پیڑ جو خشک و ثمر بار نظر آتے ہیں
تیری قدرت کے ہی آثار نظر آتے ہیں
جو تری یاد میں ہر آن بسر کرتے ہیں
قلب ان سب کے چمک دار نظر آتے ہیں
چاہتے کب ہیں کسی طور مداوا اپنا
جو ترے عشق میں بیمار نظر آتے ہیں
آنکھ نے پہلی عدالت تری دیکھی ہے جہاں
مطمئن سارے خطاوار نظر آتے ہیں
تجھ پہ ایمان مرا اور بھی بڑھ جاتا ہے
جب مجھے احمدِ مختار نظر آتے ہیں
ایسی بینائی مجھے دی ہے خدا نے جس سے
ریت کے ذرّے گہر بار نظر آتے ہیں
رب کی رحمت سے فدا بڑھ کے نہیں ہیں ہرگز
یہ گناہوں کے جو انبار نظر آتے ہیں
صدام فدا