امیر خسرو اِک ہمہ گیر شخصیت

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
امیر خسرو آج سے سات سو برس قبل پیدا ہوئے تھے لیکن اقلیم سخن میں اور خاص و عام کے دلوں پر ان کی حکمرانی آج تک قائم ہے اور ان کی تخلیقات کے سکے ابھی تک فن کی دنیا میں رائج ہیں ۔ ہماری قومی زبان اُردو کی تاریخ کے ڈانڈے یوں تو سعدِ سلمان لاہوری (عہدِ غزنوی) اور بابا فرید شکر گنج سے مل جاتے ہیں لیکن حضرت امیر خسرو اُردو زبان کے باوا آدم تصور کئے جاتے ہیں اور کس قدر حیرت کی بات ہے کہ وہ دو سخنے ، وہ پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں جو انھوں نے سات صدیوں قبل کہی تھی ہماری زبان میں آج تک بغیر کسی ردوبدل کے گھر گھر مقبول ہیں اور وہ کونسی ہندوپاک کی شادی کی تقریب ہے جہاں لڑکی کی رخصتی کے وقت آج بھی یہ گیت نہیں گایا جاتا۔

کاہے کو بیاہی بدیس
او لکھی بابل مورے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
اور وہ کون سی لڑکیوں اور معمر خواتین کی مجلس ہوتی ہے جہاں امیر خسرو کا نام پہیلیوں اور کہہ مکرنیوں کے سلسلے میں نہ آجاتا ہواور ان کے لطیفے ایک دوسرے کو سنا کر خوشوقت نہ ہوتے ہوں۔

امیر خُسرو کی زندگی اتنی پہلودار اس قدر بھر پُور ہے کہ اُسے حد درجے زرخیز زمین کی مثال دی جاسکتی ہے۔ جس طرح زمین اپنے اندر تخلیق کے بے شمار امکانات کو چھپائے رکھتی ہے۔ جس طرح اُس کے بطن سے ہر نوع کی اشیاء پیدا ہوتی رہتی ہیں لیکن اس کی زرخیزی میں کمی نہیں آتی یہی کیفیت امیر خسرو کی نظر آتی ہے۔ ان کے سدا بہار ذہن کی زرخیزی اور ہمہ گیری کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ ان کی شخصیت اپنے عظیم ذہنِ رسا کی بدولت اتنی رنگا رنگ نظر آتی ہے کہ کسی ایک انسان میں اتنے تخلیقی اوصاف کا بدرجہ کمال پایا جانا ایک معجزے سے کسی عنوان کم نہیں ہے۔
 
Top