ام الکتاب از مولانا ابولکلام آزاد، صفحات 115-130

نبیل

تکنیکی معاون
اور (دیکھو!) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے ہیں جو دوسری ہستیوں کو اللہ کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جس طرح اللہ کو چاہنا ہوتا ہے حالانکہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ محبت صرف اللہ کے لیے ہی ہوتی ہے۔

قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّ۔هَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّ۔هُ وَيَغْفِرْ‌ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّ۔هُ غَفُورٌ‌ رَّ‌حِيمٌ ﴿٣١﴾ 3:31

(اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہہ دو اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو میں تمہیں محبت الہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہو جاؤ گے بلکہ خود اللہ تم سے محبت کرنے لگے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْ‌تَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّ۔هُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ﴿٥٤﴾ 5:54
وہ جابجا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ایمان باللہ کا نتیجہ اللہ کی محبت اور محبوبیت ہے۔

اے پیروان دعوت ایمانی! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی راہ سے پھر جائے گا تو وہ یہ نہ سمجھے کہ دعوت حق کو اس کچھ نقصان پہنچے گا۔ عنقریب ایک ساتھ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جنہیں اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور وہ اللہ کو محبوب رکھنے والے ہوں گے۔

جو خدا سے محبت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس کے بندوں سے محبت کرے۔

لیکن بندے کےلیے خدا کی محبت کی عملی راہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ خدا کی محبت کی راہ اس کے بندوں کی محبت میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ جو انسان چاہتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرے اسے چاہیے کہ خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے۔

وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ﴿١٧٧﴾ 2:177
اور جو اپنا مال اللہ کی محبت میں نکالتے اور خرچ کرتے ہیں۔

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرً‌ا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّ۔هِ لَا نُرِ‌يدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورً‌ا ﴿٩﴾ 76:8-9

اور اللہ کی محبت میں وہ مسکینوں یتمیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ محض اللہ کے لیے ہے، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلا چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکر گزاری۔

ایک حدیث قدسی میں یہی حقیقت نہایت مؤثر انداز میں واضح کی گئی ہے۔
یا ابن آدم! مرضت مرضت فلم تعدنی۔ قال: کیف اعودک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ؟ اما علمت انک لو عدتہ لو ججتنی عندہ؟ یا بن آدم! اسطعمتک فلم تطعمنی! قال: یا رب کیف اطعمک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت انک لو اطعمتہ لو جدتذلک عندی؟

(قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ خدا ایک انسان سے کہے گا) اے ابن آدم! میں بیمار ہو گیا تھا مگر تو نے میری بیمار پرسی نہ کی! بندہ متعجب ہو کر کہے گا بھلا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے اور تو تو رب العالمین ہے! خدا فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ تیرے قریب بیمار ہو گیا تھا اور تو نے اس کی خبر نہیں لی تھی؟ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اسی طرح خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا! بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا کہ تجھے کسی بات کی احتیاج ہو؟ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بھوکے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار دیا تھا؟ اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔

یا ابن آدم! استقیتک فلم تسقنی۔ قال: کیف استقیک وانت رب العالمین؟ قال: استقاک عبدی فلان فلم تسقہ۔ اما انک لو سقیتۃ لو جدت ذلک عندی۔ (مسلم عن ابی ہریرہ) 41

ایسے ہی خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرےگا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تجھے پیاس لگے، تو تو خود پروردگار ہے؟ خدا فرمائےگا: میرے فلاں پیاسے بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔

اعمال و عبادات اور اخلاق و خصائل

اسی طرح قرآن نے اعمال و عبادات کی جو شکل و نوعیت قرار دی ہے، اخلاق و خصائل میں سے جن جن باتوں پر زور دیا ہے، اوامر و نواہی میں جو اصول و مبادی ملحوظ رکھے ہیں ان سب میں بھی یہی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہ چیز اس درجہ واضح و معلوم کہ بحث و بیان کی ضرورت نہیں۔

قرآن سرتاسر رحمت الہی کا پیام ہے

اور پھریہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت سے نہیں دہرایا اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے، جس قدر رحمت ہے، اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں رحمت کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زیادہ مقامات ہوں گے۔ اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کر لیے جائیں جہاں اگرچہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے لیکن اس کاتعلق رحمت سے ہی ہے مثلاً روببیت، مغفرت، رافت، کرم و حلم، عفو وغیرہ تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اول سے لے کر آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الہی کا پیغام ہے۔

