امتِ مسلمہ کی خود اصلاحی کی صلاحیت ... ... محمد مسلم

محمد مسلم

محفلین
اس امت کی بنیاد ہی اﷲ تعالیٰ نے دین اور وحدتِ امت کے نام پر اٹھائی ہے، جب بھی یہ بنیاد کمزور ہونا شروع ہوتی ہے تو اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا ایک تازیانہ برستا ہے تاکہ ہم لوگ پھر سے یک جان ہو جائیں، اس کے بعد امت واقعتاً یک جان ہو کر ایک بار پھر کامیابی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ اسلام کے اندر امام مہدی کی آمد کا تصور، عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا تصور، ہر صدی میں مجدد کی آمد کا تصور اسی قوتِ خود اصلاحی کا سبب بنتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ امام مہدی کی آمد کے تصور نے ہر دور میں اسلام کو ایک نئی اصلاحی قوت سے نوازا ہے، قطع نظر اس سے کہ وہ واقعتاً امام مہدی بھی تھے یا نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ امام مہدی کے مسئلہ پر امت مسلمہ میں بھی بہت سے اختلافات ہیں، بعض لوگ تو اس تصور کا مذاق بھی اڑاتے ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ تصور ایک زندہ و جاوید مذہب کے لیے ضروری ہے جس کے باعث اسلام کی لچک کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق بنایا جاتا ہے، مسلمانوں میں موجود غلط اوہام اور خیالات کی اصلاح کی جاتی ہے ، انہیں گفتار سے کردار کی طرف لایا جاتا ہے، ان میں نفاق کو ختم کرکے یقین کو پختہ کیا جاتا ہے اور کسی ایک نقطہ پر پھر انہیں متحد کرکے دوبارہ احیاءِ اسلام کی راہ ہموار کی جاتی ہے۔ اگرچہ بعض اوقات مہدی اور مجدد کی آڑ میں بعض طالع آزماؤں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوششیں بھی کیں جن میں حسن صباح اورمرزا غلام احمد قادیانی جیسے اشخاص بھی شامل ہیں۔ ہم سب اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مہدی سوڈانی، مہدی نہ تھے لیکن انہوں نے برطانوی راج کے خلاف جو جدوجہد کی اور جو جذبہ مزاحمت افریقی مسلمانوں میں پھونکا اس کے سب معترف ہیں۔ اسی طرح عبداﷲ بن یاسین جس کے پیروکاروں میں یوسف بن تاشفین کا نام آتا ہے انہوں نے بھی دعوائے مہدویت کیا تھا، اور انہوں نے مغرب العربی (مراکش) اور اندلس کے علاقوں کے مسلمانوں کے لیے نہایت شاندار کارنامے سرانجام دیئے۔ اسی طرح مجدد کا معاملہ ہے، مجدد تو خیر کوئی بھی شخص ہو سکتا ہے اس پر اختلافات کم ہوتے ہیں کیونکہ مہدی تو ایک ہی سچا ہو گا جبکہ مجدد ہر صدی میں ایک آتا ہے جو کہ ان خرابیوں کی اصلاح کرتا ہے جو مسلمانوں میں کسی اصلاحی تحریک کے وجود نہ ہونے کے باعث پیدا ہوجاتی ہیں۔ بعض اوقات یہ خرابیاں محض وعظ اور درس و تدریس سے درست ہو جاتی ہیں لیکن بعض اوقات ان کی اصلاح اس طرح سے ہونا ممکن نہیں ہوتی تو پھر اصلاح امت کے لیے اﷲ تعالیٰ کسی بیرونی حملہ آور کو مسلط کر دیتے ہیں تاکہ یہ لوگ حالات کے تھپیڑے کھا کر سنبھل جائیں۔ فتنہ تاتار یا فتنہ مغرب یہ عذاب ہی نہیں بلکہ دراصل امت کے بگڑے ہوئے حصے کے لیے عملِ جراحی بھی تھا جس کے بعد امت نے کسی حد تک سنبھالا لیا اور وہ نزاعی بحثیں جنہوں نے امت کے بڑے طبقوں کو آپس میں لڑوا دیا تھا دم توڑ گئیں۔
