امام احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ اور احترامِ سادات

’’حیاتِ اعلیٰ حضرت‘‘ میں ہے کہ:
ایک سید صاحب بہت غریب، مفلوک الحال تھے، عسرت سے بسرت ہوتی تھی اس لئے سوال کیا کرتے تھے، مگر سوال کی شان عجیب تھی جہاں پہنچتے، فرماتے ’’دلوائو سید کو‘‘
ایک دن اتفاقِ وقت کہ پھاٹک میں کوئی نہ تھا، سید صاحب تشریف لائے اور سیدھے زنانہ دروازہ پر پہنچ کر صدا لگائی ’’دلوائوسید کو‘‘ اعلیٰ حضرت کے پاس اُسی دن اخراجاتِ علمی یعنی کتاب، کاغذ وغیرہ کے لئے دوسوروپے آئے تھے، جس میں نوٹ بھی تھے، اٹھنی، چونی، پیسے بھی تھے کہ جس کی ضرورت کو صرف فرمائیں، اعلیٰ حضرت نے اس بکس کے اُس حصہ کو جس میں یہ سب روپے تھے سید صاحب کی آواز سنتے ہی اُن کے سامنے لاکر حاضر کردیا اور اُن کے روبرو لئے ہوئے کھڑے رہے، جنابِ سیدصاحب دیر تک ان کو دیکھتے رہے اس کے بعد ایک چونی لے لی۔
اعلیٰ حضرت نے فرمایا: حضور یہ سب حاضر ہیں۔ سید صاحب نے فرمایا: مجھے اتنا ہی کافی ہے، الغرض جنابِ سید صاحب ایک چونی لے کر سیڑھی پر اُتر آئے، اعلیٰ حضرت بھی ساتھ ساتھ تشریف لائے، پھاٹک پر اُن کو رخصت کرکے خادم سے فرمایا دیکھو! سید صاحب کو آئندہ آواز دینے یا صدا لگانے کی ضرورت نہ پڑے، جس وقت سید صاحب پر نظر پڑے فوراً ایک چونی حاضر کرکے سید صاحب کو رخصت کردیا کرو۔
(امام احمد رضا اور احترامِ سادات از سید صابر حسین شاہ بخاری صفحہ38)
 
Top