نبیل
تکنیکی معاون
اور (دیکھو!) انسانوں میں سے کچھ انسان ایسے ہیں جو دوسری ہستیوں کو اللہ کا ہم پلہ بنا لیتے ہیں۔ وہ انہیں اس طرح چاہنے لگتے ہیں جس طرح اللہ کو چاہنا ہوتا ہے حالانکہ جو لوگ ایمان رکھنے والے ہیں ان کی زیادہ سے زیادہ محبت صرف اللہ کے لیے ہی ہوتی ہے۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّ۔هَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّ۔هُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّ۔هُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ 3:31
(اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہہ دو اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو میں تمہیں محبت الہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہو جاؤ گے بلکہ خود اللہ تم سے محبت کرنے لگے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّ۔هُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ﴿٥٤﴾ 5:54
وہ جابجا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ایمان باللہ کا نتیجہ اللہ کی محبت اور محبوبیت ہے۔
اے پیروان دعوت ایمانی! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی راہ سے پھر جائے گا تو وہ یہ نہ سمجھے کہ دعوت حق کو اس کچھ نقصان پہنچے گا۔ عنقریب ایک ساتھ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جنہیں اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور وہ اللہ کو محبوب رکھنے والے ہوں گے۔
جو خدا سے محبت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس کے بندوں سے محبت کرے۔
لیکن بندے کےلیے خدا کی محبت کی عملی راہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ خدا کی محبت کی راہ اس کے بندوں کی محبت میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ جو انسان چاہتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرے اسے چاہیے کہ خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے۔
وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ﴿١٧٧﴾ 2:177
اور جو اپنا مال اللہ کی محبت میں نکالتے اور خرچ کرتے ہیں۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّ۔هِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾ 76:8-9
اور اللہ کی محبت میں وہ مسکینوں یتمیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ محض اللہ کے لیے ہے، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلا چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکر گزاری۔
ایک حدیث قدسی میں یہی حقیقت نہایت مؤثر انداز میں واضح کی گئی ہے۔
یا ابن آدم! مرضت مرضت فلم تعدنی۔ قال: کیف اعودک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ؟ اما علمت انک لو عدتہ لو ججتنی عندہ؟ یا بن آدم! اسطعمتک فلم تطعمنی! قال: یا رب کیف اطعمک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت انک لو اطعمتہ لو جدتذلک عندی؟
(قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ خدا ایک انسان سے کہے گا) اے ابن آدم! میں بیمار ہو گیا تھا مگر تو نے میری بیمار پرسی نہ کی! بندہ متعجب ہو کر کہے گا بھلا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے اور تو تو رب العالمین ہے! خدا فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ تیرے قریب بیمار ہو گیا تھا اور تو نے اس کی خبر نہیں لی تھی؟ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اسی طرح خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا! بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا کہ تجھے کسی بات کی احتیاج ہو؟ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بھوکے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار دیا تھا؟ اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
یا ابن آدم! استقیتک فلم تسقنی۔ قال: کیف استقیک وانت رب العالمین؟ قال: استقاک عبدی فلان فلم تسقہ۔ اما انک لو سقیتۃ لو جدت ذلک عندی۔ (مسلم عن ابی ہریرہ) 41
