اللہ والوں کا حج :حیات جاوداں سے اقتباس

ابن محمد جی

محفلین
حضرت جی سے مراد حضرت مولانا اللہ یار خانؒ ہیں
ادائیگی فریضہ ٔ حج
منازلِ سلوک اپنی جگہ لیکن ایک سالک کے لئے ان گھڑیوں سے عزیز تر کوئی لمحہ نہیں جب اس کی روح روضۂ اطہر کی جالیوں اور پردوں کے حجابات سے گزر کر براہِ راست مواجہ شریف کے سامنے صلوٰۃ و سلام پیش کر رہی ہو ‘ یا پھر وہ لمحات جب وہ دربار ِنبویﷺ میں روحانی طور پر حاضر ہوسکے۔ اگر اس حاضری کے دوران نگاہ ِمصطفویﷺ بھی نصیب ہو جائے خواہ زندگی میں صرف ایک مرتبہ تو وہ لمحہ زندگی کا ماحصل قرار پاتا ہے۔
من سی پارہ دل می فروشم‘ بگفتا قیمتش
گفتم نگاہے‘ بگفتا کم تراست‘ گفتم کہ گاہے
(میں دل کے ٹکڑے بیچتا ہوں‘ پوچھا قیمت؟ کہا ایک نظر۔ اس نے پوچھا کیا کچھ کمی ہو سکتی ہے؟ کہا زندگی میں کبھی ایک نظر)
حضرت جیؒ ایک عرصہ سے حرمین شریفین کی حاضری کے لئے بے قرار تھے لیکن اسباب ظاہری ساتھ نہ دے رہے تھے۔ جولائی 1970ء میں سلسلۂ عالیہ کے سالانہ اجتماع کا ایک تاریخی دن تھا۔ مراقبۂ فنا فی الرسولﷺ کی ایسی ہی ایک مبارک گھڑی میں حضرت جیؒ کو بارگاہِ نبویﷺ میں حالِ دل پیش کرنے کا حوصلہ عطا ہوا تو عرض کیا:
’’بحری راستے سے حاضری مشکل ہے‘ کئی بار درخواستیں دیں مگر قرعہ اندازی میں نام نہیں آیا۔۔۔۔۔‘‘
نبی کریم ﷺ کی طرف سے جواب ملا:
’’اس دفعہ ضرور آؤ خواہ کوئی راستہ اختیار کرنا پڑے۔‘‘
حج‘ صاحب ِاستعداد پر زندگی میں ایک مرتبہ فرض ہے لیکن یہ حاضری کچھ ہستیوں کے لئے ادائے فرض کا درجہ رکھتی ہے خواہ وہ شرعی طور پر حج کے مکلف نہ بھی ہوں۔ اہل اللہ کے حالات میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ عدمِ اسباب کے باوجود انہوں نے پاپیادہ حرمین شریفین کا سفر اختیار کیا۔ تقاضائے عشق اپنی جگہ لیکن بعض اوقات مقامات و مناصب کے لحاظ سے بھی یہ حاضری لازم قرار پاتی ہے۔ حضرت جیؒ نے 3مارچ 1969ء کے ایک مکتوب میں حج پر جانے کی ایک وجہ یہ بھی تحریر فرمائی کہ غوث‘ قطب‘ ابدال وغیرہ تمام مناصب میرے حج پر جانے اور بارگاہِ رسالتﷺ میں حاضری سے ہمارے سلسلہ میں منتقل ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ کے گھر اور درِ اقدس پر حاضری حضرت جیؒ کی دیرینہ آرزو تھی لیکن اس کے لئے جب دربارِ نبویﷺ سے پروانہ مل گیا تو آپ نے فرمایا:
’’پاسپورٹ بناؤ اور قرعہ اندازی کا خیال چھوڑ دو۔ اب تو بلاوا آگیا ہے‘ اس لئے جانا ضروری ہے۔‘‘
نیوی کے ایک افسر نے سمندری راستے سے سفر کے انتظام کا ذمہ لیا لیکن جب کامیابی نہ ہوئی تو فیصلہ ہواکہ سفر ہوائی جہاز سے ہو گا۔ حضرت جیؒ کے ہمراہ فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لئے آٹھ احباب تیار ہو گئے لیکن بغیر کسی تیاری اور انتظامات کے۔ ویزہ حاصل کرنے کے لئے صرف چند رو ز رہ گئے تھے لیکن ابھی تک پاسپورٹ بنانے کا مرحلہ باقی تھا۔ لاہور آفس کے ڈائریکٹر پاسپورٹ کا تعلق چونکہ مشرقی پاکستان (حال بنگلہ دیش) سے تھا‘ میجر زین العابدین نے ان سے رابطہ کیا لیکن حتی الامکان کوشش کے باوجود ناکام رہے۔ قرعہ اندازی میں نام نہ نکلنا‘ بحری جہاز سے سفر کا انتظام کرنے میں نیول افسرکی ناکامی اور بنگالی ڈائریکٹرپاسپورٹ کا تعاون حاصل کرنے میں ایک بنگالی افسر کی بے بسی‘ اس سے یہ واضح تھا کہ حضرت جیؒ کا یہ سفر ِحج ظاہری واسطوں سے ماوراء تھا۔
پاسپورٹ بنانے کی ذمہ داری ابمیجر غوث کے سپرد ہوئی لیکن ضابطے کی کارروائیوں کا وقت تھا نہ احباب کو لاہور بلایا جا سکتا تھا۔ غوث نے ان کے کوائف حاصل کئے اور تمام فارم مکمل کرنے کے بعد خود ہی دستخط کر دئیے بلکہ حضرت جیؒ کے دستخط کرتے ہوئے ’’بقلم خود‘‘بھی لکھ دیا ۔ مولانا عبدالحق جوہر آبادی کی تصویر نہ مل سکی تو ان سے ملتی جلتی ایک تصویر فارم پر چسپاں کر دی جو بعد میں اصل کے ساتھ بدل دی گئی۔
ڈائریکٹر پاسپورٹ ایک محکمانہ انکوائری کی وجہ سے خاصا پریشان تھا۔ غوث کو فوجی وردی میں دیکھا تو مزید پریشان ہوا کہ شاید اب فوجی انکوائری بھی شروع ہونے والی ہے۔ غوث کے ہمراہ اتفاقاً ملٹری پولیس کے ایک افسر بھی تھے جن سے لفٹ لے کر وہ یہاں پہنچے تھے۔ان کی غیر معمولی سج دھج نے اس کی پریشانی کے لئے جلتی پر تیل کا کام کیالیکن جب معلوم ہوا کہ یہ صاحبان تو حصولِ پاسپورٹ کے سلسلہ میں آئے ہیں تو جان میں جان آئی۔ اسی خوشی میںاس نے سٹینو کو بلا کرتمام فارم خود مکمل کرائے۔ پولیس‘ محکمہ مال اور ٹکٹوں کے متعلق پی آئی اے کی تصدیق کی بجائے غوث کے سرٹیفیکیٹ اور اس کی مہر سے کام بن گیا اور اس طرح ایک ہی نشست میں پاسپورٹوں کے اجراء کا مرحلہ تمام ہوا۔ آخر کیوں نہ ہوتا‘ در ِمصطفی ﷺ سے بلاوے کے بعد محکمانہ پابندیاں اور ضابطے کی کارروائیاں رکاوٹ نہ بن سکتی تھیں۔
