ام الکتاب ۔ تفسیر سورۃفاتحہ (مولانا ابولکلام آزاد)

نبیل

تکنیکی معاون
انتساب

انتساب

غالباً دسمبر ١٩١٨ کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا، عشاء کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آ رہا ہے، مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کل اوڑھے کھڑا تھا۔
آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟
ہاں جناب! میں بہت دور سے آیا ہوں۔
کہاں سے؟
سرحد پار سے۔۔
یہاں کب پہنچے؟
آج شام کو پہنچا میں بہت غریب آدمی ہوں، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا، وہاں چند ہم وطن سوداگر مل گئے تھے، انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔ آگرے سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں۔
افسوس تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟
اس لیے کہ آپ سے قرآن کے بعض مقامات سمجھ لوں۔ میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک لفظ پڑھا ہے۔ یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا اور پھر یکایک واپس چلا گیا۔ وہ چلتے وقت اس لیے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھاکہ میں اسے واپسی کے مصارف کے لیے روپیہ دوں گا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔ اس نے واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔
مجھے اس کا نام یاد نہیں، مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں، لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہوتی تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔

١٢ ستمبر سنہ ١٩٣١ء کلکتہ
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورہ فاتحہ

سورہ فاتحہ

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿1﴾ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴿2﴾ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ﴿3﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿4﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿5﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿6﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلا الضَّالِّينَ ﴿7﴾


ہر طرح کی ستائشیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو تمام کائنات خلقت کا پروردگار ہے۔ جو رحمت والا ہے اور جس کی رحمت تمام مخلوقات کو اپنی بخششوں سے مالامال کر رہی ہے۔ جو اس دن کا مالک ہے جس دن کاموں کا بدلا لوگوں کے حصے میں آئے گا۔ (خدایا!) ہم صرف تیری ہی بندگی کرتے ہیں اور صرف تو ہی ہے جس سے (اپنی احتیاجوں میں) مدد مانگتے ہیں۔ (خدایا!) ہم پر (سعادت کی) سیدھی راہ کھول دے۔ وہ راہ جو ان لوگوں کی ہوئی جن پر تو نے انعام کیا۔ ان کی نہیں جو پھٹکارے گئے اور نہ ان کی جو بھٹک گئے۔​


صحیح پڑھنے کے لیے فونٹ انسٹال کریں۔
(ترجمہ۔۔)‌
 

نبیل

تکنیکی معاون
تفسیر سورہ فاتحہ

سورت کی اہمیت اور خصوصیات

یہ قراٰں کی سب سے پہلی سورت ہے، اس لیے فاتحتہ الکتاب کے نام سے پکاری جاتی ہے۔ جو بات زیادہ اہم ہوتی ہے قدرتی طور پر پہلی اور نمایاں جگہ پاتی ہے۔ یہ سورت قراٰن کی تمام سورتوں میں خاص اہمیت رکھتی تھی، اس لیے قدرتی طور پر اس کی موزوں جگہ قراٰن کے پہلے صفحے پر ہی قرار پائی۔ چنانچہ قراٰن نے خود اس کا ذکر ایسے لفظوں میں کیا ہےجس سے اس کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے۔

ولقد اٰتینک سبعا من المثانی والقراٰن العظیم (١٥؛٨٧)
اے پیغمبر یہ واقعہ ہے کہ ہم نے تمہیں سات دہرائی جانے والی چیزیں عطا فرمائیں اور قراٰن عظیم

احادیث اور آثار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس آیت میں “سات دہرائی جانے والی چیزوں“ سے مقصود یہی سورت ہے کیونکہ یہ سات آیتوں کا مجموعہ ہے اور ہمیشہ نماز میں دہرائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کو السبع المثانی بھی کہتے ہیں (٦)۔

احادیث و آثار میں اس کے دوسرے نام بھی آئے ہیں، جن سے اس کی خصوصیات کا پتہ چلتا ہے، مثلاً ام القراٰن، الکافیہ، الکنز، اساس القراٰن (٧)۔
عربی میں “ام“ کا اطلاق ایسی چیزوں پر ہوتا ہے جو ایک طرح کی جامعیت رکھتی ہوں یا بہت سی چیزوں میں مقدم اور نمایاں ہوں۔۔ یا پھر کوئی ایسی اوپر کی چیز ہو جس کے نیچے اس کے بہت سے توابع ہوں۔ چنانچہ سر کے درمیانی حصے کو ام الراس کہتے ہیں، کیونکہ وہ دماغ کا مرکز ہے۔ فوج کے جھنڈے کو ام کہتے ہیں، کیونکہ تمام فوج اس کے نیچے جمع ہوتی ہے۔ مکہ کو ام القرٰی کہتے ہیں، کیونکہ خانہ کعبہ اور حج کی وجہ سے عرب کی تمام آبادیوں کے جمع ہونے کی جگہ تھی۔ پس اس سورت کو ام القراٰن کہنے کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ایک ایسی سورت ہے جس میں مطالب قرآنی کی جامعیت اور مرکزیت ہے۔۔ یا جو قرآن کی تمام سورتوں میں اپنی نمایاں اور مقدم جگہ رکھتی ہے۔
اساس القرآن کے معنی ہیں قرآن کی بنیاد۔۔ الکافیہ کے معنی ہیں ایسی چیز جو کفایت کرنے والی ہو۔۔ الکنز خزانے کو کہتے ہیں۔

علاوہ بریں ایک سے زیادہ حدیثیں موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورت کے یہ اوصاف عہد نبوت میں عام طور پر مشہور تھے۔ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابی بنم کعب کو یہ سورت تلقین کی اور فرمایا “اس کے مثل کوئی سورت نہیں“ ایک دوسری روایت (٨) میں اسے “سب سے بڑی سورت“ اور “سب سے بہتر سورت“ بھی فرمایا ہے۔

سورہ فاتحہ میں دین حق کے تمام مقاصد کا خلاصہ موجود ہے

چنانچہ اس سورت کے مطالب پر نظر ڈالتے ہی یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس میں اور قرآن کے بقیہ حصے میں اجمال اور تفصیل کا سا تعلق پیدا ہو گیا ہے۔ یعنی قرآن کی تمام سورتوں میں دین حق کے جو مقاصد بہ تفصیل بیان کیے گئے ہیں، سورہ فاتحہ میں انہی کا بہ شکل اجمال موجود ہے۔ اگر ایک شخص قرآن میں سے اور کچھ نہ پڑھ سکے، صرف اس سورت کے مطالب ذہن نشین کرلے، جب بھی وہ دین حق اور خدا پرستی کے بنیادی مقاصد معلوم کرلے گا اور یہی قرآن کی تمام تفصیلات کا ماحصل ہے۔

علاوہ بریں جب اس پہلو پر غور کیا جائے کہ سورت کا پیرائیہ دعائیہ ہے اور اسے روزانہ عبادت کا ایک لازمی جزء قرار دیا گیا ہے تو اس کی یہ خصوصیت اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے اور واضح ہوجاتا ہے کہ اس اجمال و تفصیل میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ تھی۔ مقصود یہ تھا کہ قرآن کے قرآن کے مفصل بیانات کا ایک مختصر اور سیدھا سادھا خلاصہ بھی ہو جسے ہر انسان بہ آسانی ذہن نشین کرلے اور پھر اپنی دعاؤں اور عبادتوں میں دہراتا رہے۔ یہ اس کی دینی زندگی کا دستور العمل، خدا پرستی کے عقائد کا خلاصہ اور روحانی تصورات کا نسب العین ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس سورت کا ذکر کرتے ہوئے “سبعا من المثانی“ کہہ کر اس کی خصوصیت کی طرف اشارہ کر دیا، یعنی ہمیشہ دہرائے جانے اور ورد رکھنے ہی میں اس کے نزول کی حکمت پوشیدہ ہے۔ کوئی شخص کتنا ہی نادان اور ان پڑھ، لیکن ان چار سطروں کا یاد کر لینا اور ان کا سیدھا سادہ مطلب لینا اس کے لیے دشوار نہیں ہو سکتا۔ اگر ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں کچھ نہ پڑھ سکا، جب بھی اس نے دین حق کا بنیادی سبق حاصل کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کے لیے اس سورت کا سیکھنا اور پڑھنا ناگزیر ہوا اور نماز کی دعا اس کے سوا کوئی نہ ہو سکی کہ “لا صلات الا بفاتحتہ الکتاب“ (صحیحین) (٩)۔ اور اسی لیے صحابہ کرام اسے “سورت الصلات“ کے نام سے پکارتے تھے، یعنی وہ سورت جس کے بغیر نماز نہیں پڑھی جا سکتی۔ ایک انسان اس سے زیادہ قرآن میں سے جس قدر پڑھے اور سیکھے مزید معرفت و بصیرت کا ذریعہ ہوگا، لیکن اس سے کم کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔

دین حق کا ماحصل

دین حق کا تمام تر ماحصل کیا ہے؟ جس قدر غور کیا جائے، ان چار باتوں سے باہر کوئی بات نہ دکھائی دے گی۔
(١) خدا کی صفات کا ٹھیک ٹھیک تصور۔ اس لیے کہ انسان کو خدا پرستی کی راہ میں جس قدر ٹھکریں لگی ہیں، صفات ہی کے تصور میں لگی ہیں
(٢) قانون مجاوزات کا اعتقاد۔ یعنی جس طرح دنیا میں ہر چیز کا ایک خاصہ اور قدرتی تاثیر ہے، اسی طرح انسانی اعمال کے بھی معنوی خواص اور نتائج ہیں۔ نیک عمل کا نتیجہ اچھائی ہے، برے کا برائی۔
(٣) معاد کا یقین۔ یعنی کہ انسان کی زندگی اسی دنیا میں ختم نہیں ہو جاتی، اس کے بعد بھی زندگی ہے اور جزاء کا معاملہ پیش آنے والا ہے۔
(٤) فلاح و سعادت کی راہ اور اس کی پہچان
 

نبیل

تکنیکی معاون
سورہ فاتحہ کا اسلوب بیان (١١)

اب غور کرو ان باتوں کا خلاصہ اس سورت میں کس خوبصورتی کے ساتھ جمع کر دیا گیا ہے! ایک طرف زیادہ سے زیادہ مختصر حتی کہ گنے ہوئے الفاظ ہیں۔ دوسری طرف ایسے جچے تلے الفاظ کہ ان کے معانی سے پوری وضاحت اور دل نشینی پیدا ہوگئی ہے۔ ساتھ ہی نہایت سیدھا سادا بیان ہے، کسی طرح کا پیچ و خم نہیں، کسی طرح کا الجھاؤ نہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ دنیا میں جو چیز جتنی زیادہ حقیقت سے قریب ہوتی ہے، اتنی ہی زیادہ سہل اور دل نشین بھی ہوتی ہے۔ خود فطرت کا یہ حال ہے کہ کسی گوشے میں بھی الجھی ہوئی نہیں ہے۔ الجھاؤ جس قدر بھی پیدا ہوتا ہے بناوٹ اور تکلف سے پیدا ہوتا ہے۔ پس جو بات سچی اور حقیقی ہوگی ضروری ہے کہ سیدھی سادی اور دل نشین بھی ہو۔ دل نشینی کی انتہا یہ ہے کہ جب کبھی کوئی ایسی بات تمہارے سامنے آ جائے تو ذہن کو کسی طرح کی اجنبیت محسوس نہ ہو، وہ اس طرح قبول کر لے گویا پیشتر سے سمجھی بوجھی ہوئی بات تھی۔ اردو کے ایک شاعر نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

