الٰہی معاشرہ

ایس ایم شاہ

محفلین
الٰہی معاشرہ
تحریر:ایس ایم شاہ
اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کی سند دے کر اس دنیا میں اپنا خلیفہ بنا کر بھیجا۔ تاکہ اس دنیا کی چند روزہ قید حیات کو غنیمت جان کر ابدی زندگی کے لیے اسے پیش خیمہ قرار دے۔ انسان کی خلقت کا مقصد اس ذات بابرکت نے اپنی معرفت و اطاعت اور عبادت کو قرار دیا۔ البتہ یہاں ایک نکتے کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ انسان کے تقوی کو اپنا شیوہ قرار دینے اور عبادت الہی کو پیشہ کرنے سے اس باکمال ذات کو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ یہ صرف اور صرف انسان کے عروج کی خاطر ہے۔بالکل اسی طرح اگر پوری کائنات کے تمام انسان خدا کے منکر بھی ہوجائیں تب بھی اس ذات حق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، بلکہ یہ صرف اور صرف اس انسان کے زوال اور ہلاکت کا باعث ہے۔ اپنے قیمتی اوقات کو فضول کاموں میں خرچ کرنے والا انسان کسی بھی میدان میں ہو یا کسی بھی مکتب کا پیروکار ہو ، کامیاب قرار نہیں پاسکتا، کیونکہ یہ ایک الہی وعدہ ہے کہ انسان کو اس کی کوشش کے مطابق ہی ملتا ہے۔ جہاں دنیوی مال و متاع اور قدرت و اختیار کے حصول کے لیے محنت و زحمت درکار ہے وہاں ابدی زندگی میں سروخرو ہونے کے لیے بھی منظم انداز سے الٰہی احکامات کو اپنے عملی زندگی میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔ انسان کے دنیاوی فریب میں پڑنے کے خطرے کے پیش نظر رب ذوالجلال نے اپنے نمائندوں کے ذریعے ان کی رہنمائی فرمائی تاکہ ان کی ہدایات پر چلتے ہوئے وہ کامیابی کی راہ اپنا لیں۔ ان ہادیان الہی کے لیے مطلوبہ اہداف تک رسائی کی راہ میں بنیادی طور پر تین رکاوٹیں تھیں:
1. قوم کے سرکش سرغنہ افراداور ظالم بادشاہ۔
2. گزشتہ لوگوں کی نکالی ہوئی بدعتیں اور خرافات۔
3. خودساختہ بتوں سے لوگوں کی بے جاعقیدت
لہذا ان کی دعوت کا محور بھی ان کا مقابلہ کرنا ہوتا تھا۔ ذیل میں ہم اس کے چند نمونے یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں:
سرغنوں اورحکمرانوں کو سرکشی سے روک کر خدا کی طرف دعوت دینا:
حضرت موسیؑ کے دور میں فرعون ایک سرکش اور ظالم حکمران تھا۔ اللہ تعالی نے حضرت موسی ؑکی طرف وحی بھیجی کہ انھیں توحید کی طرف دعوت دیں اور سرکشی سے رکنے کا حکم دیں۔جسے قرآن مجید نے یوں نقل کیا ہے:
1. اذْهَبْ‏ إِلى‏ فِرْعَوْنَ‏ إِنَّهُ طَغى‏ (طه/24)اب آپ فرعون کی طرف جائیں کہ وہ سرکش ہو گیا ہے۔
اسے کس طریقے سے دعوت دینا ہے اور کن چیزوں کا اس سے تقاضا کرنا ہے وہ بھی اللہ تعالی خود معین کرتا ہے:
2. فَقُولا لَهُ قَوْلاً لَيِّناً لَعَلَّهُ يَتَذَكَّرُ أَوْ يَخْشى‏ (طه/44)پس دونوں اس سے نرم لہجے میں بات کرنا شاید وہ نصیحت مان لے یا ڈر جائے۔
