امیر شریعت سیّد عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور سیّد سبط حسن کی یادیں، مجاہد الحسینی

برصغیر پاک و ہند کے باشندوں نے انقلاب و تغیر کی لہروں کا مختلف صورتوں میں مشاہدہ کیا ہے....وہ بھی ایک انقلاب تھا کہ ہندوستان کا وسیع خطہءارض پاکستان اور بھارت کے نام سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ مادّی انقلاب کے دوش بدوش فکرو نظر اور عقائد و خیالات کو بھی انقلابی لہروں نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور رفتہ رفتہ ” جو تھا، ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا“ کے مشاہدات بھی نظر نواز ہوئے....ویسے تو یہ بھی حیران کن انقلاب ہے کہ لاہور کی پوش آبادی میں جہاں پر ”سنٹرل جیل“ کی تاریخی اور قدیم تعمیرات تھیں، جہاں جیل خانے کا خوفناک مین گیٹ تھا، جہاں پر تحریک آزادی میں حصہ لینے کی پاداش میں ہندوستانیوں کو ٹکٹکی سے باندھ کران کے جسم کے حصہءاسفل کا گوشت پوست کوڑوں کی بوچھاڑ سے اُڑایا جاتا تھا، جہاں پر پھانسی خانہ، سیاست خانہ، بم کیس وارڈ، شاہی احاطہ، دیوانی احاطہ اور نامعلوم کون کون سے وارڈ اور بارکیں اس مقام پر تعمیر تھیں، وہاں اس وقت شادمان کالونی آباد ہے۔ لاہور سنٹرل جیل اس تاریخی شہر کی آخری جیل تھی جو ان دنوں وسعت پذیر شہری آباد کے ساتھ کوٹ لکھپت کے قریب منتقل ہوگئی ہے۔
لاہور سنٹرل جیل کے آخری قیدیوں میں 1953ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران ملک کی نامور اور عظیم مرتبے کی شخصیات بھی پس دیوار زنداں تھیں۔ ان میں مولانا ابوالحسنات سید محمد احمد قادری خطیب مسجد وزیر خاں لاہور، صدر مجلس عمل امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاری، سید ابو الاعلیٰ مودودی، مولانا عبدالحامد بدایونی، بانی صدرجمعیت علمائے پاکستان کراچی، ماسٹر تاج الدین انصاری صدر مجلس احرار اسلام پاکستان، شیخ حسام الدین سیکرٹری جنرل مجلس احرار، مولانا امین احسن اصلاحی، میاں طفیل محمد، نعیم صدیقی، کوثر نیازی، عبدالستار خاں نیازی، مولانا غلام محمد ترنم خطیب جامع مسجد سول سیکرٹریٹ لاہور، شیخ التفسیر مولانا احمد علی، امیر انجمن خدام الدین لاہور، مولانا اختر علی خان، ایڈیٹر روزنامہ زمیندار لاہور، شیخ الحدیث مولانا محمد اسماعیل سلفی، ناظم اعلیٰ جمعیت اہلحدیث پاکستان، حضرت مولانا خان محمد کندیاں (ان دنوں قاضی احسان احمد شجاع آبادی امیر مجلس ختم نبوت تھے) مولانا محمد علی جالندھری، صاحبزادہ سید فیض الحسن سجادہ نشین آلو مہار شریف، راو¿ مہروز اختر نیشنل عوامی پارٹی اور راقم الحروف مجاہد الحسینی ایڈیٹر روزنامہ آزاد لاہور اور دیگر عظیم شخصیات تحریک ختم نبوت میں حصہ لینے کی پاداش میں مختلف وارڈوں اور احاطوں میں پسِدیوار زنداں تھیں۔
