انبیاء کی عصمت و عفت - سنی عقیدہ

انبیاء کی عصمت و عفت کے بارے میں ایک پوسٹ پڑھی جو فارقلیط رحمانی نے لکھی ہے

ایک دوسری رائے بھی ہے جو نیچے لنک میں دی ہے
مجھے کوئی بھائی قران و حدیث سے ثابت دلائل یا کتاب یا لنک دے سکتے ہیں جس میں انبیاء کی عصمت و عفت سنی عقائد سے ہو۔اگر انگریزی میں ہو تو بہت اچھا ہوگا۔ مجھے ایک غیر ملکی نو مسلم دوست کو اس مسئلے پرسمجھانا ہے۔

شاکر القادری
@محمودغزنوی

انبیاء کی عصمت و عفت:
علمائے عقائد نے انبیاء کرام کی عصمت کے بارے میں متعدد دلائل بیان کئے ہیں ہم یہاں ان میں سے چند دلائل پیش کر رہے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام کی بعثت کامقصد انسانوں کی تربیت اور ان کی راہنمائی ہے اور تربیت کے موٴثر اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی ہے کہ مربی میں ایسے صفات پائے جائیں جن کی وجہ سے لوگ اس سے قریب ہوجائیں ۔مثال کی طور پر اگر کوئی مربی خوش گفتار ،فصیح وبلیغ بات کرنے والا ہو لیکن بعض ایسے نفرت انگیز صفات اس میں پائے جائیں جس کے سبب لوگ اس سے دور ہوجائیں تو ایسی صورت میں تربیت کامقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔
ایک مربی ورہبر سے لوگوں کی دوری اور نفرت کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اس کے قول وفعل میں تضاد اور دورنگی پائی جاتی ہو۔اس صورت میں نہ صرف اس کی رہنمائیاں بے قدر اور بیکار ہوجائیں گی بلکہ اس کی نبوت کی اساس وبنیاد ہی متزلزل ہوجائےگی۔
اگر کوئی ڈاکٹر شراب کے نقصانات پر کتاب لکھے یاکوئی متاٴثر کرنے والی فلم دکھائے لیکن خود لوگوں کے مجمع میں اس قدر شراب پئے کہ اپنے پیروں پر کھڑا نہ ہوسکے ۔ایسی صورت میں شراب کے خلاف اس کی تمام تحریریں ،تقریریں اور زحمتیں خاک میں مل جائیں گی۔اسی طرح فرض کیجئے کہ کسی گروہ کارہبر کرسی پر بیٹھ کر عدل وانصاف اور مساوات کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے زبردست تقریرکرے لیکن خود عملی طور سے لوگوں کا مال ہڑپ کرتارہے تو اس کاعمل اس کی کہی ہوئی باتوں کو بے اثر بنادے گا۔
اللہ تعالیٰ اسی وجہ سے انبیاء کو ایسا علم وایمان اور صبر وحوصلہ عطا کرتاہے تاکہ وہ تمام گناہوں سے خود کو محفوظ رکھیں ۔
اس بیان کی روشنی میں انبیائے الٰہی کے لئے ضروری ہے کہ وہ بعثت کے بعد یا بعثت سے پہلے اپنی پوری زندگی میں گناہوں اور غلطیوں سے دور رہیں اور ان کا دامن کسی بھی طرح کی قول وفعل کی کمزوری سے پاک اور نیک صفات سے معطر رہنا چاہیئے ۔کیونکہ اگر کسی شخص نے اپنی عمر کاتھوڑا سا حصہ بھی لوگوں کے درمیان گناہ اور معصیت کے ساتھ گزاراہھو اور اس کی زندگی کانامہٴ اعمال سیاہ اور کمزوریوں سے بھرا ہو تو ایسا شخص بعد میں لوگوں کے دلوں میں گھر نہیں کرسکتا اور لوگوں کو اپنے اقوال وکردار سے متاثر نہیں کرسکتا۔
رب تعالیٰ کی حکمت کاتقاضا ہے کہ وہ اپنے نبی ورسول میں ایسے اسباب وصفات پیدا کرے کہ وہ ہر دل عزیز بن جائیں۔اور ایسے اسباب سے انہیں دور رکھے جن سے لوگوں کے نبی یارسول سے دور ہونے کا خدشہ ہو ۔ظاہر ہے کہ انسان کے گزشتہ برے اعمال اور اس کاتاریک ماضی لوگوں میں اس کے نفوذ اور اس کی ہر دلعزیزی کو انتہائی کم کردے گا اور لوگ یہ کہیں گے کہ کل تک تو وہ خود بد عمل تھا، آج ہمیں ہدایت کرنے چلاہے؟
تعلیم وتربیت کے شرائط میں سے ایک شرط ،جو انبیاء کرام کے اہم مقاصد میں سے ہے ،یہ ہے کہ انسان اپنے مربی کی بات کی سچائی پر ایمان رکھتاہوکیونکہ کسی چیز کی طرف ایک انسان کی کشش اسی قدر ہوتی ہے جس قدر وہ اس چیز پر اعتماد وایمان رکھتاہے۔ایک اقتصادی یا صحی پروگرام کا پر جوش استقبال عوام اسی وقت کرتے ہیں جب کوئی اعلیٰ علمی کمیٹی اس کی تائید کردیتی ہے ۔کیونکہ بہت سے ماہروں کے اجتماعی نظریہ میں خطا یا غلطی کاامکان بہت کم پایا جاتا ہے ۔ اب اگر مذہبی پیشواوٴں کے بارے میں یہ امکان ہو کہ وہ گناہ کرتے ہوں گے تو قطعی طور سے جھوٹ یا حقائق کی تحریف کا امکان بھی پایا جاتا ہوگا ۔اس امکان کی وجہ سے ان کی باتوں سے ہماراا طمینان اٹھ جائے گا۔ اسی طرح انبیاء کا مقصد جو انسانوں کی تربیت اور ہدایت ہے ہاتھ نہ آئے گا۔
ممکن ہے یہ کہا جائے کہ اعتماد واطمینان حاصل کرنے کے لئے یہ کافی ہے کہ دینی پیشوا جھوٹ نہ بولیں اور اس گناہ کے قریب نہ جائیں تا کہ انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل ہو ۔بقیہ سارے گناہوں سے ان کا پرہیز کرنا لازم نہیں ہے کیونکہ دوسرے گناہوں کے کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ اعتماد واطمینان پر کوئی اثر نھیں پڑتا۔
جواب یہ ہے کہ اس بات کی حقیقت ظاہر ہے ،کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص جھوٹ بولنے پر آمادہ نہ ہو لیکن دوسرے گناہوں مثلاً آدم کشی ،خیانت اور بے عفتی وبے حیائی کے اعمال کرنے میں اسے کوئی باک نہ ھو،اصولاً جو شخص دنیا کی لمحاتی لذتوں کے حصول کے لئے ہر طرح کے گناہ انجام دینے پر آمادہ ہو وہ ان کے حصول کے لئے جھوٹ کیسے نہیں بول سکتا۔؟
اصولی طور سے انسان کو گناہ سے روکنے والی طاقت ایک باطنی قوت یعنی خوف خدا اور نفس پر قابو پاناہے ۔جس کے ذریعہ انسان گناہوں سے دور رہتا ہے ۔پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جھوٹ کے سلسلہ میں تو یہ قوت کام کرے لیکن دوسرے گناہوں کے سلسلہ میں جو عموماً بہت برے اور وجدان و ضمیر کی نظر میں جھوٹ سے بھی زیادہ قبیح ہوں ،یہ قوت کام نہ کرے ؟اور اگر ہم اس جدائی کو ثبوت کے طور پر قبول کربھی لیں تو اثبات کے طور سے یعنی عملاً عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔کیونکہ لوگ اس طرح کی جدائی کو ہرگز تسلیم نھیں کرتے۔
اس کے علاوہ گناہ جس طرح گناہ گار کو لوگوں کی نظر میں قابل نفرت بنادیتے ہیں اسی طرح لوگ اس کی باتوں پر بھی اعتماد واطمینان نہیں رکھتے اور” یہ دکھو کیا کہہ رہاہے یہ نہ دیکھو کون کہہ رہاہے کا فلسفہ فقط ان لوگوں کے لئے موٴثر ہے جو شخصیت اور اس کی بات کے در میان فرق کرنا چاہتے ہیں لیکن ان لوگوں کے لئے جو بات کی قدرقیمت کو کہنے والے کی شخصیت اور اس کی طہارت وتقدس کے آئینہ میں دیکھتے ہیں یہ فلسفہ کارگر نہیں ہوتا۔
یہ بیان جس طرح رہبری وقیادت کے منصب پر آنے کے بعد صاحب منصب کے لئے عصمت کو ضروری جانتاہے،اسی طرح صاحب منصب ہونے سے پہلے اس کے لئے عصمت کو لازم وضروری سمجھتاہے ۔کیونکہ جو شخص ایک عرصہ تک گناہ گارو لاابالی رہاہواور اس نے ایک عمر جرائم وخیانت اور فساد میں گزاری ہو، چاہے وہ بعد میں توبہ بھی کرلے ،اس کی روح میں روحی ومعنوی انقلاب بھی پیدا ہوجائے اور وہ متقی وپرہیزگاراور نیک انسان بھی ہوجائے لیکن چونکہ لوگوں کے ذہنوں میں اس کے برے اعمال کی یادیں محفوظ ہیں لہذا لوگ اس کی نیکی کی طرف دعوت کو بھی بد بینی کی نگاہ سے دیکھیں گے اور بسا اوقات یہ تصور بھی کرسکتے ہیں کہ یہ سب اس کی ریاکاریاں ہیں وہ اس راہ سے لوگوں کو فریب دینا اور شکار کرنا چاہتاہے۔اور یہ ذہنی کیفیت خاص طورسے تعبدی مسائل میں جہاں عقلی استدلال اور تجزیہ کی گنجائش نہیں ہوتی ،زیادہ شدت سے ظاہر ہوتی ہے۔
