اللہ کی راہ - ایک حیرت انگیز کہانی - از شاہد بھائی

شاہد بھائی

محفلین
اللہ کی راہ
مصنف شاہد بھائی
مکمل کہانی

" ٹھیک ہے کامران ۔۔۔ میں نے ہار مان لی ۔۔۔ اب سامنے آ جاؤ " سمینہ شکست خورہ لہجے میں بولی۔
" لو ! آ گیا " یہ کہتے ہوئے کامران مسکراتا ہوا باہر نکل آیا۔
" ہم نے کھیل شروع کرنے سے پہلے کچھ شرطیں رکھیں تھیں ۔۔۔ یاد ہے نہ " کامران کے لہجے میں شرارت تھی۔
" نہیں ! اِس وقت نہیں " سمینہ گھبرا کر بولی۔
" بھئی شرط تو ہوتی ہی پوری کرنے کے لیے ہے ۔۔۔ اِس وقت نہیں تو کس وقت " کامران مسکرا کر بولا۔
" کیا تم جانتے نہیں کہ ہمارے دین میں شرط لگانا حرام ہے " پاس کھڑا ایک شخص فوراً بولا ۔ اس شخص کے چہرے پر خوبصورت ڈارھی اور سر پر ایک سفید رنگ کی ٹوپی تھی۔
" مولوی صاحب !۔۔۔ آپ جمعہ کو لیکچر دیتے ہیں وہ کافی نہیں کہ ابھی پھر آگئے " کامران جھلا کر بولا۔
" لیکن بھئی ۔۔۔ اسلام ہمیں کیا سیکھاتا ہے یہ بھی تو دیکھو " اس شخص نے پھر سمجھایا۔
" ہمیں نہیں سمجھنا ۔۔۔ اپنا دین اپنے پاس رکھئے ۔۔۔دین میں سختی نہیں ہے ۔۔۔ آپ اس طرح لوگوں کو دین سےمتنفر کر رہے ہیں " کامران کا لہجہ تیز ہوگیا۔
" لیکن یہ سارا کچھ تو قرآن و حدیث میں موجود ہے ۔۔۔ شرط لگانا ایک طرح کا جوا ہے جو اسلام میں حرام ہے ۔۔۔ پھر تم لوگ یہاں پارک میں جو شرارتیں کر رہے ہو اور لوگ دیکھ رہے ہیں ۔۔۔ یہ بھی اسلام میں قطعی جائز نہیں ۔۔۔ پھر تم لوگوں کا رشتہ بھی میاں بیوی جیسا نظر نہیں آتا ۔۔۔ اسلام میں اس طرح کا رشتہ بھی جائز نہیں " وہ شخص کہتے چلے گئے۔
" یہ ٹھیک ہے کہ ہم میاں بیوی نہیں ہیں ۔۔۔ بلکہ بہت گہرے دوست ہیں ۔۔۔ میں نے اس سے شرط یہی لگائی تھی کہ اگر تم مجھے ڈھونڈ نہ سکی تو پھر تم آج سب کے سامنے مجھ سے محبت کا اظہار کرو گی ۔۔۔ کیوں ٹھیک کہا نہ سمینہ " یہ کہتے ہوئے شرارتی انداز میں کامران نے سمینہ کی طرف دیکھا اور وہ شرما گئی۔
" بھئ یہ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔ اسلام ہمیں اس طرح کی زندگی گزارنے کی تعلیم نہیں دیتا ۔۔۔ یہ تو مغربی تہذیب ہے ۔۔۔ میرے بھائی ! ۔۔۔ میری بہن ! ۔۔۔ اسلام کو سمجھئے ۔۔۔ پکے مسلمان بن جائیں ۔۔۔ دین میں پورے پورے داخل ہو جائیں" ان نیک صفت شخص نے پھر نصیحت کی۔
" میں نے کہا نہ ۔۔۔ ہمیں نہیں سننا ۔۔۔ جمعہ کو سن لیتے ہیں وہی کافی ہے ۔۔۔ اب یہاں سے آپ چلتے پھرتے نظر آئیے " کامران نے برا سا منہ بنایا اور وہ شخص افسردہ سے وہاں سے نکل آئے ۔ ان کا نام محمد کریم تھا۔ جہاں کوئی برائی دیکھتے تو اسے روکنے کی کوشش کرتے ۔ انہیں یہ حدیث بھی اچھی طرح معلوم تھی کہ برائی دیکھو تو ہاتھ سے رکھو ، نہیں تو زبان سے رکھو اور اگر زبان سے نہیں روس سکتے تو دل میں برا جانو اور یہ دل میں برا جاننا ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے ۔ وہ اسی حدیث کی وجہ سے ہمیشہ ایمان کے سب سے اونچے درجے تک پہنچنے کی کوشش کرتے اور ہمیشہ نا کام ہو جاتے۔ وہ کچھ تھک گئے تھے اس لیے پارک کے ایک کونے پر جا کر بیٹھ گئے اور دور سے ہی کامران اور سمینہ کو دیکھنے لگے جو ایک دوسرے سے کھلے عام محبت کا اظہار کر رہے تھے جبکہ یہاں محمد کریم دل ہی دل میں افسردہ تھے۔ تبھی اچانک وہاں سب کے سب لوگ سہم گئے ۔ محمد کریم کا بھی دل دہل گیا۔ ایک شخص پستول لیے کامران کی طرف خونخوار انداز میں بڑھ رہا تھا اور پھر نزدیک پہنچ کر اس نے وہ پستول کامران کے سر پر رکھ دی اور گرج کر بولا۔