ایسے ہی خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرےگا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تجھے پیاس لگے، تو تو خود پروردگار ہے؟ خدا فرمائےگا: میرے فلاں پیاسے بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
اعمال و عبادات اور اخلاق و خصائل
اسی طرح قرآن نے اعمال و عبادات کی جو شکل و نوعیت قرار دی ہے، اخلاق و خصائل میں سے جن جن باتوں پر زور دیا ہے، اوامر و نواہی میں جو اصول و مبادی ملحوظ رکھے ہیں ان سب میں بھی یہی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہ چیز اس درجہ واضح و معلوم کہ بحث و بیان کی ضرورت نہیں۔
قرآن سرتاسر رحمت الہی کا پیام ہے
اور پھریہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت سے نہیں دہرایا اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے، جس قدر رحمت ہے، اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں رحمت کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زیادہ مقامات ہوں گے۔ اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کر لیے جائیں جہاں اگرچہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے لیکن اس کاتعلق رحمت سے ہی ہے مثلاً روببیت، مغفرت، رافت، کرم و حلم، عفو وغیرہ تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اول سے لے کر آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الہی کا پیغام ہے۔
بعض احادیث باب
ہم اس موقع پر وہ تمام تصریحات قصداً چھوڑ رہے ہیں جن کا ذکر ذخیرہ احادیث میں موجود ہے، کیونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل و بحث کا متحمل نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی جو حقیقت ہمیں بتائی وہ تمام تر یہی ہے کہ خدا کی موحدانہ پرستش اور اس کے بندوں پر شفقت و رحمت! ایک مشہور حدیث جو ہر مسلمان واعظ کی زبان پر ہے ہمیں بتلاتی ہے کہ ”انما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء“ 42۔ خدا کی رحمت انہی بندوں کے لیے ہے جو اس کے لیے بندوں کے لیے رحمت رکھتے ہیں۔
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّ۔هَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّ۔هُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ۗ وَاللَّ۔هُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٣١﴾ 3:31
(اے پیغمبر! ان لوگوں سے) کہہ دو اگر واقعی تم اللہ سے محبت رکھنے والے ہو تو چاہیے کہ میری پیروی کرو میں تمہیں محبت الہی کی حقیقی راہ دکھا رہا ہوں۔ اگر تم نے ایسا کیا تو صرف یہی نہیں ہوگا کہ تم اللہ سے محبت کرنے والے ہو جاؤ گے بلکہ خود اللہ تم سے محبت کرنے لگے گااور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ اور اللہ بخشنے والا رحمت والا ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَن يَرْتَدَّ مِنكُمْ عَن دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّ۔هُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ ﴿٥٤﴾ 5:54
وہ جابجا اس حقیقت پر زور دیتا ہے کہ ایمان باللہ کا نتیجہ اللہ کی محبت اور محبوبیت ہے۔
اے پیروان دعوت ایمانی! اگر تم میں سے کوئی شخص اپنے دین کی راہ سے پھر جائے گا تو وہ یہ نہ سمجھے کہ دعوت حق کو اس کچھ نقصان پہنچے گا۔ عنقریب ایک ساتھ وہ ایسے لوگوں کو پیدا کر دے گا جنہیں اللہ کی محبت حاصل ہوگی اور وہ اللہ کو محبوب رکھنے والے ہوں گے۔
جو خدا سے محبت کرنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ اس کے بندوں سے محبت کرے۔
لیکن بندے کےلیے خدا کی محبت کی عملی راہ کیا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ خدا کی محبت کی راہ اس کے بندوں کی محبت میں سے ہو کر گزرتی ہے۔ جو انسان چاہتا ہے کہ خدا اس سے محبت کرے اسے چاہیے کہ خدا کے بندوں سے محبت کرنا سیکھے۔
وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ﴿١٧٧﴾ 2:177
اور جو اپنا مال اللہ کی محبت میں نکالتے اور خرچ کرتے ہیں۔
