امریکہ جانتا ہے کہ بشار الاسد نے کیمیاوی ہتھیار استعمال نہیں کئے ، محمد حسنین ہیکل


عالمی شہرت یافتہ عرب صحافی اور مصنف محمد حسنین ہیکل کہتے ہیں: امریکہ مطمئن تھا کہ شام کے


صدر بشار الاسد نے کیمیاوی ہتھیار استعمال نہیں کئے ہیں لیکن اس کا رد عمل کچھ اور تھا/ انھوں نے اس سے قبل کہا تھا کہ "بڑی جنگ قریب ہے"، اور یہ کہ یہ جنگ احزاب ہے اور یہ کہ امریکہ کو 2006 کی 33 روزہ جنگ کی طرح لینے کے دینے پڑسکتے ہیں۔

محمد حسنین ہیکل نے بی بی سی عربی سروس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امکان کسی صورت میں بھی نہیں ہے کہ صدر بشار الاسد نے مخالفین کے خلاف کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہوں۔
انھوں نے کہا: جو تصاویر عالمی رائے عامہ کو شام کے خلاف مشتعل کرانے کے لئے استتعمال کی گئیں اور ہر جگہ دستاویز کے طور پر پیش کی گئیں، سب جعلی تھیں۔
ہیکل نے کہا: امریکہ کی پیش کردہ دستاویزات مغربی ممالک کو مطمئن کرسکی ہیں اور امریکہ نے شام پر حملے کا منصوبہ خود تیار کیا ہے۔
انھوں نے کہا: اگر امریکہ کو یقین ہوتا کہ بشار الاسد نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کئے ہیں تو اس کا رد عمل مختلف ہوتا۔
انھوں نے کہا تھا:
٭ امریکہ نے محدود جنگ کا اعلان کیا ہے لیکن اس جنک کے اہداف بہت وسیع ہیں۔
٭ اوباما نے گھسے پھٹے امریکی عنوان "تزویری فیصلہ امریکہ میں جمہوریت کی حاکمیت کے سائے میں"، کے تحت اپنے حملے کو مؤخر کیا تا کہ کانگریس بھی اس جنگی ارادے میں ان کا ساتھ دے۔
٭ امریکی جنگی بیڑوں کی وسیع نقل و حرکت، صہیونی ریاست کی جنگی آرائش، ترکی اور سعودی عرب کی قطعی مداخلت، اردن اور شام میں موجود شام مخالفین کو جنگی آمادگی کی دعوت، لبنان میں حزب اللہ مخالف گروپوں کی نقل و حرکت اور دوسرے اقدامات سے معلوم ہوتا ہے کہ اوباما کی ظاہری محدود جنگ کے دعوے جھوٹے ہیں اور ایک بڑی جنگ کے بادل علاقے پر منڈلا رہے ہیں تاکہ شامی حکومت کا قصہ تمام کرنے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی میں امریکی کی مطلوبہ وسیع تبدیلیاں لائی جاسکیں اور یہ وہی عظیم تر مشرق وسطی کے امریکی منصوبے کا تسلسل ہے وہی مشرق وسطی جس میں مزاحمت محاذ کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے اور اس صورت میں اسرائیل کے لئے امن کی فراہمی کا امریکی منصوبہ نافذ ہوسکے گا۔ گو کہ عین ممکن ہے کہ شامی افواج اور شام کے حلیف ممالک کا غیر متوقعہ رد عمل اس امریکی سپنے کو 2006 کی 33 روزہ جنگ کی طرح، شرمندہ تعبیر نہ ہونے دے اور اوباما کے منصوبے کو خاک میں ملا دے تاہم امریکی حکومت اسی مقصد سے اپنے منصوبے کو شام کے خلاف حملے کا منصوبہ تیار کرے گا۔
٭ کیمیاوی ہتھیاروں کے بارے میں امریکہ کے موقف کے بارے میں کہنا چاہئے کہ شام میں لاکھوں افراد مارے جاچکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اس سے پہلے یہ شیطانی جذبہ بیدار کیوں نہیں ہوا؟ اور جواب یہ ہے کہ امریکہ نے پورے خطے کو نشانہ بنانے کے لئے بڑی جنگ لڑنے کا منصوبہ تیار کیا ہے۔
٭ شام نے خفیہ طور پر "دمشق کی ڈھال" کا منصوبہ تیار کیا اور اس پر کامیابی سے عمل ہورہا ہے؛ بندر بن سلطان آل سعود کی فورسز اور امریکی کٹھ پتلی شکست و ریخت کا شکار تھے چنانچہ ہمیں اس منظر نامے کی توقع رکھنی چاہئے کہ بچوں اور عورتوں کو کیمیاوی بمباری کا نشانہ بنایا جائے اور الزام اس طاقت پر لگایا جائے جس کو اس منظرنامے کے بغیر دیوار سے لگانا ممکن نہيں ہے۔ بندر بن سلطان نے اس منظرنامے کے مطابق عمل کرکے بچوں اور عورتوں کا خون کیا اور امریکہ نے حکومت شام کے خلاف جنگ کا ڈھول پیٹنا شروع کیا۔ لیکن حقیفت یہ ہے کہ یہ جنگ اس توازن کو وجود میں لانے کے لئے ہے جس کا مقصد جنیوا 2 کانفرنس کو زندہ کرنا تھا۔