حضرت جیؒ نے روانگی سے قبل لین دین کے تمام معاملات نپٹائے۔ 1969 ء میں جن عزیزوں سے قرض لیکر مائیننگ کے کاروبار میں حصہ ڈالا تھا‘ ان کی رقوم وقت سے پہلے لوٹا دیں۔ حضرت جیؒ معاملات کے بارے میں انتہائی محتاط تھے اور ساتھیوں کو بھی اکثر ہدایت فرمایا کرتے کہ معاملات کا خیال رکھیں جن کی وجہ سے ایک دنیا اس وقت برزخ میں مبتلائے عذاب نظر آتی ہے۔ سفر ِحج کے لئے آپؒ نے مولوی سلیمان کی مالی امداد بھی فرمائی۔
ناظمِ اعلیٰ
طے شدہ پروگرام کے مطابق 18 دسمبر 1970 ء کو حضرت جیؒ احباب کے ہمراہ ٹرین پر سوار ہوئے۔ گاڑی ابھی لاہور ریلوے سٹیشن پر ہی تھی کہ آپؒ نے فرمایا:
’’مشائخ کی طرف سے حکم ہے کہ حافظ عبدالرزاقؒ کو سلسلۂ عالیہ کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کر دیا جائے اور آئندہ تمام خط و کتابت ان کے ساتھ کی جائے۔ ‘‘
یہ سلسلۂ عالیہ کی تنظیم کی طرف پہلا قدم تھا جو مشائخ کے حکم سے اٹھایا گیا ۔ اس طرح حافظ صاحبؒ کو‘ جو 1941 ء میں جماعت اسلامی راولپنڈی ڈویژن کے قیم مقرر ہوئے تھے‘ سلسلۂ عالیہ میں اس مقام تک پہنچنے کے لئے مزید تین عشروں کی مسافت طے کرنا پڑی۔
میز نہیں چھوڑتا
کراچی میں حضرت جیؒ کا قیام خاصا طویل رہا کیونکہ 24 جنوری 1971ء سے قبل دہران کے لئے نشست نہ مل سکی۔ اس دوران مفتی غلام صمدانی جو حضرت جیؒ کے ہمراہ عازم سفر تھے‘ ایک سوال پوچھ بیٹھے:
’’حضرت! شیخ‘ فیض کس طرح روک لیتا ہے۔‘‘
حضرت جیؒ نے فرمایا‘ یہ آپ کے سامنے کیا ہے؟
مفتی صاحب نے عرض کیا‘ حضرت میز ہے۔
آپؒ نے فرمایا: ’’مفتی صاحب! اس میز کو پکڑ لیں۔‘‘
اس واقعہ کے بعد مفتی غلام صمدانی منارہ کے سالانہ اجتماع میں حضرت جیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باتوں باتوں میں ہمت پائی تو عرض کیا:
’’حضرت! یہ میز نہیں چھوڑتا‘ اس میز سے تو جان چھڑائیں۔‘‘
حضرت جیؒ یہ سن کر بہت افسردہ ہوئے اور فرمایا:
’’اس کا مطلب ہے آپ کے ایک سال کا نقصان ہو گیا۔ یہ نقصان اس لئے ہوا کہ آپ نے سوال پوچھا تھا۔‘‘
حضرت جیؒ نے توجہ فرمائی تو مفتی صاحب کی میز سے جان چھوٹی‘ ترسیل فیض کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور آپؒ نے ایک ہی صحبت میں انہیں کئی مقامات کرادیئے جنہیں طے کرنے میں ایک عرصہ لگانا پڑتا۔
24‘ 25 جنوری 1971ء کو رات سوا بارہ بجے پی آئی اے کی فلائٹ سے دہران روانہ ہوئے اور قریباً تین بجے دہران پہنچے۔ کسٹم کی کارروائی مکمل ہوئی تو نوافل ِتہجد کی ادائیگی کے بعد احرام باندھا۔ یہاں سے سعودی ایئرلائنز کی فلائٹ سے صبح سات بجے جدہ کے لئے روانگی ہوئی۔ یہ فلائٹ کچھ دیر الریاض ایئرپورٹ پر رکنے کے بعد قریباً10 بجے جدہ پہنچی۔یہاں پاسپورٹوں کا اندراج ہوا جس کے بعد بذریعہ منی بس‘ مکۂ مکرمہ روانگی ہوئی اوریہ قافلہ قریباً ظہر کے وقت مکۂ مکرمہ پہنچا۔ معلم کے ڈیرے پر انتظامی امور سے فارغ ہوئے تو ابھی عصر کی اذان میں کچھ وقت باقی تھا۔ 25 جنوری 1971ء عصر کے قریب تلبیہ پڑھتے ہوئے حرم شریف میں داخل ہوئے۔
لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ‘ لَبَّیْکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ‘ اِنَّ الْحَمْدَ وَالْنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیَکَ لَکَ
لَبَّیْکَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواباً آواز آئی:
’’مَرْحَبَا‘ اَھْلاً وَسَھْلاً ‘‘
ساتھیوں میں چند ایسے خوش نصیب بھی تھے جنہیں خوش آمدید کے یہ الفاظ سنائی دیئے۔ طواف اور سعی کی تکمیل کے بعد مقامِ زمزم پر پہنچے تو نمازِ عصر کے لئے صفیں بننے لگیں اوراس طرح بیت اللہ میں پہلی نماز کے لئے باب ِکعبہ کے سامنے جگہ مل گئی۔ نماز کے بعد معلم کے ڈیرے پر واپسی ہوئی۔
مسلسل بے خوابی‘ سفر کی تکان اور دن بھر کے معمولات کی وجہ سے حضرت جیؒ کو بخار کی شکایت ہو گئی تھی۔ پہلی رات معلم کے ڈیرے پر ہی گزری لیکن یہاں کرائے کا مطالبہ چونکہ بہت زیادہ تھا‘ اگلے روز متبادل مکان کی تلاش شروع ہوئی۔ تھوڑی سی کوشش کے بعد عطائے الٰہی کی صورت میں ایک مکان انتہائی مناسب کرایہ پر شاہراہِ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک گلی میں مل گیا جس کی ایک دیوار مسجد ِابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے متصل تھی۔ غالباً یہ وہی مسجد تھی جس کا ذکر بخاری شریف کی ایک طویل حدیث میں ملتا ہے جہاں سیّدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ قرآن حکیم کی تلاوت فرمایا کرتے تھے مگر کفارِ مکہ نے انہیں اس لئے روک دیا کہ تلاوتِ قرآن سے متأثر ہو کراہلِ محلہ اسلام قبول کر لیں گے۔