مختصر یہ کہ شریعت کے تمام اصول و فروع کی بنیاد استدلال و تجربہ پر نہیں ہوتی کہ پیغمبر ایک فلسفی یا ایک معلم کی طرح سے اس راہ کو اختیار کرے اور اپنی بات استدلال کے ذریعہ ثابت کرے ،بلکہ شریعت کی بنیاد وحی الٰہی اور ایسی تعلیمات پر ہے کہ انسان صدیوں کے بعد اس کے اسرار و علل سے آگاہ ہوتا ہے اور اس طرح کی تعلیمات کو قبول کرنے کے لئے شرط یہ ہے کہ لوگ پیغمبر کے اوپر سو فی صد ی اعتماد کرتے ہوں کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں اسے وحی الٰہی اور عین حقیقت تصور کریں ، اور ظاہر ہے کہ یہ حالت ایسے رہبر کے سلسلے میں لوگوں کے دلوں میں ہر گز پیدا نہیں ہو سکتی جس کی زندگی ابتدا سے انتہا تک روشن و درخشاں اور پاک و پاکیزہ نہ ہو۔
قرآن کریم کی متعدد آیات سے مستفاد ہوتا ہے کہ انبیاء کرام ہر گناہ ، خطا و لغزش سے معصوم (محفوظ) ہوتے ہیں، چنانچہ ذیل میں ہم چند آیات کے ترجمہ بطور دلیل پیش کرتے ہیں :
" (یہی وہ لوگ ہیں) جن کو خدا نے ہدایت کی ہے، تو تم انہیں کی راہ چلو۔"
(قرآن مجید، سورہ انعام 6، آیت : 90)
اس آیت شریف سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اٹھارہ انبیا ء کرام کے اسماء کا ذکر کیا ہے، اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے : ”میں نے ان کے آباء و اولاد میں سے بھی بعض کو رسول بنایا، اور یہ وہ لوگ ہیں جن کی خود خدا نے ہدایت کی۔آیت مبارکہ” فَبِہُداہُمُ اقْتَدِہْ“(یعنی انہیں کی راہ )سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عمومی ہدایت نہیں ہے ،بلکہ ایک ایسی ہدایت ہے جو صرف انبیاءعلیہم السلام سے مخصوص ہے، لہٰذا اس ہدایت اور امتیاز کے ہوتے ہوئے کوئی نبی گناہ نہیں کرسکتا ،اور نہ وہ ہدایت کے راستے سے گمراہ ہوسکتا ہے، چنانچہ دوسری آیت میں صراحت کے ساتھ ارشاد ہوا :
"اور جسے اللہ ہدایت دےاسے کوئی گمراہ نہیں کر سکتا۔"
(قرآن مجید ، سورہ زمر 39، آیت : 37)
مذکورہ دونوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین کی ہدایت و راہنمائی اللہ تعالیٰ نے کی ہے، اور ہدایت بھی ایسی کی ہے کہ گناہ صغیرہ کا بھی کوئی نبی و رسول ارتکاب نہیں کرسکتا،لہٰذا جب ضلالت ،گمراہی اور گناہ ان سے سرزد نہیں ہو سکتا تو اب دوسرے لوگوں کے لئے ضروری ہے کہ ان بر گزیدہ افراد کی پیروی کریں۔اب رہا ضلالت ، گمراہی ، معصیت ا ور نافرمانی کسے کہتے ہیں ،تو قرآن میں اس کی بھی نشان دہی کی گئی ہے، ارشادہوتا ہے:
1. "اے اولاد آدم!کیا میں نے تم سے عہد نہ لیا تھا کہ تم شیطان کی پیروی نہیں کرو گے؟ یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔"
(قرآن مجید ، سورہ یٰس 36، آیت 60)
اس آیت میں شیطان کی پرستش اور پیروی کو گمراہی کہا گیاہے، یعنی ہر وہ گمراہی اور معصیت جو شیطان کی وجہ سے وجود میں آئے اسے قرآن کی زبان میں ضلالت و گمراہی کہا جاتاہے، لہٰذا تینوں آیتوں کا مفہوم یہ ہوگا :انبیاء و مرسلین ہر اس گمراہی اور معصیت سے محفوظ ہوتے ہیں جسے ضلالت کہا گیا ہے ، لہذا خلاصہ یہ ہوا :
1. انبیاء و رسول انہیں کو منتخب کیا جاتا ہے جن کو خدا نے اپنی خاص ہدایت سے نوازہ ہو۔
2. انبیاء و مرسلین میں ضلالت و گمراہی کا شائبہ بھی نہیں پایا جاسکتا،کیونکہ وہ خاص ہدایت سے نوازے گئے ہیں ۔
3. قرآن مجید کی اصطلاح میں ہر وہ معصیت اور انحراف جو خدائے تعالیٰ کے حکم کے مقابلہ میں ہو اسے ضلالت اور گمراہی کہا جاتا ہے ۔
نتیجہ : مذکورہ تینوں مطالب کی روشنی میں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تمام انبیاء و مرسلین پاک و پاکیزہ اور معصوم ہوتے ہیں،اوران سے کوئی خطا اور گناہ سزد نہیں ہو سکتا ۔
2. "اورہم نے جو رسول بھی بھیجا ہے، اس لیے بھیجا ہے کہ اللہ کے حکم کی سے اس کی اطاعت کی جائے۔"
(قرآن مجید، سورہ نساء 4، آیت : 64)
اس آیت سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ کوئی رسول اس وقت تک مبعوث نہیں ہوتاجب تک کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری نہ کی جائے، یعنی اللہ کا منشاء یہ ہے کہ انبیاء ہر حال میں ُمطاع قرار پائیں گویا گفتار و کردار دونوں کے اعتبار سے ان کی اطاعت کی جائے، کیونکہ جس طرح انبیاء کرام کی گفتار ذریعہ ٴ تبلیغ ہے اسی طرح ان حضرات کا کردار بھی وسیلہ ٴ تبلیغ ہوتا ہے۔
آیت کے مطابق انبیاء و مرسلین کے کردار و گفتار دونوں کی اطاعت کرنا چاہیئے لہٰذا اگر انبیاء سے بھول اور نسیان واقع ہو تو اس کا لازمہ یہ ہوگا کہ یہ بھول محبوب ا ورمشیت خدا وندی ہے، چونکہ خدا ئے تعالیٰ نے انبیاء کی پیروی لوگوں پہ فرض کی ہے، لہٰذا جیسے افعال بھی انبیاء کرام سے صادر ہوں گے چاہے برے افعال ہو ں یا اچھے ،ان کی اطاعت ہر حال میں ہمارے اوپر من جانب الله لازم قرار پائے گی حالانکہ خدا وند تعالیٰ نے برے افعال سے منع فرمایا ہے۔
لہذا تسلیم کرنا پڑے گا کہ انبیاء کو معصوم ہونا چاہئے تاکہ خدا کی ذات پر حرف نہ آئے، بالفاظ دیگر اگر انبیاء معصوم نہ ہوں تو لازم آئے گا کہ جس چیز کو خدائے تعالیٰ نے منع فرمایا اسی کوبجالانے کا حکم بھی فرمایا ہے!! یعنی جو چیز محبوب ِخدا ہے وہی چیز مبغوض خدا بھی ہے، اور ذات پروردگار کیلئے ایسا تصور کرنا یقینا فاسد و باطل ہے۔
3. "وہ (شیطان) بولا تیری عزت و جلال کی قسم ! ان میں سے تیرے مخلص بندوں کے سوا سب کو گمراہ کردوں گا۔"
(قرآن مجید، سورہ ص 38، آیت : 82، 83)
اس آیت میں شیطان کے قول کو نقل کیا گیا ہے کہ وہ سوائے مخلص بندوں کے تمام لوگوں کو بہکائے گا لہٰذا اگرانبیائے کرام سے کوئی چھوٹے سے چھوٹا گناہ سرزد ہوا تو گویا وہ شیطان کے بہکاوے میں آگئے!اور جب انبیاء پر شیطان اپنا پھندہ ڈال سکتا ہے تو پھر وہ مخلصین عباد اللہ میں نہ رہیں گے۔ حالا نکہ خدائے تعالیٰ انبیائے کرام کو اپنے برگزیدہ اور مخلصین بندوں میں سے شمار کرتا ہے جیسا کہ مذکورہ آیت سے پہلے چند آیا ت کے اندر اللہ تعالیٰ نے انبیا ء کو مخلصین بندوں میں سے قراردیاہے :
"بیشک ہم نے ان لوگوں کو ایک خاص صفت (آخرت کی یاد) سے ممتاز کیا ہے۔"
(قرآن مجید، سورہ ص38، آیت : 46)
آپ نے ملا حظہ فرمایا کہ خود شیطان اس بات کا اقرار و اعتراف کرتا ہے کہ وہ ان لوگوں کو نہیں بہکا سکتا جو مخلص ہیں اوریہی نہیں بلکہ خدا ئے تعالیٰ نے بھی انبیاء کرام کے مخلص ہونے کی گواہی دی ہے، اور ان کے مرتبہ ٴاخلاص کی اپنی طرف سے تضمین اور تائید فرما ئی ہے، لہٰذا اس بات سے ثابت ہو تا ہے کہ شیطان کے وسوسہ کی پہنچ اور اس کے فریب دہی کے کمند کی رسائی انبیاء کے دامن تک نہیں ہو سکتی، اوریہاں سے ہمیں اس بات کا بھی یقین کامل ہو جاتا ہے کہ انبیا ء سے کسی گناہ و معصیت کا صادر ہونا ممکن نہیں ہے۔


http://islamqa.info/en/ref/42216
 
میں فارقلیط رحمانی صاحب کے اقتباس میں دی گئی رائے سے متفق ہوں اور لنک میں دی گئی رائے (ابن تیمیہ اور ابن باز وغیرہم کی رائے) سےاختلاف کرتا ہوں(انہوں نے لکھا ہے کہ انبیاء سے معاذاللہ صغیرہ گناہ سرزد ہوسکتے ہیں البتہ غنیمت ہے کہ وہ کبیرہ کے قائل نہیں اور عصمتِ انبیاء کے انکے نزدیک فقط یہ معنی ہیں کہ وحی الٰہی کے ابلاغ میں وہ کوئی کمی بیشی نہیں کرتے)۔۔۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
تحریر: مولانا مدثر جمال تونسوی . فاضل دارالعلوم کراچی

