امیر بندہ علی (مرتعش رقم) ؛ خطاط

الف نظامی

لائبریرین
846.jpg
 

الف نظامی

لائبریرین
امیر بندہ علی (مرتعش رقم)؛ خطاط
(خورشید عالم گوہر قلم)
مجھے انگریز وائسرائے ہند لارڈ کرنگٹن کا وہ معروف بیان یاد آ رہا ہے جس میں اس نے کہا کہ:
ہم اسلامی ورثہ اور اسلامی ثقافت کو اس طرح روند ڈالیں گے کہ اگر ہم یہاں برصغیر سے چلے بھی گئے تو بھی ایک طویل عرصہ تک یہاں کے مسلمان اسے اپنانے سے گریز کریں گے۔
ہمارے یہاں وہ طبقہ جو خود کو اقبال اور نظریہ پاکستان کے زیادہ قریب سمجھتا ہے ، حیرت ہے کہ وہ بھی ان اسلامی ورثہ سے کوسوں دور ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والی نسلیں رفتہ رفتہ اپنی شناخت حاصل کر سکیں۔
آج ہم دہلی کے معروف خطاط جناب امیر بندہ علی مرتعش رقم کے بارے میں آپ کو آگاہ کریں گے۔
امیر بندہ علی مرتعش رقم ، معروف خطاط جناب نواب احمد لکھنوی کے شاگرد اور اپنے زمانے کے نامور استادِ فن منشی ہادی خوش نویس کے ہم عصر تھے۔
آپ خطِ نسخ و نستعلیق کے ماہر خطاط تھے اور اپنے زمانے میں استادِ فن شمار کیے جاتے تھے۔ شاعری کی کتابوں کی کتابت کے حوالے سے بہت معروف تھے۔ ان کے بارے میں مشہور ہے کہ بعض شعراء اس لیے بھی ان سے اپنے دیوان لکھواتے تھے کہ جہاں کسی قافیہ ، ردیف کے وزن میں اگر کوئی فرق ہوتا یا کوئی لفظی غلطی ہوتی تو امیر بندہ علی اسے خود درست کر دیتے تھے۔
آپ کو شعر و شاعری سے بھی دلچسپی تھی اور اکثر لکھنو کے مشاعروں میں شرکت کر کے اپنا کلام بھی سنایا کرتے تھے۔ اس دور کے محققین فن اور مورخین ، خطاطی کی شناخت کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے اور امیر بندہ علی کا فیصلہ حتمی اور آخری تسلیم کیا جاتا تھا۔
کسی بیماری کی وجہ سے ان کے ایک ہاتھ میں رعشہ پیدا ہوگیا اور عجیب بات یہ کہ رعشہ کی بیماری ان سے حسنِ خط چھین لینے کے بجائے ان کے خط میں مزید حسن کا باعث بن گئی اور اسی رعشہ کی وجہ سے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ مرتعش کا لقب اختیار کیا۔ یعنی رعشہ دار لفظوں والے۔ وہ رعشہ کو اس ترتیب سے استعمال کرتے تھے کہ لگتا تھا جیسے حروف و الفاظ میں لہریں پڑ گئی ہیں ، اس اندازِ خط کو صاحبِ ذوق لوگوں نے بے حد پسند کیا۔
ان کی بڑی خوبی یہ تھی کہ رعشہ والے ہاتھ میں جونہی قلم پکڑ کر وصلی یا کاغذ پر لکھنے لگتے ، ان کے ہاتھ میں وہی قدرت آ جاتی تھی جو حالتِ صحت میں تھی۔ ان کی فنی پہچان کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ ایک موقع پر منشی علی ہادی ، میر یحیٰ اور منشی عبد الحی جیسے خوش نویس موجود تھے کہ کسی شخص نے خطِ نسخ کا ایک فن پارہ دکھایا جو ممتاز بغدادی خطاط یاقوت مستعصمی کا لکھا ہوا تھا اور وہ یہ فن پارہ فروخت کرنا چاہتا تھا۔ فن پارہ نہایت اعلیٰ اور نفیس تھا اس لیے ہر شخص نے خریدنے کی خواہش کی مگر منشی ہادی علی نے کہا یہ ایک دن کے لیے میرے پاس چھوڑ دو تا کہ میں یاقوت مستعصمی کے خط سے اس کو ملا کر دیکھ لوں۔ میرے پاس یاقوت مستعصمی کے بہت سے فن پارے ہیں ، تاکہ اطمینان ہو جائے کہ یہ فن پارہ اصلی ہے۔
چناچہ دوسرے دن سب احباب جمع ہو گئے تو منشی ہادی علی نے ایک دوسرا فن پارہ دکھا کر کہا کہ واقعی وہ یاقوت مستعصمی کا اصلی فن پارہ ہے اور ایسا ہی یہ ایک فن پارہ میرے پاس بھی نکل آیا ہے۔
سب نے یہ بات تسلیم کر لی مگر امیر بندہ علی نے مسکرا کر کہا کہ نہیں یہ فن پارہ منشی ہادی علی کا ہے جس پر تکرار ہونے لگی۔ منشی ہادی علی اور ان کے دیگر شاگردوں نے ثبوت طلب کیا تو امیر بندہ علی نے ایک واو کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ یہ یاقوت کے واو سے کسی قدر مختلف ہے۔ جس پر منشی ہادی علی نے مسکرا کر امیر بندہ علی کو تھپکی دی اور فن پارہ کے ایک کونے سے کاغذ پھاڑ کر دکھایا جس پر ان کا نام تحریر تھا۔ اس بات پر سب لوگوں نے منشی ہادی علی کی یہ کہہ کر تعریف کی کہ یاقوت مستعصمی اور ان کے خط میں کوئی فرق نہیں اور امیر بندہ علی کی یہ کہہ کر تعریف کی کہ انہوں نے نہایت باریک فرق بھی تلاش کر لیا۔
منشی ہادی علی کی کتاب نویسی میں خاص بات یہ تھی کہ ان کے دائرے ، کشش ایک جیسے ہوتے تھے۔ وہ ایک نہایت پختہ کار خطاط تھے اور بڑے سے بڑا لفظ بھی با آسانی بنا لیتے تھے اور اُن کے الفاظ میں ایسی شان و شوکت ہوتی تھی کہ چلتے ہوئے لوگ رک رک کر اسے دیکھتے تھے۔
منشی ہادی علی کے وہ مخطوطے جو ان کی زندگی میں مکمل نہ ہو سکے اُن کی وفات کے بعد ان کی تکمیل امیر بندہ علی مرتعش رقم سے کرائی گئی۔
کلک کی قلم سے باریک ترین عبارات صفحے پر اس شان سے لکھتے تھے کہ کتاب کا صفحہ بھی ایک زرنگار فن پارہ دکھائی دیتا تھا۔ انہوں نے سترھویں صدی عیسوی کے آخر میں لکھنو میں وفات پائی اور وہیں دفن ہوئے۔
 
آخری تدوین:
Top