" میری بیٹی کو اپنے ساتھ لانے کی ہمت کیسے کی تم نے ۔۔۔ تمہارے جیسے لوگوں کا علاج کرنا آتا ہے مجھے ۔۔۔ میرے خاندان میں میری ناک کٹوانا چاہتے ہو ۔۔۔ میری بیٹی کی عزت اچھالنا چاہتے ہو ۔۔۔ تمہیں تو میں ابھی دوسری دنیا پہنچاتا ہوں " اس شخص کے لہجے میں اس قدر گرج تھی کہ وہاں موجود سب لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہوگئے البتہ سمینہ نے پستول ایک طرف کیا اور کامران کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔
" پاپا آپ ایسا نہیں کر سکتے ۔۔۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ۔۔۔ اور یہ مجھے زبردستی لے کر نہیں آیا بلکہ میں خود اس کے ساتھ آئی ہوں " سمینہ جذباتی انداز میں کہہ رہی تھی۔
" تم نہ سمجھ ہو کم عقل ہو ۔۔۔ میں جانتا ہوں اس کامران نے تمہیں اپنی باتوں کے جال میں پھنسا کر تمہیں ورغلایا ہے ۔۔۔ ہٹ جاؤ سمینہ " یہ کہتے ہوئے سمینہ کے باپ نے اسے دھکا دیا وہ ایک طرف جا کر گری دوسری طرف یہاں سمینہ کے باپ نے پستول ایک بار پھر کامران کے سر پر رکھ دی۔
" آپ ایسا نہیں کر سکتے " پارک میں ایک پرسکون آواز گونجی ۔ اس آواز کو سن کر سمینہ کا باپ ، کامران اور خود سمینہ بھی حیران رہ گئی۔ یہ آواز محمد کریم کی تھی۔
" میں مانتا ہوں کامران نے غلط کیا ہے لیکن اس کی سزا قتل نہیں ہے ۔۔۔قتل کی سزا اسلام میں صرف قصاص کے طور پر دی جا سکتی ہے یعنی اگر کسی شخص نے آپ کے کسی رشتہ دار کو قتل کر دیا ہو تو آپ کا یہ حق ہے کہ آپ اسے اس کے بدلے میں قتل کر دیں ۔ یا زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے والے کو حکومت پھانسی دے سکتی ہے ۔۔۔ اس کےعلاوہ کوئی بھی شخص کسی کو قتل نہیں کر سکتا ۔۔۔ اور ایک مسلمان کو قتل کرنے کی سزا تو دائمی جہنم ہے " محمد کریم کی آواز میں ٹھہراؤ تھا۔
" یہ کیا چیز ہے بھئی " سمینہ کا باپ مذاق اڑانے والے انداز میں لوگوں کی طرف دیکھ کر بولا جس پر وہاں ایک قہقہہ گونج اُٹھا حالانکہ ماحول بہت سنگین تھا لیکن پھر بھی لوگ اس بات پر اپنی ہنسی نہ روک سکے۔
" مولوی صاحب ۔۔۔ آپ کا یہاں کوئی کام نہیں ۔۔۔ آپ جا سکتے ہیں " سمینہ کے باپ نے قدرے نرم انداز میں کہا۔
" لیکن بھائی ۔۔۔ میں اپنے سامنے قتل ہوتے کیسے دیکھ لوں " محمد کریم نے زور دے کر کہا۔ اس وقت وہاں موجود کسی بھی شخص میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ سمینہ کے باپ کو روک سکتا لیکن محمد کریم دیوار کی طرح کھڑے ہوگئے تھے۔
" لگتا ہے آپ کے سر سے مذہب کی باتیں نہیں اترے گیں ۔۔۔ آپ کا علاج میرے پاس موجود ہے " یہ کہتے ہوئے سمینہ کے باپ نے پستول کامران کے سر سے ہٹا کر محمد کریم کے سر پر رکھ دیا اور ٹریگر پر دباؤ ڈالنے لگے۔