حضرت شاہ اسماعیل شہید(رح) کے بیان کے مطابق ،اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیاء علیہم الصلاۃو السلام کو ’’ولایت‘‘ کاجو عظیم کمال دیا جاتا ہے، وہ ان کی’’عبودیت اور عصمت‘‘ کے لباس میں جلوہ نما ہوتا ہے۔’’ عبودیت‘‘ کی توضیح کے بعد اب’’مسئلہ عصمت‘‘ کی تفصیل بیان کی جاتی ہے۔

حضرت شہید(رح) اس کی توضیح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
عصمت:اس کامعنیٰ یہ ہے کہ اُن کے اقوال وافعال، عبادات وعادات، معاملات ومقامات اوراخلاق واحوال میں حق تعالیٰ اپنی قدرت کاملہ کی بدولت اُن کومداخلتِ نفس وشیطان اورخطاونسیان سے محفوظ رکھتا ہے اورمحافظ ملائکہ کو ان پر متعین کردیتا ہے تاکہ بشریت کاغُبار اُن کے پاک دامن کو آلودہ نہ کردے اورنفس بہیمیہ اپنے بعض اموراُن پر مسلّط نہ کردے اور اگر قانون رضائے الٰہی کے خلاف اُن سے شاذ ونادر کوئی امرواقع ہو بھی جائے تو فی الفور حافظ حقیقی﴿اللہ تعالیٰ﴾اس سے انہیں آگاہ کردیتا ہے اور جس طرح بھی ہوسکے غیبی عصمت ان کوراہ راست کی طرف کھینچ لاتی ہے‘‘
﴿منصب امامت،ص:۷۱﴾

حضرت شاہ اسماعیل شہید(رح) نے اس موضوع پریہ چند سطور تحریر کی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان چند سطروں میں تمام تحقیقات کا نچوڑ آگیا ہے۔ اب ہم اس موضوع کو قدرے تفصیل سے بیان کرتے ہیں تاکہ اس کے تمام پہلو سامنے آجائیں۔

منصب نبوت ورسالت سے اللہ تعالیٰ نے جن پاکباز حضرات کو نوازا ہے۔ ان کی برگزیدگی، شان عظمت و کمال اور اعلیٰ ترین خصائص و کمالات اس درجہ بلند ہوتے ہیں جن کے تصور سے دیگر مخلوق عاجز ہوتی ہے۔
لایمکن الثناء کم کان حقہ
بعدازخدا بزرگ توئی قصہ مختصر

البتہ جو خصالص و امتیازات قرآن و سنت کی روشنی میں حضرات اہل علم نے چنے ہیں ان میں ایک اہم و لازمی وصف ’’عصمت انبیاء علیہم السلام ‘‘ کے عنوان سے پہچانا جاتا ہے۔ یہ وصف، منصب نبوت کیساتھ اس درجہ خصوصیت و نسبت رکھتا ہے کہ اگر ایک لمحہ کے لئے منصب نبوت کے عالی مقام حاملین سے اس وصف کو الگ کر لیا جائے تو نبوت کی پوری عمارت منہدم ہوجاتی ہے۔ شاید یہی وجہ کہ یہود ونصاریٰ اور دیگر دشمنان انبیائ ورسل نے اکثر و بیشتر اپنی بد طینت طبائع سے مجبور ہو کر حضرات انبیائ علیہم السلام کے دامن عصمت کو داغدار بنانے کی مذموم حرکت کی ہے۔

محدث العصر حضرت مولانامحمد یوسف بنوری(رح) اسی بات کونمایاں کرتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں:
’’نبوت ایک عطیۂ ربانی ہے، جس کی حقیقت تک رسائی غیر نبی کو نہیں ہو سکتی ۔ اس کی حقیقت کو یا تو حق تعالیٰ جانتا ہے جو نبوت عطا کر نیوالا ہے یا پھر وہ ہستی جو اس عطیہ سے سرفراز ہوئی۔ مخلوق بس اتنا جانتی ہے کہ اس اعلیٰ وارفع منصب کے لئے جس شخص کا انتخاب کیا گیا ہے وہ:
۱: معصوم ہے، یعنی نفس کی ناپسندیدہ خواہشات سے پاک صاف پیدا کیا گیا ہے اور شیطان کی دسترس سے بالاتر، عصمت کے یہی معنیٰ ہیں کہ ان سے حق تعالیٰ کی نافرمانی کا صدور ناممکن ہے
۲:آسمانی وحی سے ان کا رابطہ قائم رہتا ہے اور وحی الٰہی کے ذریعے ان کو غیب کی خبریں پہنچتی ہیں ۔کبھی جبریل امین کے واسطے سے اور کبھی بلاواسطہ، جس کے مختلف طریقے ہیں ۔
۳:غیب کی وہ خبریں عظیم فائدہ والی ہوتی ہیں اور عقل کے دائرے سے بالا تر ہوتی ہیں۔ یعنی انبیائ علیہم السلام بذریعہ وحی جو خبریں دیتے ہیں ان کو انسان نہ عقل وفہم کے ذریعہ معلوم کر سکتا ہے، نہ مادی آلات و حواس کے ذریعہ ان کا علم ہو سکتا ہے‘‘﴿بصائرو عبر﴾

دیکھئے!اس عبارت میں حضرت بنوری نے سب سے پہلی چیز جو نبوت کے حامل شخص کے لئے ضروری و لازمی ہے،’’عصمت‘‘ بیان کی ہے، حضرات انبیاء علیہم السلام کی ’’عصمت‘‘ یعنی پاگیزگی و پاکبازی کے لازمی ہونے کو تمام اہل علم نے بیان کیا ہے بلکہ اس مسئلہ پر تمام اُمت کا اجماع ہو چکا ہے، اور سوائے چند گمراہ لوگوں کے اورکسی نے اس میں اختلاف نہیں کیا ہے۔

امام اعظم ابو حنیفہ(رح)، علم عقائد کے موضوع پر لکھی گئی اپنی معروف تصنیف’’الفقہ الا کبر‘‘میں تحریر فرماتے ہیں:
’’والانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کلھم منزھون عن الصغائر والکبائروالکفروالقبائح، وقدکانت منہم زلات والخطایا‘‘
’’تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام صغائر اور کبائر اور کفر و قبائح سے بالکل منزہ اور پاک تھے۔ ہاں البتہ لغزش اور بھول چوک ان سے بھی سرزد ہوتی رہی ہے‘‘
﴿البیان الازہر اردو ترجمہ الفقہ الا کبر:ص۸۳﴾

اب ارداہ یہ تو تھا کہ اس موضوع پر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) کی عبارت پیش کروں لیکن ، حضرت محدث العصر بنوری(رح) کا ایک اور اقتباس نظر پڑ گیا جسے نظر اندازکرکے آگے بڑھنا دشوار ہو رہا ہے ،اس لئے پہلے وہ اقتباس پھر اسی اقتباس کے حاشیے میں’’مدیر بینات‘‘ نے جو توضیحی نوٹ درج کیا ہے وہ بھی ساتھ ہی ملاحظہ کر لیں۔حضرت مولانا یوسف بنوری(رح): فرماتے ہیں:
’’نبوت کیلئے حق تعالیٰ جل ّ ذکرہ ایک ایسی برگریدہ اور معصوم شخصیت کا انتخاب فرماتا ہے جو اپنے ظاہر و باطن، قلب وقالب، روح وجسدہراعتبار سے عام انسانوں سے ممتاز ہوتا ہے، وہ ایسا پاک طینت اور سعید الفطر ت پیدا کیا جاتا ہے کہ اس کی تمام خواہشات رضاء و مشیت الٰہی کے تابع ہوتی ہیں، ردائے عصمت اس کے زیب تن ہوتی ہے، حق تعالیٰ کی قدرت کا ملہ ہر دم اس کی نگرانی کرتی ہے۔ اس کی ہر حرکت وسکون پر حفاظت خداوندی کا پہرہ بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ نفس و شیطان کے تسلط و استیلائ سے بالا تر ہوتا ہے۔ ایسی شخصیت سے گناہ و معصیت اور نا فرمانی کا صدور ناممکن اور منطقی اصطلاح میں محال و ممتنع ہے، اسی کانام ’’عصمت‘‘ ہے اور ایسی ہستی کو ’’معصوم‘‘ کہا جاتا ہے، عصمت لازمۂ نبوت ہے، جس طرح یہ تصور کبھی نہیں کیا جا سکتا کہ کسی لمحہ نبوت، نبی سے الگ ہو جائے، اسی طرح اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ عصمت نبوت اور نبی سے ایک آن کیلئے بھی جدا ہو سکتی ہے معاذ اللہ۔‘‘