بعض احادیث باب

ہم اس موقع پر وہ تمام تصریحات قصداً چھوڑ رہے ہیں جن کا ذکر ذخیرہ احادیث میں موجود ہے، کیونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل و بحث کا متحمل نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی جو حقیقت ہمیں بتائی وہ تمام تر یہی ہے کہ خدا کی موحدانہ پرستش اور اس کے بندوں پر شفقت و رحمت! ایک مشہور حدیث جو ہر مسلمان واعظ کی زبان پر ہے ہمیں بتلاتی ہے کہ ”انما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء“ 42۔ خدا کی رحمت انہی بندوں کے لیے ہے جو اس کے لیے بندوں کے لیے رحمت رکھتے ہیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حضرت مسیح علیہ السلام کا مشہور کلمہ وعظ ”زمین پر رحم کرو تاکہ وہ جو آسمان پر ہے تم پر رحم کرے“ پیغمبر اسلام صل اللہ علیہ وسلم کی زبان پر بھی طاری ہوا۔ الرحمن تبارک و تعالی، ارحمو من فی الارض یرحمکم من فی السماء 43۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اسلام نے انسانی رحمت و شفقت کی جو ذہنیت پیدا کرنی چاہی ہے وہ اس قدر وسیع ہے کہ بے زبان جانور بھی اس سے باہر نہیں ہیں۔ ایک سے زائد حدیثیں اس مضمون کی موجود ہیں کہ اللہ کی رحمت و کرم کرنے والوں کے لیے ہے۔ اگر یہ رحم ایک چڑیا ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔ ”من رحم ولو ذبیحۃ عصفور رحمۃ اللہ یوم القیامۃ 44“

مقام انسانینت اور صفات الہی سے تخلق و تشبہ

اصل یہ ہے کہ قرآن نے خدا پرستی کی بنیاد ہی اس جذبہ پر رکھی ہے کہ انسان خدا کی صفتوں کا پرتو اپنے اندر پیدا کرے وہ انسانوں کے وجود کو ایسی سرحد قرار دیتا ہے کہ جہاں حیوانیت کا درجہ ختم ہوتا ہے اور مافوق حیوانیت درجہ شروع ہوجاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ انسان کا جوہر انسانیت جو اسے حیوانات کی سطح سے بلند ممتاز کرتا ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں کہ صفات الہی سے تخلق و تشبہ پیدا ہوجائے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جہاں کہیں بھی انسان کی خاص صفات کا ذکر کیا ہے، انہیں براہ راست خدا کی طرف نسبت دی ہے۔ حتی کہ جوہر انسانیت کو خدا کی روح پھونک دینے سے تعبیر کیا ہے۔

ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّ‌وحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ‌ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُ‌ونَ ﴿٩

یعنی خدانے آدم میں اپنی روح میں سے کچھ پھونک دیا اور اسی کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے اندر عقل و حواس کا چراغ روشن ہو گیا۔

در اذل پرتو حسنت تجلی دم زد
عشق پیدا شد بہ ہم عالم زد

(ازل میں تیرے حسن کے پرتو نے سانس لیا۔ عشق کا جوہر پیدا ہو گیا اور اس کی آگ نے پورے عالم کو لپیٹ میں لے لیا۔)


پس اگر وہ خدا کی رحمت کا تصور ہم میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو یہ اس لیے ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم بھی سرتاپا رحمت و محبت ہو جائیں۔ اگر وہ اس کی ربوبیت کا مرقع بار بار ہماری نگاہوں کے سامنے لاتا ہے تو اس لیے ہے کہ وہ چاہتا ہے ہم بھی اپنے چہرہ اخلاق میں ربوبیت سارے خال و خط پیدا کر لیں۔ اگر وہ اس کی رافت و شفقت کا ذکر کرتا ہے اس کے لطف و کروم کا جلوہ دکھاتا ہے، اس کے جود و احسان کا نقشہ کھینچتا ہے تو اس لیے کہ وہ چاہتا ہے کہ ہم میںبھی ان الہی صفتوں کا جلوہ نمودار ہو جائے۔ وہ بار بار ہمیں ستاتا ہے کہ خدا کی بخشش و درگذر کی کوئی انتہا نہیں اور اس طرح ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم میں بھی اس کے بندوں کے لیے بخشش و درگذر کا غیر محدود جوش پیدا ہو جانا چاہیے۔ اگر ہم اس کے بندوں کی خطائیں بخش نہیں سکتے تو کیا ہمیں حق ہے کہ اپنی خطاؤں کے لیے اس کی بخشایشوں کا انتظار کریں؟

احکام و شرائع

جہاں تک احکام و شرائع کا تعلق ہے بلاشبہ اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمنوں کو پیار کرو کیونکہ ایسا کہنا حقیقت نہ ہوتی مجاز ہوتا۔ لیکن اس نے کہا دشمنوں کو بھی بخش دو اور دشمن کو بخش دینا سیکھ لے گا اس کا دل خود بخود انسانی بغض و نفرت کی آلودگیوں سے پاک ہو جائے گا۔

وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ ۗ وَاللَّ۔هُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ ﴿١٣٤﴾ 3:134

غصہ ضبط کرنے والے۔ اور انسانوں کے قصور بخش دینے والے۔ اللہ کی محبت انہیں کے لیے ہے جو احسان کرنے والے ہیں۔

وَالَّذِينَ صَبَرُ‌وا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَ‌بِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَ‌زَقْنَاهُمْ سِرًّ‌ا وَعَلَانِيَةً وَيَدْرَ‌ءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَ۔ٰئِكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ‌ ﴿٢٢﴾ 13:22

اور جن لوگوں نے اللہ کی محبت میں تلخی و ناگواری برداشت کر لی نماز قائم کی، خدا کی دی ہوئی روزی پوشیدہ و علانیہ (اس کے بندوں کے لیے) خرچ کی اور برائی کا جواب برائی سے نہیں نیکی سے دیا تو یقین کرو کہ یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا بہتر ٹھکانا ہے۔


وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ ﴿٤٣﴾ 42:43

اور (دیکھو!) جو کوئی برائی پر صبر کرے اور بخش دے تو یقیناً یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے۔

وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ۚ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ ﴿٣٤﴾ وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُ‌وا وَمَا يُلَقَّاهَا إِلَّا ذُو حَظٍّ عَظِيمٍ ﴿٣٥﴾ 41:34-35

اور (دیکھو!) نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی۔ اگر کوئی برائی کرے تو برائی کا جواب ایسے طریقے سے دو اچھا طریقہ ہو۔ اگر تم نے ایسا کیا تو تم دیکھو گے کہ جس شخص سے تمہاری عداوت تھی یکایک تمارا دلی دوست ہو گیا ہے۔ البتہ یہ ایسا مقام ہے کہ جو اسی کو مل سکتا ہے جو بدسلوکی سہہ لینے کی برداشت رکھتا ہو اور جسے نیکی و سعادت کا حصہ وافر ملا ہو۔

بلاشبہ اس نے بدلہ لینے سے بالکل روک نہیں دیا۔ اور وہ کیونکر روک سکتا تھا؟ جبکہ طبیعت حیوانی کا یہ فطری خاصہ ہے اور حفاظت نفس اس پر موقوف ہے لیکن جہاں کہیں بھی اس نے اس کی اجازت دی ہےساتھ ہی عفو و بخشش اور بدی کے بدلے نیکی کرنے کی مؤثر ترغیب دی ہے کہ ممکن نہیں ایک خدا پرست انسان اس سے متاثر نہ ہو۔

وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُوقِبْتُم بِهِ ۖ وَلَئِن صَبَرْ‌تُمْ لَهُوَ خَيْرٌ‌ لِّلصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٢٦﴾ 16:126

اور (دیکھو!) اگر تم بدلہ لو تو چاہے جتنی اور جیسی کچھ برائی تمہارے ساتھ کی گئی ہے اسی کے مطابق ٹھیک ٹھیک بدلہ بھی لیا جائے (یہ نہ ہو کہ زیادتی کر بیٹھو) لیکن اگر تم برداشت کر جاؤ اور بدلا نہ لو تو یاد رکھو برداشت کرنے والوں کے لیے برداشت کر جانے ہی میں بہتری ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّ۔هِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿٤٠﴾ 4:42

اور برائی کے لیے ویسا ہی اور اتنا ہی بدلا ہے جیسی برائی اور جتنی برائی کی گئی ہے۔ لیکن جس کسی نے درگذر کیا اور معاملے کو بگاڑنے کی جگہ سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے۔

انجیل اور قرآن

ہم نے قرآن کی آیات عفو و بخش نقل کرتے ہوئے ابھی کہا ہے کہ اس نے یہ نہیں کہا کہ دشمنوں کو پیار کرو کیونکہ ایسا حقیقت نہ ہوتی مجاز ہوتا، ضروری ہے کہ اس کی مختصر تشریح کر دی جائے۔

حضرت مسیح علیہ السلام نے یہودیوں کی ظاہر پرستیوں اور اخلاقی محرومیوں کی جگہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی اخلاقی قربانیوں پر زور دیا تھا اور ان کی دعوت کی اصلی روح یہی ہے چنانچہ ہم انجیل کے مواعظات میں جابجا اس طرح کے خطابات پاتے ہیں تم نے سنا ہوگا کہ اگلوں سے کہا گیا دانت کے بدلے دانت اور آنکھ کے بدلے آنکھ لیکن میں کہتا ہوں کہ ”شریر کا مقابلہ نہ کرنا“ یا ”اپنے ہمسایوں ہی کو نہیں بلکہ دشمن کو بھی پیار کرو“ یا مثلاً ”اگر تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے چاہیے کہ دوسرا گال بھی آگے کر دو۔“ سوال یہ ہے کہ ان خطابات کی نوعیت کیا تھی؟ یہ اخلاقی فضائل و یثار کا ایک مؤثر پیرایہ بیان تھا یا تشریع یعنی قوانین وضع کرنا تھا؟

دعوت مسیح اور دنیا کی حقیقت فراموشی

افسوس ہے کہ انجیل کے معتقدوں اور نکتہ چینوں دونوں نے یہاں ٹھوکر کھائی۔ دونوں اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ تشریع تھی اور اس لیے دونوں کو تسلیم کر لینا پڑا کہ یہ ناقابل عمل احکام ہیں۔ معتقدوں نے خیال کیا کہ اگرچہ ان احکام پر عمل نہیں کیا جا سکتا تاہم مسیحیت کے احکام یہی ہیں اور عملی نقطہ خیال سے اس قدر کافی ہے کہ اقائل عہد میں چند ولیوں او رشہیدوں نے ان پر عمل کر لیا تھا۔ نکتہ چینوں نے کہا کہ یہ سرتاسر ایک نظری اور ناقابل عمل تعلیم ہے اور کہنے میں کتنی ہی خوش نما ہو لیکن عملی نکتہ خیال سے اس کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے۔ یہ فطرت انسانی کے صریح خلاف ہے۔

