امریکہ میں 34 مسلمان نماز پڑھنے کی پاداش میں ملازمت سے فارغ

dxbgraphics

محفلین
story11.gif
 
پیٹریاٹ عرف ایتھیسٹ جی کیوں بین ہونے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔۔ادھر بہت سارے لوگ دارالکفر میں ہی جابز کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی ہے کہ آپ ہو تو دہریے مگر دین اسلام کی ساری باتوں سے باخبر ہو۔
 

عسکری

معطل
پیٹریاٹ عرف ایتھیسٹ جی کیوں بین ہونے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔۔ادھر بہت سارے لوگ دارالکفر میں ہی جابز کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی ہے کہ آپ ہو تو دہریے مگر دین اسلام کی ساری باتوں سے باخبر ہو۔

بین کی دھمکی :rollingonthefloor: اچھا جی ہونا ہے جا کر کرا دیں بین :whistle:

اگر جاب کرتے ہیں تو کریں وہ ان کا ملک ہے ان کا قانون چلنا چاہیے اور اگر کسی کو اعتراز ہے تو کہیں اور چلا جائے کیوں ایسی جگہ کام کرتے ہیں رہتے ہیں جہاں ان کو مزہبی آزادی نہیں؟ ان کو مزہب یا پیسہ میں سے ایک چننا ہو گا ۔اور وہ ابھی تک پیسے کو چن رہے ہیں:applause:
 

نازنین ناز

محفلین
Patriot جی اگر ایک شخص دارالکلفر مثلا امریکہ میں پیدا ہوتا ہے وہیں پروان چڑھتا ہے لیکن وہ پیدائشی مسلمان ہے یا بعد میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے(بعد میں اسلام قبول کرنے کی صورت میں اس کا ساتھ نہ اس کے والدین دیتے ہیں نہ بہن بھائی اور بیوی بچے، یعنی وہ اکیلا اسلام قبول کرتا ہے) اس دوران وہ کہیں ملازمت بھی کرتا ہے لیکن وہ اس قسم کی صورت حال کا شکار ہوتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا اسے اپنا ملک اپنا وطن اپنی جنم بھومی اور اپنے سارے رشتے ناطے گھر بار، بہن بھائی، بیوی بچے غرض پورا خاندان، بچپن کے یار دوست سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی اسلامی ملک میں بس کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہئے؟ مذہب الگ چیز ہے اور وطن اور اپنے خانوادے سے محبت الگ چیز، آپ ہی کی مثال لے لیں، آپ مذہب کو نہیں مانتے لیکن اپنے اس وطن سے جو اسلام کے نام پر لیا گیا ہے اور اس گئے گزرے دور میں بھی اسلامی ممالک میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہر شخص تو دوسرے ملک بلکہ اکثر تو اپنے ہی ملک کے دوسرے شہر جانے کی استعداد نہیں رکھتے جبکہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر امریکی ہیں دوسرے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ کیا انہیں بھی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی اسلامی ملک میں جاکر بس جانا چاہئے؟؟ دوسرے یہ کہ ایسے غریب طبقے کی کسی دوسرے ملک جانے کی کیا ترتیب ہوگی جو بمشکل روز کنواں کھود کر روز پانی نکالتے ہیں۔ یعنی ’’لگے تو روزی نہ لگے تو روزہ‘‘
کیا یہی رائے آپ کی انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں ودیگر مذاہب کے لوگوں اور پاکستان میں بسنے والے ہندؤں ودیگر مذاہب کے لوگوں کے بارے میں بھی ہے کہ انہیں بھی اپنے اپنے مذہب والے ملکوں میں چلے جانا چاہئے؟ یا پاک وہند میں بھی امریکہ کی طرح مسلمانوں اور ہندؤں ودیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی جانی چاہئے؟ کیا اس سلسلے میں آپ ہی کو پہل کرکے سعودی عرب چھوڑ کر کسی ایسے ملک میں جاکر بس جانا مناسب لگتا ہے جہاں آپ کی مرضی کا مذہب ہو؟؟
میری اس پوسٹ کا برا نہ منائیے گا، چونکہ آپ نے ایک راہ دکھائی ہے تو اس سلسلے میں درپیش مسائل کا حل بھی بتانا آپ کا فرض بنتا ہے۔
 
