الوداعی نظم (گریجوایٹ ہونے پر کالج سے رخصت ہوتے ہوئے)

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

عمدہ کاوش ہے-مزید محنت سے اور نکھر سکتی ہے-کچھ مقامات قابلِ اصلاح ہیں مگر آج کل ارد گرد اوسم کا موسم ہے - بقول حالی

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


میرا تبصرہ بھی دیکھ لیجئے شاید کسی کام کا ہو -مقصود اصلاح نہیں بلکہ ایک اور زاویۂ نگاہ سے آپ کو متعارف کرانا ہے :

سُرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئے ہیں تحریر
تختئ وقت پہ جاں سوز مناظر بن کر
پھر وہی صبح کہ لائی ہے پیامِ ہجرت
اب کے جینا ہے ہمیں تیرے مہاجر بن کر


مناظر کبھی تحریر تو نہیں ہو سکتے -اس طرح کا کچھ ابتدائیہ کے طور پہ سوچیں :

سرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئی ہے تحریر
یہ جو اک نظم سی ابھری تری خاطر بن کر
آئ ہے کوچ کا پروانہ لئے صبحِِِ فراق
اب کہ جینا ہے ہمیں تیرا مہاجر بن کر

آپ کے بند کا چوتھا مصرع جانِِ بند ہے -باقی مصرعے بھی اس کے شایاں رکھیے جبکہ یہی بند نظم کا ابتدائیہ بھی ہے -باقی تبصرہ ادھار بشرطِ فرصت ان شاء اللہ -


یاسر
 
آخری تدوین:
ہماری دوستوں کا ادبی رجحان ملاحظہ ہو کہ کل میری سب سکول کی ساتھیوں کی گیٹ ٹو گیدر تھی، مجھے اپنی کوئی شاعری سنانے کے لیے اصرار سے کہا گیا اور مجھے مندرجہ بالا نظم کے علاوہ اپنی کوئی نظم/غزل زبانی یاد نہیں تو آخر کار یہ سناتے ہی بنی. جب میں سنا رہی تھی تو سب اتنے انہماک سے سن رہے تھے کہ مجھے غلط فہمی ہوئی کہ سب کو سمجھ آ رہی ہے اور جب میں نے نظم ختم کی تو آخر میں ہر طرف سے "اوسم، اوسم" کی آوازیں انے لگیں. :LOL:
اس کا عنوان ہونا چاہئیے 'اوسم جنریشن'. اگرچہ میں خود اسی جنریشن سے ہوں لیکن دن رات یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ 'کیا ہوگا بھئ اس جنریشن کا'. (ایک ساڈے زمانے ہندے سی. . ..):ROFLMAO:

بس۔۔۔۔۔ اس سے ثابت ہوا کہ ضروری نہیں سب شاعر ہوں یا شاعری کو سمجھتے ہوں، بندے سمجھدار بھی ہو سکتے ہیں۔
:tongueout:
جی جی بالکل اور کچھ لوگ تو پنجابی میں بھی بڑے ہی اعلی پائے کے ناسمجھ ہوتے ہین. :p

ویسے۔۔۔ سچ بتاؤں۔۔۔۔ آپ کی نظم تو فیض صاحب یا محسن نقوی کی شاعری سا رنگ لیے ہوئے ہے۔ اعلٰی
بے حد جزاک اللہ اس خوبصورت تبصرے اور خیال کے لیے :in-love:

بہت خوبصورت نظم!
اللہ آپ کو مزید ترقیاں عطا فرمائے!
آمین ثم آمین. بے حد شکریہ بھیا!

واہ......... مریم!
گریجویشن کی مبارکباد قبول ہو ۔
اجی اب تو ہمارا ایم فل بھی تقریبا آدھا گزر گیا. دیر سے مبارکباد دینے پر...... چلیں ہم نے آپ کو معاف کیا. :sneaky: بے حد شکریہ:redheart:
السلام علیکم

عمدہ کاوش ہے-مزید محنت سے اور نکھر سکتی ہے-کچھ مقامات قابلِ اصلاح ہیں مگر آج کل ارد گرد اوسم کا موسم ہے - بقول حالی

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


میرا تبصرہ بھی دیکھ لیجئے شاید کسی کام کا ہو -مقصود اصلاح نہیں بلکہ ایک اور زاویۂ نگاہ سے آپ کو متعارف کرانا ہے :

سُرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئے ہیں تحریر
تختئ وقت پہ جاں سوز مناظر بن کر
پھر وہی صبح کہ لائی ہے پیامِ ہجرت
اب کے جینا ہے ہمیں تیرے مہاجر بن کر


مناظر کبھی تحریر تو نہیں ہو سکتے -اس طرح کا کچھ ابتدائیہ کے طور پہ سوچیں :

سرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئی ہے تحریر
یہ جو اک نظم سی ابھری ہے تری خاطر بن کر
آئ ہے کوچ کا پروانہ لئے صبحِِِ فراق
اب کہ جینا ہے ہمیں تیرا مہاجر بن کر

آپ کے بند کا چوتھا مصرع جانِِ بند ہے -باقی مصرعے بھی اس کے شایاں رکھیے جبکہ یہی بند نظم کا ابتدائیہ بھی ہے -باقی تبصرہ ادھار بشرطِ فرصت ان شاء اللہ -


