امریکی اہلکار پاکستان میں - رچرڈ باؤچر اور نیگروپونٹے کی کاروائیاں

نبیل

تکنیکی معاون
پاکستان کی سیاست اور حکومت سازی میں امریکی مداخلت کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ اب رچرڈ باؤچر اور نیگروپونٹے کے پاکستان آنے اور مختلف سیاستدانوں سے ملاقاتیں کرنے کو اسی بنا پر نفرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ امریکہ کے خیال میں پاکستان کو دس بلین ڈالر امداد دے کر اسے لائسنس ٹو کل مل گیا ہے کہ جب مرضی میزائل داغ کر لوگوں کو تہہ تیغ کرتا رہے۔ ان حملوں میں معصوم لوگ قتل ہوں تو وہ محض ریڈار کی معمولی غلطی قرار دیے جاتے ہیں۔ اور ان حملوں کے بعد ملک کے باقی حصے میں جو قتل و غارت گری کی لہر پھیلتی ہے، وہ امریکہ کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
نیگروپونٹے کا کچھ تعارف حامد میر نے ذیل میں کروایا ہے:

حوالہ: نیگروپونٹے کون ہے (رونامہ جنگ)

1981ء میں رونالڈ ریگن کی حکومت نے اسے وسطی امریکہ کے ملک ہونڈیراس میں اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ اس ملک میں بائیں بازو کے کمیونسٹ بہت مقبول تھے۔ امریکی حکومت کو اپنے ہمسائے میں کیوبا کی کمیونسٹ حکومت پہلے ہی ناقابل قبول تھی لہٰذا اسی خطے میں کمیونزم کے مزید پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا۔ اس منصوبے کے تحت ہونڈیراس کی فوج کو بھاری امداد دی گئی اور کمیونسٹوں کو دہشت گرد قرار دے کر ان کے خلاف فوجی آپریشن شروع کروایا گیا، نیگرو پونٹے اس آپریشن کا نگراں تھا۔ ہونڈیراس میں نیگرو پونٹے کی سرگرمیوں کا انکشاف کئی سال بعد 2001ء میں ہوا جب اسے اقوام متحدہ میں امریکہ کا سفیر بنایا گیا۔ نیگرو پونٹے کے ساتھ ہونڈیراس میں کام کرنے والے کچھ ریٹائرڈ سفارتکاروں نے اپنی زبان کھولی اور میڈیا کو یہ بتایا کہ 80ء کی دہائی میں ہونڈیراس کی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی آڑ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا اصل ذمہ دار نیگرو پونٹے تھا۔ ابھی تھوڑی سی تفصیلات ہی سامنے آئی تھیں کہ نیگروپونٹے نے اپنا اثرورسوخ استعمال کرکے میڈیا کو خاموش کردیا۔ 2004ء میں وہ امریکی سفیر بن کر عراق پہنچا تو کچھ حلقوں نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ نیگرو پونٹے عراق میں وہی کچھ کرے گاجو اس نے ہونڈیراس میں کیا تھا لیکن امریکی عوام کو بدستور یہ علم نہ تھا کہ اس نے ہونڈیراس میں کیا کیا۔ آخر کار 29 مارچ 2005ء کو نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا کہ نیگروپونٹے نے 80ء کی دہائی میں سی آئی اے کی مدد سے ہونڈیراس کی فوج کو اس کے اپنے ہی لوگوں کے خلاف استعمال کیا۔ سی آئی اے کے حکم پر ہونڈیراس کی فوج اپنے ہی ملک کی بستیوں پر بمباری کرتی تھی، اپنے ہی شہریوں کو اغوا کرتی تھی اور بغیر کسی مقدمے کے انہیں عقوبت خانوں میں رکھتی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب نیگرو پونٹے نے ہونڈیراس میں انصاف کے تمام ادارے ختم کروادیئے تھے۔ کمیونسٹوں کا حامی ہونا ایک ایسا جرم تھا کہ جس کی پاداش میں ملک کی فوج ایسے مجرموں کو بغیر کسی مقدمے کے گولی سے اڑاسکتی تھی اور کوئی عدالت فوج پر روک ٹوک نہ لگاسکتی تھی۔