" مجھے خوشی ہوگی کہ میں نے کسی کی جان بچاتے ہوئے اللہ کی راہ میں جان دی ہے " محمد کریم کا چہرہ پر سکون تھا۔ کامران اور سمینہ محمد کریم کو حیرت سے دیکھ رہے تھے ۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ اسے ڈانٹ کر بھگا چکے تھے اور اب یہی شخص ان کے لیے دیوار بن کر کھڑا ہوگیا تھا اور جان دینے تک کو تیار تھا۔ اس لمحے کامران کو احساس ہوا کہ وہ کتنا غلط تھا۔ اسلام کس قدر سچا دین ہے اور اس کے ماننے والے کس قدر پر خلوص لوگ ہیں ۔ آج تک اس نے جتنے بھی مولوی دیکھے انہیں دنیا کے پیچھے بھاگتے ہوئے دیکھا لیکن یہ شخص تو صرف لوگوں کی آخرت سنوارنے کے لیے نکلا ہوا تھا۔ اس وقت نہ جانے کہاں سے کامران کے ہاتھوں میں جان بھر گئی ۔ اس نے سمینہ کے باپ کا پستول والا ہاتھ ایک طرف کیا اور سخت لہجے میں کہنے لگا :۔
" سمینہ آج سے آپ کی امانت ہے ۔۔۔ میں اس کی طرف دیکھوں گا بھی نہیں ۔۔۔ آپ اپنی بیٹی کو یہاں سے لے جا سکتے ہیں " کامران کی آواز میں اس قدر رعب تھا کہ سمینہ کے باپ کے چہرے پر بھی حیرت امڈ آئی ۔ سمینہ بھی بہت حیران تھی ۔ حیرت زدہ سا سمینہ کا باپ سمینہ کا ہاتھ پکڑ کر اور سمینہ کو ساتھ لے کر وہاں سے نکل گیا۔ محمد کریم کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل چکی تھی۔ کامران بت بنا کھڑا تھا اور پھر وہ فوراً محمد کریم کے پاس آیا اور شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا:۔
" مجھے معاف کر دیجئے ۔۔۔ آپ مجھے اللہ کے ولی معلوم ہوتے ہیں ۔۔۔ میں نے آپ کا دل دکھا کر کہیں اللہ کو ناراض نہ کر دیا ہو " کامران کے لہجے میں ندامت تھی۔ تبھی پارک سے باہر نکل کر سمینہ کے باپ نے پھر سے پستول نکال لی اور نشانہ کامران کا لیا۔ اس کے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ ناچ رہی تھی۔ یہاں کامران اور محمد کریم پارک میں کھڑے تھے۔ کامران کی کمر سمینہ کے باپ کی طرف تھا جبکہ محمد کریم کا چہرہ سمینہ کے باپ کی طرف تھا۔ اسی وجہ سے محمد کریم کی نظر سمینہ کے باپ کے ہاتھ میں موجود پستول پر پڑ گئی۔ نشانہ کامران تھا اور ٹریگر پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ محمد کریم نے ایک جھٹکے سے کامران کو اپنے پیچھے دھکیلا اور خود کامران کے آگے آ کھڑے ہوئے۔ اسی وقت پستول سے گولی نکلی اور محمد کریم کے ٹھیک دل کے پاس آکر لگی۔ ان کے منہ سے درد ناک چیخ نکلی ۔ کامران سٹپٹا گیا ۔ دوسرے ہی لمحے محمد کریم زمین پر جا گرے۔ یہاں سمینہ کا باپ یہ منظر دیکھ کر گھبرا گیا۔ وہ بھاگنے کی تیاری کرنے لگا لیکن اسی وقت پولیس کا سائرن گونج اُٹھا۔ شاید سمینہ کاباپ جب پارک میں آیا تھا اس کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر کسی نے پولیس کو فون کر دیا تھا ۔ پولیس نے فوراً سمینہ کے باپ کو گرفتار کر لیا۔ یہاں محمد کریم کے کئی لمحےکراہٹ کے عالم میں گزرنے کے بعد ان کے چہرے پر سکینت چھانے لگے ۔ کامران بوکھلایا ہوا انہیں دیکھ رہا تھا جبکہ ان کی روح پرواز کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں پولیس کی وین میں سمینہ کے باپ کے ہاتھ میں ہتھکڑی موجود تھی جبکہ ایمبولنس میں محمد کریم کا پاکیزہ جسم منتقل ہو رہا تھا۔ کامران اور سمینہ یہاں پارک کے باہر حیران و پریشان کھڑے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ایک واقعہ نے آج ان دونوں کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔


٭٭٭٭٭
ختم شدہ
٭٭٭٭٭
 
Top