اللّہ تعالیٰ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
ہر رنگ میں راضی بہ رضا ہو تو مزا دیکھ
دنیا ہی میں رہتے ہوئے جنت کی فضا دیکھ
مولانا محمد علی جوہر
 

سیما علی

لائبریرین
میں خطا ہوں، تو عطا ہے، میں زمیں تو آسماں ہے
مری حیثیت ہے کتنی، ترا مرتبہ کہاں ہے

(ضمیر یوسف)
 

سیما علی

لائبریرین
کون و مکاں و لا مکاں کا جو نظام ہے
اس کو چلانا ایک خدا ہی کا کام ہے

ہر ذرّہ ذرّہ اسکی ہے تسبیح میں مگن
یہ صبح دے اذان تو سجدے میں شام ہے

صف باندھے سر جھکائے کھڑے ہیں نماز میں
رب کے حضور جھک رہا ہر خاص و عام ہے

ہر چیز مٹ ہی جائے گی مثلِ حباب پر
اک ہے خدا کی ذات جسے بس دوام ہے

مشغول کائنات ہے اس کے طواف میں
اس کے ہی گرد گھومتی ہستی تمام ہے
سیدہ گلفشاں
 

سیما علی

لائبریرین
پردۂ وحدت میں محبوب خدا تو ہی تو تھا
لا مکاں میں یا شہ ہر دوسرا توہی تو تھا

گنج مخفی میں او نور کبریا تو ہی تو تھا
باعث ایجاد عالم مصطفیٰ تو ہی تو تھا

رہنمائی گمرہوں کی کرتے ان کی کیا مجال
خضر میرے خضر کا بھی رہنما تو ہی تو تھا

غش تھے موسیٰ دیکھ کر جس کی تجلی کی جھلک
ہم نے جانا طور پر جلوہ نما تو ہی تو تھا
غوثی شاہ
 

سیما علی

لائبریرین
رب کی جب حمدمیں سناتا ہوں انتہائی سکون پاتا ہوں
یہی جعفر مرا وتیرہ ہے رب کا کھاتا ہوں رب کا گاتا ہوں

اندھیرے ذہن میں تو ہی شعور دیتا ہے
سیہ رات میں جگنو کو نور دیتا ہے
صدا جو تجھ کو کوئی غم سے چُور دیتا ہے
رہائی غم سے اسے تو ضرور دیتا ہے

جعفر طیار
 

سیما علی

لائبریرین
آسمانوں پہ ستاروں کوسجاتا تو ہے
اور مہتاب کا فانوس جلاتا تو ہے
یہ تری شانِ کریمی ہے کہ ہر بندے پر
عقل و حکمت کے خزینوں کو لٹاتا تو ہے

محسن احسان
 

سیما علی

لائبریرین
کسی کی مشکلوں میں تو، کسی کے کام جانا
تیری ناممکنوں کو وہ کبھی ممکن بنا دے گا
اتباف ابرک
 

سیما علی

لائبریرین

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے
لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے

ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز
اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے

وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں
ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے

ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں
اس سے آگے تو مری کوئی حقیقت نہیں ہے

ایک تبریک کی تحریص میں لایا ہوں کتاب
خوب معلوم ہے شایانِ رسالت نہیں ہے

چند سطروں میں لپیٹے ہوئے حاضر ہے نیاز
ایک بھی حرف بغیر اذن و اجازت نہیں ہے

تو جو چاہے تو سخن میرا معطر کر دے
حرف رنگوں میں ڈھلیں اس میں بھی حیرت نہیں ہے

مقصود علی شاہ
 

سیما علی

لائبریرین
پیڑ جو خشک و ثمر بار نظر آتے ہیں
تیری قدرت کے ہی آثار نظر آتے ہیں

جو تری یاد میں ہر آن بسر کرتے ہیں
قلب ان سب کے چمک دار نظر آتے ہیں

چاہتے کب ہیں کسی طور مداوا اپنا
جو ترے عشق میں بیمار نظر آتے ہیں

آنکھ نے پہلی عدالت تری دیکھی ہے جہاں
مطمئن سارے خطاوار نظر آتے ہیں

تجھ پہ ایمان مرا اور بھی بڑھ جاتا ہے
جب مجھے احمدِ مختار نظر آتے ہیں

ایسی بینائی مجھے دی ہے خدا نے جس سے
ریت کے ذرّے گہر بار نظر آتے ہیں

رب کی رحمت سے فدا بڑھ کے نہیں ہیں ہرگز
یہ گناہوں کے جو انبار نظر آتے ہیں

صدام فدا
 
Top