اللہ تعالی اور موسی علیہ السلام کے پہلے کلام کا مقام!

کعنان

محفلین
اللہ تعالی اور موسی علیہ السلام کے پہلے کلام کا مقام!
جمعرات 8 دسمبر 2016م
قاہرہ ۔ اشرف عبدالحميد
7c2544a6-8992-4b12-b8ae-5e7970e86ef8_16x9_600x338.jpg

مصر کے صوبے جنوبی سیناء کے شہر سینٹ کیتھرین میں واقع "جبلِ شریعہ" وہ مقام ہے جہاں اللہ تعالی نے اپنے رسول موسی علیہ السلام سے کلام کرتے ہوئے فرمایا تھا "إني أنا ربك فاخلع نعليك إنك بالوادي المقدس طوى".

آثارِ قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر عبد الرحيم ريحان (سیناء میں آثاریاتی تحقیقی مطالعے سے متعلق ادارے کے ڈائریکٹر جنرل) نے "العربیہ ڈاٹ نیٹ" کو باور کرایا کہ تمام مطالعوں سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ اسی مقام پر اللہ عزوجل نے تجلی فرمائی اور یہاں واقع علیق کے درخت کے پیچھے آگ روشن ہوئی تھی۔ یہ حضرت موسی علیہ السلام کا سیناء کا پہلا سفر تھا۔ یہاں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا تھا "إني أنا ربك فاخلع نعليك إنك بالوادي المقدس طوى"۔ اللہ رب العزت نے حضرت موسی علیہ السلام کے دوسری مرتبہ اس پہاڑ پر آنے کے موقع پر تجلی فرمائی اور پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ اللہ تعالی کا اسی بارے میں ارشاد ہے "فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا


2e2294b8-47bc-4409-8f67-6cb9ef57f9ce_4x3_690x515.jpg

ڈاکٹر عبدالرحیم کا مزید کہنا تھا کہ اللہ تعالی نے مصر کو بہت بڑا شرف بخشا ہے کہ یہاں مقدس وادی طوی میں جبلِ شریعہ واقع ہے۔ جس طرح "والتین والزیتون" سے بیت المقدس کو شرف بخشا گیا ، "طور سینین" درحقیقت سیناء ہے اور "والبلد الامین" مکہ مکرمہ ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم نے اپنی آثاریاتی تحقیق کے دوران حضرت موسی علیہ السلام کے سفر کے مقامات کے تعین کی تصدیق کی۔ ان میں سب سے پہلا مقام جہاں بارہ چشمے پھوٹے تھے ، اس کے بعد سرابیت الخادم کا علاقہ ، اس کے بعد خلیج سوئز کے کنارے طور سیناء کا علاقہ جہاں بنی اسرائیل نے سونے کے بچھڑے کی عبادت کی تھی اور جبلِ شریعہ جہاں موسی علیہ السلام کو شریعتِ دین کی تختیاں دی گئی تھیں۔ بنی اسرائیل طور سیناء سے وادی حبران کے راستے وادی طوی منتقل ہوئے ، یہ علاقہ اب سینٹ کیتھرین کہلاتا ہے۔


6cfc68f5-a735-424a-a337-a1a2b5d04b35_4x3_690x515.jpg

ڈاکٹر عبدالرحیم کے مطابق جبلِ موسی کی بلندی سطح سمندر سے 2242 میٹر ہے۔ انہوں نے بتایا کہ زمین سے اس علاقے کی بلندی کے پیشِ نظر بنی اسرائیل نے نبی سے کسی دوسرے رزق کا مطالبہ کیا جب کہ اللہ تعالی نے ان کو بہترین رزق مَن اور سَلوی عطا فرمایا تھا۔ اس علاقے کی بلندی کے ہی پیش نظر یہ سخت سرد علاقہ تھا۔ اسی واسطے اللہ کے نبی موسی علیہ السلام سیناء کے لیے اپنے پہلے سفر میں آگ کی تلاش میں گئے تاکہ خود کو اور گھر والوں کو گرمائش پہنچا سکیں۔ اللہ نے ارشاد فرمایا "إني آنست ناراً لعلى آتيكم منها بخبر أو جذوة من النار لعلكم تصطلون"۔ اس علاقے میں علیق کا درخت ہے جو سیناء میں اور کسی جگہ نہیں ہے۔ یہ نہ بڑھتا ہے اور نہ ہی بھل دیتا ہے۔ اس کو دنیا میں کسی بھی دوسرے مقام پر نہیں اگایا جاسکا۔ اس سے تصدیق ہو جاتی ہے کہ جس درخت کے نزدیک حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ سے مناجات کی تھی وہ علیق کا مقدس درخت ہی ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحیم کے مطابق "جو لوگ یہ دعوی کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل نے مذکورہ علاقے کو سب سے پہلے سیناء کا نام دیا وہ حقیقت سے ناواقف ہیں۔ قرآن کریم میں سیناء کے علاقے کو سینین کے نام سے ذکر کیا گیا ہے اس کا معنی پہاڑوں کی نوکیں ہیں۔ اس کو سیناء کا نام دینے کی وجہ یہاں کثیر تعداد میں واقع پہاڑ ہیں۔ فراعیینِ مصر نے سیناء کو توشيت یعنی کُھلی زمین کا نام دیا۔ تورات میں اس کو حوریب یعنی بنجر زمین کے نام سے جانا گیا۔ سیناء کا چاند کی عبادت سے بھی کوئی تعلق نہیں جیسا کہ بعض محققین نے دعوی کیا ہے"۔


72b809d4-8691-4c4b-8e30-7e36f6d27caf_4x3_690x515.jpg

ح
 

محمد آصف1

محفلین
پلیز آپ لوگ جو بھی پوسٹ دیں تو اس کے ساتھ حوالہ دیا کریں ۔بلخوص اسلام کے متعلق جو بھی پوسٹ ھو تو اس لو مکمل حوالے کے ساتھ پوسٹ کریں ۔شکرہہ
 
Top