اب غور کرو! اب جہاں تک انسان کی خدا پرستی اور خدا پرستی کے تصورات کا تعلق ہے اس سے زیادہ سیدھی سادی باتیں اور کیا ہو سکتی ہیں جو اس سورت میں بیان کی گئی ہیں، اور پھر اس سے زیادہ سہل اور دل نشین اسلوب بیان کیا ہو سکتا ہے؟ سات چھوٹے چھوٹے بول ہیں، ہر بول چار پانچ لفظوں سے زیادہ کا نہیں، اور ہر لفظ صاف اور دل نشین معانی کا نگینہ ہے جو اس انگوٹھی میں جڑ دیا گیا ہے۔ اللہ کو مخاطب کرکے ان صفتوں سے پکارا گیا ہے جن کا جلوہ شب و روز انسان کے مشاہدے میں آتا رہتا ہے، اگرچہ اپنی جہالت اور غفلت سے ان میں غوروتفکر نہیں کرتا۔ پھر اس کی بندگی کا اقرار ہے، اس کی مددگاریوں کا اعتراف ہے اور زندگی کی لغزشوں سے بچ کر سیدھی راہ لگ چلنے کی طلب گاری ہے۔ کوئی مشکل خیال نہیں، کوئی انوکھی بات نہیں، کوئی عجیب و غریب راز نہیں۔ اب کہ ہم باربار سورت پڑھتے رہتے ہیں اور صدیوں سے اس کے مطالب نوع انسانی کے سامنے ہیں، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ہمارے دینی تصورات کی ایک بہت ہی معمولی سی بات ہے، لیکن یہی معمولی بات جس وقت تک دنیا کے سامنے نہیں آئی تھی، اس سے زیادہ کوئی غیر معلوم اور ناقابل حل بات بھی نہ تھی۔ دنیا میں حقیقت اور سچائی کی ہر بات کایہی حال ہے۔ جب تک سامنے نہیں آتی، معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ مشکل بات کوئی نہیں۔ اور جب سامنے آ جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس سے زیادہ صاف اور سہل بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ عرفی نے یہی حقیقت ایک دوسرے پیرایے میں بیان کی ہے۔

ہرکس نہ شناسندہ رازست وگرنہ
این ہمہ راز است کہ معلوم عوام ست!

(١٢) دنیا میں جب کبھی وحی الہی کی ہدایت نموار ہوئی ہے، اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ انسان کو نئی نئی باتیں سکھا دی ہوں، کیونکہ خدا پرستی کے بارے میں کوئی انوکھی بات سکھائی ہی نہیں جا سکتی۔ اس کا کام صرف یہ رہا ہے کہ انسان کے وجدانی عقائد کو علم و اعتراف کی ٹھیک ٹھیک تعبیر بتا دے اور یہی سورہ فاتحہ کی خصوصیت ہے۔ اس سورت نے نوع انسانی کے وجدانی تصورات ایک ایسی تعبیر سے سنوار دیے کہ ہر عقیدہ، ہر فکر، ہر جذبہ، اپنی شکل و نوعیت میں نمودار ہو گیا اور چونکہ یہ تعبیر حقیقت حال کی سچی تعبیر ہے، اس لئے جب کبھی ایک انسان راست بازی کے ساتھ اس پر غور کرے گا، بے اختیار پکار اٹھے گا کہ اس کا ہر بول اور ہر لفظ اس کے دل و دماغ کی قدرتی آواز ہے!

دین حق کی مہمات

پھر دیکھو! اگرچہ اپنی نوعیت میں وہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ ایک خدا پرست انسان کی سیدھی سادی دعا ہے، لیکن کس طرح اس کے ہر لفظ اور ہر اسلوب سے دین حق کا کوئی نہ کوئی اہم مقصد واضح ہو گیا ہے اور کس طرح اس کے الفاظ نہایت اہم معانی و دقائق کی نگرانی کر رہے ہیں۔

١۔خدا کے تصور کے بارے میں انسان کی ایک بڑی غلطی یہ رہی ہے کہ اس تصور کو محبت کی جگہ خوف و دہشت کی چیز بنا لیتا تھا۔ سورہ فاتحہ کے سب سے پہلے لفظ نے اس گمراہی کا ازالہ کر دیا۔

اس کی ابتدا “حمد“ کے اعتراف سے ہوتی ہے۔ “حمد“ ثناء جمیل کو کہتے ہیں، یعنی اچھی صفتوں کی تعریف کرنے کو۔ ثناء جمیل اسی کی کی جا سکتی ہے جس میں خوبی و جمال ہو۔ پس “حمد“ کے ساتھ خوف و دہشت کا تصور جمع نہیں ہو سکتا۔ جو ذات محمود ہوگی وہ خوفناک نہیں ہو سکتی۔

پھر “حمد“ کے بعد خدا کی عالم گیر ربوبیت ، رحمت اور عدالت کاذکر کیا ہے اور اس طرح صفات الٰہی کی ایک ایسی مکمل شبیہ کھینچ دی ہے جو انسان کو وہ سب کچھ دے دیتی ہے جس کی انسانیت کے نشوو ارتقاء کے لئے ضرورت ہے اور ان تمام گمراہیوں سے محفوظ کر دیتی ہے جو اس راہ میں اسے پیش آ سکتی ہیں (١٣)۔

٢۔ رب العلمین میں خدا کی عالمگیر ربوبیت کااعتراف ہے جو ہر فرد، ہر جماعت، ہر قوم، ہر ملک، ہر گوشہ و وجو د کے لئے ہے۔ اور اس لیے یہ اعتراف ان تمام تنگ نظریوں کا ختمہ کر دیتا ہے جو دنیا کی مختلف قوموں اور نسلوں میں پیدا ہو گئی تھیں اور ہر قوم اپنی جگہ سمجھنے لگ گئی تھی کہ خدا کی برکتیں اور سعادتیں صرف اسی کے لیے ہیں، کسی دوسری قوم کا ان میں حصہ نہیں۔

٣۔ ملک یوم الدین میں الدین کا لفظ اجزاء کے قانون کا اعتراف ہے اور جزا کو دین کے لفظ سے تعبیر کرکے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ جزاء انسانی اعمال کے قدرتی نتائج و خواص ہیں۔ یہ بات نہیں ہے کہ خدا کا غضب و انتقام بندوں کو عذاب دینا چاہتاہو، کیونکہ الدین کے معنی بدلے اور مکافات کے ہیں۔

٤۔ ربوبیت اور رحمت کے بعد ملک یوم الدین کے وصف نے یہ بھی حقیقت آشکارا کر دی کہ اگر کائنات میں صفات رحمت و جمال کے ساتھ قہر و جلال بھی اپنی نمود رکھتی ہیں تو یہ اس لیے نہیں کہ پروردگار عالم میں غضب و انتقام ہے، بلکہ اس لیے ہے کہ وہ عادل ہے اور اس کی حکمت نے ہر چیز کے لیے اس کا ایک خاصہ اور نتیجہ مقرر کر دیا ہے۔ عدل منافی رحمت نہیں ہے بلکہ عین رحمت ہے۔

٥۔ “عبادت“ کے لیے نہیں کہا کہ “نعبدک“ بلکہ کہا “ایاک نعبد“ یعنی یہ نہیں کہا تھا کہ “تیری عبادت کرتے ہیں“ بلکہ حصر کے ساتھ کہا “صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں“ اور پھر اس کے ساتھ “ایاک نستعین“ کہہ کر “استعانت“ کا بھی اسی حصر کے ساتھ ذکر کر دیا۔ اس اسلوب بیان نے توحید کے تمام مقاصد پورے کر دیے اور شرک کی ساری راہیں بند ہو گئیں۔

٦۔ سعادت و فلاح کی راہ کو “الصراط المستقیم“ یعنی سیدھی راہ سے تعبیر کیا جس سے زیادہ بہتر اور قدرتی تعبیر نہیں ہو سکتی، کیونکہ کوئی نہیں جو سیدھی راہ اور ٹیڑھی راہ میں امتیاز نہ رکھتا ہو اور پہلی راہ کا خواہش مند نہ ہو۔

٧۔ پھر اس کے لیے ایک سیدھی سادی اور جانی بوجھی ہوئی شناخت بنا دی جس کا اذعان قدرتی طور پر ہر انسان کے اندر موجود ہے اور جو محض ایک ذہنی تعریف ہونےکی جگہ ایک موجود و مشہود حقیقت نمایاں کر دیتی ہے، یعنی وہ راہ جو انعام یافتہ انسانوں کی راہ ہے۔ کوئی ملک، کوئی قوم، کوئی زامنہ، کوئی فرد ہو، لیکن انسان ہمیشہ دیکھتا ہے کہ زندگی کی دو راہیں یہاں صاف موجود ہیں۔ ایک راہ کامیاب انسانوں کی راہ ہے، ایک ناکام انسانوں کی۔ پس ایک واضح اور آشکارا بات کے لیے سب سے بہتر علامت یہی ہو سکتی تھی کہ اس کی طرف انگلی اٹھا دی جائے۔ اس سے زیادہ کچھ کہنا ایک معلوم بات کو مجہول بنا دینا تھا۔

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس سورت کے لیے دعا کا پیرایہ اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ اگر تعلیم و امر کا پیرایہ اختیار کیا جاتا تو اس کی نوعیت کی ساری تاثیر جاتی رہتی۔ دعائیہ اسلوب ہمیں بتاتا ہے کہ ہر راست باز انسان کی جو خدا پرستی کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے، صدا حال کیا ہوتی ہے اور کیا ہونی چاہیے؟ یہ گویا خداپرستی کے فکر و وجدان کا سرجوش ہے جو ایک طالب صادق کی زبان پر بے اختیار ابل پڑتا ہے۔



(٢)

الحمدللہ
حمد

عربی میں “حمد“ کے معنی ثنا جمیل کے ہیں، یعنی اچھی صفتیں بیان کرنے کے۔ اگر کسی کی بری صفتیں بیان کی جائیں تو یہ “حمد“ نہ ہو گی۔ حمد پر الف لام ہے۔ یہ استغراق کے لیے بھی ہو سکتا ہے، جنس کے لیے بھی۔ پس “الحمد للہ“ کے معنی یہ ہوئے کہ حمد و ثناء میں سے جو کچھ اور جیسا کچھ بھی کہا جا سکتا ہے وہ سب کچھ اللہ کے لیے ہے، کیونکہ خوبیوں اور کمالوں میں سے جو کچھ بھی ہے سب اسی سے ہے اور اسی میں ہے۔ اور اگر حسن موجود ہے تو نگاہ عشق کیوں نہ ہو، اور اگر محمودیت جلوہ افروز ہے تو زبان حمد و ستایش کیوں خاموش رہے؟