پیٹریاٹ عرف ایتھیسٹ جی کیوں بین ہونے کا ارادہ ہے۔۔۔۔۔۔ادھر بہت سارے لوگ دارالکفر میں ہی جابز کررہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔مجھے تو اس بات کی سمجھ نہیں آتی ہے کہ آپ ہو تو دہریے مگر دین اسلام کی ساری باتوں سے باخبر ہو۔

برادر محترم،محفلین بننے کے بعد سے اب تک آپ نے کل کتنے بین کے کیس دیکھے اور ان میں کتنے ایسے تھے جو کہ "دار الکفر" کے معاملات کو لیکر تھے؟ ان اعداد و شمار کا موازنہ کسی ایسے فورم سے بھی کیجئے گا جہاں کم و بیش اتنی ہی بھیڑ ہو جتنی محفل میں ہے اور جہاں کے "بہت سارے لوگ" دار الکفر میں جابز نہ کر رہے ہوں۔
 

زیک

مسافر
اگر آپ کمپنی کے ٹائم پر نماز پڑھیں گے جبکہ کمپنی آپ کو اس وقت کام کرنے کے پیسے دے رہی ہے تو ظاہر ہے کہ کمپنی کو اعتراض ہو گا۔ اپنے دس منٹ کے بریک ٹائم میں کیوں نماز نہیں پڑھی جا سکتی؟
 
نازنين آپ نے اچھی بات كہی ہے ليكن پہلے كنفرم كرنا چاہیے کہ كيا امريكا دارالكفر ہے؟ پیٹریاٹ شرعى اصطلاحات استعمال كرتے وقت احتياط كرنى چاہیے۔
دارالكفر ايسى جگہ ہے جہاں بسنے والا مسلمان شعائر اسلام پر عمل كرنے كى طاقت نہ ركھتا ہو۔ كيا امريكا ايسا ہے؟
 
ايك دوسرے فورم پر ايك بحث كے دوران اسلام ٹو ڈے سائٹ سے ايك فتوى نقل كيا تھا جو دراصل اس موضوع پر ايك تحقيقى مقالے سے ماخوذ تھا ۔ اس وقت سائٹ كا فتوى سيكشن بند ہے ۔ اس فتوى کے مطابق اس وقت سوائے اسرائيل كے كوئى دار الحرب نہيں ہے۔ اور جن غير مسلم اكثريتى ممالك ميں مسلمان ويزا وغيرہ لے کر جاتے ہيں وہ سب دار العھد ہيں۔ اسى طرح اقوام متحدہ كے تحت تمام غيرمسلم ممالك دارالعھد ہيں۔اور جن ممالك ميں مسلمان اپنے دينى شعائر پر عمل كر سکتے ہيں وہ سب دارالسلم ہی کہلائيں گے۔
ياد رہے امريكا نے اب تك حجاب پر پابندى بھی نہيں لگائی جب كہ بعض دوسرے ممالك ايسا كر چکے ہيں۔
يہ بات درست ہے کہ ان 34 مسلمانوں کے علاوہ بھی امريكا ميں بہت سے لوگ باقاعدہ نمازى ہوں گے ۔ ان كو حكمت كے ساتھ اپنی عبادت كے ليے وقت نكالنا چاہیے جيسا بہت سے دوسرے مسلمان كر رہے ہيں۔
 

عسکری

معطل
اگر آپ کمپنی کے ٹائم پر نماز پڑھیں گے جبکہ کمپنی آپ کو اس وقت کام کرنے کے پیسے دے رہی ہے تو ظاہر ہے کہ کمپنی کو اعتراض ہو گا۔ اپنے دس منٹ کے بریک ٹائم میں کیوں نماز نہیں پڑھی جا سکتی؟
جی ہاں اور اگر یہ پے بھی ہوتی ہے تو سونے پر سہاگہ ہہہہہہہہہہ یعینی روزانہ کمپنی کے 50 منٹ استمال کریں اور وہ اس کی پے بھی کریں اور کیا چاہیے ۔
 