پہلے ہی روز حرم شریف میں نماز اور ذکر و اذکار کے لئے مستقل جگہ متعین کر لی گئی۔ اگلے روز مغرب کے بعد مجلس ِ ذکر ہوئی تو مراقبۂ مسجد نبوی ﷺ کے دوران حضورِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نماز کے لئے اس جگہ کا تعین اور قیام کے لئے مکان کا انتخاب اتفاقاً نہیں ہوا بلکہ سنت کی پیروی کرانا مقصود تھی۔ نماز کی جگہ وہ‘ جہاں حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا پہلی مرتبہ آکر اترے تھے اور مکان سے سنت ِصدیقی کی پیروی کرانا تھی کہ وہ اسی راستے حرم میں آتے۔ یہ اس لئے ہوا کہ ان سے تمہارا قلبی تعلق اور پختہ ہو۔
ایک روز حضرت جیؒ احباب کے ہمراہ حرم شریف میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپؒ نے فرمایا:
’’مطاف میں بے شمار انبیاء علیہم السلام کے انوار نظر آتے ہیں‘ غالباً ننانوے انبیاء علیہم السلام یہاں مدفون ہیںجو بیت العتیق کی تعمیر اور چاہِ زمزم کے جاری ہونے سے پہلے تشریف لائے اور یہیں وصال ہوا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جن انبیاء علیہم السلام کی قوموں پر عذاب الٰہی نازل ہوا‘ نزولِ عذاب سے قبل وہ یہاں چلے آئے‘ یہیں قیام فرمایا اور یہیں داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔‘‘
آپؒ نے مزید فرمایا:
’’کوئی پندرہ صاحب ِکتاب رسول علیہم السلام ہیں۔ باب کعبہ سے مقامِ ابراہیم علیہ السلام تک ایک قطار میں بہت سے انبیاء علیہم السلام کے انوار نظر آتے ہیں۔ بابِ کعبہ کے عین نیچے ہود علیہ السلام دفن ہیں۔ مقامِ ابراہیم علیہ السلام سے متصل حضرت صالح علیہ السلام ہیں۔‘‘
حضرت جیؒ جب مختلف انبیاء علیہم السلام کا ذکر کر رہے تھے تو ایک ساتھی قرآنِ حکیم کی وہ آیات پڑھنے لگے جن میں انبیاء علیہم السلام کے اسمائے گرامی آتے ہیں۔ اس موقع پر اہل ِبصیرت حضرات نے عجب نظارہ دیکھا کہ ان آیاتِ کریمہ میں جس نبی علیہ السلام کا نام آتا‘ ان کے مدفن سے انوارات کی شدت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا اور اس طرح ان کی جائے تدفین٭ کی نشاندہی ہوتی گئی۔ رکن ِیمانی سے حجر ِاسود کی سمت کوئی تین گز کے فاصلے پر حضرت داؤد علیہ السلام کا مدفن ہے۔ حطیم میں سیّد ِنا حضرت اسماعیل علیہ السلام اور سیّدہ ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا مدفون ہیں۔ بعض انبیاء علیہم السلام سے کلام کا شرف ملا تو انہوں نے اپنا نام نہ بتایا اور صرف اتنا کہا:
’’اَنَا رَسُوْلُ اللّٰہ‘‘
اس اِخفا کی یہ وجہ سمجھ میں آئی کہ ان کے اسمائے گرامی قرآنِ حکیم میں مذکور نہیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے ان اسمائے گرامی کے علاوہ جن کی خبر اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ نے دی‘ اسرائیلیات‘ ہندو ویدانت اور تاریخی روایات کی بنیاد پر مزید ناموں کی اختراع درست نہ ہوگی ‘چہ جائیکہ قرآنِ حکیم میں مذکورانبیاء علیہم السلام کے ناموں کو اس طرح بگاڑا جائے جس طرح ان کا تذکرہ یہودی اور عیسائی کرتے ہیں‘ جیسے جوزف‘ ڈیوڈ وغیرہ ۔استغفراللہ! نقل ِکفر‘ کفر نہ باشد۔
ایک روز حضرت جیؒ نے احباب کی توجہ رکن ِیمانی اور حجر ِاسود کی درمیانی جگہ کی طرف مبذول کراتے ہوئے فرمایا:
’’رکن ِیمانی اور حجر ِاسود کے درمیان کی جگہ کو دیکھو۔ رکن ِیمانی سے تیسرے اور چوتھے مصلے کے درمیان جو سفید جگہ ہے‘ یہاں حضور اکرم ﷺ تیرہ سال متواتر ذکرِ الٰہی میں مشغول رہے تھے۔ حضور ﷺ کے انوارات کی بارش ہو رہی ہے۔‘‘
29 جنوری 1971ء یومِ جمعہ تھا۔ مسجد ِ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جا کر احرام باندھا اور واپس آکر عمرہ کیا جس کے بعد مَوْلِدُ النَّبیﷺ کی زیارت کی سعادت حاصل کی۔ اگلے روز پروگرام بنا کہ منیٰ‘ مزدَلفہ اور عرفات کے مقامات دیکھ لئے جائیں تاکہ ادائیگی ٔحج میں سہولت رہے۔ منیٰ میں حضرت جیؒ مسجد ِخیف گئے تو حضرت آدم علیہ السلام کے مدفن کی نشاندہی کرتے ہوئے آپؒ نے فرمایا:
’’حضرت آدم علیہ السلام مسجد ِخیف کے محراب کے پیچھے دفن ہیں۔ قبلہ رو ہو کر دیکھیں تو محراب ِمسجد کے بائیں جانب دیوار سے باہر مدفن٭ ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’پہاڑ سے متصل مسجد کی دیوار کے ساتھ٭ بارہ انبیاء علیہم السلام دفن ہیں جن میں سے پانچ صاحب ِکتاب ہیں۔‘‘