آئینہ ما روی ترا عکس پذیر است
گر تو نہ نمائی گنہ از جانب ما نیست

“حمد“ سے سورت کی ابتدا کیوں کی گئی؟ اس لیے کہ معرفت الہی کی راہ میں انسان کا پہلا تاثر یہی ہے، یعنی جب کبھی ایک صادق انسان اس راہ میں قدم اٹھائے گا تو سب سے پہلی حالت جو اس کے فکر و وجدان پر طاری ہو گی وہ قدرتی طور پر وہی ہو گی جسے یہاں تحمید و ستائش سے تعبیر کیا گیا ہے۔
انسان کے لیے معرفت حق کی راہ کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ کائنات خلقت میں تفکر و تدبر کرے۔ مصنوعات کا مطالعہ اسے صانع تک پہنچا دے گا۔
الذین یذکرون اللہ قیاما و قعودا و علی جنوبہم و یتفکرون فی خلق السمٰوٰت (٣؛١٩١)
 

نبیل

تکنیکی معاون
اب فرض کرو ایک طالب صادق اس راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور کائنات خلقت کے مظاہرو آثار کا مطالعہ کرتا ہے تو سب سے پہلا اثر جو اسکے دل و دماغ پر طاری ہوگا وہ کیا ہوگا؟ وہ دیکھے گا کہ خود اس کا وجود اور اس کے وجود سے باہر کی ہر چیز ایک صانع حکیم اور مدبر قدیر کی کار فرمائیوں کی جلوہ گاہ ہے۔ پس قدرتی طور پر اس کی روح جوش ستائش اور محویت جمال سے معمور ہو جائے گی۔ وہ بے اختیار پکار اٹھے گا کہ الحمدللہ رب العالمین ساری حمد و ستائش اسی کے لئے ہے جو اپنی کار فرمائی کے ہر گوشے میں سرچشمہ رحمت و فیضان اور معنی حسن و کمال ہے !

اس راہ میں فکر انسانی کی سب سے بڑی گمراہی یہ رہی ہے کہ اس کی نظریں مصنوعات کے جلووں میں محو ہو کر رہ جاتیں، آگے بڑھنے کی جستجو نہ کرتیں، وہ پردوں کے نقش و نگار کو دیکھ کر بے خود ہو جاتا مگر اس کی جستجو نہ کرتا جس نے اپنے جمال صنعت پر یہ دل آویز پردے ڈال رکھے ہیں۔ دنیا میں مظاہر فطرت کی پرستش کی بنیاد اسی کوتاہ نظری سے پڑی۔ پس الحمدللہ کا اعتراف اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ کائنات ہستی کا تمام فیضان و جمال خواہ کسی گوشے اور کسی شکل میں ہو، صرف ایک صانع حقیقی کی صفتوں کا ظہور ہے۔ اس لیے حسن و جمال کی جتنی بھی شیفتگی ہو گی، خوبی و کمال کے لیے جتنی بھی مدحت طرازی ہو گی، بخشش و فیضان کا جتنا بھی اعتراف ہو گا مصنوع و مخلوق کے لیے نہیں ہو گا، صانع و خالق کے لیے ہو گا۔

عباراتنا شتی و حسنک واحد ۔ وکل الی فاک الجمال یشیر
____________________________________________________

اللہ

نزول قرآن سے پہلے عربی میں “اللہ“ کا لفظ خدا کے بطور اسم ذات کے مستعمل تھا، جیسا کہ شعراء جاہلیت کے کلام سے ظاہر ہے۔ یعنی خدا کی تمام صفتیں اس کی طرف منسوب کی جاتی تھیں۔ ی کسی خاص صفت کے لیے نہیں بولا جاتا تھا۔ قرآن نے بھی یہی لفظ بطور اسم ذات کے اختیار کیا ہے اور تمام صفتوں کو اس کی طرف نسبت دی۔

وللہ الاسماء الحسنٰی فادعوہ بھا (٧؛١٨٠)

اور اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں (یعنی صفتیں ہیں) پس چاہیے کہ اسے ان صفتوں کے ساتھ پکارا کرو!

قرآن نے یہ لفظ محض اس لیے اختیار کیا کہ لغت کی مطابقت کا مقتضی یہی تھا یا اس سے بھی زیادہ کوئی معنوی موزونیت اس میں پوشیدہ ہے؟

جب ہم اس لفظ کی معنوی دلالت پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس غرض کے لیے سب سے موزوں لفظ یہی تھا۔

نوع انسانی کے دینی تصورات کا ایک قدیم عہد جو تاریخ کی روشنی میں آیا ہے مظاہر فطرت کی پرستش کا عہد ہے۔ اس پرستش نے بتدریج اصنام پرستی کی صورت اختیار کی۔ اصنام پرستی کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مختلف زبانوں میں بہت سے الفاظ دیوتاؤں کے لیے پیدا ہو گئے اور جوں جوں پرستش کی نوعیت میں وسعت ہوتی گئی ، الفاظ کا تنوع بھی بڑھتا گیا، لیکن چونکہ یہ بات انسان کی فطرت کے خلاف تھی کہ ایک ایسی ہستی کے تصور سے خالی الذہن رہے جو سب سے اعلی اور سب کی پیدا کرنے والی ہستی ہے، اس لیے دیوتاؤں کی پرستش کے ساتھ ایک سب سے بڑی اور سب پر حکمران ہستی کا تصوربھی کم و بیش ہمیشہ موجود رہا۔ اس لیے جہاں بے شمار الفاظ دیوتاؤں اور ان کی معبودانہ صفتوں کے لیے پیدا ہو گئے، وہاں کوئی نہ کوئی لفظ ایسا بھی ضرور مستعمل رہا جس کے ذریعے اس ان دیکھی اور اعلی ترین ہستی کی طرف اشارہ کیا جاتا تھا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
چنانچہ سامی زبانوں کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب ہے جو معبودیت کے معنی میں مستعمل رہی ہے اور عبرانی، سریانی، آرامی، کلدانی، اجمیری، عربی وغیرہ تمام زبانوں میں اس کا یہ لغوی خاصہ پایا جاتا ہے۔ یہ الف، لام اور ھ کا مادہ ہے اور مخلتلف شکلوں میں مشتق ہوا ہے۔ کلدانی اور سریانی کا الاھیا عبرانی کا الوہ اور عربی کا الہ اسی سے ہے جو حرف تعریف کے اضافے کے بعد اللہ ہو گیا ہے اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے مخصوص کر دیا ہے۔

لیکن اگر اللہ الہ سے ہے تو الہ کے معنی کیا ہیں؟ علما لغت و اشقاق کے مختلف اقوال ہیں، مگر سب سے زیادہ قوی قول یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس کی اصل “آلہُ“ ہے۔ اور “الہ“ کے معنی تحیر اور درماندگی کے ہیں۔ بعض لوگوں نے اسے “ولہ“ سے ماخوذ بتایا ہے اور اس کے معنی بھی یہی ہیں۔ پس خالق کائنات کے لیے یہ لفظ اس کے لیے اسم قرار پایا کہ اس بارے میں انسان جو کچھ جانتا اور جان سکتا ہے وہ عقل کے تحیر اور ادراک کی درماندگی کے سوا اور کچھ نہیں۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی میں غور و خوض کرے گا، اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی، یہاں تک کہ وہ معلوم کر لے گا کہ اس کی راہ کی ابتداء بھی عجزو حیرت سے ہوتی ہے اور انتہا بھی عجز و حیرت ہی ہے۔

ای برون از وہم و قال و قیل من
خاک بر فرق من و تمثیل من!


اب غور کرو! خدا کی ذات کے لیے انسان کی زبان سے نکلے ہوئے لفظوں میں اس سے زیادہ موزوں لفظ اور کون سا ہو سکتا ہے؟ اگر خدا کو اس کی صفتوں سے پکارنا ہے تو بلا شبہ اس کی صفتیں بے شمار ہیں، لیکن اگر اس کی صفات سے الگ ہو کر اس کی ذات کی طرف اشارہ کرنا ہے تو وہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ ایک متحیر کر دینے والی ذات ہے اور جو کچھ اس کی نسبت کہا جا سکتا ہے وہ عجز و درماندگی کے اعتراف کے سوا کچھ نہیں ہے۔ فرض کرو نوع انسانی نے اس وقت خدا کی ہستی یا خلقت کائنات کی اصلیت کے بارے میں جو کچھ سوچا اور سمجھا ہے، وہ سب کچھ سامنے رکھ کر ہم ایک موزوں سے موزوں لفظ تجویز کرنا چاہیں تو وہ کیا ہو گا؟ اس سے زیادہ اور اس سے بہتر کوئی لفظ تجویز کیا جا سکتا ہے؟

یہی وجہ ہے کہ جب کبھی اس راہ میں عرفان و بصیرت کی بڑی سے بڑی بات کی گئی وہ یہی تھی کہ زیادہ سے زیادہ خود رفتگیوں کا اعتراف کیا گیا اور ادراک کا منتہی مرتبہ یہی قرار پایا کہ ادراک کی نارسائی کا ادراک حاصل ہو جائے۔ عرفاء کے دل و زبان کی صدا ہمیشہ یہی رہی۔ “رب زدنی فیک تحیرا“ (١٤) اور حکماء کی حکمت و دانش کا فیصلہ بھی یہی معلوم ہوا ہے کہ

“معلوم شد کہ ھیچ معلوم نہ شد“

چونکہ یہ اسم خدا کے لیے بطور اسم ذات کے استعمال میں آیا ہے۔ اس لیے قدرتی طور پر ان تمام صفتوں پر حاوی ہو گیا جن کا خدا کی ذات کے لیے تصور کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم خدا کا تصور اس کی کسی صفت کے ساتھ کریں، مثلاً “الرب“ یا “الرحیم“ کہیں تو یہ تصور صرف ایک خاص صفت ہی میں محدود ہو گا، یعنی ہمارے ذہن میں ایک ایسی ہستی کا تصور پیدا ہو جائے گاجس میں ربوبیت یا رحمت ہے۔ لیکن جب ہم “اللہ“ کا لفظ بولتے ہیں تو فوراً ہمارا ذہن ایک ایسی ہستی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو ان تمام صفات حسن و کمال سے متصف ہے جو اس کی نسبت بیان کیے گئے ہیں اور جو اس میں ہونے چاہییں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
(٣)
رب العلمین


ربوبیت​

حمد کے بعد بالترتیب چار صفتیں بیان کی گئی ہیں۔۔

“رب العلیمن“، “الرحمن“ ، “الرحیم“ ، “ملک یوم الدین“
چونکہ الرحمن اور الرحیم کا تعلق ایک ہی صفت کے دو مختلف پہلوؤں سے ہے، اس لئے دوسرے لفظوں میں انہیں یوں تعبیر کیا جا سکتا ہے کہ ربوبیت، رحمت، عدالت تین صفتوں کا ذکر کیا گیا ہے۔

“الہ“ کی طرح “رب“ بھی سامی زبانوں کا ایک کثیرالاستعمال مادہ ہے۔ عبرانی، سریانی اور عربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پالنے والے کے ہیں اور چونکہ پرورش کی ضرورت کا احساس انسانی زندگی کے بنیادی احساسات میں سے ہے، اس لیے اسے بھی قدیم ترین سامی تعبیرات میں سے سمجھنا چاہیے۔ پھر چونکہ معلم، استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں، اس لیے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا ہے۔ چنانچہ عبرانی اور آرامی کا “ربی“ اور “رباہ“ پرورش کنندہ، معلم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا اور قدیم مصری اور خالدی زبان کا ایک لفظ “رابو“ بھی ناہیں معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ان ملکوں ی قدیم ترین سامی وحدت کی خبر دیتا ہے (١٥)۔

