مقدس
لائبریرین
131
اسلوب بیان پر غور کرو! اگرچہ ابتدا میں صاف صاف کہہ دیا تھا:
فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ
بظاہر عفو و درگذر کے لیے اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن آخر میں دوبارہ اس پر زور دیا " وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ " یہ تکرار اس لیے ہے کہ عفو ودرگذر کی اہمیت واضح ہو جائے۔ یعنی یہ حقیقت آشکارا ہو جائے کہ اگرچہ بدلے اور سزا کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے لیکن نیکی وفضیلت کی راہ، عفوودرگذر ہی کی راہ ہے۔
پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ قرآن نے اس سزا کو، جو برائی کے بدلے میں دی جائے برائی ہی کے لفظ سے تعبیر کیا:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا
یعنی "سیتہ" کے بدلے میں جو کچھ کیا جائے گا وہ بھی "سیتہ" ہی ہو گا، عمل حسن نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا دروازہ اس لیے بظاہر رکھا گیا کہ اگر باز نہ رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ برائیاں ظہور میں آنے لگیں گی۔ پھر اس آدمی کی نسبت جو معاف کر دے "اصلح" کا لفاظ کہا، یعنی سنورنے والا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بگاڑ ک اصلی سنورنے والے وہی ہوئے جو بدلے کی جگہ عفو ودرگذر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
قرآن کے زواجر و قوارع
ممکن ہے بعض طبیعتیں یہاں ایک خدشہ محسوس کریں۔ اگر فی الحقیقت قرآن کی تمام تعلیم کا اصل اصول رحمت ہی ہے تو اس نے اپنے مخالفوں کی نسبت زجروتوبیخ کا سخت پیرایہ کیوں اختیار کیا؟
اس کا مفصل جواب تو اپنے محل میں آئے گا، لیکن تکمیل بحث کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختصر اشارہ کر دیا جائے۔ بلاشبہ قرآن میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اس نے مخالفوں کے لیے شدت و غلظت کا اظہار کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کن مخالفوں کے لیے؟ ان کے لیے جن کی مخالفت مھض اختلاف فکر و اعتقاد کی مخالفت تھی، یعنی ایسی مخالفت جو معاندانہ اور جارحانہ نوعیت نہیں رکھتی تھی۔ ہمیں اس سے قطعا انکار ہے۔ ہم پورے وثوق
اسلوب بیان پر غور کرو! اگرچہ ابتدا میں صاف صاف کہہ دیا تھا:
فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ ۚ
بظاہر عفو و درگذر کے لیے اتنا کہہ دینا کافی تھا لیکن آخر میں دوبارہ اس پر زور دیا " وَلَمَن صَبَرَ وَغَفَرَ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ " یہ تکرار اس لیے ہے کہ عفو ودرگذر کی اہمیت واضح ہو جائے۔ یعنی یہ حقیقت آشکارا ہو جائے کہ اگرچہ بدلے اور سزا کا دروازہ کھلا رکھا گیا ہے لیکن نیکی وفضیلت کی راہ، عفوودرگذر ہی کی راہ ہے۔
پھر اس پہلو پر بھی نظر رہے کہ قرآن نے اس سزا کو، جو برائی کے بدلے میں دی جائے برائی ہی کے لفظ سے تعبیر کیا:
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا
یعنی "سیتہ" کے بدلے میں جو کچھ کیا جائے گا وہ بھی "سیتہ" ہی ہو گا، عمل حسن نہیں ہو گا۔ لیکن اس کا دروازہ اس لیے بظاہر رکھا گیا کہ اگر باز نہ رکھا جائے تو اس سے بھی زیادہ برائیاں ظہور میں آنے لگیں گی۔ پھر اس آدمی کی نسبت جو معاف کر دے "اصلح" کا لفاظ کہا، یعنی سنورنے والا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہاں بگاڑ ک اصلی سنورنے والے وہی ہوئے جو بدلے کی جگہ عفو ودرگذر کی راہ اختیار کرتے ہیں۔
قرآن کے زواجر و قوارع
ممکن ہے بعض طبیعتیں یہاں ایک خدشہ محسوس کریں۔ اگر فی الحقیقت قرآن کی تمام تعلیم کا اصل اصول رحمت ہی ہے تو اس نے اپنے مخالفوں کی نسبت زجروتوبیخ کا سخت پیرایہ کیوں اختیار کیا؟
اس کا مفصل جواب تو اپنے محل میں آئے گا، لیکن تکمیل بحث کے لیے ضروری ہے کہ یہاں مختصر اشارہ کر دیا جائے۔ بلاشبہ قرآن میں ایسے مقامات موجود ہیں جہاں اس نے مخالفوں کے لیے شدت و غلظت کا اظہار کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کن مخالفوں کے لیے؟ ان کے لیے جن کی مخالفت مھض اختلاف فکر و اعتقاد کی مخالفت تھی، یعنی ایسی مخالفت جو معاندانہ اور جارحانہ نوعیت نہیں رکھتی تھی۔ ہمیں اس سے قطعا انکار ہے۔ ہم پورے وثوق