اس کے حاشیے میں تو ضیحی عبارت یوں درج کی گئی ہے:
’’اس کے یہ معنیٰ نہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام سے قدرت سلب کر لی جاتی ہے بلکہ عصمت کا مدار ان ہی دو چیزوں پر ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا گیا ، یعنی اول تو ان کی فطرت اتنی پاکیزہ اور مصفیٰ اور مزکیٰ ہوتی ہے کہ وہ گناہ و معصیت کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور گناہ کا تصور فطرۃً ان کیلئے ناقابل برداشت ہے، دوم یہ کہ حفاظت الٰہی کی نگرانی ایک لمحہ کیلئے ان سے جدا نہیں ہوتی، ظاہر ہے کہ ان دوباتوں کے ہوتے ہوئے صدور معصیت کا امکان نہیں رہتا۔﴿مدیر﴾‘‘ ﴿بصائرو عبر حصہ اول ص۳۷۱﴾

قطب الا قطاب حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی(رح) ’’العقیدۃ الحسنۃ‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’تمام انبیاء علیہم السلام کفر، شرک اور عمداً گناہ کبیرہ سے اور صغائرپر اِصرار کرنے سے معصوم اور پاک ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو تین طریقوں سے ان نقائص سے بچاتا اور معصوم رکھتا ہے:﴿۱﴾ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کو پیدائشی طور پر ہی سلیم الفطرت اور اخلاق کے کامل اعتدال پر پیدا کرتا ہے، اس لئے وہ معاصی میں رغبت نہیں کرتے بلکہ ان سے متنفر ہوتے ہیں﴿۲﴾ دوسری یہ کہ اللہ تعالیٰ ان کی طرف وحی نازل کرتا ہے کہ معاصی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سزاہوگی اور طاعات اور نیکیوں پر اچھا بدلہ دیا جائے گا اور یہ وحی ان کیلئے گناہوں اور معاصی سے روکنے کا باعث ہوتی ہے۔اور﴿۳﴾ تیسری صورت یہ ہے کہ ان انبیائ علیہم السلام کے درمیان اور معاصی کے درمیان اللہ تعالیٰ کسی لطیفہ غیبیہ کے ذریعے حائل ہو جاتے ہیں جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ میں حضرت یعقوب علیہ السلام کی صورت کو دانتوں میں انگلی دبائے ہوئے ظاہر کیا گیا۔
﴿العقیدۃ الحسنۃ مع البیان الازہر : ص ۳۹﴾

امام رازی(رح)﴿یہ تفسیرکبیرکے مصنف کے علاوہ ہیں﴾ نے ’’عصمت الانبیاء ‘‘ کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تحریر کی ہے،جو اس موضوع پر بڑی جامع اور علمی اسلوب سے مزین ہے، اس کتاب میں آپ نے پہلے نفس مسئلہ پر بحث کی ہے، پھر اس سے فراغت کے بعد بعض انبیائ کرام علیہم السلام کے بعض واقعات جو بظاہر ’’عصمت‘‘ کے منافی محسوس ہوتے ہیں ان کے شافی جوابات دیئے ہیں اور حقیقی صورت حال واضح کی ہے۔

امام رازی(رح) نے ’’عصمت انبیاء ‘‘ کی بحث کو چار خانوں میں تقسیم کیا ہے اور ہر پہلو میں اہلسنت و الجماعت کا مسلک واضح کیا ہے اور بعدازاں پندرہ دلیلوں سے اس مسلک کو مدلل و مبرہن کیا ہے،یہاں صرف ان کے ذکر کردہ چار پہلواختصار اور قدرے ترتیب کی تبدیلی کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں۔

﴿۱﴾اِعتقادات سے متعلق عصمت انبیائ:
اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ انبیائ علیہم السلام کفر اور بدعت ﴿جو تمام فاسداِعتقادات کی جڑہیں﴾ سے معصوم ہوتے ہیں ۔اس مسئلہ میں صرف خوارج کے ایک فرقہ فضیلیہ اور اہل تشییع کا اختلاف ہے۔

﴿۲﴾ اَحکام و شرائع الٰہی سے متعلق عصمت:
اس باب میں بھی پوری امت کا اجماع ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرات انبیائ علیہم السلام کو جو اَحکام و شرائع دئیے جاتے ہیں وہ ان میں عمداً اور سہواًدونوں طرح تحریف یا خیانت کرنے سے معصوم ہوتے ہیں۔

﴿۳﴾فتویٰ و اِجتہاد سے متعلق عصمت:
اِس بارے میں تمام اُمت کا اِجماع ہے کہ ان سے فتویٰ اور اجتہاد کے باب میں عمداً تو کوئی خطائ نہیں ہو سکتی البتہ بھول چوک ہو سکتی ہے﴿ لیکن اس پر بھی انہیں برقرار نہیں رکھا جاتا فوراً صحیح صورت حال بتادی جاتی ہے۔ اس کاحوالہ آگے آرہا ہے۔﴾

﴿۴﴾اَفعال و اَحوال سے متعلق عصمت:
اس بارے میں امام رازی(رح) نے پہلے انفرادی پانچ مذاہب بیان کئے ہیں، آخر میں اپنا اور اہلسنت والجماعت کا مسلک بیان کیا ہے۔اپنا مسلک بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:انبیاء علیہم السلام زمانہ نبوت میں اپنے اَفعال اور اَحوال میں عمداً کبائر اور صغائر دونوں سے معصوم ہوتے ہیں ، البتہ سہواً ایسا ہونا ممکن ہے۔

گزشتہ تفصیلات یہ معلوم ہو گیا کہ:
انبیاء علیہم السلام کفر وشرک اور بدعت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام عمداًکبائر اور صغائر پر اِصرار سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام احکام الٰہی میں کسی قسم کی تحریف یا خیانت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام سے فتویٰ و اجتہاد میں چوک ممکن ہے البتہ اس کی اصلاح ضرورکی دی جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام اپنے افعال و احوال میں عمداً کبائرو صغائر سے معصوم ہوتے ہیں البتہ سہواً اس کا امکان باقی رہتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام کے اجتہاد کی توضیح کرتے ہوئے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بانی دارالعلوم دیوبند(رح) رقم طراز ہیں:
’’عرض پنجم یہ ہے کہ احکام انبیائے کرام علیہم السلام دو قسم کے ہوتے ہیں۔ایک تو ازقسم روایت اورایک ازقسم درایت۔ اول میں تو احتمال خطاممکن نہیں۔انبیاء کرام علیہم السلام صادق ومصدوق ہوتے ہیں﴿جب﴾وہ راوی ﴿ہیں اور﴾خداتعالیٰ مروی عنہ﴿ہیں تو﴾ خطاآئے تو کدھرسے آئے؟

ہاں احکام قسم ثانی میں گاہ بگاہ خطا کابھی احتمال ہوتا ہے اور اس لئے احتیاط کی بھی ضرورت ہوتی ہے .البتہ اتنی بات مقررہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی خطا کی اصلاح ضروری ہے اور اس دعوے پر احادیث کثیرہ شاہد ہیں‘‘ ﴿کیامقتدی پرفاتحہ واجب ہے؟ص۰:۵﴾

یاد رہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی عصمت کاعقیدہ رکھنا ضروریات دین میں سے ہے اور اس میں کوئی بھی جھول ایمان کے خطرناک ہوسکتا ہے۔حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ ، نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے کتنی پیاری بات کہتے ہیں:
واحسن منک لم ترقط عین
واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرأ من کل عیب
کانک قدخلقت کما تشاء
 
شکریہ قادری اور غزنوی صاحب

اتفاق اس پر ہے کہ
انبیاء علیہم السلام کفر وشرک اور بدعت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام عمداًکبائر اور صغائر پر اِصرار سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام احکام الٰہی میں کسی قسم کی تحریف یا خیانت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام سے فتویٰ و اجتہاد میں چوک ممکن ہے البتہ اس کی اصلاح ضرورکی دی جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام اپنے افعال و احوال میں عمداً کبائرو صغائر سے معصوم ہوتے ہیں البتہ سہواً اس کا امکان باقی رہتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام عمداًکبائر اور صغائر پر اِصرار سے معصوم ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اپنے افعال و احوال میں عمداً کبائرو صغائر سے معصوم ہوتے ہیں البتہ سہواً اس کا امکان باقی رہتا ہے۔
کیا سہوا صغائر سرزد ہوسکتے ہیں اگرچہ اس پر اصرار نہ ہو۔ توبہ اور اللہ سے معافی اور درستگی فورا ہی ہو
اگر یہی بات ہے تو ان تیمہ اور بن باز وغیرہ کا موقف بھی ہی ہے- کیا میں نے درست کہا؟

اب سوال یہ کو حضرت ادم علیہ السلام کے درخت سے پھل کھانے کے عمل کو ہم کیا گناہ نہیں کہیں گے۔ کہ یہ عمل بھی اللہ کے حکم کے خلاف ہوا
پھر حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا ۔ اس کی کیا توجہیہ ہے؟
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک مصری کے قتل کو ہم کیا کہیں گے؟
 
