امرود دراصل کیلا ہے !

قمراحمد

محفلین
امرود دراصل کیلا ہے !

وسعت اللہ خان(بی بی سی اردو ڈاٹ کام،اسلام آباد)


پاکستان کے صوبہ سندھ کے ساحلی ضلع ٹھٹہ کی تحصیل کھاروچھان کی آدھی زمین یعنی لگ بھگ چار لاکھ ایکڑ سمندر کھا گیا۔لیکن یہ سب اچانک اور ایک دن میں نہیں ہوا۔بیس برس میں ہوا ہے۔اس لئے یہ روز کی خبری بھیک پر گذارہ کرنے والے کسی چینل یا اخبار کی سرخی نہیں بنتی۔

اگر میں یہ کہوں کہ جس طرح ٹھٹھہ کے چار لاکھ ایکڑ سمندر پی گیا اسی طرح پاکستان کے لگ بھگ پچاس فیصد علاقے پر سے ریاستی اختیار مسلح گروہ اور مقامی مافیا کے ہاتھوں غائب ہوچکا ہے تو کیا آپ یقین کریں گے۔شائید نہ کریں کیونکہ یہ کام چوبیس گھنٹے میں نہیں بلکہ پچھلے تیس سال سے ہورھا ہے۔اور پچھلے آٹھ سال میں اس میں بہت تیزی آ گئی ہے۔ہوسکتا ہے کہ یہ راز حکمرانوں کو معلوم ہو لیکن حکمران ایسی کسی بھی بات کو تسلیم کرنے والی آخری مخلوق ہوتے ہیں۔

عباسی خلیفہ مستعصم باللہ نے اسوقت تک تاتاریوں کی یلغار کو تسلیم نہیں کیا جب تک ہلاکو خان بغداد میں داخل نہیں ہوگیا۔ مغل تاجدار محمد شاہ اسوقت تک ہنوز دلی دور است کہتا رھا جب تک نادر شاہ درانی کے سپاہی گرد آلود جوتوں سمیت اسکے محل میں نہیں گھس گئے۔

بہادر شاہ ظفر تب تک خود کو شہنشاہِ ہند سمجھتا رہا جب تک نکلسن نے اسکے بیٹوں کے کٹے ہوئے سر طشت میں رکھ کر پیش نہیں کردئیے۔
ایوب خان اور پھر یحیی خان کو آخری دن تک یہ گمان رہا کہ یہ سات کروڑ بنگالی نہیں بلکہ مٹھی بھر شرپسند ہیں۔

برھان الدین ربانی تب تک کابل کے قصرِ صدارت سے مزارِ شریف نہیں گیا جب تک نعرے لگاتے کلاشنکوف لہراتے طالبان کی ڈاٹسنیں کابل کے اندر نہ دوڑنے لگیں۔ اور ملا عمر آخری وقت تک اس یقین سے سرشار رہا کہ جیسے ہی امریکی فوجی زمین پر اتریں گے ان کا افغانی تکہ بنا دیا جائے گا۔

اس سب کے باوجود پچھلے ایک ہزار برس میں مستعصم باللہ سے آصف زرداری تک یہ بیان کبھی نہیں بدلا کہ حکومت اور اسکے ادارے ہرقسم کے اندرونی و بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کے پوری طرح اہل اور چوکس ہیں۔ اب اس بات پر بھی تحقیق ہونی چاہیے کہ حکمرانوں میں اس شتر مرغ کے جینز کب داخل ہوتے ہیں جو ریت میں سر دبا کر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔

یہ بات سمجھنی کیوں مشکل ہوتی ہے کہ نظریے کو صرف اسلحے سے نہیں اور اسلحے کی زبان سمجھنے والوں کو صرف نظریے سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

چینی عسکری فلسفی سن زو کے بقول دشمن کی کمزوریوں سے زیادہ اگر اپنی کمزوریوں کا بھی ادراک ہو تو آدھی جنگ آپ بغیر لڑے جیت سکتے ہیں۔اور شکست کا پہلا زینہ یہ سوچ ہوتی ہے کہ ہم کبھی غلط نہیں ہوسکتے۔اور جب آپ اس سوچ کی چاردیواری سے باہر نہیں نکلتے تو ایک دن اسی کے نیچے دب جاتے ہیں۔

جب آپ یہ تسلیم ہی نہیں کریں گے کہ آپ کی فوج اور پولیس دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے تربیت یافتہ نہیں ہے تو آپ اسے تربیت کیسے دیں گے۔

جب آپ ہوا میں ہاتھ پاؤں اور اندھیرے میں تیر چلانے اور سائے کے تعاقب کو ریاستی پالیسی کے طور پر پیش کریں گے تو کتنے لوگ آنکھ بند کرکے آمنا و صدقنا کہیں گے۔

جب آپ اپنے مدِ مقابل نظریے کی طاقت اور اسکے پھلنے پھولنے کی وجوہات ہی نہیں سمجھ پائیں گے تو اس نظریے کی مزاحمت کے خواہاں لوگوں کو کیسے منظم کریں گے۔

کیا یہ کہنے سے خودکش حملے رک جائیں گے کہ یہ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ تو کیا گلے کاٹنے والے آپ کی یہ نصیحت سن کر شرمندہ ہوجائیں گے کہ یہ بربریت اور غیر انسانی فعل ہے۔

اگر عورت کو کوڑے مارنے والا وڈیو کلپ جعلی ثابت ہوجائے تو کیا عورتوں کی عزت و آبرو اور جان کو تحفظ مل جائے گا۔ اورمسلح گروہ کیا رحمان ملک کی یہ دھمکی سن کر بھاگ جائیں گے کہ حکومت ان سے آہنی ہاتھ سے نمٹے گی۔

آپ کب تک ریاست کے باغی ایک گروہ سے اسکی شرائط پر سمجھوتہ کریں گے اور دوسرے باغی گروہ کی بات سنے بغیر ہی اسےمارتے رہیں گے۔ آپ کب تک سولہ کروڑ لوگوں کو یہ سمجھاتے رہیں گے کہ یہ جو امرود دکھائی دے رہا ہے اصل میں یہ کیلا ہے۔
 
Top