کون تصور کر سکتا تھا کہ خلقِ قرآن، جبر و قدر کے مسائل، معتزلہ کی موشگافیاں ختم ہو پائیں گی، لیکن سب آہستہ آہستہ دم توڑ گئیں۔ کون تصور کر سکتا تھا کہ ہند میں ہندو مت کے اثرات کی آمیزش سے درباروں میں جو دینِ الٰہی پنپ رہا تھا کبھی ختم ہو پائے گا، لیکن یہ سب فتنے ایک مخصوص عرصے کے بعد غائب سے اصلاحی اسباب میسر آنے کے بعد دم توڑ گئے۔ یہی خود اصلاحی کی صلاحیت اسلام کو دوسرے ادیان سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسرے ادیان بدلتے ہوئے تقاضوں کا ساتھ نہ دینے کے باعث یا تو اپنا حلیہ مکمل طور پر تبدیل کر کے اپنی بنیاد سے ہی منحرف ہو جاتے ہیں یا نئے تقاضوں سے کنارہ کش ہو کر خانقاہوں، اور عبادت گاہوں تک محدود ہو جاتے ہیں۔ یہی بنیادی فرق ہے جس کو نہ سمجھنے کے باعث یورپ ہم سے نالاں ہے۔ وہ یہ سمجھتا ہے کہ جیسے یورپ نے مذہبِ عیسوی سے جان چھڑا کر ترقی کی راہ کو پایا ہے ایسے ہی اسلامی مشرق بھی دینِ اسلام سے ناتا توڑ کر ترقی (بزعمِ خود) کی راہ پر چلے۔ وہ اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے کہ مذہبِ عیسوی کے جمود اور اصل روح سے محرومی کے باعث وہ جدید تقاضوں کا ساتھ نہ دے سکتا تھا جبکہ اسلام اپنی لچک کے باعث جدید تقاضوں کے مطابق ڈھل جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی بنیاد کو بھی نہیں ہلنے دیتا۔ یعنی اسلام نے جدت اور قدامت میں امتزاج پیدا کر رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں احکامات اجمالاً بیان فرمائے ہیں اور حضورﷺ نے احادیث میں احکامات کو مجملاً ہی بیان فرمایا ہے تاکہ آنے والوں کے لیے نئی تشریح و تعبیر کا راستہ کھلا رہے اور دینِ اسلام محض جامد دین نہ بن کر رہ جائے۔ بعض اوقات صحابہ کرام زیادہ سوالات کرتے تو آپﷺ اس بات پر ناراض بھی ہوتے تھے تاکہ راستہ موجود رہیں۔
اسلامی قانون سازی کے میدان میں بھی اسی بات کو اہمیت حاصل ہوئی کہ جب مکتبہ فکر نے زیادہ لچک رکھی اس کو ہر دور کے حکمرانوں نے زیادہ ترجیح دی کیونکہ ان کو کاروبارِ حکومت چلانے کے لیے بہتر لچک اس میں مل جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ فقہ حنفی دوسری فقہوں کے مقابلے میں حکمرانوں کی زیادہ پسندیدہ رہی ہے کیونکہ یہ حاکمِ وقت کو کافی حد تک اجتہادی اختیارات دے دیتی ہے جبکہ دوسری فقہیں ظاہرِ قرآن و سنت کے ساتھ زیادہ شدت کے ساتھ پیوستہ رہنے کے باعث اس قدر لچک نہیں رکھتیں۔
موجودہ حالات میں امتِ مسلمہ اپنے زوال کی آخری حدوں کو چھو رہی ہے اور ہر تاریکی کے دامن میں روشنی کے خواب ہوتے ہیں، تاریک بادلوں کے پیچھے روشن خورشید چھپا ہوتا ہے۔ ہمیں پر امید رہنا چاہئے کہ امت پھر ایک بار پھر بیدار ہو رہی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے گفتار اور کردار سے اس بیداری کے لیے اپنا کردار ادا کرنا بھی ضروری ہے تاکہ قافلہ حجاز کے لیے حدی خوانوں کی کمی نہ ہو۔ امت کے مصائب پر مذاق نہ اڑائیے بلکہ ان سے چھٹکارے میں حصہ ڈالیں۔
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
 
Top