آخری کونے سے آواز آئی:
’’انا نوح‘‘
حضرت جیؒ احباب کے ہمراہ وہاں گئے اور طویل مراقبہ کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام سے شرفِ کلام نصیب ہوا تو اثنائے کلام انہوںنے فرمایا:
’’مفسرین کرام نے میری قبر کی نشاندہی جو مختلف مقام پر کی ہے‘ سب غلط ہے۔‘‘
میدانِ عرفات میں آپؒ نے بتایا کہ جبل رحمت پر جہاں مینار بنا ہوا ہے‘ اس سے متصل دوسرے پہاڑ کے دامن میں ایک صاحب ِکتاب رسول دفن ہیں۔ اسی مینار کی جگہ حضرت آدم علیہ السلام کو وہ کلمات سکھائے گئے تھے جن کا ذکر قرآن میں ملتا ہے:
اے ہمارے رب! ہم نے اپنے اوپر ظلم کیا‘ اور اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ کیا تو ہم ضرور خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ (الاعراف۔ 23)
تاخیر ہونے کے اندیشہ سے مزدلفہ جانے کا ارادہ ترک کیا اور واپس مکہ ٔمکرمہ روانہ ہوئے۔ راستے میں جنت المعلّٰی کی زیارت کا پروگرام بنا۔ پُل کے قریب پہنچے تو حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز دی۔ پھر مختلف سمتوں سے دعوت ملی:
’’ھلمو الینا‘‘
اہل ِ برزخ سے ملاقاتوں کا مزا بھی جداگانہ ہے۔ اگرچہ یہ حضرات علیین میں اپنے اپنے مقام پر ہوتے ہیں مگر روح کا تعلق جائے تدفین میں جسم کے ساتھ بھی قائم رہتا ہے۔ جب کوئی اہل اللہ ان کے مقابر کا رخ کرے تو کمال شفقت عود آتی ہے اور ان کے مقابر روحانی ملاقات کا واسطہ بن جاتے ہیں۔ پھر حضرت جیؒ کا معاملہ ایسا تھا کہ صدیوں بعد ایسی ہستیوں کی آمد ہوتی ہے ۔ایسے میں ان حضرات گرامی کی شفقت قدرتی تھی اور ملاقات کے لئے چاہت بھی ایسی جیسے والدین اپنی سعادت مند اولاد کیلئے دامن شفقت کھول کر سینے سے لپٹانے کے لئے بے تاب ہوں۔ اس روزجنت المعلٰی میں اطراف سے ملنے والی دعوت’’ھلمو الینا‘‘ کے پیچھے بھی یہی روح کار فرما تھی۔ حضرت جیؒ کا معاملہ تو الگ رہا لیکن جب آپؒ کے قدموں میں چند گھڑیاں بسر کرنے والوں کے ساتھ بھی کچھ اسی طرح کی صورتِ حال پیش آنے لگے تو اپنا داغ داغ دامن دیکھتے ہوئے عرقِ ندامت کے چند قطرے نذر کئے بغیر کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔ یہ پذیرائی نسبت ِ اویسیہ کے دم قدم سے ہے۔ اللہ تعالیٰ اس نسبت کو سلامت رکھے‘ آمین!
حضرت جیؒ رک گئے اور عرض کیا:
’’آپ ایک سے ایک بڑھ کر ہیں‘ کس کو چھوڑیں‘ کس کے پاس جائیں۔‘‘
اطراف سے جواب ملا:
’’مرحبا‘ مرحبا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
ایک جگہ کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی‘ ایصال ثواب کا تحفہ پیش کیا اور آگے بڑھے۔ سیّدہ حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مزار٭ پر گئے۔ قریب ہی حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ کی قبر بھی تھی لیکن دیکھا کہ دونوں قبریں خالی ہیں اور ارواح علیین میں چلی گئی ہیں۔ نورِ بصیرت سے دیکھا کہ اس کی وجہ وہاں روافض کا ہجوم تھا۔ 2 فروری 1971ء کو جبل ِنور دیکھنے کا پروگرام بنا۔ حضرت جیؒ دامن میں پہنچ کر رک گئے جبکہ باقی احباب غارِ حرا تک پہنچے۔
4 فروری 1971ء آٹھویں ذوالحجہ تھی جسے یومُ الترویہ کہتے ہیں۔ مناسک ِحج کی ابتداء علی الصبح جائے رہائش پر احرام باندھنے سے ہوئی جس کے بعد حرم شریف میں آکر طوافِ قدوم کیااور ساتھ ہی سعی بھی کر لی گئی کیونکہ طوافِ زیارت کے موقع پر سعی کرنا حضرت جیؒ کی عمر اور صحت کے لحاظ سے مشکل تھا۔ ظہر سے قبل منیٰ پہنچے اور معلم کے عدمِ تعاون کی وجہ سے اجتماعی صورت میں قیام کا بندوبست کرنے میں خاصی مشکل پیش آئی۔
اسی روز حکیم بشیر کی وجہ سے ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش آیا۔ حضرت جیؒ نے اس ذہنی طور پر معذور شخص کے متعلق فرمایا تھا‘ کُلُّ شَیْیٍٔ شَیْیُٔٗ اِلاَّ الْجَاھِلُ فَاِنَّہٗ لَیْسَ شَیْیُٔٗ (ہر چیز کچھ نہ کچھ تو ہوتی ہے سوائے جاہل کے جو کچھ بھی نہیں ہوتا)۔ اس سے قبل اس شخص نے ایک مرتبہ حضرت امیر المکرم سے خواہ مخواہ نزاع کی صورت پیدا کر لی تھی جس کا تذکرہ حضرت جیؒ کے خطوط میں ملتا ہے۔ یومُ الترویہ جیسے مبارک دن بھی مکہ ٔ مکرمہ میں حکیم بشیر نے ایک بزرگ ساتھی کو ناراض کیا جس کے نتیجہ میں وہ ساتھی دلبرداشتہ ہو کر ایامِ حج میں حضرت جیؒ اور احباب سے الگ تھلگ رہے۔ اگرچہ دو روز بعد منیٰ میں دوبارہ آن ملے لیکن روحانی تنزل کی صورت میں ان کا نقصان ہوا۔ حضرت جیؒ نے حج سے واپسی پر حضرت امیر المکرم کے نام ایک مکتوب میں اس کا تذکرہ فرمایا ’’دو راتیں جدا رہنا ہی ان کو نقصان پہنچا گیا۔ ان کی جگہ پر مولانا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آگئے۔‘‘
