امام ابو حنیفہ کا درس عام فقہا کے انداز سے مختلف تھا۔ ان کا طریقہ یہ نہیں تھا کہ وہ کچھ پڑھائیں اور لوگ نوٹ کریں۔ وہ یک طرفہ درس نہیں دیا کرتے تھے۔ ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہر ایک کو اپنے حلقہ درس میں داخلہ نہیں دیتے تھے۔ بڑی محدود تعداد میں شاگردوں کو داخلہ دیا کرتے تھے۔ پہلے سے بڑا پختہ علم لے کر آو ، پھر امام ابو حنیفہ کے حلقہ درس میں شامل ہو جائے۔ کسی نو وارد شاگرد کے پاس اگر پہلے سے علم نہیں ہوتا تھا تو پھر شاگرد کو ایک عرصہ تک خاموش بیٹھنا پڑتا تھا۔ اور جب ذرا تربیت ہو جاتی تھی اور امام صاحب اجازت دے دیتے تو پھر بحث میں حصہ لینے کا موقع ملتا۔ جن لوگوں کو گفتگو میں حصہ لینے کی اجازت ہوتی تھی ان کی تعداد چالیس پچاس اور کبھی ستر اسی تک ہو جاتی تھی باقی لوگ سننے والے ہوتے تھے۔ طریقہ یہ ہوتا تھا کہ امام صاحب کوئی سوال سامنے رکھ دیتے تھے۔ حلقہ درس کے شرکا اس کا جواب دیتے تھے اور اپنے اپنے جواب کے حق میں قرآن و حدیث سے دلائل پیش کیا کرتے تھے۔ پھر اس پر کئی کئی دن تک بحث ہوتی رہتی تھی اور آخر میں امام صاحب اپنی نپی تلی رائے دیتے تھے۔ اکثر اوقات سب لوگ امام صاحب کی رائے سے اتفاق کر لیتے تھے۔ بعض اوقات کچھ لوگ امام صاحب کی بات سے اختلاف بھی کر لیتے تھے۔ کافی بحث کے بعد یہ بھی ہوا کہ نہ امام صاحب کی رائے میں کوئی تبدیلی آ رہی ہے اور نہ ہی شاگردوں کی رائے بدل رہی ہے تو دونوں آراء لکھ دی جاتی تھیں۔ اس طرح سے کچھ لوگ ان اجتہادات اور تمام مباحث کو قلمبند کرتے رہتے اور یوں درجنوں کتب تیار ہوگئیں۔ یہ انداز انفرادی طور پر کام کرنے والے فقہا کے کام سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ ایک فقیہ گوشہ نشین ہو کر لکھ رہے ہیں اور ایک دوسرے فقیہ چالیس پچاس جید ترین اہل علم کے حلقہ میں اجتماعی مشاورت سے بحث و تمحیص کے نتیجے میں ایک چیز مرتب کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے دونوں کے معیار اور پختگی اور قوتِ استدلال میں زمین آسمان کا فرق ہوگا۔
بحوالہ: محاضراتِ فقہ از ڈاکٹر محمود احمد غازی، صفحہ 243
بحوالہ: محاضراتِ فقہ از ڈاکٹر محمود احمد غازی، صفحہ 243