اور

امریکی انتظامیہ چاہتی تھی کہ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم مل کر حکومت بنائیں لیکن پیپلزپارٹی نے مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کو ترجیح دی۔ نیگرو پونٹے کو خدشہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کا اتحاد امریکی مفادات کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کی حکمت عملی کو درست نہیں سمجھتیں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرنا چاہتی ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی نے قومی اسمبلی میں پہلی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کے ساتھ مذاکرات کرسکتے ہیں تو قبائلی علاقوں میں اپنے لوگوں کے ساتھ کیوں نہیں؟ 24 مارچ کو قومی اسمبلی میں یہ تقریر ہوئی اور 25 مارچ کو نیگرو پونٹے پاکستان پہنچ گئے نیگرو پونٹے نے اسفندیار ولی کے ساتھ ساتھ آصف زرداری، نوازشریف اور فہمیدہ مرزا سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کا خیال ہے کہ کم از کم نئی کابینہ حلف اٹھالیتی تو اس کے بعد نیگرو پونٹے وارد ہوتے۔ ٹھیک ہے امریکہ نے پچھلے کچھ سالوں میں پاکستان کو دس ارب ڈالر کی امداد دی ہے لیکن یہ امداد پاکستانی عوام کیلئے کم اور امریکہ کی جنگ کیلئے زیادہ استعمال ہوئی۔ نوازشریف نے نیگروپونٹے سے بالکل درست کہا کہ اب پاکستان میں فیصلے فرد واحد نہیں بلکہ پارلیمنٹ کرے گی۔ پارلیمنٹ کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہے کہ جو امداد پاکستان کی بجائے غیرملکی مفادات کے تحفظ کیلئے دی جائے وہ قبول کرنی چاہئے یانہیں؟ نیگروپونٹے یاد رکھیں کہ پاکستان بدل چکا ہے، یہ ہونڈیراس نہیں ہے، یہاں جمہوریت آچکی ہے اور آزاد عدلیہ بھی آنے والی ہے لہٰذا پاکستان کو ہونڈیراس بنانے کی کوشش کامیاب نہ ہو گی۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
اب تک کی اطلاعات سے تو یہی لگتا ہے کہ امریکی اہلکاروں کو اپنے عزائم میں ناکامی ہوئی ہے۔ بہرحال یہ آنے والا وقت ہی ظاہر کرے گا کہ آیا پاکستان واقعی خودمختاری سے فیصلے کر رہا ہے یا نہیں۔

حوالہ: پالیسی پارلیمنٹ بنائے گی (بی بی سی اردو)

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے دہشتگردی کے مسئلہ کو حل کرنے کے لیے پاکستان کے پختہ عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو ایک اجتماعی حکمت عملی وضع کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے ہوں گے۔
بدھ کی شام، پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکی نائب وزیرخارجہ جان نیگرو پونٹے اور معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی وسطی ایشیا رچرڈ باؤچر سے وزیراعظم ہاؤس میں ایک ملاقات کے دوران ان کا کہنا تھا کہ تمام اہم پالیسی معاملات اور قومی امور پر تمام فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے کیے جائیں گے۔

وزیراعظم نے کہا کہ انتہا پسندی کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے افغانستان سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں لوگوں کو معاشی طور پر بااختیار بنانا بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ تعمیر کے ذریعے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگےاور علاقے میں اقتصادی سرگرمیاں بڑھانے میں مدد ملے گی جس سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہو گا۔

دہشت گردی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان تسلسل کے ساتھ اس مسئلے سے نمٹ رہا ہے اور اس نے اپنی رہنما محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل سمیت بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ’جمہوری ، معاشی اور سٹریٹیجک اعتبار سے ہر قسم کی دہشت گردی سے نمٹنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ یہ ہمارے لیے تشویش کا معاملہ ہے اور ہم اس سے پختہ عزم کے ساتھ نمٹیں گے۔‘
 

نبیل

تکنیکی معاون
اس خبر سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ امریکی اہلکاروں کے اضطراب کی اصل وجہ کیا ہے: (حوالہ: ڈیلی ایکسریس)


1100376241-2.gif
 

نبیل

تکنیکی معاون
حوالہ: قومی وقار کی دو مثالیں,,,,آخر کیوں؟…رؤف کلاسرہ (روزنامہ جنگ)