یہ واقعہ ان احباب کے لئے سبق کا درجہ رکھتا ہے جو بعض ساتھیوں کے طرز عمل سے دلبرداشتہ ہو کر سلسلۂ عالیہ یا شیخ سے کھچاؤ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ عمل مقا ماتِ سلوک میں تنزلی کا باعث بنتا ہے اور اگر جلد اصلاح کی صورت پیدا نہ ہو تو سلسلۂ عالیہ کی برکات سے محروم ہو جاتے ہیں۔
5 فروری 1971ء کو یومِ عرفہ تھا۔ مناسک ِ حج کے مطابق حضرت جیؒ زوال سے قبل میدانِ عرفات پہنچ گئے۔ اس روز آپؒ کی طبیعت انتہائی ناساز تھی اور کمزوری حد سے بڑھ گئی تھی۔ آپؒ کے ساتھ کچھ احباب معلم کے خیمے میں رہے جبکہ دیگر ساتھی مسجد ِنمرہ چلے گئے۔ آپؒ کی صحت اس قابل نہ تھی کہ خیمہ سے باہر نکل سکتے لیکن عصر کے بعد اصرار فرمایا اور ساتھیوں کے ہمراہ جبل ِرحمت کے دامن تک پہنچے ۔چوٹی پر چڑھنے کا ارادہ کیا لیکن صحت نے اجازت نہ دی تو اسی جگہ وقوفِ عرفات کیا اور دیر تک دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا۔
وقوفِ عرفات مکمل کرتے ہوئے حضرت جیؒ نے احباب کو فرمایا:
’’مبارک ہو‘‘
یہ مبارکباد قبولیت ِحج پر خوشی کا اظہار تھی۔
مغرب کے بعد گاڑی سے مزدلفہ کے لئے روانگی ہوئی۔ یہاں پہنچ کر کھلی وادی میں جھاڑیوں کے درمیان ڈیرہ جمایا اور رات بھر ذکر و اذکار اور دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا۔ 6 فروری کو سورج نکلنے سے قبل مزدلفہ سے روانہ ہوئے اور منیٰ پہنچے۔ یہاں معلم کے خیمہ میں رہائش کا بندوبست کیا‘ باقی مناسک ِحج ادا کئے اور 9 فروری کو مکہ ٔمکرمہ واپسی ہوئی۔ یہاں پہنچے تو واپسی کی نشستوں کے تحفظ کا مرحلہ درپیش تھا جس کے بغیر مدینہ منورہ حاضری کی اجازت نہ تھی۔
بحیثیت ناظمِ اعلیٰ نشستوں کا تحفظ حافظ عبدالرزاقؒ کے ذمہ تھا لیکن اس سے قبل انہیں ہوائی سفر یا بکنگ وغیرہ کا کوئی تجربہ نہ تھا۔ کراچی سے روانہ ہوئے تو واپسی کا خانہ خالی رکھا لیکن مکہ ٔمکرمہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ اب حاجیوں کے رش کی وجہ سے واپسی کی نشستیں محفوظ کرانا کارے دارد۔ کئی بار جدہ آئے لیکن پی آئی اے کا مستقل جواب تھا کہ آئندہ چھ ماہ تک سیٹ ملنے کا امکان نہیں اور جب ملے گی تو نیا کرایہ دینا ہوگا۔ جدہ میں انہوں نے یہ مسئلہ اپنے ایک دوست کے سامنے رکھا جو سفارت خانہ کے سکول میں ملازم تھے۔ وہ انہیں ہیڈماسٹرصاحب کے پاس لے گئے کہ شاید ان کا اثر و رسوخ کام آجائے۔ دورانِ گفتگو حافظ صاحبؒ کی تعلیمی قابلیت اورتدریسی تجربے کا ذکر ہوا تو ہیڈ ماسٹر صاحب نے انہیں اپنے ہی سکول میں اعلیٰ مشاہرے پر تقرری کی پیشکش کر دی۔واپسی پر حضرت جیؒ سے اس کا ذکر کیا تو آپؒ نے فرمایا:

’’کیا آپ نوکر نہیں ہیں جو ملازمت کے متعلق سوچ رہے ہو۔ مشائخ نے سلسلہ کی خدمت آپ کے سپرد کر رکھی ہے۔ آپ باقاعدہ ملازم ہیں اور آپ کے ذمہ بہت سے کام ہیں‘ کہیں ملازمت کا خیال دل میں نہ لانا۔‘‘
یوں تو ہر مومن نے جنت کے عوض اپنی جانوں کا سودا اللہ تعالیٰ سے چکا رکھا ہے لیکن وہ خوش نصیب جنہیں سلسلہ ٔعالیہ میں کوئی ذمہ داری سونپ دی جائے‘ ان کی زندگی کا کوئی لمحہ اپنا نہیں ہوتا جسے اپنی مرضی سے صرف کر سکیں۔ وہ اپنے ذاتی معاملات میں بھی اس بات کے مکلف ہیں کہ شیخ یا امیر سے اجازت طلب کریں تاکہ دربارِ نبویﷺ کے غلام اور کارندے کی حیثیت سے ان کی ذمہ داری میں خلل واقع نہ ہو۔
نشستوں کے تحفظ کے لئے بار بار جدہ کے چکر اور تمام ذرائع بروئے کار لانے کے باوجود کامیابی نہ ہوئی تو معلم کی خدمات حاصل کی گئیں لیکن اس کے لئے اچھی خاصی فیس ادا کرنا پڑی۔
10 فروری کو احباب نے غارِ ثور کی زیارت کی لیکن حضرت جیؒ کے لئے یہ چڑھائی ممکن نہ تھی۔ آپؒ جبل ِثور تک گئے اور کچھ دیر وہاں ٹھہر کر واپس لوٹ آئے۔ 12 فروری کو یومِ جمعہ تھا۔ تنعیم جا کر احرام باندھا اور واپس آکر عمرہ کیا۔ اسی روز معلم کی طرف سے خبر ملی کہ نشستوںکا تحفظ ہو چکا ہے اور 26 فروری کو صبح پانچ بجے جدہ سے کراچی کے لئے روانگی ہو گی۔
13 فروری کا پورا دن بیت اللہ میں گزرا۔ اس روز موسلا دھار بارش ہوئی اور تیز ہوا چلنے لگی تو میزاب ِرحمت سے گرنے والے بارانِ رحمت کے چھینٹے حطیم میں موجود ساتھیوں کے حصہ میں بھی آئے۔