شکریہ قادری اور غزنوی صاحب

اتفاق اس پر ہے کہ
انبیاء علیہم السلام کفر وشرک اور بدعت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام عمداًکبائر اور صغائر پر اِصرار سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام احکام الٰہی میں کسی قسم کی تحریف یا خیانت سے معصوم ہوتے ہیں۔
انبیاء علیہم السلام سے فتویٰ و اجتہاد میں چوک ممکن ہے البتہ اس کی اصلاح ضرورکی دی جاتی ہے۔
انبیاء علیہم السلام اپنے افعال و احوال میں عمداً کبائرو صغائر سے معصوم ہوتے ہیں البتہ سہواً اس کا امکان باقی رہتا ہے۔

انبیاء علیہم السلام عمداًکبائر اور صغائر پر اِصرار سے معصوم ہوتے ہیں۔ انبیاء علیہم السلام اپنے افعال و احوال میں عمداً کبائرو صغائر سے معصوم ہوتے ہیں البتہ سہواً اس کا امکان باقی رہتا ہے۔
کیا سہوا صغائر سرزد ہوسکتے ہیں اگرچہ اس پر اصرار نہ ہو۔ توبہ اور اللہ سے معافی اور درستگی فورا ہی ہو
اگر یہی بات ہے تو ان تیمہ اور بن باز وغیرہ کا موقف بھی ہی ہے- کیا میں نے درست کہا؟

اب سوال یہ کو حضرت ادم علیہ السلام کے درخت سے پھل کھانے کے عمل کو ہم کیا گناہ نہیں کہیں گے۔ کہ یہ عمل بھی اللہ کے حکم کے خلاف ہوا
پھر حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا ۔ اس کی کیا توجہیہ ہے؟
اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ایک مصری کے قتل کو ہم کیا کہیں گے؟
انبیاء کو اپنے جیسا انسان سمجھنے والے تو یقیناّ ان سب امور (جنکی مثالیں آپ نے دی ہیں) کو گناہ ہی قرار دیں گے خواہ صغیرہ ہی سہی۔۔۔لیکن عارفین، علمائے راسخین اور صوفیائے محققین کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ ایسے تمام امور میں اللہ کی مشئیت سبقت کرتی ہے اور غالب رہتی ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ ہے کہ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ۔۔یعنی آپ نے وہ کنکریاں نہیں ماریں جب آپ نے ان کنکریوں کو پھینکا، بلکہ اللہ نے وہ کنکریاں پھینکیں۔
جو کچھ حضرت خضر علیہ السلام نے کیا وہ ظاہر بین نگاہوں کیلئے گناہ اور جرم ہی تھا لیکن جب اسکی حقیقت واضح ہوئی تو پتہ چلا کہ وہی عین صواب اور عین اطاعتِ الٰہی تھی۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ عالمِ ارواح میں آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام میں ایک گفتگو ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کو اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تخلیق کیا اور جنت آپکا ٹھکانہ تھا، پھر بھی آپ سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ اے موسیٰ آپ مجھے اس بات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جسکا فیصلہ اللہ عزّوجل نے میری پیدائش سے چالیس ہزار سال پہلے ہی فرمادیا تھا۔ اور اسی حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں آدم علیہ السلام اس گفتگو میں موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔
مولانا رومی علیہ الرحمۃ کا مشہور واقعہ ہے کہ گھوڑے پر سوار ہوکر گذر رہے تھے کہ ایک درویش (شمس تبریزی) نے گھوڑے کی باگ کو تھام لیا اور پوچھا کہ ایک سوال ہے اسکا جواب درکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بتائیے کیا سوال ہے تو شمس تبریزی نے پوچھا کہ حدیثِ رسول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" میرے دل پر ایک خفیف سا پردہ سا آجاتا ہے تو میں دن میں ستر بار اپنے گناہوں پراستغفار کرتا ہوں"، آپ بتائیے کہ وہ کونسے گناہ ہیں جن پر رسول ِ پاک استغفار فرماتے ہیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ " حضور نبیِ پاک کاہر لمحہ گذشتہ لمحے سے روحانیت ،قرب ، معرفت غرضیکہ ہر معاملے میں ترقی اور بلندی میں ہے اور حالتِ ارتقاء میں ہے (و للآخرۃ خیر لک من الاولیٰ) چنانچہ جب بھی آپکی نظر موجودہ حالتِ ارتقاء سے گذشتہ حالت پر پڑتی ہے تو وہ حالت موجودہ حالت کی نسبت پست دکھائی دیتی ہے ۔چنانچہ آپ اس پر استغفار فرماتے ہیں"۔۔یہ جواب سن کر شمس تبریزی نے ایک چیخ بلند کی اور وہاں سے ایک سرمستی کی کیفیت میں چلے گئے۔۔کہتے ہیں کہ مولانا رومی کو اس چیخ کی وجہ سے شمس تبریزی سے عشق ہوگیا اور انکی یاد میں بیقرار رہنے لگے۔ اور مثنوی جیسی عارفانہ تخلیق منظرِ عام پر آئی۔۔۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ ہمارے خیال میں تو انبیائے کرام کے احوال کو اپنے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہئیے، ورنہ معاذ اللہ ،انسان یہ کہنے لگ پڑتا ہےکہ جی انبیاء سے بھی صغیرہ گناہ سرزد ہوئے ۔
 
انبیاء کو اپنے جیسا انسان سمجھنے والے تو یقیناّ ان سب امور (جنکی مثالیں آپ نے دی ہیں) کو گناہ ہی قرار دیں گے خواہ صغیرہ ہی سہی۔۔۔ لیکن عارفین، علمائے راسخین اور صوفیائے محققین کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ ایسے تمام امور میں اللہ کی مشئیت سبقت کرتی ہے اور غالب رہتی ہے۔ جیسا کہ آیت مبارکہ ہے کہ وما رمیت اذ رمیت ولکن اللہ رمیٰ۔۔یعنی آپ نے وہ کنکریاں نہیں ماریں جب آپ نے ان کنکریوں کو پھینکا، بلکہ اللہ نے وہ کنکریاں پھینکیں۔
جو کچھ حضرت خضر علیہ السلام نے کیا وہ ظاہر بین نگاہوں کیلئے گناہ اور جرم ہی تھا لیکن جب اسکی حقیقت واضح ہوئی تو پتہ چلا کہ وہی عین صواب اور عین اطاعتِ الٰہی تھی۔
بخاری و مسلم میں ہے کہ عالمِ ارواح میں آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام میں ایک گفتگو ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کو اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تخلیق کیا اور جنت آپکا ٹھکانہ تھا، پھر بھی آپ سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ اے موسیٰ آپ مجھے اس بات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جسکا فیصلہ اللہ عزّوجل نے میری پیدائش سے چالیس ہزار سال پہلے ہی فرمادیا تھا۔ اور اسی حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں آدم علیہ السلام اس گفتگو میں موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔
مولانا رومی علیہ الرحمۃ کا مشہور واقعہ ہے کہ گھوڑے پر سوار ہوکر گذر رہے تھے کہ ایک درویش (شمس تبریزی) نے گھوڑے کی باگ کو تھام لیا اور پوچھا کہ ایک سوال ہے اسکا جواب درکار ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بتائیے کیا سوال ہے تو شمس تبریزی نے پوچھا کہ حدیثِ رسول ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ" میرے دل پر ایک خفیف سا پردہ سا آجاتا ہے تو میں دن میں ستر بار اپنے گناہوں پراستغفار کرتا ہوں"، آپ بتائیے کہ وہ کونسے گناہ ہیں جن پر رسول ِ پاک استغفار فرماتے ہیں۔ مولانا نے جواب دیا کہ " حضور نبیِ پاک کاہر لمحہ گذشتہ لمحے سے روحانیت ،قرب ، معرفت غرضیکہ ہر معاملے میں ترقی اور بلندی میں ہے اور حالتِ ارتقاء میں ہے (و للآخرۃ خیر لک من الاولیٰ) چنانچہ جب بھی آپکی نظر موجودہ حالتِ ارتقاء سے گذشتہ حالت پر پڑتی ہے تو وہ حالت موجودہ حالت کی نسبت پست دکھائی دیتی ہے ۔چنانچہ آپ اس پر استغفار فرماتے ہیں"۔۔یہ جواب سن کر شمس تبریزی نے ایک چیخ بلند کی اور وہاں سے ایک سرمستی کی کیفیت میں چلے گئے۔۔کہتے ہیں کہ مولانا رومی کو اس چیخ کی وجہ سے شمس تبریزی سے عشق ہوگیا اور انکی یاد میں بیقرار رہنے لگے۔ اور مثنوی جیسی عارفانہ تخلیق منظرِ عام پر آئی۔۔۔
قصہ مختصر یہ ہے کہ ہمارے خیال میں تو انبیائے کرام کے احوال کو اپنے احوال پر قیاس نہیں کرنا چاہئیے، ورنہ معاذ اللہ ،انسان یہ کہنے لگ پڑتا ہےکہ جی انبیاء سے بھی صغیرہ گناہ سرزد ہوئے ۔

اگر یہ بات ہے تو ایک اور مشکل اپڑتی ہے
جیسا کہ اپ نے لکھا کہ "بخاری و مسلم میں ہے کہ عالمِ ارواح میں آدم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام میں ایک گفتگو ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام نے آدم علیہ السلام سے عرض کیا کہ آپ کو اللہ نے اپنے دونوں ہاتھوں سے تخلیق کیا اور جنت آپکا ٹھکانہ تھا، پھر بھی آپ سے لغزش سرزد ہوئی تو انہوں نے یہ جواب دیا کہ اے موسیٰ آپ مجھے اس بات کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں جسکا فیصلہ اللہ عزّوجل نے میری پیدائش سے چالیس ہزار سال پہلے ہی فرمادیا تھا۔ اور اسی حدیث میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یوں آدم علیہ السلام اس گفتگو میں موسیٰ علیہ السلام پر غالب آگئے۔"

