امریکا، پاکستان کی ضرورت نہیں رہا

امریکا کے مرد بیمار یہ لوگ بہ ظاہر یہی کہتے تھے کہ فیصلہ عدالت کرے گی مگر اس کے پیٹ میں طوفان یہی امڈتے تھے کہ کوئی ایسا گر، حیلہ یا جواز تلاشا جائے کہ ریمنڈ ڈیوس کو واپس کر کے اس فرض منصبی سے بخوبی سبکدوش ہوا جائے جو قصر ابیض کی جانب سے انہیں سونپا گیا ہے، مگر اب تک ہمہ قسم کے امریکی دبائو کو برداشت کرنے پر ان کی تحسین نہ کرنا بھی زیادتی ہے، چاہے شدید عوامی ردعمل سے بچنے یا مصر اور تیونس کے حالات کو مدنظر رکھ کر ایسا کیا گیا ہو۔ چشم فلک نے یہ بھیانک منظر بھی دیکھا کہ ریمنڈ ڈیوس کی حیثیت ہمارے وزیر خارجہ سے بھی زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک ماہ گزر جانے کے باوجود ریمنڈ ڈیوس کو رہا کرنے یا نہ کرنے کے متعلق ہی تبصرے ہوتے رہے، حالانکہ یہ تمام سوالات ابھی تک تشنہ ہیں کہ یہ خون آشام جاسوس اور قاتل بھیڑیا یہاں کیوں آیا؟ اس کے عزائم کس حد تک مذموم و مسموم تھے؟ یہاں کتنے لوگوں کو خرید کر یہ امریکی ایجنسیوں کے آلہ کار بنا چکا ہے، اس نے تین نوجوانوں کو قتل کیوں کیا؟ ان میں سے کسی ایک سوال کے جواب سے قوم کا کوئی فرد آگاہ نہیں، پھر پولیس نے ریمانڈ کس لئے لیا ہے؟ کیا یہ ریمانڈ اہل پاکستان کو دکھانے کے لئے ایک تماشا ہے؟ کیا عام مجرموں سے بھی دوران ریمانڈ ایسا ہی سلوک برتا جاتا ہے؟
ریمنڈ کے متعلق بین الاقوامی میڈیا اور تحقیقاتی ادارے بہت کچھ اگل رہے ہیں مگر ہماری پولیس اس کی مہمان نوازی اور خاطر مدارت میں لگی ہوئی ہے۔ ویب سائٹ eutimes-net کی رپورٹ کے مطابق ریمنڈ کی تحویل سے سی آئی اے کی انتہائی خفیہ دستاویز ملی ہیں، جس میں امریکی ٹاسک فورس (ٹی ایف) 373 کے خطے میں ایک مشن میں مصروف ہونے کی نشاندہی ہوئی ہے، جس کے تحت جوہری مواد اور حیاتیاتی جراثیم القاعدہ کو فراہم کئے جا رہے ہیں جسے امریکا کے خلاف استعمال کر کے ایک مکمل جنگ بھڑکانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔ روزنامہ نوائے وقت کے مطابق روس کی بیرونی حمایت کے لئے انٹیلی جنس سروس (S.R.V کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ریمنڈ بدنام امریکی ٹی ایف 373 کارکن ہے، اسی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ مغرب کی معیشت کی مکمل تباہی اب صرف چند ماہ کی بات ہے۔