بہرحال عربی میں “ربوبیت“ کے معنی پالنے کے ہیں، لیکن پالنے کو اس کے وسیع اور کامل معنوں میں لینا چاہیے۔ اسی لیے بعض ائمہ لغت نے اس کی تعریف ان لفظوں میں کی ہے۔

“ھو انشاء الشی ء حالا فحالا الی حد التمام“ (١٦)

یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشوونما دیتے رہنا کہ اپنی حد کمال تک پہنچ جائے

اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا محتاج کو روپیہ دے دے تو یہ اس کا کرم ہو گا، جود ہوگا، احسان ہو گا، لیکن وہ بات نہ ہوگی جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت کے لیے ضروری ہےکہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتا فوقتا جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں، ان سب کا سروسامان ہوتا رہے۔ نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبت و شفقت کے ساتھ ہو۔ کیونکہ جو عمل محبت و شفقت کے عاطفہ سے خالی ہوگا ربوبیت نہیں ہو سکتا۔

ربوبیت کا ایک ناقص نمونہ ہم اس پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔ بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو محض گوشت پوست کا ایک متحرک لوتھڑا ہوتا ہے اور زندگی اور نمو کی جتنی قوتیں بھی رکھتا ہے سب کی سب پرورش و تربیت کی محتاج ہوتی ہیں۔ یہ پرورش، محبت و شفقت، حفاظت و نگہداشت اور بخشش و اعانت کا ایک طویل سلسلہ ہے اور اسے اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک بچہ اپنے جسم و ذہن کی حد بلوغ تک نہ پہنچ جائے۔ پھر پرورش کی ضرورتیں ایک دو نہیں، بے شمار ہیں۔ ان کی نوعیت ہمیشہ بدلتی رہتی ہے اور ضروری ہے کہ ہر عمر اور ہر حالت کے مطابق محبت کا جوش، نگرانی کی نگاہ اور زندگی کا سر و سامان ملتنا رہے۔ حکمت الہ نے ماں کی محبت میں ربوبیت کے یہ تمام خدوخال پیدا کر دیے ہیں۔ یہ ماں کی ربوبیت ہے جو پیدائش کے دن سے لے کر بلوغ تک بچے کو پالتی، بچاتی، سنبھالتی اور ہر وقت اور ہر حالت کے مطابق اس کی ضروریات پرورش کا سروسامان مہیا کرتی رہتی ہے۔

جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہ تھا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا تھا۔ جب دودھ سے زیادہ قوی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پاؤں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے اٹھائے پھرتی تھی۔ جب کھڑے ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑ لی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔ پس یہ بات کہ ہر حالت اور ضرورت کے مطابق ضروریات مہیا ہوتی رہیں اور نگرانی اور حفاظت کا ایک مستقل اہتمام رہا، وہ صورتحال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جا سکتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
مجازی ربوبیت کی یہ ناقص اور محدود مثال سامنے لاؤ اور ربوبیت الہی کی غیر محدود حقیقت کا تصور کرو۔ اس کے “رب العالمین“ ہونے کے معنی یہ ہوئے کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائنات ہستی اور اس کی ہر چیز پیدا کی ہے، اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سر و سامان بھی کر دیا ہے اور یہ پرورش کا سر و سامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جو کچھ مطلوب تھا، وہ سب کچھ مل رہا ہے اور اس طرح مل رہا ہے کہ ہر حالت کی رعایت ہے، ہر ضرورت کا لحاظ ہے، ہر تبدیلی کی نگرانی ہے اور ہر کمی بیشی ضبط میں آ چکی ہے۔ چیونٹی اپنے بل میں رینگ رہی ہے، کیڑے مکوڑے کوڑے کرکٹ میں ملے ہوئے ہیں، مچھلیاں دریا میں تیر رہی ہیںً، پرند ہوا میں اڑ رہے ہیں، پھول باغ میں کھل رہے ہیں، ہاتھی جنگل میں دوڑ رہا ہے اور ستارے فضا میں گردش کر رہے ہیں۔ لیکن فطرت کے پاس سب کے لیے یکساں طور پر پرورش کی گود اور نگرانی کی آنکھ ہے اور کوئی نہیں جو فیضان ربوبیت سے محروم ہو۔ اگر مثالوں کی جستجو میں تھوڑی سی کاوش جائز رکھی جائے تو مخلوقات کی بے شمار قسمیں ایسی ملیں گی جو اتنی حقیر اور بے مقدار ہیں کہ غیر مسلح (١٧) سے ہم انہیں دیکھ بھی نہیں سکتے۔ تاہم ربوبیت الہی نے جس طرح اور جس نظام کے ساتھ ہاتھی جیسی جسیم اور انسان جیسی عقیل مخلوق کے لیے سامان پرورش مہیا کر دیا ہے، ٹھیک اسی طرح اور ویسے ہی نظام کے ساتھ ان کے لیے بھی زندگی اور بقا کی ہر چیز مہیا کی ہے۔ اور پھر یہ جو کچھ بھی ہے انسان کے وجود سے باہر ہے۔ اگرانسان اپنے وجود کو دیکھے تو خود اس کی زندی اور زندگی کا ہر لمحہ ربوبیت الہی کی کرشمہ سازیوں کی ایک پوری کائنات ہے۔

وفی الارض ایت للمتقین ۔وفی انفسکم افلا تبصرون (٥١؛٢٠-٢١)

ان لوگوں کے لیے جو (سچائی پر) یقین رکھنے والے ہیں، زمین میں (خدا کی کار فرمائیوں کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں۔ اور خود تمہارے وجود میں بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں؟

نظام ربوبیت​

لیکن سامان زندگی کی بخشایش میں اور ربوبیت کے عمل میں جو فرق ہے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر دنیا میں ایسے عناصر، عناصر کی ایسی ترکیب اور اشیاء کی ایسی بناوٹ موجود ہے جو زندگی کی نشو و نما کے لیے سود مند ہے تو محض اس کی موجودگی ربوبیت سے تعبیر نہیں کی جا سکتی۔ ایسا ہونا قدرت الہی کی رحمت ہے، بخشش ہے، احسان ہے، مگر وہ بات نہیں جسے ربوبیت کہتے ہیں۔ ربوبیت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں دنیا میں سود مند اشیاء کی موجودگی کے ساتھ ان کی بخشش و تقسیم کا بھی ایک نظام موجود ہے اورفطرت صرف بخشتی ہی نہیں، بلکہ جو کچھ بخشتی ہے ایک مقررہ انتظام اور ایک منضبط ترتیب و مناسبت کے ساتھ بخشتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر وجود کو زندگی اور بقا کے لیے جس جس چیز کی ضرورت تھی اس جس جس وقت اور جیسی جیسی مقدار میں ضرورت تھی، ٹھیک ٹھیک اسی طرح، انہی وقتوں میں اور اسی مقدار میں اسے مل رہی ہے اور اس نظم و انضباط سے تمام کارخانہ حیات چل رہا ہے۔

پانی کی بخشش و تقسیم کا نظام​

زندگی کے لیے پانی اور رطوبت کی ضرورت ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پانی کے وافر ذخیرے ہر طرف موجود ہیں لیکن صرف اتنا ہی ہوتا تو یہ زندگی کے لیے کافی نہ تھا۔ کیونکہ زندگی کے لیے صرف یہی ضروری نہیں کہ پانی موجود ہو بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک خاص انتظام، ایک خاص ترتیب اور ایک خاص مقررہ مقدار کے ساتھ موجود ہو۔ پس یہ جو دنیا میں پانی کے بننے اور تقسیم ہونے کا ایک خاص نظام پایا جاتا ہے اور فطرت صرف پانی بناتی ہی نہیں، بلکہ ایک خاص ترتیب و مناسبت کے ساتھ بناتی اور ایک خاص انداز کے ساتھ بانٹتی رہتی ہے۔ تو یہی ربوبیت ہے اور اسی سے ربوبیت کے تمام اعمال کا تصور کرنا چاہیے۔ قرآن کہتا ہے یہ اللہ کی رحمت ہے جس نے پانی جیسا جوہر حیات پیدا کر دیا، لیکن یہ اس کی ربوبیت ہے جو پانی کو ایک ایک بوند کر کے ٹپکاتی، زمین کے ایک ایک گوشے تک پہنچاتی، ایک خاص مقدار اور حالت میں تقسیم کرتی، ایک خاص موسم اور محل میں برساتی اور پھر زمین کے ایک ایک تشنہ ذرے کو ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر سیراب کر دیتی ہے۔

وانزلنا من السماء ماء بقدر فاسکنہ فی الارض۔ وانا علی ذھاب بہ لقدرون۔ فانشانا لکم بہ جنت من نخیل واعناب لکم فیھا فواکہ کثیرہ و منہا تاکلون۔ (٣٣؛١٨-١٩)

اور (دیکھو!) ہم نے آسمان سے ایک خاص اندازے کے ساتھ پانی برسایا، پھر اسے زمین میں ٹھہرائے رکھا اور ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ (جس طرح برسایا تھا اس طرح) اسے واپس لے جائیں۔ پھر (دیکھو!) اسی پانی سے ہم نے کھجوروں اور انگورورں کے باغ پیدا کر دیے جن میں بے شمار پھل لگتے ہیں اور انہیں سے تم اپنی غذا بھی حاصل کرتےہو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تقدیر اشیاء​

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے جابجا اشیاء کی قدر اور مقدار کا ذکر کیا ہے، یعنی اس حقیقت کی طرف اشارہ کیاہے کہ فطرت کائنات جو کچھ بخشتی ہے ایک خاص اندازے کے ساتھ بخشتی ہےاور یہ اندازہ ایک خاص قانون کے ماتحت ٹھہرایا ہوا ہے۔

وان من شی ء ال عندنا خزائنہ و ما ننزلہ الا بقد معلوم (١٥؛٢١)

اور کوئی شے نہیں جس کے ہمارے پاس ذخیرے موجود نہ ہوں (لیکن ہمارا طریق کار یہ ہے کہ) جو کچھ نازل کرتے ہیں، ایک مقررہ مقدار میں نازل کرتے ہیں

وکل شی ء عندہ بمقدار (١٣؛٨)
اور اللہ کے نزدیک ہر چیز کا ایک اندازہ مقرر ہے

انا کل شی ء خلقنہ بقدر (٥٤؛٤٩)
ہم نے جتنی چیزیں بھی پیدا کی ہیں ایک اندازے کے ساتھ پیدا کی ہیں۔