3. فَأْتِياهُ فَقُولا إِنَّا رَسُولا رَبِّكَ فَأَرْسِلْ مَعَنا بَني‏ إِسْرائيلَ وَ لا تُعَذِّبْهُمْ قَدْ جِئْناكَ بِآيَةٍ مِنْ رَبِّكَ وَ السَّلامُ عَلى‏ مَنِ اتَّبَعَ الْهُدى‏ (طه/47)دونوں اس کے پاس جائیں اور کہیں: ہم دونوں تیرے رب کے بھیجے ہوئے ہیں پس بنی اسرائیل کو ہمارے ساتھ جانے دے اور ان پر سختیاں نہ کر، بلاشبہ ہم تیرے رب کی طرف سے نشانی لے کر تیرے پاس آئے ہیں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔
4. فَأْتِيا فِرْعَوْنَ فَقُولا إِنَّا رَسُولُ رَبِّ الْعالَمينَ (شعراء/16) آپ دونوں فرعون کے پاس جائیں اور اس سے کہیں: ہم رب العالمین کے رسول ہیں۔
5. وَ قالَ فِرْعَوْنُ يا أَيُّهَا الْمَلَأُ ما عَلِمْتُ لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْري فَأَوْقِدْ لي‏ يا هامانُ عَلَى الطِّينِ فَاجْعَلْ لي‏ صَرْحاً لَعَلِّي أَطَّلِعُ إِلى‏ إِلهِ مُوسى‏ وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكاذِبينَ (قصص/28)اور فرعون نے کہا: اے درباریو! میں تمہارے لیے اپنے سوا کسی معبود کو نہیں جانتا، اے ہامان! میرے لیے گارے کو آگ لگا (کر اینٹ بنا دے) پھر میرے لیے ایک اونچا محل بنا دے تاکہ میں موسیٰ کے خدا کو جھانک کر دیکھوں اور میرا تو خیال ہے کہ موسیٰ جھوٹا ہے۔
6. أَ لَمْ تَرَ إِلَى الْمَلَإِ مِنْ بَني‏ إِسْرائيلَ مِنْ بَعْدِ مُوسى‏ إِذْ قالُوا لِنَبِيٍّ لَهُمُ ابْعَثْ لَنا مَلِكاً نُقاتِلْ في‏ سَبيلِ اللَّهِ قالَ هَلْ عَسَيْتُمْ إِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتالُ أَلاَّ تُقاتِلُوا قالُوا وَ ما لَنا أَلاَّ نُقاتِلَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ وَ قَدْ أُخْرِجْنا مِنْ دِيارِنا وَ أَبْنائِنا فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتالُ تَوَلَّوْا إِلاَّ قَليلاً مِنْهُمْ وَ اللَّهُ عَليمٌ بِالظَّالِمينَ (بقره/246)کیا آپ نے موسیٰ کے بعدبنی اسرائیل کی ایک جماعت (کو پیش آنے والے حالات) پر نظر نہیں کی جس نے اپنے نبی سے کہا: آپ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کریں تاکہ ہم راہ خدا میں جنگ کریں، کہا: ایسا نہ ہو کہ تمہیں جنگ کا حکم دیا جائے اور پھر تم جنگ نہ کرو، کہنے لگے:ہم راہ خدا میں جنگ کیوں نہ کریں جب کہ ہم اپنے گھروں سے نکالے گئے اور اپنے بچوں سے جدا کیے گئے ہیں؟ لیکن جب انہیں جنگ کا حکم دیا گیا تو ان میں سے چند اشخاص کے سوا سب پھر گئے اور اللہ ظالموں کو خوب جانتا ہے۔
لوگوں کو طاغوت کے چنگل سے نکال کر اللہ کی اطاعت میں لانا:
اللہ تعالی اپنے انبیاء کی بعثت کے بنیادی ہدف کے طور پر دو چیزوں کا ذکر کرتا ہے:
1. سرکش حکمرانوں کی اطاعت سے روگردانی کرے۔
2. صرف اور صرف خدا کی عبادت بجا لائے۔ساتھ ہی اس حکم پر عمل کرنے والوں کے لیے کامیابی کی بشارت دی اور اس حکم سے روگردانی کرنے والوں کے دردناک عذاب کی دہمکی بھی دی:
1. وَ لَقَدْ بَعَثْنا في‏ كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ فَمِنْهُمْ مَنْ هَدَى اللَّهُ وَ مِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلالَةُ فَسيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كانَ عاقِبَةُ الْمُكَذِّبينَ (النحل/36)اور بتحقیق ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت کی بندگی سے اجتناب کرو، پھر ان میں سے بعض کو اللہ نے ہدایت دی اور بعض کے ساتھ ضلالت پیوست ہو گئی لہٰذا تم لوگ زمین پر چل پھر کر دیکھو کہ تکذیب کرنے والوں کا کیا انجام ہواتھا۔