کیا بخاری و مسلم میں اس کا درست حدیث نمبر بتا سکتے ہیں یا لنک دے سکتے ہیں۔

دوسرے حضرت خضر علیہ السلام صاحب شریعت میری معلومات کے مطابق نہیں تھے۔
مشکل یہ ان پڑی ہے کہ اس طرح تو ہر شخص یہ دلیل دے سکتا ہے کہ یہ عمل تو پہلے ہی لوح محفوظ میں لکھا گیا ہے
دوسرے ذرا شیطان کے عمل یعنی آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنا اور درخت سے پھل کھانے میں کیا فرق ہے؟ ایک معنی میں دیکھا جائے تو شیطان بھی یہی جواب دیتا ہے کہ اللہ نے مجھے گمراہ کیا۔

مجموعی طور پر میں اپ کے موقف سے مطمئن ہوں اور یہ میرے علم میں بھی ہے۔ مگرمجھے مشکل ہورہی ایک نو مسلم کو یہ سمجھانے میں۔ ظاہر بین تو ظاہر ہے ظاہر کو ہی دیکھے گا۔
جیسا کہ محترم شاکر القادری صاحب نے فرمایا کہ حضرت ابو حنیفہ رح کی کتاب میں اس مسئلہ پر درج ہے۔کیا اس مسئلہ پر مالکی، شافعی اور حبنلی مسلک کی وہی رائے ہے جومحترم شاکر القادری صاحب نے لکھی ہے۔
کیا اپ یا کوئی اور صاحب اس مسئلہ پر چار مذاہب کی رائے پر مبنی کتب کا لنک دے سکیں گے۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
محمود احمدغزنوی ! آپ نے جس خوبصورت اور عارفانہ نکتہ نظرسے مسئلہ کا حل پیش کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔

لیکن اب یہ موضوع چل نکلا ہے تو چاہیئے کے اس سلسلہ میں کی جانے والی علمی ابحاث کو یہاں جمع کیا جائے تاکہ ہمارے دوست کو اس سلسلہ میں تشفی ہو
میں یہاں شیعہ نکتہ نظر سے لکھا گیا ایک آرٹیکل پیش کرنا چاہوں گا۔ کیونکہ اس کا مطالعہ بھی خالی از منفعت نہیں ہے
عصمت ِانبیا
محمد اصغر عسکری

اپنے مقام پر علم کلام میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ انسانیت کی ہدا یت اور راہنمائی کے لیے عقلِ انسانی کا فی نہیں ہے بلکہ وحی الہیٰ ضروری ہے جب وحی کا ضروری ہو نا ثابت ہو تو اس وحی کو محفوظ رکھنا بھی اتنا ہی ضروری اور لازم ہے ،جتنا خود وحی کا ہونا ضروری ہے ۔کیونکہ اگر وحی کی ضرور ت ثابت ہو مگر وہ اپنی حقیقی شکل میں محفوظ نہ ہو تو پھر اس کی ضرورت بھی خدشہ دار ہو جائے گی ۔

اور یہ با ت ہر شخص پر واضح اور معلوم ہے کہ ایک عام انسان وحیِ الہیٰ سے استفادہ نہیں کر سکتا اور وحی کو دریافت کرنے کے لیے ایک خاص قسم کی لیاقت واستعداد چاہیے یعنی چند مخصوص افراد کے ذریعے وحی الہیٰ کے پیغامات کو لو گوں تک پہنچا یا جا سکتا ہے ۔لیکن ان پیغامات کے صحیح ہو نے کی کیا ضمانت ہے ؟

اور کہا ں سے معلوم ہو کہ خداکے نمائندے نے وحی کو صحیح طور پر دریافت کیا ہے اور صحیح و سالم ،لوگوں تک پہنچایا ہے کیونکہ وحی تب فائدہ مند ہو سکتی ہے جب مر حلہ صدور سے مرحلہ وصول تک ہر قسم کی عمدی وسھوی خطائوں سے اور اضافات سے محفوظ ہو اور اسی کو علم کلا م کی اصطلاح میں عصمت کہا جاتا ہے ۔

تو آئیے سب سے پہلے یہ جاننے کی کو شش کر تے ہیں کہ عصمت کا کیا مفہوم ہے ؟عصمت کی کیا حدود ہیں؟

اور کیا عصمت کا لازمہ جبرہے یعنی جب خدا کسی کو معصوم بناتا ہے تو اس کے ارادے و اختیارکو سلب کر لیتا ہے یا نہیں بلکہ وہ اپنے ارادے اوراختیار کے ہو تے ہو ئے معصوم ہو تا ہے ؟

اگر چہ عصمت کاموضوع بہت وسیع اور کلی ہے اور کسی ایک مقالے میں اس کے تمام پہلوئوں پر بحث نہیں کی جا سکتی لہذا اس مختصر تحریر میں عصمت کا مفہوم اور اس کی ضرورت کو کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے اس پر بحث کر یں گے ۔

عصمت کا لغوی معنیٰ پاک دامنی (Chastity)ہے ۔١
ذیل میں ہم عصمت کی چند تعریفیں بیان کر تے ہیں تاکہ اس کا معنیٰ و مفہوم مزید واضح ہو سکے۔

معروف عارف وفیلسوف علامہ طباطبائی فرماتے ہیں۔

عصمت نفس میں ایک ایسی علمی صورت ہے کہ جو انسان کو ہر قسم کے باطل سے خواہ اس کا تعلق عقیدے سے ہو یا عمل سے محفوظ کر تی ہے ۔٢

عقائد اسلامی کے مصنف لکھتے ہیں :

عصمت ایک ایسی اندرونی قوت کا نام ہے کہ جو انسان کو ہر قسم کے گناہ سے محفوظ بناتی ہے ۔٣

بررسی مسائل کلی امامت میں مصنف لکھتے ہیں کہ :

عصمت ایک ایسی غیر معمولی باطنی اور نفسانی قوت ہے کہ جس سے انسان اس کا ئنات کی حقیقت اور عالم وجود کے باطن وملکوت کا مشاہدہ کر سکتا ہے اور یہ غیر معمولی نفسانی قوت جس میں بھی پیدا ہو جا ئے اسے ہر قسم کی خطا ء وگناہ سے معصوم بنا دیتی ہے ۔٤

مذکورہ تعریفات سے واضح ہو تا ہے کہ عصمت ایک غیرمعمولی قوت ہے جو خدا اپنے خاص بندوں کو عطا کر تا ہے اور عصمت مقولہ علم سے اس کا تعلق ہے ۔

بنیاد ی طور پر اہل تشیع اوراہل سنت کے درمیان عصمت کے معنیٰ و مفہوم میں اختلاف ِنظر دکھا ئی دیتا ہے

اہل تشیع کا عقیدہ ہے کہ الہیٰ نمائندے خواہ انبیا ہوں یا آئمہ اپنے آغاز ولادت سے زندگی کے آخری لمحے تک تمام گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور ہر قسم کی خطا ء ولغزش سے خواہ عمدی ہویا سہوی پاک ہوتے ہیں جب کہ اہل سنت عصمت کے اس وسیع مفہوم کے قائل نہیں ہیں۔بلکہ بعض نے عصمت ِ انبیا سے فقط گناہان کبیر ہ سے معصوم ہو نا مراد لیا ہے بعض نے دوران بلوغ سے اور بعض نے کہا ہے کہ بعثت کے بعد نبی معصوم ہو تا ہے،

انبیاء کی عصمت کو ثابت کرنے سے پہلے چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے تا کہ موضوع بحث واضح ہو سکے ۔

١۔ انبیا اور آئمہ کے معصوم ہونے کا مطلب صرف گناہوں سے پاک ہو نا نہیں ہے کیونکہ ایک معمولی انسان بھی کم عمر ہونے کی وجہ سے ممکن ہے کو ئی گناہ نہ کرے بلکہ معصوم ہونیکا مطلب یہ ہے کہ یہ ہستیاں ایک طاقتور ملکہء نفسانی کی مالک ہیںکہ جو سخت سے سخت حالات میںبھی اپنے آپ کو محفوظ رکھتی ہے اور یہ ملکہ نفسانی گناہوں کی آلودگیوں سے آگاہی ،قوی ارادہ اور نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے کے نیتجے میں حاصل ہو تا ہے

اور اس کی فاعلیت کو خدا کی طرف نسبت دی جا تی ہے ۔ورنہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ خدا کسی معصوم انسان کو زبردستی گناہوں سے بچاتا ہے اور اس کے اختیار کو چھین لیتا ہے ۔

٢۔ کسی بھی شخص کی عصمت کا لازمہ یہ ہے کہ وہ اُن تمام حرام اعمال کو ترک کر دے جو خود اس کے زمانے کی شریعت میں حرام ہوں نہ وہ حرام اعمال جو گزشتہ شریعتوں میں حرام تھے مگراب حلال ہو چکے ہیں ۔لہذا انبیا ء اور آئمہ کی عصمت ان اعمال کو انجام دینے سے خدشہ دار نہیں ہو تی جو کسی دوسری شریعت میں پہلے حرام تھے اور اب جا ئز ہوں۔

