الیکشن سے پہلے نظام؟

election-violence-670.jpg

فائل فوٹو

یوں تو 11 مئی کا الیکشن وطن عزیز کے لئے اُمید کی کرن سمجھا جاتا ہے لیکن جوں جوں انتخابات قریب آتے رہے ہیں ان کے ساتھ خوف کے سائے بھی لمبی ہو تے جارہے ہیں۔ آئے روز پاکستان بلخصوص صوبہ خیبر پختون خوا، سندھ اور بلوچستان میں درجنوں چھوٹے بڑے دھماکے ہورہے ہیں اور نتیجتًا ملک کی عمومی فضا خوفزدہ ہوجاتی ہے اور الیکشن اپنی رعنایاں کھو دیتے ہیں۔
اس بار تین سیاسی جماعتیں دہشت کے عفریت کی زد میں ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ عسکریت پسندوں کے اوّلین اہداف ہیں۔ پنجاب کے علاوہ باقی صوبوں میں الیکشن کا وہ مزا نہیں جو ہونا چاہے اور ایسا لگتا ہے الیکش صرف پنجاب میں ہورہے ہیں اور پنجاب ہی پاکستان ہو۔ بعض جماعتوں کے لئے میدان صاف جبکہ مذکورہ تین جماعتوں کے لئے آنے والا الیکشن مقتل سے کم نہیں۔ ایسے میں کئی تھیوریاں گردش میں رہتی ہیں جن میں کئی ایک کو آسانی سے جھٹلایا بھی نہیں جا سکتا۔​
یہ قطعی طور پر نامناسب ہوگا کہ یہ دہشت گرد پنجاب میں کاروائیاں کیوں نہیں کرتے۔ اس کے دوسرے معنی یہ لئے جاسکتے ہیں کہ ‘ہم تو ڈوبے ہیں صنم، تم کو بھی لے ڈوبیں گے’۔ مگر حکومت پاکستان اور ریاست سے منسلک دوسرے اداروں کی عوام کو تحفظ دینے میں عدم دلچسپی دوسرے صوبوں کے عوام میں بالخصوص ان سیاسی جماعتوں میں اس سوچ کو پروان چڑھارہی ہیں کہ پاکستان کا مطلب پنجاب ہے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے ریاستی اور نجی ادارے اس وقت تگڑے ہوجاتے ہیں جب مصیبت پنجاب کو اپنے لپیٹ میں لے یا پھر خطرہ اسلام اباد کی دیواروں کو بھی ہلا دے۔​
دوسرا خدشہ جو محسوس کیا جارہا ہے وہ دہشت گردوں سے وابستگی سے متعلق ہے۔ بہت عرصے سے پنجابی طالبان کے وجود پر رپورٹس بلکہ کتابیں آرہی ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ دہشت گردوں کی تربیت گاہوں کے بارے کہا جارہا ہے کہ سارے پنجاب خصوصًا جنوبی پنجاب میں واقع ہیں۔​
دہشت گردوں کی جانب سے ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں جن کا مضبوط گڑھ پنجاب گردانا جاتا ہے کے لئے سافٹ کارنر رکھنا شائد یک طرفہ نہ ہوگا اور سمجھا جاتا ہے کہ کہیں کوئی خفیہ ڈیل ہوچکی ہوگی۔ اللّہ کرے یہ محض قیاس ہی ہومگر جن پارٹیوں کو ہدف بنایا جارہا ہے بدقسمتی سے پنجاب میں ان کی کوئی خاص پیروی نہیں ہے۔ اے این پی اور ایم کیو ایم کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک گیر سیاسی جماعت گردانا جاتا ہے لیکن اس کی بھی جڑ یں پنجاب میں نہیں بلکہ سندھ میں ہیں۔​
ایسے میں لازمی ہے دونوں دائیں بازوں کی بڑی پارٹیوں کو اس صورت حال پر واضح موقف اپنانا چاہئے۔ ان کی جانب سے تذبذب کئی خدشات کو جنم دے رہا ہے۔​
دہشت گردی اور فرقہ واریت سے نمٹنا کسی ایک سیاسی جماعت، چاہے ملک گیر ہی کیوں نہ ہو، کی بس کی بات نہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی گذشتہ پانچ سالوں سے مسلسل پاکستان کی جنگ لڑ رہی ہے جبکہ اسی عرصے میں اپوزیشن تو درکنار ان کے اپنے بڑے اتحادی بھی کوئی واضح لائحہ عمل پیش نہ کرسکے بلکہ زیادہ تر خاموشی اور نام نہاد مفاہمت کی سیاست میں ہی پناہ لی رکھی۔ ایسے میں عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے تن تنہا اس عالمی اور نہایت ہی پر اسرار پاکستانی عفریت سے لڑنا حماقت اگر نہیں تو “سیاسی پاکستانیت” سے نا واقفیت ضرور ثابت ہوئی۔​