فی الحقیقت نوع انسانی کی یہ بڑی ہی درد انگیز ناانصافی ہے جو تاریخ انسانیت کے اس عظیم الشان معلم کے جائز رجھی گئی! جس طرح بے درد نکتیہ چینیوں نے اسے سمجھنے کی کوشش نہ کی اسی طرح نادان معتقدوں نے بھی فہم و بصیرت سے انکار کر دیا۔

حضرت مسیح کی تعلیم کو فطرت انسانی کے خلاف سمجھنا تفریق بین الرسل ہے

لیکن کیا کوئی انسان جو قران کی سچائی کا معترف ہو، ایسا خیال کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم فطرت انسانی کے خلاف تھی اور اس لیے ناقابل عمل تھی؟ حقیقت یہ ہے کہ قران کی تصدیق کے ساتھ ایسا منکرانہ خیال جمع نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم ایک لمحے کےلیے بھی اسے تسلیم کر لیں تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم حضرت مسیح کی تعلیم کی سچائی سے انکار کر دیں کیونکہ جو تعلیم فطرت انسانی کے خلاف ہے وہ انسان کے لیے سچی تعلیم نہیں ہوسکتی۔ لیکن ایسا اعتقاد نہ صرف قران کی تعلیم کے خلاف ہوگا بلک ہ اس کی دعوت کی اصل بنیاد ہی متزلزل ہو جائے گی۔ اس کی دعوت کی بنیادی اصل یہ ہے کہ وہ دنیا کے تمام رہنماؤں کی یکساں طور پر تصدیق کرتا اور سب کو خدا کی ایک ہی سچائی کا پیامبر قرا ردیتا ہے۔ وہ کہتا ہے پیروان مذہب کی سب سے بڑی گمراہی تفریق بین الرسل ہے یعنی ایمان و تصدیق کے لحاظ سے خدا کے رسولوں میں تفریق کرنا۔ کسی ایک کو ماننا او ردوسروں کو جھٹلانا یا سب کو ماننا اور کسی ایک کا انکار کر دینا۔ اسی لیے اس نے جا بجا اسلام کی راہ یہ بتلائی ہے کہ:

لَا نُفَرِّ‌قُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ﴿٨٤﴾ 3:84

ہم خدا کے رسولوں میں سے کسی کو بھی دوسروں سے جدا نہیں کرتے (کہ کسی کو مانیں، کسی کو نہ مانیں) ہم تو خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں (اس کی سچائی کہیں بھی آئی ہو اور کسی کی زبانی آئی ہو، ہمارا اس پر ایمان ہے)۔

علاوہ ازیں خود قران کریم نے حضرت مسیح کی دعوت کا یہی پہلو جا بجا نمایاں کیا ہے کہ وہ رحمت و محبت کے پیامبر تھے اور یہودیوں کی اخلاقی خشونت و قساوت کے مقابلے میں مسیحی اخلاق کی رقت و رافت کی بار بار مدح کی ہے۔

وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِّلنَّاسِ وَرَ‌حْمَةً مِّنَّا ۚ وَكَانَ أَمْرً‌ا مَّقْضِيًّا ﴿٢١﴾ 19:21

اور تاکہ ہم اس کو (یعنی مسیح کے ظہور کو) لوگوں کے لیے ایک الہی نشانی اور اپنی رحمت کا فیضان بنائیں اور یہ بات (مشیت الہی میں) طے شدہ تھی۔

وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ رَ‌أْفَةً وَرَ‌حْمَةً 57:27

اور ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے مسیح کی پیروی کی، ہم نے شفقت اور رحمت ڈال دی۔

اس موقع پر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ قران نے جس قدر اوصاف خود اپنی نسبت بیان کیے ہیں پوری فراخ دلی کے ساتھ وہی اوصاف تورات و انجیل کے لیے بھی بیان کیے ہیں۔ مثلا وہ جس طرح اپنے آپ کو ہدایت کرنے ولا، روشنی رکھنے والا، نصیحت کرنے والا، قوموں کا امام، متقیوں کا راہنما قرار دینا ہے ٹھیک اسی طرح پچھلے صحیفوں کو بھی ان تمام اوصاف سے متصف قرار دیتا ہے۔ چنانچہ انجیل کی نسبت ہم جابجا پڑھتے ہیں:

وَآتَيْنَاهُ الْإِنجِيلَ فِيهِ هُدًى وَنُورٌ‌ وَمُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَ‌اةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٤٦﴾ 5:46

اور ہم نے ان کو انجیل دی جس میں ہدایت تھی اور روشنی تھی۔ اور وہ اپنے سے قبل کی کتاب یعنی توراۃ کی تصدیق کرتی تھی اور وہ خدا سے ڈرنے والوں کے لیے سراسر ہدایت اور نصیحت تھی۔

یہ ظاہر ہے کہ جو تعلیم فطرت بشری کے خلاف اور ناقابل عمل ہو وہ کبھی نو ہدایت اور ”موعظۃ اللمتقین“ نہیں ہو سکتی۔

دعوت مسیحی کی حقیقت

اصل یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی ان تمام تعلیمات کی وہ نوعیت نہ تھی جو غلطی سے سمجھ لی گئی اور دنیا میں ہمیشہ انسان کی سب سے بڑی گمراہی اس کے انکار سے نہیں بلکہ کج اندیشانہ اعتراف ہی سے پیدا ہوئی ہے۔