یہ کیا بات ہے کہ دنیا میں صرف یہی نہیں ہے کہ پانی موجود ہے، بلکہ ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ موجود ہے؟ یہ کیوں ہے کہ پہلے سورج کی شعاعیں سمندر میں ڈول بھر بھر کے فضا میں پانی کی چادریں بچھا دیں، پھر ہواؤں کے جھونکے انہیں حرکت میں لائیں اور پانی کی بوندیں بنا کر ایک خاص وقت اور خاص محل میں برسا دیں؟ پھر یہ کیوں ہے کہ جب کبھی پانی برسے توایک خاص ترتیب اور مقدار ہی سے برسے، اور اس طرح برسے کہ زمین کی بالائی سطح پر اس کی خاص مقدار بہنے لگے اور اندرونی حصوں تک ایک خاص مقدار میں نمی پہنچے؟ کیوں ایسا ہوا کہ پہلے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برف کے تودے جمتے ہیں، پھر موسم کی تبدیلی سے پگھلنے لگتے ہیں، پھر ان کے پگھلنے سے پانی کے سر چشمے ابلنے لگتے ہیں، پھر چشموں سے دریا کی جدولیں بہنے لگتی ہیں، پھر یہ جدولیں پیچ و خم کھاتی ہوئی دور دور تک دوڑ جاتی ہیں اور سینکڑوں ہزاروں میلوں تک اپنی وادیاں شاداب کر دیتی ہیں؟

کیوں یہ سب کچھ ایسا ہوا ہے؟ کیوں ایسا نہ ہوا کہ پانی موجود ہوتا مگر اس انتظام اور ترتیب کے ساتھ نہ ہوتا؟

قرآن کہتا ہے؛ اس لیے کہ کائنات ہستی میں ربوبیت الہی کارفرما ہےاور ربوبیت کا مقتضی یہی تھا کہ پانی اسی ترتیب سے بنے اور اسی ترتیب و مقدار سے تقسیم ہو۔ یہ رحمت و حکمت تھی جس نے پانی پیدا کیا؟ مگر یہ ربوبیت ہے جو اسے اس طرح کام میں لائی کہ پرورش اور رکھوالی کی تمام ضرورتیں پوری ہو گئیں۔

اللہ الذی یرسل الریح فتثر سحابا فیبسطہ فی السماء کیف یشاء و یجعلہ کسفا فتری الودق یخرج من خللہ فاذا اصاب بہ من عبادہ فاذا ھم یستبشرون (٣٠؛٤٨)

یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ پہلے ہوائیں چلتی ہیں، پھر ہوائیں بادلوں کو چھیڑ کر حرکت میں لاتی ہیں، پھر وہ جس طرح چاہتا ہے، انہیں فضا میں پھیلا دیتا ہے اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیتا ہے۔ پھر تم دیکھتے ہو کہ بادلوں میں سے مینہ نکل رہا ہے۔ پھر جن لوگوں کو بارش کی یہ نعمت ملنی تھی، مل چکتی ہے تو وہ اچانک خوش وقت ہو جاتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
عناصر حیات​

پھر اس حقیقت پر بھی غور کرو کہ زندگی کے لیے جن چیزوں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، انہیں کی بخشایش سب سے زیادہ اور عام ہے اور جن کی ضرورت خاص خاص حالتوں اور گوشوں کےلیے تھی، انہیں میں اختصاص اور مقامیت پائی جاتی ہے۔ ہوا سب سے زیادہ ضروری تھی، کیونکہ پانی اور غذا کے بغیر کچھ تک زندگی ممکن ہے، مگر ہوا کے بغیر ممکن نہیں۔ پس اس کا سامان اتنا وافر اور عام ہے کہ کوئی جگہ، کوئی گوشہ، کوئی وقت نہیں جو اس سے خالی ہو۔ فضا میں ہوا کا بے حد و کنار سمندر پھیلا ہوا ہے۔ جب کبھی اور جہاں کہیں سانس لو، زندگی کا یہ سب سے زیادہ ضروری جوہر تمہارے لیے خود بخود مہیا ہو جائے گا۔ ہوا کے بعد دوسرے درجے پر پانی ہے۔ و جلعنا من الماء کل شی ء خی (٢١؛٣٠) اس لیے اس کی بخشایش کی فراوانی و عمومیت ہوا سے کم مگر ہر چیز سے زیادہ ہے۔ زمین کے نیچے آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں۔ زمین کے اوپر بھی ہر طرف دریا رواں ہیں۔ پھر ان دونوں ذخیروں کے علاوہ فضائے آسمانی کا بھی کارخانہ ہے جو شب و روز سرگرم کار رہتا ہے۔ وہ سمندر کا شورابہ کھینچتا ہے، اسے صاف و شیریں بنا کر جمع کرتا رہتا ہے، پھر حسب ضرورت زمین کے حوالے کر دیتا ہے۔ پانی کے بعد غذا کی ضرورت تھی۔ غذا ہوا اور پانی سے کم، مگر اور تمام چیزوں سے زیادہ اس کا دسترخوان کرم بھی خشکی اور تری میں بچھا ہوا ہے۔ اورکوئی مخلوق نہیں جس کے گردوپیش اس کی غذا کا ذخیرہ موجود نہ ہو۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نظام پرورش​

پھر سامان پرورش کے اس عالم گیر نظام پر غور کرو جو اپنے ہر گوشہ عمل میں پروردگی کی گود اور بخشش حیات کا سر چشمہ ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے گویا یہ تمام کارخانہ صرف اسی لیے بنا ہے کہ زندگی بخشنے اور زندگی کی ہر استعداد کی رکھوالی کرے۔ سورج اس لیے ہے کہ روشنی کے لیے چراغ کا اور گرمی کے لیے تنور کا کام دے اور اپنی کرنوں کے ڈول بھر بھر کر سمند سے پانی کھنیچتا رہے۔ ہوائیں اس لیے ہیں کہ اپنی سردی اور گرمی سے مطلوبہ اثرات پیدا کرتی رہیں اور کبھی پانی کے ذرات جما کر ابر کی چادریں بچھا دیں، کبھی ابر کو پانی بناکر بارش بنا دیں۔ زمین اس لیے ہے کہ نشوونما کے خزانوں سے ہمیشہ معمور رہے اور ہر دانے کے لیے اپنی گود میں زندگی اور ہر پودے کے لیے اپنے سینے میں پروردگی رکھے۔ مختصر یہ کہ کارخانہ ہستی کا ہر گوشہ صرف اسی کام میں لگا ہوا ہے، ہر قوت استعداد ڈھونڈھ رہی ہے اور ہر تاثیر اثر پذیری کے انتظار میں ہے۔ جونہی کسی وجود میں بڑھنے اور نشوونما پانے کی استعداد پیدا ہوتی ہے، معاً تمام کارخانہ ہستی اس کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے۔ سورج کی تمام کارفرمائیاں، فضا کے تمام تغیرات، زمین کی تمام قوتیں، عناصر کی تمام سرگرمیاں صرف اسی انتظار میں رہتی ہیں کہ کب چیونٹی کے انڈے سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور کب دہقان کی جھولی سے زمین پر ایک دانہ گرتا ہے۔

و سخر لکم ما فی الارض جمیعا منہ۔ ان فی ذلک لایت لقوم یتفکرون (٤٥؛١٣)

اور آسمان و زمین میں جو کچھ بھی ہے سب کو اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے۔ بلاشبہ ان لوگوں کے لیے جو غوروفکر کرنے والے ہیں، اس بات میں (معرفت حقیقت کی) بڑی نشانیاں ہیں!
 

نبیل

تکنیکی معاون
نظام ربوبیت کی وحدت​

سب سے زیادہ عجیب مگر سب سے زیادہ نمایاں حقیقت ربوبیت کی یکسانیت اور ہم آہنگی ہے۔ یعنی ہر وجود کی پرورش کا سروسامان جس طرح اور جس اسلوب پر کیا گیا ہے، وہ ہر گوشے میں ایک ہی ہے اور ایک ہی اصل و قاعدہ رکھتا ہے۔ پتھر کا ایک ٹکڑا تمہیں گلاب کے شاداب اور عطر بیز پھول سے کتنا ہی مختلف دکھائی دے، لیکن دونوں کی پرورش کے اصوال و احوال پر نظر ڈالو تو صاف نظر آئے گا کہ دونوں کو ایک ہی طریقے سے سامان پرورش ملا ہے اور دونوں ایک ہی طرح سے پالے پوسے جا رہے ہیں۔ انسان کا بچہ اور درخت کا پودا تمہاری نظروں میں کتنی بے جوڑ چیزیں ہیں! لیکن اگر ان کی نشوونما کے طریقوں کا کھوج لگاؤ گے تو دیکھ لو گے کہ قانون پرورش کی یکسانیت نے دونوں کو ایک ہی رشتے میں منسلک کر دیا ہے۔ پتھر کی چٹان ہو یا پھول کی کلی، انسان کا بچہ ہو یا چیونٹی کا انڈا، سب کے لیے پیدائش ہے، اور قبل اس سے کہ پیدائش ظہور میں آئے سامان پرورش مہیا ہو جاتا ہے، پھر طفولیت کا دور ہے اور اس دور کی ضروریات ہیں۔ انسان کا بچہ بھی اپنی طفولیت رکھتا ہے، درخت کے مولود نباتی کے لیے بھی طفولیت ہے، اور تمہاری چشم ظاہر بیں کے لیے کتنا ہی عجیب کیوں نہ ہو، لیکن پتھر کی چٹان کا تودہ بھی اپنی اپنی طفولیت رکھتا ہے۔ پھر طفولیت رشد و بلوغ کی طرف بڑھتی ہے اور جوں جوں بڑھتی جاتی ہے، اس کی روز افزوں حالت کے مطابق یکے بعد دیگرے سامان پرورش میں بھی تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں، یہاں تک کہ ہر وجود اپنے سن کمال کو پہنچ جاتا ہے اور جب سن کمال تک پہنچ گیا تو از سر نو ضعف و انحطاط کا دور شروع ہو جاتا ہے۔ پھر اس ضعف و انحطاط کا خاتمہ بھی سب کے لیے ایک ہی طرح ہے۔ کسی دائرے میں اسے مر جانا کہتے ہیں، کسی میں مرجھا جانا اور کسی میں پامال ہو جانا۔ الفاظ متعدد ہو گئے لیکن حقیقت میں تعدد نہیں ہوا۔

اللہ الذی خلقکم من ضعف ثم جعل من بعد ضعف قوۃ ثم جعل من بعد قوۃ ضعفا و شیبہ۔ یخلق ما یساء و ہو العلیم القدیر (٣٠؛٥٤)

یہ اللہ ہی کی کارفرمائی ہے کہ اس نے تمہیں اس طرح پیدا کیا کہ پہلے ناتوانی کی حالت ہوتی ہے، پھر ناتوانی کے بعد قوت آتی ہے، پھر قوت کے بعد دوبارہ ناتوانی اور بڑھاپا ہوتا ہے۔ وہ جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ وہ علم اور قدرت رکھنے والا ہے۔

الم تر ان اللہ انزل من السماء ماء فسلکہ ینابیع فی الارض ثم یخرج بہ زرعا مختلفا الوانہ ثم یھیج فترہ مصفرا ثم یجعلہ حطاما۔ ان فی ذلک لذکری الاولی الباب (٣٩؛٢١)

کیا تم نہیں دیکھتے کہ اللہ نے آسمان سے پانی برسایا، پھر زمین میں اس کے چشمے رواں ہو گئے، پھر اسی پانی سے رنگ برنگ کی کھیتیاں لہلہا اٹھیں، پھر ان کی نشوونما میں ترقی ہوئی اور پوری طرح پک کر تیار ہو گئیں۔ پھر (ترقی کے بعد زوال طاری ہوا اور) تم دیکھتے ہو کہ ان پر زردی چھا گئی، پھر بالآخر خشک ہو کر چورا چورا ہو گئی بلاشبہ دانش مندوں کے لیے اس صورت میں بڑی ہی عبرت ہے!
 