2003ء میں جب امریکا نے عراق پر حملے کا فیصلہ کیا تو جارج بش کے مشیروں نے اس کو مشورہ دیا کہ اگرچہ وہ جب چاہیں حملہ کر سکتے ہیں لیکن بہتر ہوگا کہ امریکی فوجیں کسی ہمسایہ مسلمان ملک کی سرحدوں سے عراق میں داخل ہوں۔ لیکن سب سے بڑا مسئلہ یہ کھڑا ہوگیا کہ ایران، شام اور سعودی عرب تو کبھی نہیں مانیں گے تو پھر کس کو راضی کیا جائے۔ اچانک سب کی نظریں ترکی پر مرکوز ہو گئیں کیونکہ ترکی پر نہ صرف یورپی اقوام کا بہت گہرا اثر تھا بلکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان بھی کئی فوجی معاہدے ہونے کی وجہ سے یہ کام نسبتاً آسان لگ رہا تھا۔ جارج بش نے فیصلہ کیا کہ ترکی سے درخواست کی جائے گی کہ وہ امریکی فوجیوں کو اپنی سرحد کے اندر سے عراق میں داخل ہونے کی اجازت دے۔ اس کا مقصد دنیا کو باور کرانا تھا کہ عراق پر حملہ صرف امریکہ نہیں کر رہا تھا بلکہ اس کے ہمسایہ مسلمان ملک بھی اس میں شامل تھے۔ صرف اس چھوٹی سے حمایت کے بدلے میں امریکہ نے ترکی کو تیس بلین ڈالر کی پیشکش کی۔ ترکی کے طاقتور فوجی جرنیلوں سے رابطہ کیا گیا کہ شاید وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر امریکہ کو اجازت دیدیں گے لیکن ان جرنیلوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایک پارلیمنٹ ہے اور ہم عوام کے منتخب لوگوں سے پوچھ کر ہی کچھ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ترک جرنیل وہ پیکیج لیکر پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوئے وہاں اس پر کئی دن بحث ہوتی رہی اور جب رائے شماری ہوئی تو غیور ترکوں کی پارلیمنٹ نے تیس ارب ڈالر کی آفر یہ کہہ کر نفرت سے ٹھکرا دی کہ ہم ہمسائے نہیں بدل سکتے۔ امریکیوں نے آخر ایک دن یہاں سے چلے جانا ہے لیکن ہماری آنے والی نسلوں نے انہی عراقیوں کے ساتھ رہنا ہے ہم اپنی ترک نسلوں کیلئے یہ داغ چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے کہ ان کے بزرگوں نے اپنے ہمسائیوں کو تیس ارب ڈالر میں فروخت کر دیا تھا۔ پارلیمنٹ کی اس قرارداد کے بعد سارے امریکی جرنیل چپ کر کے انقرہ سے نکل گئے کیونکہ انہیں پتہ تھا کہ وہ دنیا بھر میں ہر کسی سے لڑ کر اسے تباہ کر سکتے تھے لیکن وہ کسی بھی پارلیمنٹ کی منظور کردہ قرارداد کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے۔میں نے اسے بتایا کہ میں ان امریکیوں کی آصف زرداری اور نواز شریف سے ہونے والی میٹنگیں دیکھ کر حیران ہو رہا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ کیا کبھی ان امریکیوں نے بھی اپنے ملک کے معاملات چلانے، کسی کو صدر بنانے یا ہٹانے یا ججوں کو گھر بھیجنے یا تعینات کرنے کیلئے ہمارے لیڈروں سے مشورہ کیا ہے؟مشتاق نے کچھ بولنے کی کوشش کی تو میں نے اسے کہا کہ ترک پارلیمنٹ کو تو چھوڑیں۔ کیا ہم تھوڑی سی عزت نفس اس ترک عورت سے بھی نہیں سیکھ سکتے جو اَسّی سال بعد بھی اپنے بزرگوں پر ہندوستانی عورتوں کے کیے گئے ایک احسان کا بدلہ اتارنے کیلئے زیورات سے لدی گھنٹوں پاکستانی ایمبیسی کے سامنے ایک لمبی قطار میں کھڑی رہی تھی!!!
 