٭ ان تمام اقدامات سے امریکہ کا اصل اور بنیادی مقصد اسلامی مزاحمت اور حزب اللہ ہے۔
٭ جنگ حتمی ہے جس کا زمانہ معلوم نہیں ہے لیکن یہ ایک فطری سا امر ہے؛ امریکہ مزآحمت محاذ کو نہیں بتا سکتا کہ جنگ کب ہوگی کیونکہ مزاحمت محاذ بہت طاقتور ہے؛ اس حد تک کہ مزاحمت محاذ پر اس کو اچانک حملہ کرنا پڑے گا، اس کو دھوکہ دینا پڑے گا، تمام افواج کو اس کے خلاف متحد کرنا پڑے گا، شدید ترین بمباریوں اور گولہ باریوں کا سہارا لینا پڑے گا؛ اور سب سے اہم مسلح جماعتیں ہیں جو امریکہ اور مغرب کی افواج کی نیابت میں لڑرہی ہیں کیونکہ امریکی جنرل قاسم سلیمانی کی اس بات کو بخوبی سمجھ چکے ہیں کہ "ہر امریکی کو شام کی جنگ میں اترتے وقت اپنے لئے ایک تابوت بھی ساتھ لانا چاہئے'۔
٭ جارح افواج کو فوجی آرائش اور حملے کی پوزیشن میں آنے کے لئے وقت کی ضرورت ہے، دوسری طرف سے جنگ کا انتظام کرنے والوں کو رائے عامہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، گوکہ ان کے فیصلوں میں رائے عامہ کا کوئی کردار نہيں ہے بلکہ ان کے لئے اسٹریٹجک نقطہ یہ ہے کہ افواج کو دقیق اور صحیح انداز سے منظم کریں۔
٭ اسی وقت Zero Hour کا آغاز ہوتا ہے، ہزاروں میزائل ہوائی اڈوں، فوجی اڈوں اور چھاؤنیوں، ہتھیاروں اور گولہ بارود کے انباروں اور اسٹریٹجک ہتھیاروں کے انباروں پر داغے جاتے ہیں، بعید از قیاس نہيں ہے کہ صدر بشار الاسد کو بھی نشانہ بنایا جائے؛ یہ حملہ اردن میں تعینات 40 ہزار تکفیری دہشت گردوں کے ساتھ ہمآہنگ کیا جائے گا جن کو امریکی افواج نے تربیت دی ہے، وہ درعا کے راستے دمشق کی طرف مارچ کے لئے روانہ کئے جائیں گے۔ اور ترکی سے بھی ہزاروں دہشت گرد حلب، ادلب اور شاید لاذقیہ کی طرف روانہ کئے جائيں گے۔ لبنان کے سرحدی علاقے عرسال سے ایک ہزار مسلح افراد، اور عین الحلوہ سے پانچ ہزار فلسطینیوں کو شام روانہ کیا جائے گا
البتہ اس اّثناء میں امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل کو بھی نہیں بھولنا چاہئے جس کو 33 روزہ جنگ کے زخم سہنے کا تجربہ ہے اور اس بار مغرب کی ہمہ جہت حمایت اور تکفیری جماعتوں کی حمایت سے اپنے تاریخی خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے میدان میں اترے گا اسی وجہ سے ہم اس جنگ کو "جنگ احزاب" کہہ سکتے ہیں بشرطیکہمان لیا جائے کہ آج کی حکومتیں وہی احزاب ہیں۔
واضح رہے کہ ہیکل نے ضمنی طور پر تو محاذ مزاحمت کے کانٹے دار رد عمل کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن یہاں یہ اشارہ نہيں کیا ہے لیکن جہاں تک حقائق بتا رہے ہیں یہ مسلمانوں کے خلاف امریکہ کی آخری جنگ ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ یہ سابقہ جنگوں کی طرح یکطرفہ جنگ نہ ہوگی بلکہ اس میں امریکہ کو کچھ پانے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑے گا اور یہ درست ہے کہ پہلا میزائل امریکہ کی طرف سے داغا جائے گآ لیکن جنگ کا اختتام مزاحمت محاذ کی مرضی سے ہوگا اور یہ محاذ جنگ کو ہرگز اس نقطے پر بند نہیں کرے گا جہاں امریکہ کی خواہش ہوگی۔
ہیکل کہتے ہیں:-
یہ جنگ ایک میزائل داغنے سے شروع ہو گی اور مشرق وسطی کی کی شکل کی تبدیلی پر ہی ختم ہو گی
ربط
http://www.voiceofurdu.com/index.ph...بشار-الاسد-نے-کیمیاوی-ہتھیار-استعمال-نہیں-کئے
 
Top