2. وَ الَّذينَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ أَنْ يَعْبُدُوها وَ أَنابُوا إِلَى اللَّهِ لَهُمُ الْبُشْرى‏ فَبَشِّرْ عِبادِ (زمر/17) اور جن لوگوں نے طاغوت کی بندگی سے اجتناب کیا اور اللہ کی طرف رجوع کیا ان کے لیے خوشخبری ہے، پس آپ میرے ان بندوں کو بشارت دے دیجیے۔
خود ساختہ بتوں سے ان کی بے جا عقیدت:
اللہ تعالی بت پرستوں کے غلط گمان اور بے جان و بے حس بتوں کی پوجا کو ان کی بے حسی اور بے وقوفی قرار دیتے ہوئے ان کی عقل و ضمیر کو یوں جھنجوڑتا ہے:
1. أَلا لِلَّهِ الدِّينُ الْخالِصُ وَ الَّذينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِهِ أَوْلِياءَ ما نَعْبُدُهُمْ إِلاَّ لِيُقَرِّبُونا إِلَى اللَّهِ زُلْفى‏ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ في‏ ما هُمْ فيهِ يَخْتَلِفُونَ إِنَّ اللَّهَ لا يَهْدي مَنْ هُوَ كاذِبٌ كَفَّارٌ (زمر/3)آگاہ رہو! خالص دین صرف اللہ کے لیے ہے اور جنہوں نے اللہ کو چھوڑ کر اوروں کو سرپرست بنایا ہے (ان کا کہنا ہے کہ) ہم انہیں صرف اس لیے پوجتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کا مقرب بنا دیں، اللہ ان کے درمیان یقینا ان باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں، اللہ جھوٹے منکر کو یقینا ہدایت نہیں کرتاہے۔
2. وَ جاوَزْنا بِبَني‏ إِسْرائيلَ الْبَحْرَ فَأَتَوْا عَلى‏ قَوْمٍ يَعْكُفُونَ عَلى‏ أَصْنامٍ لَهُمْ قالُوا يا مُوسَى اجْعَلْ لَنا إِلهاً كَما لَهُمْ آلِهَةٌ قالَ إِنَّكُمْ قَوْمٌ تَجْهَلُونَ (اعراف/138) اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا پار کرایا تو وہ ایسے لوگوں کے پاس پہنچ گئے جو اپنے بتوں کی پوجا پاٹ میں لگے ہوئے تھے، کہنے لگے: اے موسیٰ! ہمارے لیے بھی ایسا معبود بنا جیسے ان لوگوں کے معبود ہیں، موسیٰ نے کہا: تم تو بڑی نادان قوم ہو۔
3. وَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ آلِهَةً لَعَلَّهُمْ يُنْصَرُونَ (يس/74)اور انہوں نے اللہ کے سوا اوروں کو معبود بنا لیا ہے کہ شاید انہیں مدد مل سکے۔
4. فَلَوْ لا نَصَرَهُمُ الَّذينَ اتَّخَذُوا مِنْ دُونِ اللَّهِ قُرْباناً آلِهَةً بَلْ ضَلُّوا عَنْهُمْ وَ ذلِكَ إِفْكُهُمْ وَ ما كانُوا يَفْتَرُونَ (احقاف/28)پس انہوں نے قرب الہٰی کے لیے اللہ کے سوا جنہیں اپنا معبود بنا لیا تھا انہوں نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ بلکہ وہ تو ان سے غائب ہو گئے اور یہ ان کا جھوٹ تھا اور وہ بہتان جو وہ گھڑتے تھے۔
بدعتوں کا بھرپور مقابلہ:
جب ظالم و جابر حکمرانوں سے مقابلے کے بعد لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دیتے اور غیر خدا کی غلط پرستش سے منع کرتے تب سب سے زیادہ ان کے سامنے گزشتہ لوگوں کی ایجاد کردہ بدعتیں آڑے آتی تھیں۔ اب رسولوں کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ لوگوں کو ان تمام خرافات سے نکال کر ایک خدا کی پرستش پر آمادہ کرے اور انھیں پرہیزگار بنائیں۔ قرآن مجید نے مختلف انبیاء کی امتوں کا اس حوالے سے ذکر کیا ہے:
1. وَ إِذا قيلَ لَهُمْ تَعالَوْا إِلى‏ ما أَنْزَلَ اللَّهُ وَ إِلَى الرَّسُولِ قالُوا حَسْبُنا ما وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا أَ وَ لَوْ كانَ آباؤُهُمْ لا يَعْلَمُونَ شَيْئاً وَ لا يَهْتَدُونَ (مائده/ 104) اور جب ان لوگوں سے کہا جاتا ہے کہ جو دستور اللہ نے نازل کیا ہے اس کی طرف اور رسول کی طرف آؤ تو وہ کہتے ہیں: ہمارے لیے وہی دستور کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا، خواہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور ہدایت پر بھی نہ ہوں۔
2. وَ إِذا فَعَلُوا فاحِشَةً قالُوا وَجَدْنا عَلَيْها آباءَنا وَ اللَّهُ أَمَرَنا بِها قُلْ إِنَّ اللَّهَ لا يَأْمُرُ بِالْفَحْشاءِ أَ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ ما لا تَعْلَمُونَ (اعراف/28)اور جب یہ لوگ کسی بے حیائی کا ارتکاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے، کہدیجیے:اللہ یقینا بے حیائی کا حکم نہیں دیتا، کیا تم اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟
3. وَ نادى‏ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابَ النَّارِ أَنْ قَدْ وَجَدْنا ما وَعَدَنا رَبُّنا حَقًّا فَهَلْ وَجَدْتُمْ ما وَعَدَ رَبُّكُمْ حَقًّا قالُوا نَعَمْ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمينَ (اعراف/ 44)اور اہل جنت اہل جہنم سے پکار کر کہیں گے:ہم نے وہ تمام وعدے سچے پائے جو ہمارے پروردگار نے ہم سے کیے تھے، کیا تم نے بھی اپنے رب کے وعدوں کو سچا پایا؟ وہ جواب دیں گے:ہاں، تو ان (دونوں) کے درمیان میں سے ایک پکارنے والا پکارے گا: ظالموں پر اللہ کی لعنت ہو۔
4. وَ ما وَجَدْنا لِأَكْثَرِهِمْ مِنْ عَهْدٍ وَ إِنْ وَجَدْنا أَكْثَرَهُمْ لَفاسِقينَ (اعراف/ 102)اور ہم نے ان میں سے اکثر کو بدعہد پایا اور اکثر کو ان میں فاسق پایا۔
5. قالُوا أَ جِئْتَنا لِتَلْفِتَنا عَمَّا وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا وَ تَكُونَ لَكُمَا الْكِبْرِياءُ فِي الْأَرْضِ وَ ما نَحْنُ لَكُما بِمُؤْمِنينَ (یونس/78) وہ کہنے لگے: کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہمیں اس راستے سے پھیر دو جس پرہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے اور ملک میں تم دونوں کی بالادستی قائم ہو جائے؟ اور ہم تو تم دونوں کی بات ماننے والے نہیں ہیں۔
6. قالَ مَعاذَ اللَّهِ أَنْ نَأْخُذَ إِلاَّ مَنْ وَجَدْنا مَتاعَنا عِنْدَهُ إِنَّا إِذاً لَظالِمُونَ (یوسف/ 79) کہا : پناہ بخدا! جس کے ہاں سے ہمارا سامان ہمیں ملا ہے اس کے علاوہ ہم کسی اور کو پکڑیں؟ اگر ہم ایسا کریں تو زیادتی کرنے والوں میں ہوں گے۔