نبیل

تکنیکی معاون
جہاں تک غذا کا تعلق ہے، حیوانات میں ایک قسم ان جانوروں کی ہے جن کے بچے دودھ سے پرورش پاتے ہیں اور ایک ان کی ہے جو عام غذا سے پرورش پاتے ہیں۔ غور کرو! نظام ربوبیت نے دونوں کی پرورش کے لیے کیسا عجیب سروسامان مہیا کر دیا ہے۔دودھ سے پرورش پانے والے حیوانات میں انسان بھی داخل ہے۔ سب سے پہلے انسان اپنی ہی ہستی کا مطالعہ کرے۔ جوں ہی وہ پیدا ہوتا ہے، اس کی غذا اپنی خاصیتوں، مناسبتوں اور شرطوں کے ساتھ کے ساتھ خود بخود مہیا ہو جاتی ہے، اور ایسی جگہ مہیا ہوتی ہے جو حالت طفولیت میں اس کے لیے سب سے قریب تر اور سب سے موزوں جگہ ہے۔ ماں بچے کو جوش محبت میں سینے سے لگا لیتی ہے اور وہیں اس کی غذا کا سر چشمہ بھی موجود ہوتا ہے۔ پھر دیکھو! اس غذا کی نوعیت اور مزاج میں اس کی حالت کا درجہ بدرجہ کس قدر لحاظ رکھا گیا ہے اور کس طرح یکے بعد دیگرے اس میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے! ابتدا میں بچے کا معدہ اتنا کمزور ہوتا ہے کہ اسے بہت ہی ہلکے قوام کا دودھ ملنا چاہیے۔ چنانچہ نہ صرف انسان میں بلکہ تمام حیوانات میں ماں کا دودھ بہت ہی پتلے قوام کا ہوتا ہے، لیکن جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے اور معدہ قوی ہوتا جاتا ہے، دودھ کا قوام بھی بدلتا جاتا ہے اور مائیت کے مقابلے میں دھنیت بڑھتی جاتی ہے۔، یہاں تک کہ بچے کا عہد رضاعت پورا ہو جاتا ہے اور اس کا معدہ عام غذاؤں کے ہضم کرنے کی استعداد پیدا کر لیتا ہے۔ جوں ہی اس کا وقت آتا ہے، ماں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے۔ گویا یہ ربوبیت الہی کا اشارہ ہوتا ہے کہ اب اس کے لیے دودھ کی ضرورت نہیں رہی، ہر طرح کی غذائیں استعمال کر سکتاہے۔

وحملہ و فصلہ ثلثون شھرا (٤٦؛١٥)
اور حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت (کم از کم) تیس مہیوں کی ہے۔

پھر ربوبیت الہی کی اسکارسازی پر غور کروکہ کس طرح ماں کی فطرت میں بچے کی محبت ودیعت کر دی گئی ہے اور کس طرح اس جذبے کو طبیعیت بشری کے تمام جذبات میں سب سے زیادہ پرجوش اور سب سے زیادہ ناقابل تسخیر بنا دیا گیا ہے! دنیا کی کونسی قوت ہے جو اس جوش کا مقابلہ کر سکی ہے جسے ماں کی مامتا کہتے ہیں۔ جس بچے کی پیدائش اس کے لیے زندگی کی سب سے بڑی مصیبت تھی۔

حملتہ امہ کرھا ووضعتہ کرھا (٤٦؛١٥)
اس کی ماں نے اسے تکلیف کے ساتھ پیٹ میں رکھا اور تکلیف کے ساتھ جنا۔

اس کی محبت اس کے اندر زندگی کا سب سے بڑا جذبہ مشتعل کر دیتی ہے۔ جب تک بچہ سن بلوغ کو نہیں پہنچ جاتا، وہ اپنے لیے نہیں بلکہ بچے کے لیے زندہ رہنا چاہتی ہے۔ زندگی کی کوئی خود فراموشی نہیں جو اس پر طاری نہ ہوتی ہو اور راحت و آسانی کی کوئی قربانی ایسی نہیں ہے جس سے اسے گریز ہو۔ حب ذات جو فطرت انسانی کا سب سے زیادہ طاقتور جذبہ اور جس کے انفعالات کے بغیر کوئی مخلوق زندہ نہیں رہ سکتی، وہ بھی اس جذبہ خود فراموشی کے مقابلے میں مضمحل ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ بات کہ ایک ماں نے بچے کے مجنونانہ عشق میں اپنی زندگی قربان کر دی ، فطرت مادری کا ایسا معمولی واقعہ ہے جو ہمیشہ پیش آتا رہتا ہے اور ہم اس میں کسی طرح کی غرابت محسوس نہیں کرتے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
لیکن پھر دیکھو! کارساز فطرت کی یہ کیسی کرشمہ سازی ہے کہ جوں جوں بچے کی عمر بڑھتی جاتی ہے ، محبت مادری کا یہ شعلہ خعد بخود دھیما پڑتا جاتا ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے جب حیوانات میں تو یہ بالکل بجھ ہی جاتا ہے اور انسان میں بھی اس کی گرم جوشیاں باقی نہیں رہتیں۔ یہ انقلاب کیوں ہوتا ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ بچے کے پیدا ہوتے ہی محبت کا ایک عظیم جذبہ جنبش میں آ جائے اور پھر ایک خاص وقت تک قائم رہ کے خود بخود غائب ہو جائے؟ اس لیے کہ یہ نظام ربوبیت کی کارفرمائی ہے اور اس کا مقتضی یہی تھا۔ ربوبیت چاہتی ہے کہ بچے کی پرورش ہو، اس نے پرورش کا ذریعہ ماں کے جذبہ محبت میں رکھ دیا۔ جب بچے کی عمر اس حد تک پہنچ گئی کہ ماں کی پرورش کی احتیاج باقی نہ رہی تو اس ذریعے کی بھی ضرورت باقی نہ رہی۔ اب اس کا باقی رہنا ماں کے لیے بوجھ اور بچے کے لیے رکاوٹ ہوتا۔ پھر جوں جوں بچہ بڑھتا گیا، احتیاج کم ہوتی گئی، اس لیے محبت کی گرم جوشیاں بھی گھٹتی گئیں۔ فطرت نے محبت مادری کا دامن بچے کی احتیاج پرورش سے باندھ دیا۔ جب احتیاج زیادہ تھی تو محبت کی سرگرمی بھی زیادہ تھی، جب احتیاج کم ہو گئی تو محبت بھی تغافل کرنے لگی (١٨)

جن حیوانات کے بچے انڈوں سے پیدا ہوتے ہیں، ان کی جسمانی ساخت اور طبیعیت دودھ والے حیوانات سے مختلف ہوتی ہے، اس لیے وہ اول دن سے ہی معمولی غذائیں کھا سکتے ہیں، بشرطیکہ کھلانے کے لیے کوئی شفیق نگرانی موجود ہو۔ چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ بچہ انڈے سے نکلتے ہی غذا ڈھونڈنے لگتا ہے اور ماں چن چن کے اس کے سامنے ڈالتی ہے اور منہ میں لے لے کر کھانے کی تلقین کرتی ہے یا ایسا کرتی ہے کہ خود کھا لیتی ہے مگر ہضم نہیں کرتی۔ اپنے اندر نرم اور ہلکا بنا کر محفوظ رکھتی ہے اور جب بچہ غذا کے لیے منہ کھولتا ہے تو اس کے اندر اتار دیتی ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ربوبیت معنوی

پھر اس سے بھی عجیب تر نظام ربوبیت کا معنوی پہلو ہے۔ خارج میں زندگی اور پرورش کا کتنا ہی سروسامان کیا جاتا، لیکن وہ کچھ مفید نہیں ہو سکتا تھا اگر ہر وجود کے اندر اس سے کام لینے کی ٹھیک ٹھیک استعداد نہ ہوتی اور اس کے ظاہری اور باطنی قوی اس کا ساتھ نہ دیتے۔ پس یہ ربوبیت ہی کا فیضان ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہر مخلوق کی ظاہری اور باطنی باطنی بناوٹ اس کی طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اس کی ہر وقت اس کے سامان پرورش کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے اور اس کی ہر چیز اس کے زندہ رہنے اور نشوونما پانے میں مدد دیتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ کہ کوئی مخلوق اپنے جسم و قوی کی ایسی نوعیت رکھتی ہو جو اس کے حالات پرورش کے مقتضیات کے خلاف ہو۔ اس سلسلے میں جو حقائق مشاہدہ و تفکر سے نمایاں ہوتے ہیں ان میں دو باتیں سب سے زیادہ نمایاں ہیں، اس لیے جا بجا قران حکیم نے ان پر توجہ دلائی ہے۔ ایک کو وہ تقدیر سے تعبیر کرتا ہے، دوسری کو ہدایت سے۔

تقدیر

تقدیر کے معنی اندازہ کر دینے کے ہیں، یعنی کسی چیز کے لیے ایک خاص طرح کی حالت ٹھہرا دینے کے، خواہ یہ ٹھہراؤ کمیت میں ہو یا کیفیت میں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت نے ہر وجود کی جسمانی ساخت اور معنوی قوی کے لیے ایک خاص طرح کا اندازہ ٹھہرا دیا ہے، جس سے وہ باہر نہیں جا سکتا اور یہ اندازہ ایسا ہے جو اس کی زندگی اور نشوونما کے تمام احوال و ظروف سے ٹھیک ٹھیک مناسبت رکھتا ہے۔

و خلق کل شئی فقدرہ تقدیرا (٢؛ ٢٥)
اور اس نے نمام چیزیں پیدا کیں، پھر ہر چیز کے لیے (اس کی حالت اور ضروت کے مطابق) ایک خاص اندازہ ٹھہرایا!