عسکری

معطل
Patriot جی اگر ایک شخص دارالکلفر مثلا امریکہ میں پیدا ہوتا ہے وہیں پروان چڑھتا ہے لیکن وہ پیدائشی مسلمان ہے یا بعد میں اپنی مرضی سے اسلام قبول کرتا ہے(بعد میں اسلام قبول کرنے کی صورت میں اس کا ساتھ نہ اس کے والدین دیتے ہیں نہ بہن بھائی اور بیوی بچے، یعنی وہ اکیلا اسلام قبول کرتا ہے) اس دوران وہ کہیں ملازمت بھی کرتا ہے لیکن وہ اس قسم کی صورت حال کا شکار ہوتا ہے تو اسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا اسے اپنا ملک اپنا وطن اپنی جنم بھومی اور اپنے سارے رشتے ناطے گھر بار، بہن بھائی، بیوی بچے غرض پورا خاندان، بچپن کے یار دوست سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی اسلامی ملک میں بس کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہئے؟ مذہب الگ چیز ہے اور وطن اور اپنے خانوادے سے محبت الگ چیز، آپ ہی کی مثال لے لیں، آپ مذہب کو نہیں مانتے لیکن اپنے اس وطن سے جو اسلام کے نام پر لیا گیا ہے اور اس گئے گزرے دور میں بھی اسلامی ممالک میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے سے والہانہ محبت کرتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ ہر شخص تو دوسرے ملک بلکہ اکثر تو اپنے ہی ملک کے دوسرے شہر جانے کی استعداد نہیں رکھتے جبکہ یہاں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں زیادہ تر امریکی ہیں دوسرے غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ کیا انہیں بھی اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر کسی اسلامی ملک میں جاکر بس جانا چاہئے؟؟ دوسرے یہ کہ ایسے غریب طبقے کی کسی دوسرے ملک جانے کی کیا ترتیب ہوگی جو بمشکل روز کنواں کھود کر روز پانی نکالتے ہیں۔ یعنی ’’لگے تو روزی نہ لگے تو روزہ‘‘
کیا یہی رائے آپ کی انڈیا میں بسنے والے مسلمانوں ودیگر مذاہب کے لوگوں اور پاکستان میں بسنے والے ہندؤں ودیگر مذاہب کے لوگوں کے بارے میں بھی ہے کہ انہیں بھی اپنے اپنے مذہب والے ملکوں میں چلے جانا چاہئے؟ یا پاک وہند میں بھی امریکہ کی طرح مسلمانوں اور ہندؤں ودیگر مذاہب کے ماننے والوں کی مذہبی رسومات پر پابندی عائد کردی جانی چاہئے؟ کیا اس سلسلے میں آپ ہی کو پہل کرکے سعودی عرب چھوڑ کر کسی ایسے ملک میں جاکر بس جانا مناسب لگتا ہے جہاں آپ کی مرضی کا مذہب ہو؟؟
میری اس پوسٹ کا برا نہ منائیے گا، چونکہ آپ نے ایک راہ دکھائی ہے تو اس سلسلے میں درپیش مسائل کا حل بھی بتانا آپ کا فرض بنتا ہے۔
آپ نے بجا فرمایا پر میں تو ان کی بات کر رہا تھا جن کو تکلیف ہے وہاں مجھے پاکستان یا سعودی سے کوئی تکلیف نہیں میں اسلیئے پاکستانی پیٹریاٹ ہوں:biggrin: جب مذہب ہی نہیں تو تکلیف کیسی ؟ ساری زمین اپنی ہے جہاں اچھا لگے وہیں رہو اور جہاں اچھا نا لگے کہیں اور چلے جاؤ :biggrin:
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکہ ميں ہر کسی کو مکمل مذہبی آزادی حاصل ہے۔ اس ضمن ميں کوئ تفريق نہيں روا رکھی جاتی۔ امريکی آئين اور قوانين اس کی مکمل ضمانت فراہم کرتے ہیں۔ امريکہ ميں ہر کسی کو نہ صرف يہ کہ اپنی مذہبی رسومات کی ادائيگی کے حوالے سے مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے بلکہ اپنے مذہبی افکار کی تشہير کی بھی اجازت ہوتی ہے۔