14 فروری کو مدینہ منورہ روانگی کا پروگرام تھا جو معلم کی طرف سے ٹیکسی کے انتظام میں تساہل کی وجہ سے مزید ایک دن مؤخر ہوا۔ 15 فروری کو ظہر کے بعد طوافِ وداع کیا جس کے بعد احباب مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ حضرت جیؒ 15‘ 16فروری کی رات جدہ سے بذریعہ ہوائی جہاز مدینہ منورہ پہنچے جبکہ احباب کی آمد 16 فروری کو ظہر کے وقت ہوئی۔
حضرت جیؒ‘ حضرت امیر المکرم‘ اکثر احباب سلسلہ اور اہل اللہ کا ہمیشہ سے یہ معمول رہا ہے کہ روضۂ اطہر پر آقائے نامدارﷺ کے حضور جب مراقب بیٹھتے ہیں تو قدمین مبارک کی سمت‘ کیونکہ یہی قرینہ ٔ ادب ہے۔ بابِ جبریل کی سمت مسجد ِنبویﷺ کی دیوار میں پہلی کھڑکی قریباً اس جگہ کی نشاندہی کرتی ہے۔ اُن دنوں اس کھڑکی سے متصل باہر کی جانب ایک چھوٹے سے احاطے میں سبزہ ہوا کرتا تھا جہاں بیٹھ کر حضرت جیؒ کو بارگاہِ نبویﷺ میں عرضداشت پیش کرنے کا موقع ملا ۔
مراقبہ ٔدربارِ نبویﷺ میں حضرت جیؒ کے ہمراہ احباب کی حاضری ہوئی تو آقائے نامدارﷺ کے فرمان کے مطابق ان احباب کی تجدید ِبیعت کی گئی۔ اس موقع پر خصوصی انعامات اور سندات عطا ہوئیںجبکہ چار ساتھیوں کے نام ملفوف بھی عطا ہوئے۔ حضرت جیؒ نے بعد میں اس کی تعبیر بتائی کہ قطبیت کے چاروں مناصب سلسلۂ عالیہ میں منتقل ہو گئے ہیں۔
18 فروری کو طے ہوا کہ آج مدینہ طیبہ کے ارد گرد اسلامی تاریخ کے جو اوراق بکھرے پڑے ہیں ان کا مشاہدہ کیا جائے۔ چنانچہ جبل سلع‘ جس کے دامن میں مدینۃ النبیﷺ کے دفاع کے لئے خندق کھودی گئی تھی‘ تاریخی مساجد بشمول مسجد ِقبلتین‘ بئیر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور مزار حضرت عکاشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زیارت کی گئی۔
جمعۃ المبارک 19 فروری 1971ء کو مسجد نبویﷺ میں حاضری کے دوران حضرت جیؒ کو آقائے نامدارﷺ کی خدمت میں چند علمی گذارشات پیش کرنے کا موقع نصیب ہوا ۔
عالم بیداری میں دربارِ نبویﷺ میں حضوری! پھر وہاں یارائے گویائی! اذن ملے تو ممکن ہے اور حوصلہ عطا ہو تو زبان کھل سکتی ہے۔ حضرت جیؒ نے آقائے نامدارﷺ کی خدمت میں بعض علمی مسائل کے بارے میں رہنمائی کی درخواست کی تو

جواب میں علم و عرفان کے سمندر عطا ہوئے لیکن کوزے میں بند کیونکہ جامع الکلام ہونا آقائے نامدارﷺ کا معجزہ ہے جس کا اظہار روحانی کلام میں بھی اسی طرح ہوتاہے جس طرح احادیث نبوی ﷺ میں نظر آتا ہے۔
حضرت جیؒ آغازِ گفتگو کے متعلق فرماتے ہیں:
’’سَأَلَ مِنْہُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُؤَالاً رُوْحَانِیّاً عَنْ حَدِیْثِ الثَّقَلَیْنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
(رسول اللہﷺ سے روحانی سوال کیا‘ حدیث ِثقلین کے بارے میں)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:
’’حدیث میں جن لوگوںکا ذکر ہے‘ ان سے تمسُّک کرنا کتاب و سنت سے تمسُّک کرنا ہے۔‘‘
اس کے بعد احادیث میں موجود الفاظ اہل بیتی اور سنتی میں تطابق کے متعلق سوال ہوا جس کا تفصیلاً جواب عنایت ہوا۔
اثنائے گفتگو حضرت جیؒ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ جس طرح ہمارے سلسلہ کے لوگ آپﷺ کی خدمت میں روحانی طور پر حاضر ہوتے ہیں‘ اس طرح اور لوگ بھی حاضر ہوتے ہیں۔‘‘
جواب ملا:
اِذَا لَمْ یَنْسَلِحُ الرُّوْحُ مِنَ الْجَسَدِ فَکَیْفَ یَصِلُ اِلیَّ
(جب روح جسم سے الگ نہ ہو تو میرے پاس کیسے پہنچے گا)
حضرت جیؒ نے عرض کیا:
’’یا رسول اللہﷺ! مجھے تین چار بزرگ ایسے معلوم ہوتے ہیں وہ غوث اور قطب کے نام سے موسوم ہیں۔‘‘
فرمایا گیا:
ھُمْ اَقَلُّ قَلِیْلٍ (وہ بہت ہی کم ہیں)
گفتگو کا یہ سلسلہ کچھ دیر جاری رہا۔ آخر میں اس فرمانِ نبویﷺ کا ذکر ہوا جس کے مطابق تمام مومنین کے اعمال ہر سوموار اور جمعرات کو حضورﷺ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔
تحدیث نعمت کے طور پر حضرت جیؒ نے بتایا کہ آپؒ کے اعمال کی اطلاع پر حضورﷺکی طرف سے خوشی کا اظہار فرمایا جاتا ہے۔
روحانی کلام کا سلسلہ ختم ہونے کو تھا کہ روضۂ اطہر کے اندر سے اذان کی آواز سنائی دینے لگی۔ حضرت جیؒ نے فرمایا کہ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں۔ جب حَیَّ عَلَی الْفَلاَح پر پہنچے تو مسجد ِ نبوی ﷺ کے مؤذن نے بھی اذان شروع کر دی۔ اس طرح حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس روایت کی تصدیق ہو گئی کہ اَلْاَنْبِیَائُ اَحْیَائُٗ یُصَلُّوْنَ فِیْ قُبُوْرِھِمْ (انبیاء علیہم السلام زندہ ہیں‘ وہ اپنے اپنے مقابر میں نماز ادا کرتے ہیں)۔
