امیر خسرو آج سے سات سو برس قبل پیدا ہوئے تھے لیکن اقلیم سخن میں اور خاص و عام کے دلوں پر ان کی حکمرانی آج تک قائم ہے اور ان کی تخلیقات کے سکے ابھی تک فن کی دنیا میں رائج ہیں ۔ ہماری قومی زبان اُردو کی تاریخ کے ڈانڈے یوں تو سعدِ سلمان لاہوری (عہدِ غزنوی) اور بابا فرید شکر گنج سے مل جاتے ہیں لیکن حضرت امیر خسرو اُردو زبان کے باوا آدم تصور کئے جاتے ہیں اور کس قدر حیرت کی بات ہے کہ وہ دو سخنے ، وہ پہیلیاں اور کہہ مکرنیاں جو انھوں نے سات صدیوں قبل کہی تھی ہماری زبان میں آج تک بغیر کسی ردوبدل کے گھر گھر مقبول ہیں اور وہ کونسی ہندوپاک کی شادی کی تقریب ہے جہاں لڑکی کی رخصتی کے وقت آج بھی یہ گیت نہیں گایا جاتا۔
کاہے کو بیاہی بدیس
او لکھی بابل مورے