ايک نجی ادارے کی انتظاميہ اور اس کے چند ملازمين کے مابين ذاتی معاملات کے حوالے سے مختص کردہ اوقات کے ضمن ميں جنم لينا والا تنازعہ کسی بھی طور سے معاشرے کے مجموعی رويے، امريکہ ميں برداشت کا معيار اور ملک ميں افراد کو حاصل مذہبی آزادی کے حوالے سے امريکی حکومت کے طرز فکر کی غمازی نہيں کرتا۔

امريکی حکومت کے نمايندے کی حيثيت سے ميں اس پوزيشن ميں نہيں ہوں کہ ايک ايسے واقعے کی تفصيل ميں جاؤں جو کہ نجی نوعيت کا ہے اور جسے رائج ملکی قوانين کے تحت حل کر ليا جائے گا۔ ليکن ميں يہ وضاحت کر دوں کہ اس مسلئے کا تعلق اس کمپنی ميں کام کرنے والے تمام مسلمان ملازمين سے نہيں ہے بلکہ ادارے کا اعتراض اور اس کے نتيجے ميں جنم لينا والا تنازعہ ان چند ملازمين کے حوالے سے ہے جن کے بارے ميں ادارے کا موقف ہے کہ وہ ذاتی معاملات بشمول نماز کے ادائيگی کے ليے مخصوص طے شدہ اوقات کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے تھے۔

ايک مخصوص واقعے کو بنياد بنا کر امريکہ پر تنقید کی بجائے، رائے دہندگان کو ان شاندار مثالوں کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے جو امريکہ ميں آزادی، برداشت اور مجموعی سطح پر امريکی معاشرے کی جانب سے ہر مذہب اور ثقافت سے ميل جول اور سب کے ليے برابری کی خواہش کے ضمن ميں نہ صرف يہ کہ درخشاں اور قابل ستائش ہيں بلکہ ہمارے آئين کی اصل روح کے مطابق ہيں

ستمبر 25 2009 کو امريکہ کے دارالحکومت واشنگٹن ميں 20 ہزار مسلمان جمعہ کی نماز کے لیے اکھٹے ہوئے۔ اس روز اذان کی آواز کيپٹل ہل اور لنکن ميموريل سميت شہر کے تمام اہم مقامات پر گونجی۔ ہر رنگ ونسل اور برادری سے تعلق رکھنے والے ہزاروں مسلمان نماز کی ادائيگی کے ليے اکٹھا ہوئے۔۔

http://youtu.be/SWnIz7-hS28

يہ واشنگٹن کی تاريخ کا سب سے بڑا مذہبی اجتماع تھا۔ امريکہ کے دارالحکومت کے عين درميان يہ اجتماع يقينی طور پر ايک نجی ادارے اور اس کے ملازمين کے مابين معمولی تنازعے کے مقابلے ميں مذہبی آزادی کے ضمن ميں امريکی کے مجموعی موقف کی وضاحت کے لیے زيادہ بہتراور موزوں مثال ہے۔

ايک مسلمان ہونے کی حيثيت سے ميں آپ کو اپنے ذاتی تجربے کی روشنی ميں يہ بتا سکتا ہوں کہ امريکی معاشرے بلکہ امريکی حکومتی اداروں ميں بھی مسلمانوں کو اپنی مذہبی رسومات کی ادائيگی ميں کسی پابندی يا رکاوٹ کا سامنا نہيں کرنا پڑتا۔ ہميں عيد اور رمضان سميت تمام اہم مذہبی مواقع پر امريکی صدر سميت تمام اہم حکومتی عہديداروں کی جانب سے ای ميل اور پيغامات موصول ہوتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 
Top