آقائے نامدار ﷺ کے حضور حضرت جیؒ کے اس روحانی کلام کے متعلق ہدایت فرمائی گئی کہ میری اور اپنی گفتگو سب لکھ دو اور طبع کرا دوتاکہ دین مضبوط ہو اور لوگ مستفیض ہوں۔ حضرت جیؒ فرماتے ہیں کہ کچھ باتیں اور بھی تھیں جن کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اُکْتُمْ فِیْ صَدْرِکَ (انہیں اپنے دل میں چھپا کررکھو)۔ اس کے بعد جنت البقیع میںحضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضری ہوئی تو حضرت جیؒ نے عرض کیا :
جِئْنَاکِ لِنَزُوْرَ قَبْرَکِ وَ نُصَلِّیْ وَنُسَلِّمْ عَلَیْکِ یَا اُمِّیْ (ہم آئے ہیں کہ آپ کی قبر مبارک کی زیارت کریں اور

آپ پر درود سلام پڑھیں اے میری اماں)
قَالَتْ اَھْلاً وَسَھْلاً مَرْحََبَا
(وہ کہنے لگیں خوش آمدید)
حضرت جیؒ نے استفادہ کیلئے چند سوالات پوچھنے کی اجازت طلب تو جواب ملا:
فَاسْئَلُوْ اُجِیْبُکُمْ
(تم سوال کرو میں جواب ٭دیتی ہوں)
20 فروری کو میدانِ احد جانے کا پروگرام بنا۔کھجوروں کے باغوں سے گزرتے ہوئے (اس وقت تک یہاں تعمیرات کا آغاز نہ ہوا تھا) جبل الرماۃ کے دامن میں پہنچے اور بلندی پر اس غار کی زیارت کی جہاں حضور ﷺ نے زخمی ہونے کے بعد آرام فرمایا تھا۔
21 فروری کو مسجد ِقبا کی زیارت کا پروگرام بنا۔ راستے میں ایک چھوٹی سی مسجد کی زیارت کی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہاں پہلا جمعہ پڑھا گیا اور اسی نسبت سے اس کا نام ’’مسجد ِجمعہ ‘‘ہے۔ مسجد ِجمعہ کے قریب شمال کی جانب ایک چبوترا تھا جس کے متعلق بتایا گیا کہ یہاں بنی نجار کی بچیوں نے دف بجا کرطربیہ ا شعارسے حضور اقدسﷺ کا استقبال کیا تھا۔ مسجد قبا پہنچ کر نوافل ادا کئے اور کچھ دیر مراقبات کرنے کا موقعہ ملا۔
مسجد قبا کے جنوب کے طرف گئے تو دار کلثوم کے پاس ایک گنبد والا مکان نظر آیا۔ حضرت جیؒ نے احباب سے فرمایا کہ یہاں حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدفون ہیں اور وہ فرما رہے ہیں:
’’حضورِ اکرمﷺ ہر ہفتے یہاں تشریف لاتے تھے۔ ہمارے ساتھ انتہائی شفقت کی وجہ سے حضورنبی کریمﷺ کا یہ معمول تھا۔ روضۂ اطہر پر حاضری کے وقت میرے آقاﷺ کو میرا سلام پہنچا دینا۔‘‘
اسی موقعہ پر حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت جیؒ کے ہمراہ ایک ساتھی سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم نے دورانِ سفر خواب کے عالم میں مجھ سے پوچھا تھا کہ مدینہ طیبہ یہاں سے کتنی دور ہے اور میں نے تمہیں بتایا تھا کہ میلین اور ثلاثہ میال۔ اس ساتھی پر رقت طاری ہو گئی اور خواب کا واقعہ یاد آگیا۔
اس کے بعد مسجد ِشمس کی طرف گئے‘ کھجوروں کے باغات دیکھے اور واپسی پر بئر عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مقام پر رکے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں مہر ِنبوت والی انگوٹھی گرنے کے بعد دورِ عثمانی میں فتنوں کا آغاز ہوا۔ اہل ِبصیرت احباب نے کشفاً اس روایت کی تصدیق کی۔
22 فروری مسجد نبوی ﷺ میں آخری دن تھا۔ طے پایا کہ آج اصحاب صفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مقام صفہ پر تلاوت قرآنِ حکیم کی جائے۔ چنانچہ حضرت جیؒ کے ہمراہ تمام احباب نے مل کر ایک قرآنِ مجید ختم کیا اور اس کا ثواب آقائے نامدار ﷺ کے حضور پیش کیا۔ فارغ ہو کر سلام کے لئے مواجہ شریف کے سامنے حاضر ہوئے تو آنسوؤں اور ہچکیوں کے ساتھ سلامِ وداع پیش کیاکیونکہ اگلے روز مدینہ طیبہ سے روانگی تھی۔روضۂ اطہر ﷺ سے الوداع ہونے کے موقع پر بارگاہِ نبوت ﷺ سے انعام کے طور پر سارا قرآن کریم ایک کپڑے یا ورق پر لکھا ہوا حضرت جیؒ کے سینے پر چسپاں کر دیا گیا۔ ارشاد ہوا اس کی برکت سے قرآن فہمی آسان ہوگی‘ آپ جس کے سینہ پر لکھ دیں گے اس کو بھی قرآن فہمی میں آسانی ہوگی۔
23 فروری کا سارا دن احباب نے بس اڈہ پر گزارا اور رات قریباً 9 بجے جدہ کے لئے روانہ ہوئے۔ مختلف بسیں تبدیل کرتے ہوئے رات بھر سفر کے بعد اگلے روز جدہ پہنچے جبکہ حضرت جیؒ نے مدینہ منورہ میں مزید دو روز بسر کئے۔ آپؒ 24 فروری کو بذریعہ ہوائی جہازعصر کے قریب جدہ پہنچے۔
25
فروری کا پورا دن جدہ میں گزارا اور رات 9 بجے واپسی سفر کے مراحل کا آغاز ہوا۔ 25‘ 26 فروری کی پوری رات زیر تعمیر ایئرپورٹ ‘ مطارِ جدید پر گزری اور صبح 5 بجے سعودی ایئرلائنز کے طیارہ سے واپسی کا سفر شروع ہوا۔ 9 بجے کے قریب کراچی پہنچے تو ساتھیوں کا ہجوم استقبال کے لئے موجود تھا لیکن ادب کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے استقبالی نعرے‘ نہ ہاروں کے انبار۔