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا ﴿٨﴾ إِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللَّ۔هِ لَا نُرِيدُ مِنكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ﴿٩﴾ 76:8-9
اور اللہ کی محبت میں وہ مسکینوں یتمیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا کھلانا اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ محض اللہ کے لیے ہے، ہم تم سے نہ تو کوئی بدلا چاہتے ہیں نہ کسی طرح کی شکر گزاری۔
ایک حدیث قدسی میں یہی حقیقت نہایت مؤثر انداز میں واضح کی گئی ہے۔
یا ابن آدم! مرضت مرضت فلم تعدنی۔ قال: کیف اعودک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت ان عبدی فلانا مرض فلم تعدہ؟ اما علمت انک لو عدتہ لو ججتنی عندہ؟ یا بن آدم! اسطعمتک فلم تطعمنی! قال: یا رب کیف اطعمک وانت رب العالمین؟ قال: اما علمت انک لو اطعمتہ لو جدتذلک عندی؟
(قیامت کے دن ایسا ہوگا کہ خدا ایک انسان سے کہے گا) اے ابن آدم! میں بیمار ہو گیا تھا مگر تو نے میری بیمار پرسی نہ کی! بندہ متعجب ہو کر کہے گا بھلا ایسا کیونکر ہو سکتا ہے اور تو تو رب العالمین ہے! خدا فرمائے گا کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ تیرے قریب بیمار ہو گیا تھا اور تو نے اس کی خبر نہیں لی تھی؟ اگر تو اس کی بیمار پرسی کے لیے جاتا تو مجھے اس کے پاس پاتا۔ اسی طرح خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا مگر تو نے نہیں کھلایا! بندہ عرض کرے گا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا کہ تجھے کسی بات کی احتیاج ہو؟ خدا فرمائے گا کہ کیا تجھے یاد نہیں کہ میرے فلاں بھوکے بندے نے تجھ سے کھانا مانگا تھا اور تو نے انکار دیا تھا؟ اگر تو اسے کھلاتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
یا ابن آدم! استقیتک فلم تسقنی۔ قال: کیف استقیک وانت رب العالمین؟ قال: استقاک عبدی فلان فلم تسقہ۔ اما انک لو سقیتۃ لو جدت ذلک عندی۔ (مسلم عن ابی ہریرہ) 41
ایسے ہی خدا فرمائے گا اے ابن آدم! میں نے تجھ سے پانی مانگا مگر تو نے مجھے پانی نہ پلایا۔ بندہ عرض کرےگا بھلا ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ تجھے پیاس لگے، تو تو خود پروردگار ہے؟ خدا فرمائےگا: میرے فلاں پیاسے بندے نے تجھ سے پانی مانگا لیکن تو نے اسے پانی نہ پلایا۔ اگر تو اسے پانی پلا دیتا تو اسے میرے پاس پاتا۔
اعمال و عبادات اور اخلاق و خصائل
اسی طرح قرآن نے اعمال و عبادات کی جو شکل و نوعیت قرار دی ہے، اخلاق و خصائل میں سے جن جن باتوں پر زور دیا ہے، اوامر و نواہی میں جو اصول و مبادی ملحوظ رکھے ہیں ان سب میں بھی یہی حقیقت کام کر رہی ہے اور یہ چیز اس درجہ واضح و معلوم کہ بحث و بیان کی ضرورت نہیں۔
قرآن سرتاسر رحمت الہی کا پیام ہے
اور پھریہی وجہ ہے کہ قرآن نے خدا کی کسی صفت کو بھی اس کثرت سے نہیں دہرایا اور نہ کوئی مطلب اس درجہ اس کے صفحات میں نمایاں ہے، جس قدر رحمت ہے، اگر قرآن کے وہ تمام مقامات جمع کیے جائیں جہاں رحمت کا ذکر کیا گیا ہے تو تین سو سے زیادہ مقامات ہوں گے۔ اگر وہ تمام مقامات بھی شامل کر لیے جائیں جہاں اگرچہ لفظ رحمت استعمال نہیں ہوا ہے لیکن اس کاتعلق رحمت سے ہی ہے مثلاً روببیت، مغفرت، رافت، کرم و حلم، عفو وغیرہ تو پھر یہ تعداد اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ کہا جا سکتا ہے کہ قرآن اول سے لے کر آخر تک اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ رحمت الہی کا پیغام ہے۔
بعض احادیث باب
ہم اس موقع پر وہ تمام تصریحات قصداً چھوڑ رہے ہیں جن کا ذکر ذخیرہ احادیث میں موجود ہے، کیونکہ یہ مقام زیادہ تفصیل و بحث کا متحمل نہیں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قول و عمل سے اسلام کی جو حقیقت ہمیں بتائی وہ تمام تر یہی ہے کہ خدا کی موحدانہ پرستش اور اس کے بندوں پر شفقت و رحمت! ایک مشہور حدیث جو ہر مسلمان واعظ کی زبان پر ہے ہمیں بتلاتی ہے کہ ”انما یرحم اللہ من عبادہ الرحماء“ 42۔ خدا کی رحمت انہی بندوں کے لیے ہے جو اس کے لیے بندوں کے لیے رحمت رکھتے ہیں۔