باسم

محفلین
یہ دونوں جس ہوٹل میں ٹہرے اس ہوٹل کے باہر لاپتہ افراد کے حق میں ہونے والے مظاہرے میں یہ نعرہ بھی لگ رہا تھا
پاکستان کا مطلب کیا
امریکہ سے جان چھڑا
 

قیصرانی

لائبریرین
اچانک سب کی نظریں ترکی پر مرکوز ہو گئیں کیونکہ ترکی پر نہ صرف یورپی اقوام کا بہت گہرا اثر تھا بلکہ ترکی اور امریکہ کے درمیان بھی کئی فوجی معاہدے ہونے کی وجہ سے یہ کام نسبتاً آسان لگ رہا تھا۔ جارج بش نے فیصلہ کیا کہ ترکی سے درخواست کی جائے گی کہ وہ امریکی فوجیوں کو اپنی سرحد کے اندر سے عراق میں داخل ہونے کی اجازت دے۔ اس کا مقصد دنیا کو باور کرانا تھا کہ عراق پر حملہ صرف امریکہ نہیں کر رہا تھا بلکہ اس کے ہمسایہ مسلمان ملک بھی اس میں شامل تھے۔ صرف اس چھوٹی سے حمایت کے بدلے میں امریکہ نے ترکی کو تیس بلین ڈالر کی پیشکش کی۔ ترکی کے طاقتور فوجی جرنیلوں سے رابطہ کیا گیا کہ شاید وہ اتنی بڑی رقم دیکھ کر امریکہ کو اجازت دیدیں گے لیکن ان جرنیلوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں ایک پارلیمنٹ ہے اور ہم عوام کے منتخب لوگوں سے پوچھ کر ہی کچھ فیصلہ کر سکتے ہیں۔ [/
Color]

معاف کیجئے گا نبیل بھائی، اس طرح‌کے حملوں‌ میں اچانک توجہ کسی ایک ملک پر مرکوز ہونا اچھنبے کی بات ہے۔ یہ بہت گہری اور طویل المدتی پلاننگز ہوتی ہیں۔ دوسرا ترکی میں فوج کے نزدیک پارلیمان کی کیا اہمیت ہے، میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں

یہ میں نے آپ کی پوسٹ کے خلاف نہیں، بلکہ کالم کے خلاف لکھا ہے
 

محسن حجازی

محفلین
نبیل بھائی بے حد شکریہ! آپ نے وہ تمام مواد ایک جگہ جمع کر دیا جسے میں شاید وقت کی کمی کے باعث سامنے نہ لا پاتا البتہ خواہش ضرور رکھتا تھا۔
میں یہ دونوں کالم بلکہ تمام اس سے متعلق تمام خبروں پر نظر رکھے ہوئے ہوں اور ایک باوقار پاکستانی کی طرح توقع کرتا ہوں کہ ہماری حکومت قومی مفاد و حمیت کو سامنے ضرور رکھے گی۔
ہارون رشید کا ایک کالم بھی اسی ذیل میں ایکسپریس میں چھپا تھا اس میں بہت پیاری بات انہوں نے لکھی:

دوسرا اتنا ہی بہادر ہوتا ہے جتنے کہ آپ بزدل
یہ رہا وہ کالم:
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100375667&Issue=NP_LHE&Date=20080326

اور یہ بھی پڑھنے کی چیز ہے:
http://www.express.com.pk/epaper/PoPupwindow.aspx?newsID=1100376326&Issue=NP_LHE&Date=20080327

میرا خیال ہے کہ امریکی اہلکار خاص کامیابی نہیں لے کر لوٹے آپ کیا کہتے ہیں؟
 

ساجداقبال

محفلین
معاف کیجئے گا نبیل بھائی، اس طرح‌کے حملوں‌ میں اچانک توجہ کسی ایک ملک پر مرکوز ہونا اچھنبے کی بات ہے۔ یہ بہت گہری اور طویل المدتی پلاننگز ہوتی ہیں۔ دوسرا ترکی میں فوج کے نزدیک پارلیمان کی کیا اہمیت ہے، میرا خیال ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ بہتر جانتے ہیں

