایس ایچ او کو اس طرف بھگاتا ہے‘ وہ ابھی راستے میں ہوتا ہے تو دوسرے سینٹر سے اطلاع آ جاتی ہے‘ دونوں کے درمیان بیس تیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے‘ وہ ایس ایچ او دونوں جگہوں پر کیسے پہنچے گا؟ اور اگر پہنچے گا تو کیا اس وقت وہ سب کچھ نہیں ہو چکا ہو گا جس کے لیے اسے بلایا جا رہا ہو گا؟
پریذائڈنگ آفیسرز سینٹروں تک جائیں گے کیسے؟ یہ واپس کیسے آئیں گے؟ یہ بھی ایک مسئلہ ہے ‘کیا آر او تین سو سینٹروں کے تین ہزار عملے کے لیے گاڑیوں کا بندوبست کر سکے گا‘ یہ لوگ تھیلے اور بیلٹ باکس کیسے لائیں گے‘ اگر بڑی گاڑی کا بندوبست کیا جائے گا تو یہ گاڑی کتنے اسٹیشنوں کا عملہ‘ تھیلے اور باکس اکٹھے کرے گی؟ حکومت نے 1970ء میں ووٹنگ کا وقت 8 گھنٹے طے کیا تھا‘ اس وقت بنگلہ دیش کے ووٹروں سمیت کل ووٹر 5 کروڑ 69 لاکھ تھے‘ 2013ء میں صرف مغربی پاکستان کے ووٹروں کی تعداد 8 کروڑ 61 لاکھ ہو گئی‘ آپ 2002ء اور 2013ء کا ڈیٹا بھی دیکھ لیجیے‘ 2002ء میں کل ووٹر7 کروڑ 7 لاکھ تھے‘ 2013ء میں 8 کروڑ 61 لاکھ ہو گئے‘پولنگ اسٹیشنز 2002ء میں بھی فی حلقہ تقریباً تین سو تھے اور یہ آج بھی تین سو ہیں۔
ملک میں دس برسوں میں ووٹروں کی تعداد میں 25 فیصد اضافہ ہو گیا لیکن ووٹ کاسٹ کرنے کا وقت وہی 8 گھنٹے ہے‘ آپ ہزار ووٹروں کو قطار میں کھڑے کر کے آٹھ گھنٹوں میں پرچی سسٹم کے تحت ووٹ ڈال کر دکھائیے؟ پولنگ کے بعد بھی یہ دس بارہ بندے ایک ایک ووٹ کی پڑتال کرتے ہیں‘ کسی ووٹ پر ووٹر نے دو جگہ مہر لگا دی‘ کسی پر مہر کی جگہ انگوٹھا لگا دیا گیا اور کسی جگہ درمیان میں مہر لگا دی گئی‘ پولنگ کے عملے نے یہ تمام متنازعہ ووٹ پولنگ ایجنٹوں کو دکھا کر ان کا فیصلہ کرنا ہے‘ ووٹوں کی گنتی بھی ہو گی‘ رزلٹ شیٹ بھی بنے گی‘ اس شیٹ پر دستخط بھی ہوں گے‘ ووٹوں کو بیگوں میں ڈال کر ان پر سیل بھی لگے گی۔
پریذائڈنگ آفیسر مہر اور رزلٹ جیب میں بھی ڈالے گا اور یہ بیگ ہر صورت اسی رات آر او کے آفس پہنچائے جائیں گے‘ اس کے بعد کیا ہو گا؟ اس کے بعد ریٹرننگ آفیسر تین سو اسٹیشنوں کا رزلٹ اکٹھا کرے گا‘ اس کی چند گھنٹوں میں پڑتال کرے گا اور اس رزلٹ میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی دو نشستیں شامل ہوں گی‘ پڑتال کے دوران دو دن کا تھکا ماندہ عملہ آر او کے دفتر بیٹھا رہے گا‘ ان لوگوں میں وہ خواتین بھی شامل ہوں گی جو ساٹھ کلومیٹر دور اپنے بچوں کو گھروں میں چھوڑ کر آئی ہیں لیکن آر او جب تک ان کے سارے بیگز کی پڑتال نہیں کر لیتا یہ انھیں چھٹی نہیں دے سکتا۔