تاہم دہشت گردی اب محض سیاسی گیم نہ رہی۔ یہ بظاہر سوچوں کی جنگ بھی بن چکی ہے مگر بہت سے سیاسی و عسکری مبصرین اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا استدلال ہے کہ دہشت گردی کو ایک خاص “جیو پولیٹیکل سٹریٹجی” کے حصول کے لئے سوچوں کی جنگ میں تبدیل کیا جاتا ہے تا کہ رائے عامہ کواس مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکے۔ ان مبصرین کا اصرار ہے کہ پاکستان میں “سلامتی حکمت عملیاں” بنانے والے ادارے اور عناصر اپنے دیرینہ نکتہ نظر میں تبدیلی لائیں۔​
اس سوچ کے لوگوں کو یقین ہے کہ اسی طرح سوچوں کی یہ جنگ یا نظریات میں عدم برداشت کا کلچر خود بخود تبدیل ہوجائے گا۔ وہ اپنی دلیل کو پاکستانی تاریخ کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ستّر کی دہائی سے پہلے کے پاکستان کا حوالہ دیتے ہیں جب سلامتی حکمت عملی کے کسی پنڈت کو جہاد کو بطور ریاستی سلامتی کے حکمت عملی کے طور پر دیکھنے کا خیال نہیں آیا تھا۔​
ملکی سلامتی کی حکمت عملی میں کسی تبدیلی کے خواہش پر دیوانے کے خواب کا گمان ہوتا ہے بلخصوص ایسے حالات میں جب کسی ملک کے سپہ سالار کو کسی ایسے ملک کے کہ جہاں 98 فی صد مسلمان بستے ہو، باور کرانا پڑے کہ “پاکستان اور اسلام کو الگ نہیں کیا جاسکتا”۔ یہی سے “نظریاتی سرحدوں” اور “بیرونی خطرات” کا راگ شروع ہوجاتا ہے جو کہ موجودہ بین الاقوامی منظر نامے میں مجرّد لگتے ہیں اور سپہ سالار پر نانی کا گمان ہونےلگتا ہے جو ضدّی بچّوں کو کسی ان دیکھی بلا “بھو” سے ڈراتی ہے۔​
وطن مالوف کی قسمت کا اب فیصلہ ہونا چاہے کہ اسے مسلم ریاست بننا ہے یا کہ پھر اسلامی ریاست۔ مراد ایسا ملک جس میں اکثریت مسلمانوں کی ہو اور وہ اپنے لئے کوئی نظام بذریعہ حق رائے دہی سے بنا لے یا پھر ایک ایسی ریاست جس کی رگ رگ میں ایک مخصوص طبقے سے وابستہ “اسلامی” نظام ہو کہ جہاں عقل و خرد، انسانی اقدار اور جمہوری روایات کا خون ہو، جہاں ریاست اسی ایک طبقے کی سوچ کو زبردستی پورے ملک پر نافذ کرے یا پھر غیر ریاستی عناصر اپنی بات منوانے کے لئے گلے کاٹے، اختلاف رائے رکھنے والوں پر خود کش دھماکے کرے اور دلیل کی جگہ بموں کا استعمال کرے۔​
اگر ہمارے ریاستی ادارے اور آئین بھی اسی سوچ کے حامل ہیں اور ان کو چھیڑنے کی کسی میں جراَت نہ ہو تو پھر اس نظام کو نافذ کرنے میں دیر نہیں لگانی چاہئے تاکہ ہم اس کے معجزات سے جلد از جلد بہرہ ور ہو سکیں۔​
اگر مقصود یہی ہے تو پھر انتخابات کا ڈھونگ رچانا اس ملک کے خزانے کا، یہاں بسنے والی انسانی جانوں کا اور املاک کا ضیاع ہے۔ سپہ سالار اس نظام کا اعلان کردے اور خود امیرالمومینن کے اخروی و دینوی عہدے پر براجمان ہوں۔​
نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
تحریر:زبیر توروالی​
بہ شکریہ ڈان اردو
 
Top