ریمنڈ ڈیوس ہمارا مجرم ہے، وہ ہماری تحویل میں ہے مگر امریکا کی نظریں اس پر مسلسل ٹکی ہوئی ہیں، اس کی نگرانی کے لئے دس کیمرے لگائے گئے ہیں جس پر امریکی قونصل جنرل کا رمیلا کانرائے کو اعتراض ہے۔ ٹی وی، ڈی وی ڈی پلیئر، فریج، اعلیٰ فرنیچر اور چینی ریستوران کا پکا ہوا کھانا کھانے کے باوجود اس کی طبیعت خراب ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ ریمنڈ کی طبیعت خراب نہیں ہوئی بلکہ یہ تو مکر ہیں، وہ گرگٹ کی طرح ابھی کئی اور رنگ بدلے گا، ساری دنیا نے دیکھا کہ ایک امریکی جاسوس کے لئے امریکا کو اتنے اسہال لگے ہیں کہ کتنے ہی امریکی وفود اور اہلکار یہاں پھیرے لگا چکے ہیں، پہلے امریکی سفیر اور وزیر خارجہ نے دھمکی دی، پھر اوباما نے تعلقات منقطع کرنے کا کسیلا عندیہ دیا، یہاں تک تڑی لگائی گئی کہ ریمنڈ کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات نہیں کریں گے اور امداد بھی بند کر ڈالیں گے مگر جان کیری کی خالی ہاتھ واپسی کے بعد اب ان کی عقل ٹھکانے آنے لگی ہے، سینیٹر لینڈسے گراہم نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان کی امداد روکی گئی تو افغان جنگ شدید متاثر ہو گی۔
اگر ریمنڈ کو رہا نہ کیا گیا تو ممکن ہے سی آئی اے اسے قتل کر ڈالے، سو اس کی حفاظت انتہائی ضروری ہے، اس کے قتل سے امریکا دو مقاصد حاصل کرے گا۔ پہلا وہ اہم راز جو ریمنڈ کے سینے میں دفن ہیں، اس کے ساتھ ہی قبر میں دفن ہو جائیں گے۔ دوسرا وہ قتل کا الزام پاکستان پر لگا کر اسے مزید دبائو میں رکھے گا اور مطالبات منوائے گا۔
پنجاب حکومت پانچ بار امریکی سفارت خانے کو خطوط لکھ چکی تھی کہ عباد الرحمن کو کچلنے والی گاڑی اور ڈرائیور ہمارے حوالے کئے جائیں، جس کا کوئی جواب دینے کی زحمت نہ کی گئی، اب جلی کٹی خبر یہ ہے کہ یہ ڈرائیور اپنے ساتھی سمیت امریکا پہنچ گیا۔ کیا فہیم اور فیضان کے قاتل ریمنڈ کی طرح عباد الرحمن کا قاتل مجرم نہ تھا؟ وہ کس کی سستی، غفلت یا غداری کے باعث یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا اور اس کے متعلق صرف امریکی قونصل خانے کو خطوط لکھنے پر ہی اکتفا کیوں کیا گیا؟ آج عباد الرحمن کی ماں رضیہ کے آنسو پکار رہے ہیں، اس کی بہن سمیر اور صالحہ کے مضطرب اور بے کل دل چلا رہے ہیں۔ مزنگ چونگی کے قرب میں گرنے والے خون کے چھینٹے پکار رہے ہیں کہ حب الوطنی کی نبض اس قدر کیوں ڈوبنے لگی ہے کہ چور کوتوال اور کوتوال چور سمجھ لیا گیا ہے، آئینے اس قدر غیر واضح کیوں ہو گئے ہیں کہ غدار وطن کی شناخت بھی دوبھر ہو گئی ہے، امداد بند ہونے سے خائف لوگو! خوب اچھی طرح جان لو کہ اب امریکا پاکستان کی ضرورت نہیں رہا بلکہ پاکستان امریکا کی ضرورت بن چکا ہے، کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ وہ افغانستان میں شیر سے بلی بن چکا ہے اور ریمنڈ کی گرفتاری کے بعد یہ بلی کھسیانی بلی بن چکی ہے اور کھسیانی بل کیا کرتی ہے یہ بتانے کی شاید اب ضرورت نہیں۔

بشکریہ ،،،،ہفت روزہ جرار



والسلام ۔۔۔علی اوڈراجپوت
ali-oadrajput
__________________
 
Top