٣۔ گناہ سے مراد ایسا عمل ہے جسے فقہ میں انجام دینا حرام ہو یا ایسے عمل کا ترک کرنا کہ جسے فقہ میں واجب کہا گیا ہے ۔لیکن گناہ کے علاوہ دوسرے کلمات جیسے عصیان ،ذنب وغیرہ وسیع معنیٰ میں استعمال ہو ئے ہیں کہ جسے ترک اولیٰ کہاجا تا ہے ایسے اعمال کا انجام دینا عصمت کے منافی نہیں ہے ۔اگر چہ اس کی تفصیل کے لیے الگ مستقل بحث کی ضرورت ہے کہ تر ک اولیٰ سے کیا مراد ہے ؟

اور انبیا و آئمہ کی طرف گناہوں کی نسبت سے کیا مراد ہے ؟
٤۔ اس نکتے کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ عصمت کی اس بحث میں ہماری مرادآئمہ اور فرشتوں کی عصمت نہیں ہے بلکہ ہمارا موضوع بحث صرف انبیا کی عصمت مراد ہے ،اورآئمہ کا معصوم ہونا کیوںضروری ہے اس کو آئندہ شمارے میں زیر بحث لائیں گے ۔

عصمت کی ضرورت:
جب عصمت کا معنیٰ و مفہوم واضح ہو گیا تو ا ب یہ سوال پیدا ہو تا ہے کہ

انبیا کا معصوم ہو نا کیوں ضروری ہے ؟ اگر ابنیا معصوم نہ ہو تے تو کیا مشکل پیش آتی ؟

عصمت کی ضرورت کو دونوں دلیلوں یعنی عقلی ادلہ اورنقلی ادلہ سے اپنے مقام پر ثابت کیا گیا ہے، ذیل میںہم ان میں سے بعض ادلہ کا ذکر کر تے ہیں ۔

پہلی دلیل :
انبیا ء کے معصوم ہو نے پر پہلی دلیل یہ ہے کہ واضح ہے کہ انبیا ء کی بعثت کا ہدف انسانوں کو ان کی ان ذمہ داریوں کی طرف ہدایت اورراہنمائی کر نا ہے کہ جو خدا نے ان کے لیے معین فرمائی ہیں ۔در حقیقت انبیاء انسانوں کے درمیان خدا کے نمائندے ہو تے ہیں کہ جن کاکام لو گوں کو راہ ِ راست کی ہدایت کرنا ہو تا ہے لہذا اگر ایسے نمائندے خدا کے بتائے ہو ئے قانون اور دستور کے پابند نہ ہو ں اور اپنی رسالت کے بر خلاف اعمال کے مرتکب ہو ں تو نقض غرض لا زم آئے گا یعنی وہ ہدف اورمقصد جو خدا ان انبیاء کو بھیج کر حاصل کر نا چاہتا تھا وہ حاصل نہیں ہو سکے گا۔لہذا خدا کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ انبیاء تمام گناہوں سے پاک او ر دور ہو ں بلکہ سہو و نسیان کی بنیاد پربھی کو ئی ناشائستہ عمل انجام نہ دیں تاکہ لو گوںکا اعتماد باقی رہے ۔

دوسری دلیل :
انبیا کی وحی کو لو گوں تک پہنچانے اورانہیں راہِ راست کی طرف راہنمائی کر نے کے علاوہ ایک اور ذمہ داری لوگوں کی تربیت اور تزکیہ ہے جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہو ا ہے۔

(ھُوَا لَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّےّنَ رَسُوْلاً مِّنْھُمْ ےَتْلُوْ عَلَےْھِمْ اٰےٰتِہ وَےُزَکِّےْھِمْ وَےُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ

وَالْحِکْمَةَ ) ٦

ترجمہ :۔وہی ہے جس نے خواندہ لو گوں میںانہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سنا تا ہے اور انہیں پاکیزہ کر تا ہے اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔

تا کہ وہ باصلاحیت افراد کو کمال کی آخری منزل تک لے جا ئیں اور یہ ذمہ داری فقط وہی لوگ انجام دے سکتے ہیں جو خود انسانی کمالا ت کے اعلیٰ مقامات(عصمت)پر فائز ہو ں ۔اور پھر دوسری بات یہ ہے کہ افراد کی تربیت میںمربی کا کردار اس کی گفتار سے زیادہ موثر ہو تا ہے ۔

شاید امام جعفر صادق ۔اپنی نورانی حدیث میں یہی فرمانا چاہتے ہیں کہ

''کونوادعاٰة الناس بغیر السنتکم ''٧

''یعنی لو گوں کو راہ ِراست کی دعو ت دو مگر اپنی زبان سے نہیں یعنی کردا ر عمل سے''

وہ افراد جو کہ کردار اور عمل کے لحاظ سے عیوب اور نقائص کے حامل ہو تے ہیںان کی گفتار بھی مطلوبہ تاثیر نہیں رکھتی لہذا انبیا ء کی بعثت اس عنوان سے کہ وہ معاشروں کے مربی ہیں فقط اسی صورت میں قابل ِ عمل ہے کہ جب ان کا کردار و گفتار ہر قسم کی سھوی و عمدی خطا ء سے محفوظ ہو ۔

حقیقی محبت :۔
انبیا حقیقی عشق الہیٰ سے سر شار تھے ،کیونکہ انبیا باقی تمام لوگوں کو نسبت خدا کی زیادہ معرفت رکھتے تھے۔ان کو خدا کی بزرگی کا یقین تھا ،صرف اسی کی رضا و خوشنودی ان کی نظروں کے سامنے تھی،یہی وجہ تھی کی انبیا تبلیغ کی راہ میں راہ مشکل اور ہر حادثے کا استقبال کر تے تھے وہ بحرانی دور میں خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔

خد ا کی راہ میںسختیاں برداشت کر نے میں خوش ہو تے تھے ،جو راہِ خدا میں اس قدر ڈوبا ہو ا ہو ،دل ودماغ کی گہرائیوں میں فقط اسی کا خیال ہو کیا ایسے شخص سے خدا کی نا فرمانی کی امید کی جا سکتی ہے ؟

نہیں ہر گز نہیں بلکہ ایسا شخص ہمشیہ خدا کی اطاعت میں مصروف رہے گا ۔

اس لیے جب رسول خدا ۖکی خدمت میں عرض کیا گیا یا رسول اللہ ۖ آپ عباد ت میں اس قدر زحمت کیوں برداشت کرتے ہیں جب کہ آپ ہر قسم کے گناہ سے پاک و پاکیزہ ہیں تو اس وقت آپ نے فرمایا

''أفلا أکون عبداً شکور''

''کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ''٨

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب ۔ پیغمبر اسلام ۖ کی صفات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ،خدا وند عالم نے آنحضرت کو رسول ۖاور پیغمبر ۖ بنا کر بھیجا اس حالت میں کہ آپ لو گوںکو بشارت دینے والے اور ان کو ڈرانے والے تھے اپنے بچپن میں سب سے افضل تھے آپ ہر متقی سے پاکیزہ تر اور ہر سخی زیادہ سخی تھے ۔٩

اورپھر ایک سادہ مثال سے اس مطلب کو مزید واضح کر تے ہیں ۔کیا آپ کو ئی ایسا عقل مند انسان تلاش کر سکتے ہیں

جو آگ کوکھانے کے لیے فکرمند ہو یا گندگی چبانے کی فکر میں ہو؟

کیا کو ئی ایسا با شعور انسان تلاش کیا جا سکتا ہے جو مکمل طور پر برھنہ ہو کر گلیوں اور بازاروں میں گھومے؟

یقینا جواب نفی میں ہو گا
پس کہا جا سکتا ہے کہ ہر عقل مند اور صحیح و سالم شخص بعض بُرے اور ناشائستہ کاموں کے مقابلے میں محفوظ ہو تا ہے اور اِن کاموں کی نسبت معصوم ہو تا ہے ۔

قرآن او رعصمت انبیا ء :
قرآ ن میں بہت ساری آیات میں عصمت کے مفہوم اور اس کی ضرورت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ذیل میں ہم چند آیات کا ذکر کر تے ہیں ۔

قرآن کریم نے بعض انسانوں کو مخلص کہا ہے یہاں تک کہ ابلیس بھی انہیں گمراہ کرنے کی طمع نہیں رکھتا جیسا کہ قرآن میں آیا ہے کہ

ترجمہ :( کہنے لگا :مجھے تیری عزت کی قسم ! میں ان میں سب کو بہکا دوں گا،ان میں سوائے تیرے خالص بندوں کے )١٠

اس آیت میں ابلیس نے کہا کہ سوائے مخلصین کے باقی لوگوں کو گمراہ کروں گا یعنی ابلیس کا انہیںگمراہ نہ کرنا اس عصمت کی وجہ سے ہے جو انہیں گناہوںکے مقابلے میں حاصل ہے ورنہ تو ابلیس ان کا بھی دشمن ہے اگر اسے موقع مل جا ئے تو انہیں بھی گمراہ کرتا ۔

لہذا مخلص کا عنوان معصوم کے مساوی ہے قرآن نے بعض انبیاء کو مخلصین میں سے شمار کیا ہے ۔

ترجمہ : (اے رسول ۖہمارے بندوں میں ابراہیم ،اسحاق ،اور یعقوب کو یاد کرو جو قوت و بصیرت والے تھے ہم نے انہیں ایک خاص صفت کی بنا پر مخلص بنایاوہ دارِ آخرت کا ذکرہے )١١

سورہ مریم میں ارشادہوا

(اے رسول ۖ قرآن میں موسیٰ ۔کا تذکرہ کرو اس میں شک نہیں کہ وہ مخلص اور میرا بھیجا ہوا نبی تھا)١٢

اس کے علاوہ قرآن نے یوسف ۔ کا سخت ترین لمحات میں محفوظ اپنے کو ان کے مخلص ہو نے سے نسبت دی ہے