یہ کیا چیز ہے کہ ہر گردوپیش میں اور اس کی پیداوار میں ہمیشہ مطابقت پائی جاتی ہے اور یہ ایک ایسا قانون خلقت ہے جو کبھی متغیر نہیں ہو سکتا؟ یہ کیوں ہے کہ ہر مخلوق اپنی ظاہری و باطنی بناوٹ میں ویسی ہی ہوتی ہے جیسا اس کا گردوپیش ہے اور ہر گردوپیش ویسا ہی ہوتا ہے جیسی اس کی مخلوقات ہوتی ہیں؟ یہ اس حکیم و قدیر کی ٹھہرائی ہوئی تقدیر ہے اور اس نے ہر چیز کی خلقت و زندگی کے لیے ایسا ہی اندازہ مقرر کر دیا ہے۔ اس کا یہ قانون تقدیر صرف حیوانات و نباتات ہی کے لیے نہیں ہے، بلکہ کائنات ہستی کی ہر چیز کے لیے ہے۔ ستاروں کا یہ پورا نظام گردش بھی اسی تقدیر کی حد بندیوں پر قائم ہے۔

والشمس تجری لمستقر لھا۔ ذلک تقدیر العزیز العلیم (٣٦؛٣٨)
اور (دیکھو) سورج کے لیے جو قرار گاہ ٹھہرا دی گئی ہے وہ اسی پر چلتا ہے اور یہ عزیزوعلیم خدا کی اس کے لیے تقدیر ہے۔

مخلوقات اور اس کے گردوپیش کی مطابقت کا یہی قانون ہے جس نے دونوں میں باہم دگر مناسبت پیدا کردی ہے۔ اور ہر مخلوق اپنے چاروں طرف وہی پاتی ہے جس میں اس کے لیے پرورش اور نشوونما کا سامان ہوتا ہے۔ پرند کا جسم اڑنے والا ہے، مچھلی کا تیرنے والا، چارپایوں کا چلنے والا، حشرات کا رینگنے والا، اس لیے کہ ان میں ہر نوع کا گردوپیش ویسے ہی جسم کے لیے موزوں ہے جیسا اسے ملا ہے اور اس لیے کہ ان میں سے ہر نوع کی جسمانی ساخت ویسا ہی گردوپیش چاہتی ہے، جیسا گردو پیش اسے حاصل ہے۔ دریا میں پرند پیدا نہیں ہوتا، اس لیے کہ یہ گردوپیش اس کے لیے مفید پرورش نہیں۔ خشکی میں مچھلیاں پیدا نہیں ہو سکتیں کیونکہ خشکی ان کے لیے موزوں نہیں۔ اگر فطرت کی اس تقدیر کے خلاف ایک خاص گروپیش کی مخلوق دوسرے قسم کے گردوپیش میں چلی جاتی ہے تو یا وہاں زندہ نہیں رہتی یا رہتی ہے تو پھر بتدریج اس کی جسمانی ساخت اور طبیعیت بھی ویسی ہی ہو جاتی ہے جیسی اس گردوپیش میں ہونی چاہیے۔

پھر ان میں سے ہر نوع کے لیے مقامی موثرات کے مختلف گردوپیش ہیں اور ہر گردوپیش کا یہی حال ہے۔ سرد آب و ہوا کی پیداوار، سرد آب و ہوا کے لیے ہی ہے، گرم کی گرم کے لیے۔ قطب شمالی کے قرب و جوار کا ریچھ خط استواء کے قرب میں نظر نہیں آ سکتا اور منطقہ حارہ کے جانور منطقہ باردہ میں معدوم ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ہدایت

ہدایت کے معنی راہ دکھانے، راہ پر لگا دینے، رہنمائی کرنے کے ہیں اور اس کے مختلف مراتب اور اقسام ہیں۔ تفصیل آگے آئے گی۔یہاں صرف اس مرتبہ ہدایت کا ذکر کرنا ہے جو تمام مخلوقات پر ان کی پرورش کی راہیں کھولتا، انہیں زندگی کی راہ پر لگاتا اور ضروریات زندگی کی طلب و حصول میں رہنمائی کرتا ہے۔ فطرت کی یہ ہدایت ربوبیت کی ہدایت ہے اور اگر ہدایت ربوبیت کی دستگیری نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ کوئی مخلوق بھی دنیا کے سامان حیات و پرورش سے فائدہ اٹھا سکتی اور زندگی کی سرگرمیاں ظہور میں آ سکتیں۔

لیکن ربوبیت الہی کی یہ ہدایت کیا ہے؟ قرآن کہتا ہے یہ وجدان کا فطری الہام اور حواس و ادراک کی قدرتی استعداد ہے۔ وہ کہنتا ہے یہ فطرت کی وہ رہنمائی ہے جو ہر مخلوق کے اندر پہلے وجدان کا الہام بن کر نمودار ہوتی ہے، پھر حواس و ادراک کا چراغ روش کر دیتی ہے۔ یہ ہدایت کے مختلف مراتب میں سے وجدان اور ادراک کی ہدایت کے مراتب ہیں۔

ہدایت وجدان

وجدان کی ہدایت یہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں ہر مخلوق کی طبیعیت میں کوئی ایسا اندرونی الہام موجود ہے جو اسے زندگی اور پرورش کی راہوں پر خود بخود لگا دیتا ہے اور وہ باہر کی رہنمائی اور تعلیم کی محتاج نہیں ہوتی۔ انسان کا بچہ ہو یا حیوان کا، جونہی شکم مادر سے باہر آتا ہے خود بخود معلوم کر لیتا ہے کہ اس کی غذا ماں کے سینے میں ہے اور جب پستان منہ میں لیتا ہے تو جانتا ہے کہ اسے زور زور سے چوسناچاہیے۔ بلی کے بچوں کو ہمیشہ دیکھتے ہیں کہ ابھی ابھی پیدا ہوئے ہیں، ان کی آنکھیں بھی نہیں کھلی ہیں، لیکن ماں جوش محبت میں انہیں چاٹ رہی ہے، وہ اس کے سینے پر منہ مار رہے ہیں۔ یہ بچہ جس نے عالم ہستی میں ابھی ابھی قدم رکھا ہے، جسے خارج کے مؤثرات نے ابھی چھوا تک نہیں کس طرح معلوم کر لیتا ہے کہ اسے پستان منہ میں لے لینا چاہیے اور اس کی غذا کا سرچشمہ یہیں ہے؟ وہ کونسا فرشتہ ہے جو اس وقت اس کے کان میں پھونک دیتا ہے کہ اس ظرح اپنی غذا حاصل کرلے؟ یقیناً وہ وجدانی ہدایت کا فرشتہ ہے اور یہی وجدانی ہدایت ہے جو قبل اس سے کہ حواس و ادراک کی روشنی نمودار ہو، ہر مخلوق کو اس کی پرورش و زندگی کی راہوں پر لگا دیتی ہے۔

تمہارے گھر میں پلی ہوئی بلی ضرور ہوگی۔ تم نے دیکھا ہو گا کہ بلی اپنی عمر میں پہلی مرتبہ حاملہ ہوئی ہے۔ اس حالت کا اسے کوئی پچھلا تجربہ حاصل نہیں تاہم اس کے اندر کوئی چیز ہے جو اسے بتا دیتی ہے کہ تیاری و حفاظت کی سرگرمیاں شروع کر دینی چاہییں۔ جونہی وضع حمل کا وقت آتا ہے، خود بخود اس کی توجہ ہر طرف سے ہٹ جاتی ہے اور کسی محفوظ گوشے کی جستجو شروع ہو جاتی ہے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ مضطرب الحال بلی مکان کا ایک ایک کونا دیکھتی پھرتی ہے، پھر وہ خود بخود ایک سب سے محفوظ اور عیحدہ گوشہ چھانٹ لیتی ہے اور وہاں بچہ دیتی ہے۔ پھر یکایک اس کے اندر بچے کی حفاظت کی طرف سے ایک مجہول خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یکے بعد دیگرے اپنی جگہ بدلتی رہتی ہے۔ غور کرو! یہ کونسی قوت ہے جو بلی کے اند یہ خیال پیدا کر دیتی ہے کہ محفوظ جگہ تلاش کرے، کیونکہ عنقریب ایسی جگہ کی ضرورت ہوگی؟ یہ کونسا الہام ہے جو اسے خبردار کر دیتا ہے کہ بلا بچوں کا دشمن اور ان کی بو سونگھتا پھرتا ہے اس لیے جگہ بدلتے رہنا چاہیے؟ بلاشبہ یہ ربوبیت الہی کی وجدانی ہدایت ہے جس کا الہام ہر مخلوق کے اندر اپنی نمود رکھتا ہے اور جو ان پر زندگی اور پرورش کی تمام راہیں کھول دیتا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
ہدایت حواس

ہدایت کا دوسرا مرتبہ حواس اور مدرکات ذہنی کی ہدایت ہے اور وہ اس درجہ واضح و معلوم ہے کہ تشریح کی ضرورت نہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگرچہ حیوانات اس جوہر دماغ سے محروم ہیں جسے فکروعقل سے تعبر کیا جاتا ہے، تاہم فطرت نے انہیں احساس و ادراک کی وہ تمام قوتیں دے دی ہیں جن کی زندگی و معیشت کے لیے ضرورت تھی اور ان کی مدد سے وہ اپنے رہنے سہنے، کھانے پینے ، توالد و تناسل اور حفاظت و نگرانی کے تمام وظائف حس و خوبی کے ساتھ انجام دیتے رہتے ہیں۔ پھر حواس و ادراک کی یہ ہدایت ہر حیوان کے لیے ایک ہی جیسی نہیں ہےبلکہ ہر وجد کو اتنی ہی اور ویسی ہی استعداد دی گئی ہے جتنی اور جیسی استعداد اس کے احوال و ظروف کے لیے ضروری تھی۔ چیونٹی کی قوت شامہ نہایت دوررس ہوتی ہے، اس لیے کہ اسی قوت کے ذریعے وہ اپنی غذا حاصل کر سکتی ہے۔ چیل اور عقاب کی نگاہ تیز ہوتی ہے کیونکہ اگر ان کی نگاہ تیز نہ ہو تو بلندی میں اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ نہ سکیں۔ یہ سوال بالکل غیر ضروری ہے کہ حیوانات کے حواس و ادراک کی یہ حالت اول دن سے تھی یا احوال و ظروف کی ضروریات اور قانون مطابقت کے مؤثرات سے بتدریج ظہور میں آئی۔ اس لیے کہ خواہ کوئ

ی صورت ہو، بہرحال فطرت کی بخشی ہوئی استعداد ہے اور نشووارتقاء کا قانون بھی فطرت ہی کا ٹھہرایا ہوا قانون ہے۔

چنانچہ یہی مرتبہ ہدایت جس کو قرآن نے ربوبیت الہی کی وحی سے تعبیر کیا ہے۔ عربی میں وحی کے معنی مخفی ایماء اور اشارے کے ہیں۔ یہ گویا فطرت کی وہ اندرونی سرگوشی ہے جو ہر مخلوق پر اس کی راہ عمل کھول دیتی ہے۔

واوحی ربک الی النحل ان التخذی من الجبال بیوتا و من الشجر و مما یعرشون (١٦؛٦٨)

اور دیکھو! تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ۔۔ میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں، اپنے لیے چھتے بنائے۔

اور یہی وہ ربوبیت الہی کی ہدایت ہے جس کی طرف حضرت موسی (علیہ السلام) کی زبانی اشارہ کیا گیا ہے۔ فرعون نے جب پوچھا؛

فمن ربکما یموسی؟ تمہارا پروردگار کون ہے؟

تو حضرت موسی نے کہا؛

ربنا الذی اعطی کل شئی خلقہ ثم ھدی (٢٠؛٥٠)

ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی بناوٹ دی، پھر اس پر (زندگی و معیشت کی) راہ کھول دی۔

اور پھر یہی وہ ہدایت ہے جسے دوسری جگہ “راہ عمل آسان کر دینے“ سے بھی تعبیر کیا گیا۔

من ای شئی خلقہ۔ من نطفۃ خلقہ فقدرہ ثم السبیل یسرہ (٨٠؛١٨-٢٠)

اس نے انسان کو کس چیز سے پیدا کیا؟ نطفہ سے پیدا کیا۔ پھر (اس کی تمام ظاہری اور باطنی قوتوں) کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا، پھر اس پر (زندگی و عمل کی) راہ آسان کر دی۔