7. قالُوا وَجَدْنا آباءَنا لَها عابِدينَ (انبیاء/53)کہنے لگے: ہم نے اپنے باپ دادا کو ان کی پوجا کرتے پایاہے۔
8. قالُوا بَلْ وَجَدْنا آباءَنا كَذلِكَ يَفْعَلُونَ (شعراء/74) انہوں نے کہا: (نہیں) بلکہ ہم نے تو اپنے باپ دادا کو ایسا کرتے پایا ہے۔
9. وَ إِذا قيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا ما أَنْزَلَ اللَّهُ قالُوا بَلْ نَتَّبِعُ ما وَجَدْنا عَلَيْهِ آباءَنا أَ وَ لَوْ كانَ الشَّيْطانُ يَدْعُوهُمْ إِلى‏ عَذابِ السَّعيرِ (لقمان/21) اور جب ان سے کہا جاتاہے : جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو وہ کہتے ہیں: ہم تو اس چیز کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے، خواہ شیطان ان (کے بڑوں) کو بھڑکتی آگ کے عذاب کی طرف بلاتا رہا ہو۔
10. بَلْ قالُوا إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى‏ أُمَّةٍ وَ إِنَّا عَلى‏ آثارِهِمْ مُهْتَدُونَ (زخرف/22) (نہیں) بلکہ یہ کہتے ہیں: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔
11. وَ كَذلِكَ ما أَرْسَلْنا مِنْ قَبْلِكَ في‏ قَرْيَةٍ مِنْ نَذيرٍ إِلاَّ قالَ مُتْرَفُوها إِنَّا وَجَدْنا آباءَنا عَلى‏ أُمَّةٍ وَ إِنَّا عَلى‏ آثارِهِمْ مُقْتَدُونَ (زخرف/23) اور اسی طرح ہم نے آپ سے پہلے کسی بستی کی طرف کوئی تنبیہ کرنے والا نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں کے عیش پرستوں نے کہا: ہم نے اپنے باپ دادا کو ایک رسم پر پایا اور ہم انہی کے نقش قدم کی پیروی کر رہے ہیں۔
12. فَما وَجَدْنا فيها غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمينَ (زاریات/36) وہاں ہم نے مسلمانوں کا صرف ایک گھر پایا۔
خودساختہ بتوں کی پوجا اور نفس پرستی سے نجات دلاکر لوگوں کو خدا پرستی اور پرہیزگاری کی طرف دعوت دینا:
تمام انبیاء نے دو بنیادی ہدف کی طرف لوگوں کو دعوت دی:
1. لوگوں کو بتوں کی عبادت سے ہٹاکر خدائے واحد کی عبادت کی طرف دعوت دینا۔
2. اپنی روز مرہ زندگی میں پرہیزگاری کو اپنا شیوہ بنانا اور سرکشی و گناہ سے اپنے آپ کو آلودہ نہ کرنا۔
اللہ تعالی نے اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید میں مختلف انبیاء اور ان کی امتوں کا ذکر کیا ہے۔ بعنوان نمونہ:
1. وَ إِلى‏ عادٍ أَخاهُمْ هُوداً قالَ يا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ أَ فَلا تَتَّقُونَ (الأعراف/65)
اور قوم عاد کی طرف ہم نے انہی کے برادری کے ایک فرد ہود کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو اس کے سوا تمہار ا کوئی معبود نہیں ہے، کیا تم (ہلاکت سے) بچنا نہیں چاہتے؟
2. وَ لَقَدْ أَرْسَلْنا نُوحاً إِلى‏ قَوْمِهِ فَقالَ يا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ أَ فَلا تَتَّقُونَ‏ (مومنون/ 23) اور بتحقیق ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، پس نوح نے کہا: اے میری قوم! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچتے نہیں ہو؟