سورہ یوسف میں ارشار ہوا ۔

(ہم نے اس کو یوں بچایا تاکہ ہم اس سے برائی اور بدکاری کو دور رکھیں بے شک وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا )١٣

قرآن میں انبیاء کی اطاعت کو مطلق قرار دیا گیا ہے ۔

سورہ نسا میںارشارہوا۔

(اور ہم نے کو ئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لو گ اس کی اطاعت کر یں )١٤

اور انبیا ء کی مطلق اطاعت اس صورت میں صحیح ہے کہ جب ان کی اطاعت خدا کی اطاعت ہو اور ان کی پیروی

کر نا خدا کی اطاعت کے خلاف نہ ہو،اگر انبیا ء معصوم نہ ہو تے تو خدا ان کے مطلق اطاعت کا حکم کبھی نہ دیتا ۔

قرآن کی رو سے خدا نے الہیٰ منصبوں کو فقط ان لو گوں سے خاص کیا ہے جن کے ہا تھ ظلم سے آلودہ نہ ہو جیسا کہ قرآن حضرت ابراہیم ۔ کے جواب میں فرماتا ہے جب انہوں نے اپنی اولاد کے لیے منصب امامت کی درخواست کی

'' وَاِذِابْتَلٰی اِبْرٰھمَ رَبُّہ' بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ۔ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا۔قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ قَالَ لاَ یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ ''١٥

فرمایا میرے اس عہد پر ظالموں میں سے کوئی بھی فائز نہیں ہو سکتا اور واضح ہے کہ ہر گناہ نفس پر ایک ظلم ہے اور قرآن نے ہر گناہگار کو ظالم کیا ہے پس انبیاء میں جومنصب الہیٰ کے ذمہ دار ہو تے ہیں ہر قسم کے گناہ اورظلم سے پاک ہو تے ہیں ۔

اورقرآن میں ایسی آیات بھی موجود ہیں جو بالخصوص پیغمبر گرامی اسلام کی عصمت کے حوالے سے راہنمائی کر تی ہیں

''وَلَوْ لَاَ اَنْ ثَبَّتْنٰکَ لَقَدْ کِدْتَّ تَرْکَنُ اِلَےْھِمْ شَےْئًا قَےِلْاًo اِذًالَّا ذَقْنٰکَ ضِعْفَ

الْحَےٰوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لاَ تَجِدُلَکَ عَلَےْنَا نَصِےْرًا '' ١٦

ترجمہ: '' اور اگر ہم آپ کو ثابت قدم نہ رکھتے تو بلا شبہ آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ہو جاتے ،اس صورت میں ہم آپ کو زندگی میں بھی دوہر ا عذاب اور آخرت میںبھی دوہرا عذاب چکھا دیتے پھر آپ ہمارے مقابلے میںکو ئی مددگار نہ پاتے ''

اس آیت مجیدہ میں ''ولولا ان ثتبناک '' تثبیت (ثابت قدمی )سے مرا د عصمت ہے اور یہ تشبیت کسی خاص مورد میں نہیں ہے بلکہ پیغمبرۖ کی تمام زندگی کو شامل ہے اور یقینا تثبیت الہیٰ سے مراد پیغمبر ۖ کا مجبور ہو نا اور سلبَ ارادہ نہیں ہے ،بلکہ اس تثبیت الہیٰ کے ہو تے ہو ئے پیغمبر ۖ مختار تھے ۔

اوریہ بھی واضح ہے کہ انبیا ء کا معصوم ہو نا صر ف تبلیغ دین کے میدان تک محدود نہیں ہے بلکہ اپنی انفرادی ونجی زندگی میں بھی وہ معصوم تھے ،کیونکہ اگر انبیا ء اپنی عام زندگی میں اشتباہ و خطا کے مرتکب ہوتے تو لوگ ان کی تبلیغ و تعلیم پر بھی اعتماد نہ کر تے ۔

لہذا خدا وند متعال کے لیے لا زم تھا کہ انبیا ء کو معصوم بناتا تاکہ بعثت انبیاء کے مقاصد میں کو ئی رکاوٹ نہ ہو ۔١٧

پس ان عقلی اور قرآنی ادلہ کی روشنی میں واضح ہو گیا ہے کہ انبیا کا معصوم ہو نا ضروری ہے اور عصمت بھی بچین سے نہ کہ بلوغ سے یا زمانہ بعثت سے ،اگرچہ موضوع ابھی تشنہ ہے اور کئی پہلوئوں سے جیسے آئمہ کی عصمت کا ضروری ہو نا پھر اگر عصمت خدا کی طرف سے دی ہوئی ایک انعام ہے تو پھر اسمیں معصوم کی اپنی کیا فضلیت اور کیا کمال ہے ؟او ر بہت سارے اعتراضات جو عصمت پر کیے گئے ہیں،من جملہ اگر انبیاء آئمہ ومعصوم ہیں تو پھر ان کی طرف گناہوں کی نسبت کیوں دی گئی ہے یہ تمام ابحاث ابھی باقی ہیں لہذا ان ابحاث پر آئندہ شماروں میں بحث کریں گے ۔

حوالہ جات
١۔ فرھنگ جامع دکتر علی رضا ۔مادۂ عصم

٢۔ تفسیر المیزان ،ج١٦،علامہ طباطبائی

٣۔ عقائد اسلامی ،ص٢٥٢،محمود واعظی

٤۔ بررسی مسائل کلی امامت،ص١٧١،ابراہیم امینی

٥۔ کشف المراد

٦۔ سورۂ جمعہ ،٢

٧۔ میزان الحکمة

٨۔ تفسیر نور الثقلین ،ج٢،ص٣٦٧

٩۔ تاریخ طبری ،ج٥،ص٢٢٧١

١٠۔ سورہ ص،٨٢،٨٣

١١۔ سورہ ص،٤٥،٤٦

١٢۔ سورۂ مریم ،٥

١٣۔ یوسف،٢٤

١٤۔ نساء ،٦٤

١٥۔ بقرۂ ،١٢٤

١٦۔ بنی اسرائیل ،٧٥،٧٤

١٧۔ منشورِجاوید ،ج٦،جعفرسبحانی ص١٣١

مجلہ نور معرفت
 
محمود احمدغزنوی ! آپ نے جس خوبصورت اور عارفانہ نکتہ نظرسے مسئلہ کا حل پیش کیا ہے وہ قابل تحسین ہے۔

لیکن اب یہ موضوع چل نکلا ہے تو چاہیئے کے اس سلسلہ میں کی جانے والی علمی ابحاث کو یہاں جمع کیا جائے تاکہ ہمارے دوست کو اس سلسلہ میں تشفی ہو
میں یہاں شیعہ نکتہ نظر سے لکھا گیا ایک آرٹیکل پیش کرنا چاہوں گا۔ کیونکہ اس کا مطالعہ بھی خالی از منفعت نہیں ہے


شکریہ بہت بہت
دراصل میرے دوست کی مشکل شیعہ عقائد کی وجہ سےہی شروع ہوئی۔ شیعہ عقیدہ کو بحث میں شامل کرنا صرف مشکل میں اضافہ بنے گا۔ شیعہ نہ صرف انبیا بلکہ امام کو بھی معصوم مانتے ہیں۔

اگر ہم بات صرف سنی عقیدہ تک محدود رکھیں تو بہت مناسب ہوگا۔ سنی عقیدہ سے مراد ائمہ اربعہ کے عقائد ہیں۔
 
اسی موضوع پر اہل سنت کے موقف کو ظاہر کرتی ایک وڈیو یہاں دیکھیے

یہ تو اہل سنت کے بجائے سلفی نقطہ نظر زیادہ ہے
یہ کہتےہیں انبیا غلطیوں سے پاک ہیں مگر بات وہی کرتے ہیں کہ وحی کی معاملے میں کوئی غلطی نہیں کرتے۔
کوئی ریفرنس بھی پیش نہیں کرتے۔ مجموعی طور پر مقصد یہ ہے کہ ائمہ اربعہ کی پیروی کرنے کے بجائے حضور ص کی پیروی کرو۔ مگر یہ نہیں بتاتے کہ ائمہ ہی تو حضور ص کی پیروی کرتے ہیں۔
بہرحال یہ ابن تیمہ کے نقطہ نظر کی تائید ہی کرتا ہے کہ انبیا وحی کے وصولی اور تشہیر میں غلطی سے پاک ہیں۔
یعنی یہ موقف
http://www.kalamullah.com/Books/ibn_taymiyyah_expounds_on_islam.pdf

اسی پر تمام ائمہ بھی متفق ہیں۔

محترم شاکرالقادری صاحب کیا یہی بات درست ہے؟
 
انبیاء علیہم السلام سے فتویٰ و اجتہاد میں چوک ممکن ہے البتہ اس کی اصلاح ضرورکی دی جاتی ہے۔

جی ہاں، انبیاء علیھم السلام سے اگر کوئی چوک ہوجائے تو اللہ رب العزت کی طرف سے فورآ اصلاح کردی جاتی ہے کیونکہ وہ اللہ رب العزت کی حفاظت میں ہوتے ہیں اور انھیں علیھم السلام کو غلطی پر قائم نہیں رہنے دیا جاتا۔۔ (جیسا کہ شہد کا واقعہ ، سورۃ عبس کا شان نزول وغیرہ)

شیخ ابن باز اور علامہ ابن تیمیہ رحمھما اللہ کی بات مزید وضاحت کی محتاج ہے جس پر ان شاءاللہ تحقیق کریں گے۔۔
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top