حضرت مسیح کا ظہور ایک ایسے عہد میں ہوا تھا جب کہ یہودیوں کا اخلاقی تنزل انتہائی حد تک پہنچ چکا تھا اور دل کی نیکی اور اخلاق کی پاکیزگی کی جگہ محض ظاہری احکام و رسول کی پرستش، دینداری و خد پرستی سمجھی جاتی تھی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
یہودیوں کے علاوہ جس قدر متمدن قومیں قرب و جوار میں موجود تھیں مثلاً: رومی، مصری، اشوری وہ بھی انسانی رحم و محبت کی روح سے یکسر نا آشنا تھیں۔ لوگوں نے یہ بات تو معلوم کر لی تھی کہ مجرموں کو سزائیں دینی چاہییں لیکن اس حقیقت سے بے بہرہ تھےکہ رحم و محبت اور عفو و بخشش کی چارہ سازیوں سے جرموں اور گناہوں کی پیدائش روک دینی چاہیے۔ انسانی قتل و ہلاکت کا تماشا دیکھنا، طرح طرح کے ہولناک طریقوں سے مجرموں کو ہلاک کرنا، زندہ انسانوں کو درندوں کے سامنے ڈال دینا، اباد شہروں کو بلاوجہ جلا کر خاکستر کر دینا، اپنی قوم کے علاوہ تمام انسانوں کو غلام سمجھنا اور غلام بنا کر رکھنا، رحم و محبت اور حلم و شفقت کی جگہ قلبی قساوت و بے رحمی پر فخر کرنا رومی تمدن کا اخلاقی اور مصری اور آشوری دیوتاؤں کا پسندیدہ طریقہ تھا۔

ضرورت تھی کہ نوع انسانی کی ہدایت کے لیے ایک ہستی مبعوث ہو سرتاسر رحمت و محبت کا پیام ہو اور جو انسانی زندگی کے تمام گوشوں سے قطع نظر کرکے صرف اس کی قلبی و معنوی حالت کی اصلاح و تزکیہ پر اپنی پیغمبرانہ ہمت مبذول کر دے۔ چانچہ حضرت مسیح کی شخصیت میں وہ ہستی نمودار ہو گئی۔ اس نے جسم کی جگہ روح پر، زبان کی جگہ دل پر اور ظاہر کی جگہ باطن پر نوع انسانی کی توجہ دلائی اور انسانیت اعلی کا فراموش شدہ سبق تازہ کر دیا۔

مواعظ مسیح کے مجازات لو تشریع و حقیقت سمجھ لینا سخت غلطی ہے

معمولی سے معمولی کلام بھی بشرطیکہ بلیغ ہو، اپنی بلاغت کے مجازات رکھتا ہے۔ قدرتی طور پر اس الہامی بلاغت کے بھی مجازات تھے جو اس کی تاثیر کا زیور اور اس کی دل نشینی کی خوب روئی ہیں، لیکن افسوس! کہ وہ دنیا جو اقانیم ثلاثہ اور کفارہ جیسے دور از کار عقائد پیدا کر لینے والی تھی، ان کے مواعظ کا مقصد و محل نہ سمجھ سکی اور مجازات کو حقیقت سمجھ کر غلط فہمیوں کا شکار ہو گئی!

انہوں نے جہاں کہیں یہ کہا ہے کہ ’دشمنوں کو پیار کرو‘ تو اس کا یقیناً یہ مطلب نہ تھا کہ ہر انسان کو چاہیے اپنے دشمنوں کا عاشق زار ہو جائے بلکہ سیدھا سادا مطلب یہ تھا کہ تم میں غیظ و غضب اور نفرت و انتقام کی جگہ رحم و محبت کا پرجوش جذبہ ہونا چاہیے اورایسا ہونا چاہیے کہ دوست تو دوست، دشمن تک کے ساتھ عفو و درگزر کے ساتھ پیش آؤ۔ اس مطلب کے لیے کہ رحم کرو، بخش دو، انتقام کے پیچھے نہ پڑو، یہ ایک نہایت بلیغ اور مؤثر پیرایہ بیان ہے کہ ’دشمنوں تک کو پیار کرو ‘۔

ایک ایسے گرد و پیش میں، جہاں اپنوں اور عزیزوں کے ساتھ بھی رحم و محبت کا برتاؤ نہ کیا جاتا ہو یہ کہنا کہ اپنے دشمنوں سے بھی نفرت نہ کرو، رحم و محبت کی ضرورت کا ایک اعلی اور کامل ترین تخیل پیدا کرتا تھا۔

شنیدم کہ مردان راہ خدا
دل دشمناں کہ ہم نہ کردند تنگ
ترا کہ میسر شود ایں مقام
کہ با دوستانت خلاف ست و جنگ

(میں نے تو سنا ہے کہ ”اللہ کے بندے“ دشمنوں پر بھی اپنے دل تنگ نہیں کرتے۔ تجھے یہ رتبہ کیوں کر مل گیا؟ اپنے دوستوں کے ساتھ بھی جنگ و جدل جاری ہے!)