3. فَأَرْسَلْنا فيهِمْ رَسُولاً مِنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ ما لَكُمْ مِنْ إِلهٍ غَيْرُهُ أَ فَلا تَتَّقُونَ‏ (مومنون/32)پھر خود انہی میں سے ایک رسول ان میں مبعوث کیا، ( جس کی دعوت یہ تھی کہ لوگو) اللہ کی بندگی کرو تمہارے لیے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے کیا تم بچنا نہیں چاہتے؟
4. إِذْ قالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ نُوحٌ أَ لا تَتَّقُونَ‏ (شعراء/106 )جب ان کی برادری کے نوح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے ہو
5. إِذْ قالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَ لا تَتَّقُونَ‏ (شعراء/124)جب ان کی برادری کے ہود نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
6. إِذْ قالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ صالِحٌ أَ لا تَتَّقُونَ‏ (شعراء/142)جب ان کی برادری کے صالح نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
7. إِذْ قالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ لُوطٌ أَ لا تَتَّقُونَ‏ (شعراء/161 )جب ان کی برادری کے لوط نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
8. إِذْ قالَ لَهُمْ شُعَيْبٌ أَ لا تَتَّقُونَ‏ (شعراء/ 177)جب شعیب نے ان سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے؟
9. إِذْ قالَ لِقَوْمِهِ أَ لا تَتَّقُونَ‏ (صافات/ 124)جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم اپنا بچاؤ نہیں کرتے۔
بنابریں مذکورہ بالا مطالب سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی کہ گزشتہ تین مشکلات کسی ایک خاص دور یا گروہ سے مختص نہیں بلکہ ہر دور کے ہادیوں اور دین کی طرف دینے والوں کے لیے یہی مشکلات ہیں۔
آج کا ہمارا معاشرہ بھی ان سے خالی نہیں۔ بنابریں معاشرے میں پیدا ہونے والی نت نئی بدعتوں کا اگر بروقت مقابلہ نہ کیا جائے تو یہ لوگوں کےراسخ عقیدے میں تبدیل ہوجائیں گی اور پھرانھیں مٹانا بہت ہی مشکل ہوجائے گا۔شروع میں اگر اصلاح کی بروقت کوشش کی جائے تو یقینا ثمرآورثابت ہوگی۔ ان بدعتوں کے اسباب و علل کو دریافت کرکے ان کے سدباب کے لیے کوشش کرنا معاشرے کے علماء، عمائدین اور ہر اس شخص کی ذمہ داری بنتی ہے جو اپنے کو معاشرے کا ایک مفید فرد سمجھتا ہے۔آج کل ہمارے معاشرے میں بھی ایسی بہت ساری مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ماں باپ کے ترکے میں سے بہنوں اور بیٹیوں کے شرعی حصے کو عام طور پر نادیدہ قرار دیا جاتا ہے۔ اپنی بیوی کا مہریہ زندگی بھر ادا نہ کرنا ایک عام سی بات ہے۔ بعض چالاک بیٹے تو اپنے والد کی زندگی میں ہی اس کی پوری جائیداد اپنے نام کروا لیتے ہیں۔ معاشرے میں طبقاتی نظام حاکم ہوتا جارہا ہے۔ متمول اور صاحب اقتدار افراد ہمیشہ دوسروں کو سرکوب کرکے اپنے ماتحت کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