کیا یہ سارا عمل انسانی لحاظ سے ممکن ہے؟ اور اس عمل میں اگر جعلی مقناطیسی سیاہی بھی شامل ہو جائے تو کیا شفافیت برقرار رکھی جا سکتی ہے؟ اور ہاں یہ پریذائڈنگ آفیسر باقی بچ جانے والی پرچیاں واپس کرنے کے پابند بھی ہیں اور آر او آفس جب تک فالتو پرچیاں گن کر انھیں سر ٹیفکیٹ نہ دے دے یہ لوگ گھر نہیں جا سکتے‘ کیا آر او کا عملہ یہ کام بھی چند گھنٹوں میں سرانجام دے سکتا ہے‘ آپ اگر یہ کر سکتے ہیں؟ تو ذرا کر کے دکھائیے۔
ہمارے الیکشن سسٹم میں ایک اور خرابی بھی ہے‘ ہمارے الیکشن کا عملہ دو بار نتائج کا اعلان کرتا ہے‘ شام کے وقت غیر سرکاری نتائج کا اعلان ہوتا ہے‘ اگلی صبح سارے ووٹ دوبارہ گن کر سرکاری نتیجہ بنایا جاتا ہے اور اس دوران ٹیلی ویژن چینلز بھی ایک نتیجہ نشر کر دیتے ہیں‘ یہ تین نتائج ملک میں کنفیوژن پیدا کر دیتے ہیں‘ دنیا بھر میں الیکشن کے صرف ایک نتیجے کا اعلان کیا جاتا ہے اور یہ اعلان حتمی ہوتا ہے‘ ہم اس طرف کیوں نہیں جاتے‘ بھارت کے حالیہ الیکشنوں میں 52 کروڑ 72 لاکھ لوگوں نے ووٹ ڈالے‘ بھارت میں الیکشن کا جدید ترین سسٹم کام کر رہا ہے لیکن ریاست کو الیکشن کا عمل مکمل کرنے میں 36 دن لگ گئے اور یہ الیکشن بھی صرف قومی اسمبلی کے 543 حلقوں کے تھے جب کہ ہم 9گھنٹوں میں چار صوبائی اسمبلیوں کے 577 حلقوں اور قومی اسمبلی کے 272 حلقوں کے شفاف نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں‘ کیا یہ ممکن ہے؟
چنانچہ آپ خواہ کسی فرشتے کو چیف الیکشن کمشنر بنا دیں یا پھر پورا الیکشن کمیشن امریکا کے حوالے کر دیں آپ ملک میں شفاف اور غیر متنازعہ الیکشن نہیں کرا سکیں گے کیونکہ آپ کی الیکشن بک اور زمینی حقائق کے درمیان مریخ اور زمین جتنا فاصلہ ہے اور اس فاصلے کو درمیان میں رکھ کر غیر متنازعہ الیکشن ممکن نہیں!‘ آپ جب تک الیکشن سسٹم کو اس انتخابی منافقت سے پاک نہیں کریں گے‘ آپ اس وقت تک ملک میں غیر متنازعہ الیکشن نہیں کرا سکیں گے‘ خواہ یہ الیکشن افتخار چوہدری کے آر اوز کروائیں یا پھر یہ کارنامہ چیف جسٹس میاں نواز شریف‘ چیف جسٹس آصف علی زرداری اور چیف جسٹس عمران خان کی نگرانی میں سرانجام دیا جائے‘ نتیجہ ایک ہی نکلے گا‘ دھاندلی‘ دھاندلی اور دھاندلی۔
http://www.express.pk/story/254225/