یاسر
وعلیکم السلام آپ کا زاویۂ نگاہ اچھا لگا، محفل میں آتے رہا کیجیے. :) اور ہاں! ادھار بند تھا لیکن اب اگر کر لیا ہے تو جلد از جلد چکائیں تاکہ ہم مستفید ہو سکیں. :)
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم

عمدہ کاوش ہے-مزید محنت سے اور نکھر سکتی ہے-کچھ مقامات قابلِ اصلاح ہیں مگر آج کل ارد گرد اوسم کا موسم ہے - بقول حالی

فرشتے سے بہتر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ


میرا تبصرہ بھی دیکھ لیجئے شاید کسی کام کا ہو -مقصود اصلاح نہیں بلکہ ایک اور زاویۂ نگاہ سے آپ کو متعارف کرانا ہے :

سُرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئے ہیں تحریر
تختئ وقت پہ جاں سوز مناظر بن کر
پھر وہی صبح کہ لائی ہے پیامِ ہجرت
اب کے جینا ہے ہمیں تیرے مہاجر بن کر


مناظر کبھی تحریر تو نہیں ہو سکتے -اس طرح کا کچھ ابتدائیہ کے طور پہ سوچیں :

سرخ اشکوں کی سیاہی سے ہوئی ہے تحریر
یہ جو اک نظم سی ابھری تری خاطر بن کر
آئ ہے کوچ کا پروانہ لئے صبحِِِ فراق
اب کہ جینا ہے ہمیں تیرا مہاجر بن کر

آپ کے بند کا چوتھا مصرع جانِِ بند ہے -باقی مصرعے بھی اس کے شایاں رکھیے جبکہ یہی بند نظم کا ابتدائیہ بھی ہے -باقی تبصرہ ادھار بشرطِ فرصت ان شاء اللہ -


یاسر

.............

تُجھ کو چھوڑا تو ترا شہر بھی ہم چھوڑ چلے
تیرے دامن کے سِوا اور یاں رکھا کیا ہے؟
تیرے دم سے ہے یہاں علم کا مے خانہ آباد
جس نے پی ہی نہیں اُس نے بھلا چکّھا کیا ہے؟


نظم کا دوسرا بند تشنہ تشنہ سا لگا -انداز تخاطب کی توجیه کی خاطر نیز "دامن" کا اکیلا پن مٹانے کے لئے اپنے کالج کو مادر علمی پکارا جا سکتا ہے -مثَلاً

اے مری مادر علمی دل و جاں تجھ پہ نثار
تو ہے تو زندہ ہیں ہم بن ترے جینا کیا ہے
تُجھ کو چھوڑا تو ترا شہر بھی ہم چھوڑ چلے
تیرے دامن کے علاوہ یہاں رکھا کیا ہے؟

فی الحال مے خانے کو ایک اور بند کے لئے اٹھا رکھیے-

تُو نے دیکھا ہے مِری آنکھ کا بہتا پانی
قہقہے جذب ہیں میرے تری دیواروں میں
میں وہ گُل ہوں جو تری مٹّی میں پروان چڑھا
پُھول مُجھ سا نہ مِلے گا تُجھے گُلزاروں میں

ما شاء اللہ انگلی رکھنے کی جا نہیں -نہایت متناسب و متوازن بند ہے

خاک مکتب کی مرے مجھ کو جہاں سے ہے عزیز
اس کو ہی چھان کے پایا ہے جو بھی پایا ہے
اِس کی ہر اینٹ میں شامل ہیں مرے بھی ذرّات
میری پُونجی ہے یہی اور یہی سرمایہ ہے

''تو'' سے "اس" میں تبدیلی بھلی نہیں لگی -پھر "خاک چھاننا" محاورہ بھی دولخت سا محسوس ہوا کہ ایک مصرع میں خاک کا ذکر دوسرے میں چھاننے کا -پھر

اِس کی ہر اینٹ میں شامل ہیں مرے بھی ذرّات
میری پُونجی ہے یہی اور یہی سرمایہ ہے
یہ شعر تو خود کش بمبار کی یاد دلا رہا ہے - اساتذہ کے فرمودات تو سرمایہ اور پونجی ہو سکتے ہیں لیکن مکتب کی اینٹیں اور خاک کیسے پونجی اور سرمایہ ٹھہریں -


بہر حال اختتامیہ کے طور پہ کوئی اور بند سوچیں- تھوڑی اور توجہ سے یہ نظم مزید نکھر سکتی ہے -

یاسر
 
بہت خوب۔ حیرت ہے کہ یہ نظم اس سے قبل نظر سے نہیں گزری۔ چند گزارشات کرنا چاہوں گا
تیرے دامن کے سِوا اور یاں رکھا کیا ہے؟
"یاں" کو یک حرفی نہیں باندھا جا سکتا۔
تیرے دم سے ہے یہاں علم کا مے خانہ آباد
آباد کو بھی فعول کے وزن پر باندھنا درست نہیں۔
اس کو ہی چھان کے پایا ہے جو بھی پایا ہے
میری پُونجی ہے یہی اور یہی سرمایہ ہے
عاطف بھائی کی تجاویز قابلِ غور ہیں۔
 
Top