حضرت امیر شریعت اور مولانا الو الحسنات کی رفاقت میں ہمیں دیوانی احاطے میں رکھا گیا تھا۔ جیل خانے کے لیل و نہار اور وہاں کی سرگرمیاں ہر ایک کے اپنے ذوق کے مطابق ہوتی ہیں۔ لاہور سنٹرل جیل کے تمام وارڈ اور احاطے تحریکی قیدیوں سے پُر ہو چکے تھے۔ بعض قیدیوں کو شامیانوں میں رکھا گیا تھا....جن ابتدائی دنوں میں مجھے جیل کے بم کیس وارڈ میں رکھا گیا تھا، ان دنوں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل اور چند قیدی مجھ سے با ترجمہ و تفسیر قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے تھے....(یاد رہے کہ یہ بم وارڈ انگریزی دور حکومت میں بھگت سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے لئے بنایا گیا تھا، جسے متحدہ پنجاب کے وزیر جیل خانہ جات بھیم سین سچر نے نئے انداز میں تعمیر کرایا تھا)....بہر نوع، جب شیخ حسام الدین گرفتار کئے گئے تھے تو ان کی جیل میں آمد پر مجھے بم کیس وارڈسے دیوانی احاطے میں منتقل کر دیا گیا تھا۔ چند روز کے بعد نامور اہل قلم سید سبط حسن بھی سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار دیوانی احاطے میں آگئے تھے۔
وہاں استادی، شاگردی کے ادب و آداب کے تحت اربابِ جیل نے خصوصاً ہمارے لئے چار پائیوں کا انتظام کر دیا تھا، چونکہ رات کے مرحلے میں کسی نئے قیدی کے لئے چار پائی کا فوراً انتظام مشکل تھا، سید سبط حسن ہم زندانیوں میں سے کسی سے بھی متعارف نہیں تھے، مَیں نے ان کی کتاب ”موسیٰ سے مارکس تک“ کا مطالعہ کیا تھا، نیز روزنامہ امروز میں ان کے مضامین شریک اشاعت ہوتے رہتے تھے، اس لئے مَیں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ان کا خیر مقدم کیا، اپنا تعارف کرایا تو انہوں نے میری بابت احمد ندیم قاسمی اور حمید ہاشمی (نواسہ مولانا احمد سعید دہلوی) مدیرانِ امروز سے جو چند اچھے کلمات سنے ہوں گے، اس لئے ان کے حوالے سے کہا کہ آپ سے غائبانہ تو متعارف تھا، آج ملاقات سے مسرت ہوئی اور وہ بھی جیل خانے میں۔ اس پر مَیں نے کہا:”دُنیا میں جیل ٹھکانہ ہے آزاد منش انسانوں کا“.... مصرعہ سنتے ہی متانت آمیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا: خوب، اچھا ذوق ہے، پھر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ اور دوسرے بزرگوں سے ان کا تعارف کرایا، تو انہوں نے بھی دعائیہ کلمات کے ساتھ سبط حسن صاحب کا خیر مقدم کیا، اس وقت جیل کے اس مسافر خانے میں جو کچھ میسر تھا، پیش کیا، چائے نوشی کے دوران مَیں نے فتح دین نامی مشقتی سے سرگوشی کی صورت میں کہا کہ میری چارپائی پر سبط حسن صاحب کا بستر بچھا دو اور میرا بستر گارڈینا کی اوٹ میں زمین پر بچھا دیا جائے، جس کی تعمیل کی گئی:
سبط حسن کے ساتھ خط و کتابت
بعد ازیں ہم اپنے معمولات و عبادات سے فارغ ہو کر اپنے بستروں کی جانب راغب ہوئے اور سبط حسن صاحب کو ان کی آرام گاہ کی نشان دہی کی گئی تو انہوں نے دیگر حضرات کے ساتھ میری چار پائی مفقود دیکھ کر مشقتی سے دریافت کیا وہ کہاں ہے؟....اس نے گارڈینے کی اوٹ میں، اشارے کے ساتھ نشان دہی کی تو سبط حسن صاحب نے میرے پاس آتے ہی مستعّجب ہو کر کہا: یہ کیا؟ مَیں نے کہا، میری کمر میں کھچاو¿ محسوس ہوتا ہے، زمین پر لیٹنے سے راحت ملے گی۔ بایں ہمہ، سبط حسن صاحب نے مجھے اپنی چار پائی پر آرام کرنے پر اصرار کیا، مگر میرا عذر غالب آگیا اور مَیں نے انہیں بازو سے پکڑ کر چار پائی پر بٹھا دیا، چنانچہ حُسنِ خُلق کا یہی مظاہرہ میرے اور سید سبط حسن کے درمیان گہرے تعلق خاطر کا موجب بن گیا تھا۔ پھر ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل امتیاز نقوی کے ساتھ وہ بھی حصول تعلیم قرآن کی سعادت پر آمادہ ہوگئے تھے، چنانچہ انہیں ابتدائی تعلیم عربی کی چھوٹی کتب سے متعارف کرایا گیا، حتیٰ کہ آیات قرآن کے ترجمے اور بعد ازاں عربی گفتگو میں دسترس اور مہارت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اسی دوران مَیں نے ان سے انگریزی زبان کی تعلیم پانے کا آغاز کیا، جس پر ہم دونوں میں استاد، شاگرد کا تعلق استوار ہوگیا تھا، چنانچہ ایک سال ہم نے اپنے لیل ونہار کیسے گزارے۔ اس سلسلے کی معلومات مَیں نے اپنی زیر طبع کتاب ”آخری جیل کے آخری قیدی“ میں فراہم کرنے کی کوشش کی ہے۔
1953ءکی تحریک ختم نبوت کے دوران صرف علماءاور مشائخ ہی نہیں، بلکہ زندگی کے ہر شعبے سے متعلق حضرات عقیدئہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی خاطر مختلف جیل خانوں میں قید تھے۔ خود مسلم لیگ کے اراکین اسمبلی بھی تحریک کے موئیدین میں شامل اور پابند جیل کر دئیے گئے تھے، جن میں سے مولانا عبدالستار خاں نیازی، رانا غلام صابر اوکاڑہ، میاں منظور حسین گوجرانوالہ، قاضی مرید احمد سرگودھا کے نام قابل ذکر ہیں۔ قید خانے سے سال کے بعد ہماری تو رہائی عمل میں آگئی تھی، لیکن سید سبط حسن چونکہ سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار تھے، وہ ہمارے اسی دیوانی احاطے میں خان عبدالغفار اور فیض احمد فیض کے ساتھ قیدی رہ چکے تھے اور تحریک کے قیدیوں کی آمد پر انہیں منٹگمری جیل میں چند ماہ کے لئے رکھا گیا تھا۔ بعد ازاں جب وہاں بھی تحریک کے قیدیوں کی کثرت ہوگئی تو انہیں پھر لاہور جیل میں منتقل کر دیا گیا۔ اپنی رہائی کے چند روز بعد ہی مَیں نے سبط حسن صاحب کے ساتھ خط و کتابت کے ذریعے خیر خیریت دریافت کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ نیز کام و دہن کے لئے مَیں نے گھر میں ہی انڈوں اور بیسن وغیرہ سے تیار کردہ بسکٹ نما میٹھی روٹیاں اور چند کتب جیل میں بھجوا دی تھیں، جنہیں وصول کر کے سبط حسن صاحب نے میرے نام جو خطوط لکھے تھے ، اُن کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے!
لاہور سنٹرل جیل!
استاد محترم! سلام شوق، خوشی اور حیرت سے ملے ہوئے جذبات کے ساتھ آپ کا خط پڑھا، یقین جانیں، آپ پہلے دوست ہیں جس نے جیل سے رہا ہونے کے بعد اتنی جلد ہم ”اسیرانِ قفس“ کو یاد کیا ہو اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ جیل میں خط پا کر کتنی خوشی ہوتی ہے۔ بھائی! آپ کے جانے کے بعد ”دیوانی گھر“ کی فضا بالکل سنسان ہوگئی ہے، آپ کے دلچسپ فقرے، آپ کی باتیں، آپ کی ہنسیاں غرض آپ کی ساری ادائیں رہ رہ کر اور بار بار یاد آتی ہیں۔ آپ کے جانے کے بعد تین چار دن تک تو مَیں نے عربی کی کتابیں اٹھا کر بھی نہیں دیکھیں، اب طبیعت پر زور دے کر اور جبر کر کے پڑھائی پھرشروع کی ہے۔ استاد مولانا محمد علی صاحب ہیں جو ان دنوں روزے رکھ رہے ہیں، یہاں کے لیل و نہار بدستور ہیں، البتہ ”تسلیات عامہ“ کا بڑا زور ہے۔ دوستوں کی رہائی کی افواہیں گرم ہیں، سب کی نگاہیں روزنِ در پر لگی رہتی ہیں، اللہ اپنا فضل کرے، (خط کا اقتباس) سبط حسن 24-11-1953۔ اسی طرح ایک دوسرے خط میں لاہور سنٹرل جیل ہی سے لکھاکہ:
رفیقی و حبیبی سلامِ شوق، المنجد اور میٹھی روٹیاں ملیں۔ ایک نے دیدئہ عقل کو روشن کیا تو دوسری نے کام و دہن کو لذت بخشی۔ بھائی! آپ کا اور آپ کی پُر خلوص محبتوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے الفاظ کہاں سے لاو¿ں۔ صبح چار بجے اٹھتا ہوں، چائے کے ساتھ میٹھی روٹیاں خوب مزہ دیتی ہیں، کھاتاہوں اور بھابھی کو دعائیں دیتا ہوں ، پھر عربی پڑھتا ہوں اور المنجد کی ورق گردانی کرتا ہوں۔ میٹھی روٹیوں کے بارے میں شاہ صاحب کا فرمانا ہے کہ ان کے مقابلے میں ”محکم دین لاہور“ کے بسکٹ گوبر کے اُپلے معلوم ہوتے ہیں۔ بہرحال ہم قیدی، مہاجر اور یتیم و اسیر اور سید۔ آپ لوگوں کے جان و مال کو دعا دیتے ہیں، امید ہے آپ یونہی دولت کی زکوٰة نکالتے رہیں گے....(خط کا اقتباس).... غرض یہ کہ سید سبط حسن کے جو خطوط میرے نام ہیں۔ ان میں لاہور سنٹرل جیل کے علاوہ کیمبل پور جیل اور لاہور شہر سے بھی ہیں۔ مندرجہ بالا خط میں ”تسلّیات عامہ“ کا ذکر ہے، اس جملے کا پس منظر یہ ہے کہ اس تحریک میں دیگر قیدیوں کے ساتھ کئی پہلی مرتبہ آئے تھے، ان میں سے ایک صاحب ایسے تھے جو اپنی بارک سے مجھے ملنے آئے تو بار بار جیل سے رہائی کی بابت حکومتی فیصلے کا تذکرہ کرتے رہے، ہاں ہاں کہہ کر مَیں بھی ان کی تائید کرتا رہا، ان کی واپسی کے بعد سبط صاحب نے دریافت کیا۔ یہ کون صاحب تھے۔
مَیں نے کہا یہ محکمہ تسّلیات عامہ کے ڈائریکٹر ہیں، نیز حکومت نے بھی سی آئی ڈی کے افراد، قیدی کی صورت میں لوگوں کو دلبرداشتہ کرنے کے لئے بھیج رکھے تھے۔ میری بات سن کر سبط حسن صاحب کھل کھلاکر خندہ ز ن ہوگئے، نئی اصطلاح کی خوب داد دی تھی، بہر نوع سبط حسن صاحب نے میرے نام خطوط کے علاوہ امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کے نام لکھے گئے، خط کا بھی تذکرہ کرتے ہوئے خاص طور سے ان کی صحت و عافیت معلوم کی ہے۔ یہاں پر مضمون کے خوف طوالت کے پیش نظر رہائی کے بعد شاہ صاحب کی سید سبط حسن صاحب کی تیمار داری کا تذکرہ کر کے سلسلہءتحریر ختم کئے دیتا ہوں۔ لاہور جیل سے رہائی کے بعد سید سبط حسن مطبوعات پاکستان ٹائمز و امروز کے نئے ہفت روزہ لیل و نہار کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے تھے ....جب حکومت نے ادارے کی تمام مطبوعات جبراً بند کر دیں تو سبط حسن صاحب ایک انشورنس کمپنی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کرنے لگے، ایک نامور ادیب صحافی اور دانشور کے لئے انشورنس کا شعبہ کرب ناک تھا، معاشی تنگ دامانی نے قلب و دماغ پر گہرا اثر چھوڑا کہ صاحبِ قلم، صاحب فراش ہوگیا۔ ان کی ناسازیءطبع کی خبر سن کر مَیں نے حضرت امیر شریعت سید عطاءاللہ شاہ بخاریؒ کی خدمت میں اس کا ذکر کیا تو سنتے ہی فرمایا:”جیل کے ساتھی سبط حسن“ کی تیمار داری کے لئے ابھی جانا چاہئے.... شاہ صاحب ان دنوں لاہور کے علاقے بادامی باغ میں حاجی دین محمد کے ہاں مقیم تھے، حاجی صاحب کے فرزند حاجی احمد کی گاڑی میں ہماری روانگی ہوئی۔ شاہ صاحب کے فرزند علامہ سید ابوذر بخاری بھی ہمراہ تھے۔ راستے میں شاہ صاحب نے سبط حسن کی رہائش گاہ کی بابت معلوم کیا تو مَیں نے اُس کے محل و وقوع کی بابت معلومات دیتے ہوئے عرض کیا.... میکلوڈ روڈ پر واقع علامہ اقبال کی سابقہ رہائش گاہ کی گلی میں دفتر روزنامہ ”کوہستان“ کے اوپر واقع کمیونسٹ پارٹی کے دفتر میں سبط حسن رہائش پذیر ہیں۔