ظالم حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنا تو رفتہ رفتہ ناقابل تلافی جرم بنتا جا رہا ہے۔ پارٹی بنیادوں پر قوم کو بانٹا جارہا ہے اور حکومتی ناانصافیوں سے پردہ چاک کرنے والے کو اب باغی کا مصداق قرار دیا جارہا ہے۔ ہر سیاسی فرد اپنے گروپ کی ناانصافیوں کی پردہ پوشی کرنا اپنا وظیفہ سمجھتا ہے۔
مختلف قسم کےلسانی، نسلی اورقومی بت اب دن بہ دن مستحکم ہوتے جارہے ہیں۔ تعصب کی فضا روز بہ روز معاشرے پر حاکم ہوتی جارہی ہے۔ اسی تعصب کے باعث حق دار کو اس کا حق نہیں ملتا۔ نتیجے میں یہ معاشرے میں بہت ساری مشکلات پیدا کرنے کا سبب قرار پارہاہے۔ معاشرے میں سیاسی رسہ کشی کا مسئلہ ہو یا سرکاری و قومی مسائل، روزگار کا معاملہ ہو یا عدالت سے انصاف کا تقاضاکرنے کا مرحلہ، غرض ہر موڑ پر تعصب کے گھٹاٹوپ بادل ہر وقت منڈلاتے ہی دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرز کے بہت سارے اجتماعی، انفرادی اور معاشرتی مسائل ہمارے ہاں تاہنوز باقی ہیں اور ان میں روز افزوں اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ جب کوئی ان بدعتوں اور زیادتوں کے خلاف آواز بلند کرنا شروع کرتا ہے تب لوگوں کے ہاں سے انھیں یہی جواب ملتا ہے کہ ہمارے آباء و اجداد سے یہی سلسلہ و طریقہ چلا آرہا ہے۔
ایسے میں ہم سب کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ علماء، انبیاء کے وارث ہونے کا عملی ثبوت پیش کریں۔ عوام ان کی طرف رجوع کرکے اپنی روزمرہ زندگی کے لیے ان سے نمونہ اخذ کریں۔ہم میں سے وہی افراد ہی کامیاب ہوں گے جو اپنے نفس کو غیر خدا کی پیروی سے دور، آئے روز ایجاد ہونے والی بدعتوں سے بیزار اور گزشتہ لوگوں کی غلطیوں کے تکرارسےباز رکھے۔ ساتھ ہی اپنی زندگی کو خدا کی اطاعت میں وقف کرے اور تقوی و پرہیزگاری کو اپنی زندگی کا ناقابل تفکیک جز ء قرار دےاور معاشرے میں بھی ایک ایسی فضا پیدا کر نے کی کوشش کرے جس میں مذکورہ اقدار زندہ ہوں اور مختلف بدعتوں کا خاتمہ ہو۔غرض ہر کوئی اپنی توان کے مطابق اپنا حصہ ڈالیں تو ہمارا معاشرہ ایک الٰہی معاشرہ قرار پاسکتا ہے ورنہ ظالم و جابر اور بدعت گزاروں کی آماجگاہ!
ہم اگر اس جدید دور میں بھی بصیرت سے عاری ہوکر اسلاف کی غلط رسومات پر خط بطلان کھینچنے کی جرات نہیں کریں گے تب دن بہ دن ہمارا معاشرہ تنزل کا شکار ہوگا اور ہماری آنے والی اور موجودہ جدید نسل تباہی کے دلدل میں پھنستی چلی جائے گی۔ لہذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہماری ذات، اولاد، رشتہ دار اور معاشرے کی اصلاح کے لیے بھرپور منظم کوشش کریں و نت نئے روبرو ہونے والی بدعتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں تب ہمارا معاشرہ امن و امان کا گہوارہ ، محبت و ہمدردی کا مجموعہ، اتفاق و اتحاد کا مرکز اور اخوت و بھائی چارگی کا مثالی نمونہ قرار پائےگا۔
اللہ تعالی ہم سب کو اپنی ، اپنی اولاد اور اپنے معاشرے و ملک کو مختلف بدعتوں اور شرک آمیز باتوں سے پاک رکھنے اور ایک الٰہی معاشرہ تشکیل دینے کی توفیق دے۔ آمین یارب العالمین بحق محمد و آلہ الطاہرین۔ والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
 
Top