اللہ والی چپ

نور وجدان

لائبریرین
تیری اللہ والی چُپ ...

نجانے یہ سطر کہاں پڑھی تھی پر اتنا یاد ہے کہ پڑھی ضرور تھی ، پہلا خیال آیا کہ کیا مطلب ہے اس بات کا؟

کیا ہوتی ہے اللہ والی چُپ؟

سوال پوچھا تو جواب ملا کہ ابنِ آدم و بنت حوا پہ یہ کیفیت ضرور آکر رہتی ہے اور جب تک یہ آتی نہیں تب تک آپ اسے سمجھ ہی نہیں سکتے .

کم عمر تھا تو بس مزید نہ پوچھا پر جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ سطر شعور و لاشعور کا ایسا جُزو بنتی گئی جس سے باوجود کوشش میں جان و سوچ نہیں چھڑا پا رہا تھا .

پھر یوں ہوا کہ

یہ سطر سمجھ آنا شروع ہوگئی یا شاید میری ذات میں اُترنا شروع ہوگئی ، جس کی وجوہات ہزاروں تھیں شاید اسی لیے یہ سطر ذات کا حصہ بھی بننے لگی ۔

لوگ سوال کرتے ، میرے پاس جواب ہوتے پر میں چُپ ..
لوگ الزام لگاتے میرے پاس وضاحت ہوتی پر میں چُپ..
لوگ بے حس بولتے میں انکے لیے اپنے دل کے جذبات دکھا سکتا تھا پر میں چُپ..
لوگ دور جارہے ہوتے میں اُنہیں آواز دیکر روک سکتا تھا لیکن ... لیکن میں بس چُپ !

دوست بنتے گئے، رشتے بنتے گئے پر جوں ہی یہ اللہ والی چُپ مجھ پہ حاوی ہوتی وہ دور ہوجاتے ۔ اُنہیں لگتا تھا میں تعلق نہیں رکھنا چاہتا ہوں اسلئے خاموش ہوجاتا ہُوں ..

تو بس وہ چلے جاتے !

پھر سوال کیا لوگ چھوڑ کیوں جاتے ہیں ؟ کیا یہ چُپ اتنی بری؟

" لوگ خدا کو بھی تو اسی چُپ کیوجہ سے چھوڑ جاتے ہیں .. عشق کا دعویٰ کرتے ہیں ، ماتھے ٹیکتے ہیں اور وہ عرضیاں سامنے رکھتے ہیں جن کا اُنہیں یقین ہوتا خدا ضرور پوری کرے گا لیکن خدا چُپ ہوتا ہے ، خدا بولتا کہاں ہے؟ اُسکی بولی اُسکی چُپ ہی ہے ۔ سب دیکھتے رہنا ، سب جانتے رہنا ، سب معلوم ہونا لیکن بس چُپ رہنا..

تو لوگ خدا کو بھی اُسکی چُپ کی وجہ سے چھوڑ دیتے ۔

بتاؤ کیا نہیں چھوڑتے؟ "

تو خدا ایسا کیوں کرتا ہے؟

جواب ملا جو چُپ (خامشی) ہی نہ سمجھے وہ عاشق ہی کیسا؟ جو چُپ نہ سنے وہ ولی اللہ کیوں ہو؟ جو چُپ نہ مانیں وہ محبوب کیسے ہو؟ جو چُپ پہ سر تسلیم خم نہ کرے وہ عابد کیسا؟ وہ تابعدار کیسا؟
اللہ کی چُپ ہی سربستہ راز ، جو اُسکی چُپ پہ راضی وہ اسی پہ چُپ کی زبان کھولتا ہے وہ اسی کو چُپ کے راز دکھلاتا ہے

پھر میں ابنِ آدم کیا کروں؟

"وہی جو خدا کرتا ہے۔۔
جانے والوں کو جانے دو جو قابل ہوا وہ جائے گا ہی نہیں .. وہ رہے گا ، وہ تب تک رہے گا جب تک تمہاری چُپ اُسے گفتگو نہ لگنے لگے ، جب تک تمہاری چُپ میں اُسے تمہارا دل نہ دِکھنے لگے، جب تک تمہاری چُپ میں اُسے تمہاری چیخیں ،آنسو و درد نہ دِکھنے لگیں...
اور جب ایسا کوئی ہوگا تب ہی ٹوٹے گی یہ چُپ ..

یہ تیری اللہ والی چُپ .. "

ملک جہانگیر اقبال
 

نور وجدان

لائبریرین

بابا-جی

محفلین
اللہ کا ایک صفاتی نام صابر بھی ہے۔ جانے کیوں یہ تحریر پڑھ کر "یا صابر" کے الفاظ زبان پر آ گئے۔ وہ چاہے تو صبر نہ کرے مگر وہ کئی مُعاملات پر چُپ ہے اور اس کی وجہ وہی جانتا ہے۔ ہمیں اِسی چُپ کے اندر سے ہی معنی آفرینی کرنی ہے اور ذاتِ واحد سے تعلق جوڑے رکھنا ہے۔ سوچ کے در وا کرتی ایک عُمدہ تحریر۔
 
Top