یہی “ثم السبیل یسرہ“ یعنی “راہ عمل آسان کر دینا“ وجدان و ادراک کی ہدایت ہے جو تقدیر کے بعد ہے، کیونکہ اگر فطرت کی یہ رہنمائی نہ ہوتی تو ممکن نہ تھا کہ ہم اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکتے۔

آگے چل کر تمہیں معلوم ہوگا کہ قرآن نے تکوین وجود کے چار مرتبے بیان کیے ہیں، ان میں سے تیسرا اور چوتھا مرتبہ یہی تقدیر اور ہدایت کا مرتبہ ہے۔ تخلیق، تسویہ، تقدیر، ہدایت۔

الذی خلق فسوی۔ والذی قدر فہدی (٨٧؛٢،٣)

وہ پروردگار عالم جس نے پیدا کیا پھر اسے ٹھیک ٹھیک درست کر دیا اور جس نے ہر وجود کے لیے ایک اندازہ ٹھہرا دیا پھر اس پر راہ (عمل) کھول دی۔

براہین قرآنیہ کا مبدء استدلال

چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی ہستی اور اس کی توحید و صفات پر جا بجا نظام ربوبیت ربوبیت سے استدلال کیا ہے اور یہ استدلال اس کے مہمات دلائل میں سے ہے۔ لیکن قبل اس کے کہ اس کی تشریح کی جائے مناسب ہوگا کہ قرآن کے طریق استدلال کی بعض مبادیات واضح کر دی جائیں کیونکہ مختلف اسباب سے جن ی تشریح کا یہ موقع نہیں ، مطالب قرآنی کا یہ گوشہ سب سے زیادہ مہجور ہو گیا ہے اور ضرورت ہے کہ از سر نو حقیقت گم گشتہ کا سراغ لگایا جائے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
دعوت تعقل

قرآن کے طریق استدلال کا اولین مبدء تعقل و تفکر کی دعوت ہے، یعنی وہ جا بجا اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کے لیے حقیقت شناسی کی راہ یہی ہے کہ خدا کی دی ہوئی عقل و بصیرت سے کام لے اور اپنے وجد کے اندر اور اپنے وجود کے باہر جو کچھ بھی محسوس کر سکتا ہے اس میں تدبر و تفکر کرے۔ چنانچہ قرآن کی کوئی سورت اور سورت کا کوئی حصہ ایسا نہیں جو تفکر و تعقل کی دعوت سے خالی ہو۔

وفی الارض ایت للموقنین ۔ وفی انفسکم۔ افلا تبصرون (٥١؛ ٢٠-٢١)

اور یقین رکھنے والوں کے لیے زمین میں بھی (معرفت حق کی) نشانیاں ہیں اور خود تمہارے وجود میں بھی، پھر کیا تم دیکھتے نہیں۔

وہ کہتا ہے انسان کو عقل و بصیرت دی گئی ہے، اس لیے وہ اس قوت کے ٹھیک ٹھیک استعمال نہ کرنے کے جوابدہ ہے۔

ان السمع والبصر والفواد کل اولئک کان عنہ مسئولا (١٧؛٣٦)

یقیناً (انسان کا) سننا، دیکھنا، سوچنا، سب اپنی اپنی جگہ جواب دہی رکھتے ہیں!

وہ کہتا ہے؛ زمین کی ہر چیز میں، آسمان کے ہر منظر میں، زندگی کے ہر تغیر میں، فکر انسانی کے لیے مغفرت حقیقت کی نشانیاں ہیں، بشرطیکہ وہ غفلت و اغراض میں مبتلا نہ ہو جائے۔

وکاین من اٰیہ فی السموات والارض یمرون علیھا و ھم عنھا معرضون (١٢؛١٠٥)

اور آسمان و زمین میں (معرفت حق کی) کتنی ہی نشانیاں ہیں۔لیکن (افسوس انسان کی غفلت پر!) لوگ ان پر سے گزر جاتے ہیں اور نظر اٹھا کر دیکھتے تک نہیں!
 

نبیل

تکنیکی معاون
تخلیق بالحق

اچھا! اگر انسان عقل و بصیرت سے کام لے اور کائنات خلقت میں تفکر کرے تو اس پر حقیقت شناسی کا کونسا دروازہ کھلے گا؟ وہ کہتا ہے؛ سب سے پہلی حقیقت جو اس کے سامنے نمودار ہوگی وہ تخلیق بالحق کا عالم گیر اور بنیادی قانون ہے، یعنی وہ دیکھے گا کہ کائنات خلقت اور اس کی ہر چیز کی بناوٹ کچھ اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ ہر چیز ضبط و ترتیب کے ساتھ ایک خاص نظام و قانون میں منسلک ہے اور کوئی شے نہیں جو حکمت و مصلحت سے خالی ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ تخلیق بالباطل ہو، یعنی بغیر کسی معین اور ٹھہرائے ہوئے مقصد و نظم کے وجود میں آ گیا ہو۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ممکن نہ تھا کہ اس نظم، اس یکسانیت، اس وقت کے ساتھ اس کی ہر بات کسی نہ کسی حکمت و مصلحت کے ساتھ بندھی ہوتی (١٩)۔

خلق اللہ السموات والارض بالحق۔ ان فی ذلک لایہ للمومنین (٢٩؛٤٤)

اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے، اور بلاشبہ اس بات میں ارباب ایمان کے لیے (معرفت حق کی) ایک بڑی ہی نشانی ہے!

“آل عمران“ کی مشہور آیت میں ان ارباب دانش کی جو آسمان و زمین کی خلقت میں تفکر کرتے ہیں، صداء حال یہ بتائی ہے؛

ربنا ماخلقت ھذا باطلا (٣؛١٩)

اے ہمارے پروردگار! سب کچھ تو نے اس لیے نہیں پیدا کیا ہے کہ محض ایک بے کار و عبث سا کام ہو!

دوسری جگہ “تخلیق بالباطل“ کو تلعب سے تعبیر کیا ہے (٢٠)۔ “تلعب“ یعنی کوئی کام کھیل کود کی طرح بغیر کسی معقول غرض و مدعا کے کرنا۔

وما خلقنا السموات والارض وما بینھما لعبین۔ ما خلقنھما الا بالحق ولکن اکثرھم لا یعلمون (٤٤؛٣٨-٣٩)

ہم نے آسمانوں کو اور زمینوں کو اور جو کچھ ان کے درمیان ہے، محض کھیل اور تماشہ کرتے ہوئے نہیں پیدا کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ۔ مگر اکثر انسان ایسے ہیں جو اس حقیقت کا علم نہیں رکھتے۔

پھر جا بجا اس “تخلیق بالحق“ کی تشریح کی ہے۔ مثلاً ایک مقام پر “تخلیق بالحق“ کے اس پہلو پر توجہ دلائی ہے کہ کائنات کی ہر چیز افادہ و فیضان کے لیے ہے اور فطرت چاہتی ہے کہ جو کچھ بنائے، اس طرح بنائے کہ اس میں وجود اور زندگی کے لیے نفع اور راحت ہو؛

خلق السموات والارض بالحق۔ یکور الیل علی النھار و یکور النھار علی الیل و سخر الشمس و القمر۔ کل یجری لاجل مسمی۔ الاھو العزیز الغفار (٣٩؛٥)

اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اس نے رات اور دن کے اختلاف اور ظہور کا ایسا انتظام کر دیا ہے کہ رات دن پر لپٹی جاتی ہے اور دن رات پر لپٹا آتا ہے۔ اور سورج اور چاند دونوں کو اس کی قدرت نے مسخر کر رکھاہے۔ سب (اپنی اپنی جگہ) اپنے مقررہ وقت تک کےلیے گردش کر رہے ہیں۔ (سنو! وہ غالب اور بخشنے والا ہے (٢١))

ایک دوسرے موقع پر خصوصیت کے ساتھ اجرام سماویہ اکے افادہ و فیضان پر توجہ دلائی ہے اور اسے “تخلیق بالحق“ سے تعبیر کیا ہے۔؛

ہو الذی جعل الشمس ضیاء والقمر نوراً وقدرہ منازل لتعلموا عددالسنین والحساب ما خلق اللہ ذلک الا بالحق۔ یفصل الآیت لقوم یعلمون (١٠۔٥)

وہ (کار فرمائے قدرت) جس نے سورج کو درخشندہ اور چاند کو روشن بنایا اور پھر چاند کی گردش کے لیے منزلیں ٹھیرا دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور (اوقات کا حساب) معلوم کر لو۔ بلا شبہ اللہ نے یہ سب کچھ پیدا نہیں کیا مگر حکمت و مصلحت کے ساتھ وہ ان لوگوں کے لیے جو جاننے والے ہیں، (علم و معرفت کی) نشانیاں الگ الگ کرکے واضح کر دیتا ہے۔

ایک اور موقع پر فطرت کے جمال و رعنائی کی طرف اشارہ کیا ہے اور 'تخلیق بالحق' سےتعبیر کیا ہے، یعنی فطرت کائنات میں تحسین و آرائش کا قانون کام کررہا ہے جوچاہتا ہے جو کچھ بنے، ایسا بنے کہ اس میں حسن و جمال اور خوبی و کمال ہو:

خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَصَوَّرَ‌كُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَ‌كُمْ ۖ وَإِلَيْهِ الْمَصِيرُ‌ (64:3)
اس نے آسمانوں اور زمین کو حکمت اور مصلحت کے ساتھ پیدا کیا اور تمہاری صورتیں بنائیں تو نہایت حسن و خوبی کے ساتھ بنائیں۔

اسی طرح وہ قانون مجازات پر (یعنی جزاء و سزا کے قانون پر) بھی اسی 'تخلیق بالحق' سے استشہاد کرتا ہے۔ تم دیکھتے ہو کہ دنیا میں ہر چیز کوئی نہ کوئی خاصہ اور نتیجہ رکھتی ہے اور تمام خواص اور نتائج لازمی اور اٹل ہیں۔ پھر کیونکر ممکن ہے کہ انسان کے اعمال میں اچھے اور برے خواص اور نتائج نہ ہوں اور وہ قطعی اور اٹل نہ ہوں۔ جو قانون فطرت دنیا کی ہر چیز میں اچھے اور برے کا امتیاز رکھتا ہے، کیا انسان کے اعمال میں اس امتیاز سے غافل ہو جائے گا؟

أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَ‌حُوا السَّيِّئَاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَوَاءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ ۚ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ﴿٢١﴾ وَخَلَقَ اللَّ۔هُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْ‌ضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٢٢﴾ (45:21-22)

جو لوگ برائیاں کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے جو ایمان لائے اور جن کے اعمال اچھے ہیں؟ یعنی دونوں برابر ہو جائیں، زندگی میں بھی اور موت میں بھی؟ (اگر ان لوگوں کے فہم و دانش کا فیصلہ یہی ہے تو) کیا ہی برا ان کا فیصلہ ہے! اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حکمت و مصلحت کے ساتھ پیدا کیا ہے کہ ہر جان اپنی کمائی کے مطابق بدلا پالے اور اور ایسا نہیں ہوگا کہ ان کے ساتھ نا انصافی ہو۔
 
Top