کراچی سے حضرت جیؒ نے واپسی کا سفر بذریعہ ٹرین کیا۔ یہاں مختصر قیام کے دوران آپؒ نے احباب کو مختلف تحائف‘ تسبیح وغیرہ سے نوازا۔ ایک صاحب کی نگاہ آپؒ کے سفری لبا س پر تھی کہ آپؒ تبدیل کریں تو یہ انہیں مل جائے۔ حضرت جیؒنے لباس تبدیل کرنے کے بعد الگ سے رکھوا دیا اور وقت ِ روانگی ان صاحب کو خاص طور پر بلا کر عنایت فرمایا۔یہ محض ایک اتفاق نہ تھا بلکہ احباب کے ساتھ ایسے واقعات بکثرت پیش آیا کرتے تھے ۔
کراچی سے روانگی کے بعد ہر بڑے اسٹیشن پر احباب کی ایک بڑی تعداد حضرت جیؒ سے ملاقات کے لئے موجود ہوتی۔ کئی ایسے ساتھی بھی تھے جو دو چار اسٹیشن تک شریک ِسفر ہوئے۔ وزیر آباد جنکشن کے بعد کچھ فوجی ساتھی بھی ٹرین پر سوار ہو گئے۔ ٹرین جب کھاریاں اور سرائے عالمگیر پہنچی تو وردی میں ملبوس فوجی ساتھیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی جنہوں نے ٹرین کے ساتھ ساتھ بھاگتے ہوئے آپؒ کو سلام پیش کیا۔
مکہ ٔمکرمہ سے ایک خط میں حضرت جیؒ نے حضرت امیر المکرم کو ہدایت فرمائی تھی کہ واپسی پر آپؒ لاہور نہیں اتریں گے بلکہ بذریعہ ٹرین جہلم تک آئیں گے جہاں وہ گاڑی لے کر آ جائیں۔ ٹرین جہلم پہنچی تو حضرت امیر المکرم گاڑی لئے موجود تھے جس میں آپؒ نے چکڑالہ تک کا سفر کیا۔
حرمین شریفین سے واپسی پر حضرت جیؒ نے تحریری صورت میں اس دورہ کے حالات و واقعات اور روحانی کلام پر مشتمل کچھ مواد حافظ عبدالرزاقؒ کے سپرد فرمایا جو اس مقدس سفر کا ماحصل تھا۔اسے حضرت جیؒ کی معرکۃ ا لآرا کتاب ’’اسرار الحرمین‘‘ کی صورت میں 1971ء میں ہی شائع کر دیا گیا ۔
بارگاہِ نبویﷺ میں روحانی حاضری کے دوران شرفِ کلام اس قدر نازک باب ہے کہ بڑی بڑی ہستیوں کو اس بارے میں کچھ کہنے کی جرأت نہ ہو سکی۔ تاریخ ِتصوف میں کئی مشاہیر کے ساتھ ایسے واقعات پیش آئے جن کا تعلق بارگاہِ نبوی ﷺ میں روحانی کلام سے تھا۔ ایسے واقعات کا تواتر اور قرآن و حدیث سے صحت ِ کلام کی توثیق کے بعد اس عامیانہ اعتراض پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں بھی سب کچھ دکھایا جائے یا ہمیں بھی روحانی کلام کرائیں تو مانیں گے۔ دیکھنے اور سننے کے لئے سمع و بصر کی استعداد لازم ہے جبکہ معذور دیکھ سکتا ہے نہ کلام کر سکتا ہے۔
ماضی قریب میں حضرت شاہ ولی اللہؒ نے آقائے نامدار ﷺ سے اپنے روحانی کلام کو صفحہ ٔقرطاس پر لانے کا حوصلہ پایا اور (پس بیان کریں اپنے رب کی اس نعمت کو جو اس نے آپ پر فرمائی ہے) کے مصداق یہاں تک کہہ دیا کہ میں نے قرآن پاک سبقاً سبقاً آقائے نامدارﷺ سے پڑھا ہے۔ اس قول پر فتوے بھی لگے اور جن لوگوں کی بساط ِشعور میں اتنی بڑی بات کا سمانا ممکن نہ تھا‘ وہ انکار کر بیٹھے۔
حضرت جیؒ نے بھی حرمین شریفین کی حاضری کے دوران پیش آنے والے واقعات‘ روحانی کیفیات اور مکاشفات کو انتہائی شرح و بسط اور تیقن کے ساتھ بیان فرمایا جو ہمیشہ سے اہل اللہ کا انداز رہا ہے۔ تقویٰ کے درجۂ کمال کے اہتمام میں آپؒ کی احتیاط کا یہ عالم ہوا کرتا تھا کہ مباح کی سرحدوں سے بھی ہمیشہ فاصلہ رکھا لیکن جب مکاشفات کا اظہارفرمایا جن کا تعلق دربار

نبویﷺ سے تھا تو انتہائے یقین کے ساتھ۔ یہی اندازِ تیقن‘ صحت کے درجۂ کمال کی سب سے بڑی دلیل ہے۔
آقائے نامدارﷺ سے حضرت جیؒ کا روحانی کلام جو مبشرات کے عنوان کے تحت اسرار الحرمین میں شائع ہوا ‘ صرف مکاشفات ہی نہیںبلکہ ظاہری و باطنی تعلیمات کے ایسے پہلوؤں سے تعلق رکھتا ہے جنہیں کلیاتی درجہ حاصل ہے۔ اس کلام سے ایسے رہنما اصول متعین ہوتے ہیں جن کی روشنی میں شریعت کے عقدے کھلتے چلے جاتے ہیں اور جن پر کئی ابواب رقم کرنے کی ضرورت ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ قرآن و حدیث سے تقابل کرتے ہوئے اہل ِبصیرت اور علمائے حق ان سے استفادہ کرتے لیکن اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ حضرت شاہ ولی اللہؒ کے مکاشفات پر اس دور میں غور و فکر تو ہوا جس کا نتیجہ تائید و اختلاف ‘ دونوں صورتوں میں سامنے آیا لیکن حضرت جیؒ سے متعلق یہ باب اہل دانش کی سرد مہری کا شکار رہا۔
ضرورت تائید کی نہیں‘ جو قرآن و حدیث کی صورت موجود ہے۔ سلسلہ ٔعالیہ کے ایسے احباب کی کمی حضرت جیؒ کے زمانے میں تھی نہ اب ہے جن کی نگاہِ بصیرت نے حسب ِ بساط ان مکاشفات سے اپنا حصہ وصول کیا۔ البتہ عام سطح پر استفادے کا فقدان ضرور ہے جو شاید اس وقت تک رہے گا جب تک قلب و نظر کی صلاحیت پھر سے عام نہ ہو۔ حضرت جیؒ کی گراں قدر تصنیف ’’اسرار الحرمین‘‘ اہل دانش سے غواصی کی متقاضی ہے کہ اس میں کئی گوہر گراں مایہ ان کی امانت کی صورت میں مستور ہیں۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ دان کے لئے!
 
Top