یا مثلاً اگر انہوں نے کہا ”اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا گال بھی آگے کر دو“ تو یقیناً اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ سچ مچ تم اپنا گال آگے کر دیا کرو، بلکہ صریح مطلب یہ تھا کہ انتقام کی جگہ عفو و درگذر کی راہ اختیار کرو۔ بلاغت کلام کے یہ وہ مجازات ہیں جو ہر زبان میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں اور یہ ہمیشہ بڑی ہی جہالت کی بات سمجھی جاتی ہے کہ ان کے مقصود و مفہوم کی جگہسن کے منطوق پر زور دیا جائے۔ اگر ہم اس طرح کے مجازات کو ان کے ظواہر پر محمول کرنے لگیں تو نہ صرف تمام الہامی تعلیمات ہی درہم برہم ہو جائیں گی بلکہ انسان کا وہ تمام کلام جو ادب و بلاغت کے ساتھ دنیا کی تمام زبانوں میں کہا گیا ہے یک قلم مختل ہو جائے گا۔

اعمال انسانی میں اصل رحم و محبت ہے نہ کہ تعزیر و انتقام

باقی رہی یہ بات کہ حضرت مسیح نے سزا کی جگہ محض رحم و درگذر ہی پر زور دیا تو ان کے مواعظ کی اصلی نوعیت سمجھ لینے کے بعد یہ بات 46؎ بھی واضح ہو جاتی ہے۔ بلاشبہ شرائع نے تعزیر و عقوبت کا حکم دیا تھا، لیکن اس لیے نہیں کہ تعزیر و عقوبت فی نفسہ کوئی مستحسن عمل ہے بلکہ اس لیے کہ معیشت انسانی کی بعض ناگزیر حالتوں کے لیے یہ ایک ناگزیر علاج ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک کم درجے کی برائی تھی جو اس لیے گوارا کر لی گئی کہ بڑے درجے کی برائیاں روکی جا سکیں۔ لیکن دنیا نے اسے علاج کی جگہ ایک دل پسند مشغلہ بنا لیا اور رفتہ رفتہ انسان کی تعذیب و ہلاکت کا ایک خوفناک آلہ بن گئی۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسانی قتل و غارت گری کی کوئی ہولناکی ایسی نہیں ہے جو شریعت و قانون کے نام سے نہ کی گئی ہو اور جو فی الحقیقت اسی بدلا لینے اور سزا دینے کے حکم کا ظالمانہ استعمال نہ ہو۔ اگر تاریخ سے پوچھا جائے کہ انسانی ہلاکت کی سب سے بڑی قوتیں میدانہائے جنگ سے باہر کون کون سی رہی ہیں؟ تو یقیناً اس کی انگلیاں ان عالت گاہوں کی طرف اٹھ جائیں گی جو مذہب اور قانون کے نام پر قائم کی گئیں اور جنہوں نے ہمیشہ ہمیشہ اپنے ہم جنسوں کی تعذیب و ہلاکت کا عمل اس کی ساری وحشت انگیزیوں اور ہولناکیوں کے ساتھ جاری رکھا۔ 47؎ پس اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے تعزیر و عقوبت کی جگہ سرتاسر رحم و درگذر پر زور دیا تو اس لیے نہیں تھا کہ وہ نقش تعزیر و سزا کے خلاف کوئی نئی تشریع کرنا چاہتے تھے بلکہ ان کا مقصد یہ تھا کہ اس ہولناک غلطی سے انسان کو نجات دلائیں جس میں تعزیر و عقوبت کے غلو میں مبتلا کر رکھا ہے۔ وہ دنیا کو بتانا چاہتے تھے کہ اعمال انسانی میںاصل عمل رحم و محبت ہے تعزیر و انتقام نہیں ہے۔ اور اگر تعزیر و سیاست جائز رکھی گئی ہے تو صرف اس لیے کہ بطور ایک ناگزیر علاج کے عمل میں لائی جائے، اس لیے نہیں کہ تمہارے دل رحم و محبت کی جگہ سرتاسر نفرت و انتقام کا آشیانہ بن جائیں۔

عمل اور عامل میں امتیاز

دراصل اس بارے میں انسان کی بنیادی غلطی یہ رہی ہے کہ وہ عمل میں اور عامل میں امتیاز قائم نہیں رکھتا۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
حالانکہ جہاں تک مذہب کی تعلیم کا تعلق ہے، اس بات میں کہ ”ایک عمل کیسا ہے“ اور ”کرنے والا کیسا ہے“ بہت بڑا فرق ہے اور دونوں کا حکم ایک نہیں۔ بلاشبہ تمام مذاہب کا یہ عالم گیر مقصد رہا ہے کہ بدعملی اور گناہ کی طرف سے انسان کے دل میں نفرت پیدا کر دیں لیکن انہوں نے کبھی گوارا نہیں کیا کہ خود انسان کی طرف سے انسان کے اندر نفرت پیدا ہو جائے۔ یقینا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ گناہ سے نفرت کرو لیکن یہ کبھی نہیں کہا کہ گنہگار سے نفرت کرو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک طبیب ہمیشہ لوگوں کو بیماری سے ڈراتا رہتا ہے اور بسا اوقات ان کے مہلک نتائج کا ایسا ہولناک نقشہ کھینچ دیتا ہے کہ دیکھنے والے سہم کر رہ جاتے ہیں۔ لیکن یہ تو کبھی نہیں کرتا کہ جو لوگ بیمار ہو جائیں ان سے ڈرنے اور نفرت کرنے لگے یا لوگوں سے کہے؛ ڈرو اور نفرت کرو! اتنا ہی نہیں، بلکہ اس کی تو ساری توجہ اور شفقت کا مرکز بیماری کا وجود ہوتا ہے۔ جو انسان جتنا زیادہ بیمار ہوگا اتنا ہی زیادہ اس کی توجہ اور شفقت کا مستحق ہو جائے گا۔