یہ سن کر شاہ صاحب نے خاموشی اختیار کی، اتنے میں ہم دفتر کوہستان کے دروازے پر پہنچ گئے تو دفتر کے عملے نے شاہ صاحب کو دیکھتے ہی والہانہ جذبے اور عقیدت و احترام کے ساتھ شاہ صاحب کا استقبال کیا۔ اپنے دفتر کے کمرے سے نسیم حجازی صاحب ایڈیٹر کوہستان بھی آگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ شاہ صاحب دفتر کوہستان دیکھنے آئے ہیں۔ اس لئے ساتھ ہو کر پورے دفتر کا مشاہدہ کرایا۔ آخر میں شاہ صاحب نے میری جانب متوجہ ہو کر اشارتاً سبط حسن کی بابت دریافت کیا۔ مَیں نے اوپری منزل کی جانب اشارہ کیا تو نسیم حجازی صاحب فوراً بول پڑے۔ اوپر تو کمیونسٹ پارٹی کا دفتر ہے....شاہ صاحب! ہاں مجھے معلوم ہے ، مجھے مکان سے نہیں، مکین سے غرض ہے۔ مکین اگر جہنم کے کنارے پر بھی ہوگا، تو مَیں اسے بچانے کی کوشش کروں گا“۔ پھر شاہ صاحب کو سہارا دیتے ہوئے ہم اوپر کی منزل پر لے گئے۔
سید سبط حسن بیماری اور ضعف کے باعث مضمحل سامنے چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ شاہ صاحب کو اچانک اپنے دفتر میں دیکھ کر والہانہ انداز میں اٹھ کر شاہ صاحب کا مو¿دبانہ خیر مقدم کرتے ہوئے کہا: شاہ صاحب! آپ نے اس بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں کیوں زحمت اٹھائی اور میری جانب متوجہ ہو کر کہا، آپ مجھے حکم دیتے ہم شاہ صاحب کی خدمت میں حاضری کی سعادت پاتے۔ آپ حضرات کی تشریف آوری میرے لئے ناقابل فراموش سعادت ہے۔ سبط حسن کی آواز گلوگیر تھی، آنکھیں اشک آلود اور ہونٹوں میں کپکپاہٹ تھی، بعد ازیں چند ماہ بعد اچانک یہ اندوہناک خبر سنی کی سید سبط حسن بھی داغ مفارقت دے کر اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں....خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں۔
حضرت امیر شریعتؒ کا اس تیمار داری پر اظہار خیال سن کر مجھے حضرت محسن انسانیتﷺ کی تیمار داری کا ایمان افروز اسوئہ حسنہ یاد آگیا کہ ایک یہودی لڑکا روزانہ حضور رحمة اللعالمین علیہ الصلوة والسلام کی خدمت اقدس میں حاضری کی سعادت پایا کرتا تھا، وہ بیمار ہوگیا اور اس کی نازک صورت حال کی بابت حضور کو اطلاع دی گئی تو حضور بنفس نفیس تیمار داری کے لئے لڑکے کی رہائش گاہ پر رونق افروز ہوئے۔ لڑکا حضور کا چہرئہ انور دیکھ کر خوش ہوا۔ حضور نے لڑکے کو کلمہ پڑھنے کی تلقین کی، لڑکے نے باپ کی جانب متوجہ ہو کر اشارے کے ساتھ ہی جواب کی بابت دریافت کیا۔ حضور نے پھر کلمہ پڑھنے کی تلقین کی، لڑکے نے پھر اپنے باپ کی جانب دیکھا۔ باپ نے کہا، اللہ کے بڑے پیغمبر کا حکم مان لو، اس پر لڑکے نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تو حضور محسن انسانیتﷺ نے فرمایا:الحمدللہ، اللہ نے اس لڑکے کو جہنم سے بچا لیا اور جنت میں اعلیٰ مقام عطا کر دیا ہے۔ ٭

05 جنوری2013
کالم نگار مجاہد الحسینی روزنامہ پاکستان
 
Top