یہ میں نے آپ کی پوسٹ کے خلاف نہیں، بلکہ کالم کے خلاف لکھا ہے
جی آپکی بات درست ہے، کالم نگار نے پاکستانی قاری کے حساب سے تھوڑی ڈرامائی کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اگر کالم نگار کا مدعا سمجھا جائے تو وہ یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ترکی نے وہی فیصلہ کیا جو انکے مفاد میں تھا۔ بذات خود میں ترکی کے اس فیصلے سے بہت متاثر ہوا تھا۔
 
نے گرو پون ٹے

اچھا کالم لکھا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو امریکی حکومت کی دھشت گردانہ پالیسوں میں‌کوئی شک نہیں
PoPupwindow.aspx


ایکسپرس
ہفتہ 29 مارچ
 

ساجداقبال

محفلین
معذرت ہمت بھائی، لیکن اسی بندے سے متعلقہ ایک دھاگہ پہلے سے کھلا ہوا ہے۔ وہاں بھی نبیل بھائی نے حامد میر کا اسی قسم کا کالم اقتباس کیا ہے۔ اگر آپ وہاں یہ پوسٹ کریں تو بحث ایک جگہ رہیگی اور پوسٹ سپیمنگ کا تاثر نہیں پیدا ہوگا۔
 
معذرت ہمت بھائی، لیکن اسی بندے سے متعلقہ ایک دھاگہ پہلے سے کھلا ہوا ہے۔ وہاں بھی نبیل بھائی نے حامد میر کے اسی قسم کا کالم اقتباس کیا ہے۔ اگر آپ وہاں یہ پوسٹ کریں تو بحث ایک جگہ رہیگی اور پوسٹ سپیمنگ کا تاثر نہیں پیدا ہوگا۔

معذرت قبول
مگر یہ تو کالم پر تبصرہ ہے ۔ امریکی کردار پر تبصرہ ہے۔
کوئی سپیمنگ نہیں ہے۔
 

پپو

محفلین
بہت اچھے نبیل بھائی آپ کے اس تھریڈ کا جواب میں صرف اتنا کہہ کر دونگا اگر اب بھی حکومت نے عوامی خواہشات کو مد نظر رکھ کر فیصلے نہ کیے تو پھر کبھی ان جماعتوں کو اقتدار نصیب نہ ہوگا
 

زینب

محفلین
نوازشریف کی سخت قسم کی پریس کانفرنس کے بعد تو لگت اہے کہ ان بن بلائے مہمانوں کی آمد ناکام ہی رہی ہے۔۔اوپر سے جاوید ہاشمی نے بھی کھلے عام امریکیوں کی آمد پے ناگواری کا اظہار کیا ہے۔۔۔کہ ان اس وقت میں‌پاکستان انا ہی نہیں چاہیے تھا یہ تو ایسا لگ رہا ہے کہ یہ حکمت کی تشکیل کے لیے آئے ہیں اور ہے بھی ایسا ہی۔۔۔۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
معذرت ہمت بھائی، لیکن اسی بندے سے متعلقہ ایک دھاگہ پہلے سے کھلا ہوا ہے۔ وہاں بھی نبیل بھائی نے حامد میر کا اسی قسم کا کالم اقتباس کیا ہے۔ اگر آپ وہاں یہ پوسٹ کریں تو بحث ایک جگہ رہیگی اور پوسٹ سپیمنگ کا تاثر نہیں پیدا ہوگا۔


میں نے دونوں تھریڈز کو یکجا کر دیا ہے۔
 
نبیل شکریہ مہربانی

میرا ذہن گالیوں سے اتنا مبرا جتنا سورج چھونے‌سے

لیکن ان چٹی چمڑی والوں کو جب پاکستان میں دیکھتا ہوں تو بہت درد ہوتا ہے۔۔۔۔ اور اندر ہی اندر بہت۔۔۔۔
دیکھو ہمیں گوروں سے نفرت نہیں عوام سے نفرت نہیں۔ ہم ان سیاسی غنڈوں پر لعنتیں بھیجیں تو بجا ہے۔ ان میں انسانیت نام کی کوئی خو بو نہیں۔

خدا انہیں ہدایت دے۔ نہیں تو انہیں غارت کرے۔
 
Top