مرض اور مریض

پس جس طرح جسم کا طبیب بیماریوں کے لیے نفرت، لیکن بیمار کے لیے شفقت اور ہمدردی کی تلقین کرتا ہے، ٹھیک اسی طرح روح و دل کے طبیب بیماریوں کے لیے نفرت لیکن گنہگاروں کے لیے سرتاپا رحمت و شفقت کا پیام ہوتے ہیں۔ یقیناً وہ چاہتے ہیں کہ گناہوں سے جو روح و دل کی بیماریاں ہیں، ہم میں دہشت و نفرت پیدا کریں لیکن گنہگار انسانوں سے نہیں اور یہی وہ نازک مقام ہے جہاں پیرونا مذہن نے ٹھوکر کھائی ہے۔ مذاہب نے چاہا تھا انہیں برائی سے نفرت کرنا سکھائیں لیکن برائی سے نفرت کرنے کی جگہ انہوں نے ان انسانوں سے نفرت کرنا سیکھ لیا جنہیں وہ اپنے خیال میں برائی کا مجرم تصور کرتے ہیں۔

گناہوں سے نفرت کرو گناہ گاروں پر رحم کرو

حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم سرتاسر اسی حقیقت کی دعوت تھی۔ گناہوں سے نفرت کرو مگر ان انسانوں سے نفرت نہ کرو جو گناہوں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ اگر ایک انسان گناہ گار ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کی روح و دل کی تندرستی باقی نہیں رہی، لیکن اگر اس نے بدبختانہ اپنی تبدرستی ضائع کر دی ہے تو تم اس سے نفرت کیوں کرو؟ وہ تو اپنی تبدرستی کھو کر اور زیادہ تمہاری رحمت و شفقت کا مستحق ہو گیا ہے۔ تم اپنے بیمار بھائی کی تیمار داری کرو گے یا اسے جلاد کے تازیانے کے حوالے کر دو گے؟ وہ موقع یاد کرو جس کی تفصیل ہمیں سینٹ لوقا (Saint Luke) کی زبانی معلوم ہوئی ہے۔ جب ایک گناہ گار عورت حضرت مسیح کی خدمت میں آئی اور اس نے اپنے بالوں کی لٹوں سے ان کے پاؤں پونچھے تو اس پر ریاکار فریسیوں (Pharisee) کو (اور ان کی فریسیت Pharisasism کے معنی ہی ریاکاری کے ہو گئے ہیں) سخت تعجب ہوا، لیکن انہوں نے کہا طبیب بیماروں کے لیے ہوتا ہے کہ نا کہ تندرستوں کے لیے۔ پھر خدا اور اس کے گناہگار بندوں کا رشتہ رحمت واضح کرنے کے لیے ایک نہایت مؤثر اور دل نشیں مثال بیان کی: فرض کرو! ایک ساہو کار کے دو قرض دار تھے، ایک پچاس روپیہ کا، ایک ہزار روپیہ کا۔ ساہوکارنے دونوں کا قرض معاف کر دیا۔ بتاؤ! کس قرض دار پر اس کا احسان زیادہ ہوا اور کون اس سے زیادہ محبت کرے گا، وہ جسے پچاس معاف کر دیے گیے یا وہ جسے ہزار۔48؎

نصیب ماست بہشت ای خدا شانس برو
کہ مستحق کرامت گناہ گارانند

(ہمارے نصیب میں بہشت لکھا جا چکا ہے اے خدا شانسو! جاؤ تمہاری محبت کے زیادہ مستحق گناہگار ہیں۔)

یہی حقیقت ہے کہ جس کی طرف بعض ائمہ تابعین نے اشارہ کیا ہے ”انکسار العاصین احب الی اللہ من صولۃ المطیعین“ خدا کو فرماں بردار بندوں کی تمکنت سے کہیں زیادہ گناہگار بندوں کا عجز و انکسار محبوب ہے۔

گدایاں را ازیں معنی خیز نیست
کہ سلطان جہاں با ما ست امروز

(گداگروں کو یہ خبر ہی نہیں کہ: آج دنیا کا بادشاہ ہمارے ساتھ ہے)

قرآن اور گناہ گاروں بندوں کے لیے صدائے تشریف و رحمت

اور پھر یہی حقیقت ہے کہ ہم قرآن میں دیکھتے ہیں کہ جہاں کہیں خدا نے گناہ گار انسانوں کو مخاطب کیا ہے یا ان کا ذکر کیا ہے تو عموماً یائے نسبت کے ساتھ کیا ہے جو تشریف و محبت پر دلالت کرتی ہے۔

قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَ‌فُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ 39:53
أَأَنتُمْ أَضْلَلْتُمْ عِبَادِي 25:17

اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے ایک باپ جوش محبت میں اپنے باپ کو پکارتا ہے تو خصوصیت کے ساتھ اپنے رشتہ پدری پر زور دیتا ہے۔ اے میرے بیٹے! اے میرے فرزند! حضرت امام جعفر صادق نے سورہ زمر کی آیہ رحمت کی تفسیر کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے ”جب ہم اپنی اولاد کو اپنی طرف نسبت دے کر مخاطب کرتے ہیں تو وہ بے خوف و خطر ہماری طرف دوڑنے لگتے ہیں، کیونکہ سمجھ جاتے ہیں کہ ہم ان پر غضب ناک نہیں“، قران میں خدا نے بیس سے زیادہ بیس سے زیادہ موقعوں پر ہمیں ”عبادی“ کہہ کر اپنی طرف نسبت دی ہے اور سخت سے سخت گناہ گار انسانوں کو بھی یٰعبادی کہہ کر پکارا ہے۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر اس کی رحمت و آمرزش کا کوئی پیام ہو سکتا ہے؟

صحیح مسلم کی مشہور حدیث کا مطلب کس طرح واضح ہو جاتا ہے جب ہم اس کی روشنی میں اس کا مطالعہ کرتے ہیں۔

والذی نفسی بیدہ! لو لم تذھبوا لذھب اللہ بکم ولجآ بقوم یذنبون فیستغفرون (مسلم عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ) 50؎
اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم ایسے ہو جاؤ کہ گناہ تم سے سرزد ہی نہ ہو تو خدا تمہیں زمین سے مٹا دے گا اور تمہاری جگہ ایسا دوسرا گروہ پیدا کر دے گا جس کا شیوہ یہ ہو کہ گناہوں میں مبتلا ہو اور پھر خدا سے بخشش و مغفرت کی طلب گاری کرے

فدای شیوہ رحمت کہ در لباس بہار
بعذر خواہی رندا نبادہ نوش آمد

(اس رحیم و کریم کی رحمت پر قربان جاؤں جو لباس بہار میں گنہگار شرابیوں کے پاس عذر خواہی کے لیے آتی ہے!)

اصلاً انجیل اور قران کی تعلیم میں کوئی اختلاف نہیں

پس فی الحقیقت مسیح علیہ السلام کی تعلیم میں اور قران کی تعلیم میں اصلاً کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں کا معیار احکام ایک ہی ہے۔ فرق صرف محل بیان اور پیرائی بیان کا ہے۔ حضرت مسیح نے صرف اخلاق اور تزکیہ قلب پر زور دیا ہے کیونکہ شریعت موسوی موجود تھی اور وہ اس کا ایک نقطہ بھی بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ لیکن قرآن کو اخلاق اور قانون دونوں کے احکام بیک وقت بیان کرنے تھے اس لیے قدرتی طور پر اس نے پیرایہ بیان ایسا اختیار کیا جو مجازات اور متشابہات کی جگہ احکام و قوانین کا صاف صاف جچا تلا پیرایہ بیان تھا۔ اس نے سب سے پہلے عفو درگذر پر زور دیا اور اسے نیک و فضیلت کی اصل قرار دیا۔ ساتھ ہی بدلا لینے اور سزا دینے کا دروازہ بھی کھلا رکھا کہ ناگزیر حالتوں میں اس کے بغیر چارہ کار نہیں۔ لیکن نہایت قطعی اور واضح لفظوں میں بار بار کہہ دیا کہ بدلے اور سزا میں کسی طرح کی نانصافی اور زیادتی نہیں ہونی چاہیے یقیناً دنیا کے تمام نبیوں اور شریعتوں کے احکام کا ماحصل یہی تین اصول رہے ہیں:

وَجَزَاءُ سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا ۖ فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُ‌هُ عَلَى اللَّ۔هِ ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّالِمِينَ ﴿٤٠﴾ وَلَمَنِ انتَصَرَ‌ بَعْدَ ظُلْمِهِ فَأُولَ۔ٰئِكَ مَا عَلَيْهِم مِّن سَبِيلٍ ﴿٤١﴾ إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْ‌ضِ بِغَيْرِ‌ الْحَقِّ ۚ أُولَ۔ٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٤٢﴾ وَلَمَن صَبَرَ‌ وَغَفَرَ‌ إِنَّ ذَٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ‌ ﴿٤٣﴾ 42:40-43

اور (دیکھو!) برائی کے بدلے ویسی ہی اور اتنی ہی برائی ہے۔ لیکن جو کوئی بخش دے اور بگاڑنے کی جگہ سنوار لے تو (یقین کرو!) اس کا اجرا للہ کے ذمے ہے۔ اللہ ان لوگوں کو دوست نہیں رکھتا جو زیادتی کرنے والے ہیں۔ اور جس کسی پر ظلم کیا گیا ہو اور وہ ظلم کے بعد اس کا بدلا لے تو اس پر کوئی الزام نہیں۔ الزام ان لوگوں پر جو انسانوں پر ظلم کرتے ہیں اور ناحق ملک میں فساد کا باعث ہوتے ہیں۔ سو یہی لوگ ہیں جن کے لیے عذاب الیم ہے۔ اور جو کوئی بدلہ لینے کی جگہ برائی برداشت کر جائے اور بخش دے تو یقیناً یہ بڑی ہی اولوالعزمی کی بات ہے۔
 
Top